الہدیٰ
قارون: مادہ پرستی اور دنیاوی نمود و نمائش کا استعارہ
آیت 79{فَخَرَجَ عَلٰی قَوْمِہٖ فِیْ زِیْنَتِہٖط} ’’پھر (ایک دن) وہ نکلا اپنی قوم کے سامنے اپنے پورے ٹھاٹھ باٹھ میں۔‘‘
اپنی قوم پر رعب جمانے کے لیے وہ اپنے خدم و حشم کے ساتھ اپنی دولت اور آرائش و زیبائش کا اظہار کرتے ہوئے نکلا۔ چنانچہ اس کی شان و شوکت کودیکھ کر:
{قَالَ الَّذِیْنَ یُرِیْدُوْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا یٰلَیْتَ لَنَا مِثْلَ مَآ اُوْتِیَ قَارُوْنُلا} ’’کہا اُن لوگوں نے جو خواہش مند تھے دنیا ہی کی زندگی کے ‘کہ کاش یہ سب کچھ ہمارے لیے بھی ہوتا جو قارون کو ملا ہے‘‘
وہ لوگ جو دُنیوی زندگی ہی کے طالب تھے ‘اسے للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ کر اندر ہی اندر اپنی محرومیوں پر پچھتاتے اور اس کی خوش نصیبی کی داد دیتے رہے کہ:
{اِنَّہٗ لَذُوْ حَظٍّ عَظِیْمٍ (79)} ’’یقیناً وہ بہت بڑے نصیب والا ہے۔‘‘
دنیا پرست اور ظاہر بین لوگوں کی نظر میں تو کسی شخص کی کامیابی اور خوش بختی کا معیار یہی ہے کہ اس کے پاس کس قدردولت ہے۔ یہ دولت اس نے کہاں سے اور کیسے حاصل کی ہے اس سے انہیں کوئی سروکار نہیں ہوتا۔
درس حدیث
شرم و حیا
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ ؓ اَنَّ رَسُوْلَ اللہِﷺ قَالَ: ((اَلْاِیْمَانُ بِضْعٌ وَّسَبْعُوْنَ اَوْ بِضْعٌ وَّسِتُّوْنَ شُعْبَۃً ‘ فَاَفْضَلُھَا قَوْلُ لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَدْنَاھَا اِمَاطَۃُ الْاَذٰی عَنِ الطَّرِ یْقِ وَالْحَیَآئُ شُعْبَۃٌ مِّنَ الْاِیْمَانِ )) (متفق علیہ)
حضرت ابو ہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسولﷺ نے فرمایا کہ : ’’ایمان کی کچھ اوپر ستر یا (راوی کو شک ہے) کچھ اوپر ساٹھ شاخیں ہیں ان میں بلند ترین درجہ اور افضل شاخ (کلمہ کی شاخ ہے یعنی ) لا الٰہ الا اللہ کی ہے۔ اور سب سے کم درجہ تکلیف دینے والی چیز (روڑے پتھر‘ کانٹے چھلکے وغیرہ) راستہ سے ہٹا دینا ہے۔ اور حیاء ایمان کا (قابل لحاظ بڑا اہم) شعبہ ہے ۔‘‘
تشریح: اسلام میں حیا کی بڑی اہمیت ہے۔ یہ فرد کی پاکیزگی کی بنیاد اور صالح معاشرہ کی اساسی صفت ہے۔ اِس بنا پر اُسے نصف ایمان بھی قرار دیا گیا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اگر افراد معاشرہ اِس صفت سے متصف ہوں تو معاشرہ میں انسانی رشتوں کے احترام کو ملحوظ رکھا جاتا ہے‘ حقوق کی رعایت کی جاتی ہے‘ اور برائیوں سے اجتناب ہوتا ہے۔ یوں سماج میں صالحیت‘ اعتدال اور حسن قائم رہتا ہے۔ اگر سوسائٹی میں شرم و حیا نہ رہے تو بے اعتدالیاں جنم لیتی ہیں‘ ادائیگی حقوق میں کوتاہی کی جاتی ہے اورگناہوں کی کثرت ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی اکرمﷺ کی ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ جب تم میں حیاء نہ رہے تو پھر تو آزاد ہے‘ جو چاہے کرتا پھرے۔