اداریہ
خورشید انجم
وطن کی فکر کرنا داں!
پی ٹی آئی کی آخری کال نے نہ صرف حکومتِ وقت اور مقتدرہ بلکہ ملک کے عوام کو بھی بری طرح سے ہلا کر رکھ دیا ہے۔ تین دن تک پورا ملک ایک ہیجانی کیفیت میں مبتلا رہا۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی سیاسی جماعت کی جانب سے ہڑتال یا احتجاج کی پہلی، درمیانی یا آخری کال پاکستان کی سیاست میں کوئی نئی بات ہر گز نہیں ہے اور نہ ہی اقتدار کے ایوان میں بیٹھے ہوئے افراد کے لیے یہ کوئی انوکھی یا غیر رسمی بات تھی۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ موجودہ اپوزیشن جب حکومت میں تھی تو آج کی حکومت کے تمام اتحادیوں نے کئی مرتبہ اسلام آباد میں احتجاج کیا۔ پنجاب اور سندھ سے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے قائدین اپنے ووٹروں اور سپورٹروں کے ہمراہ کبھی مہنگائی کے خلاف اور کبھی ’’ سیلکٹیڈ وزیراعظم‘‘ کے خلاف ملک بھر کا سفر طے کرتے ہوئے اسلام آباد آموجود ہوئےاور اگرچہ اُس وقت کی حکومت نے بھی ان احتجاجوں اور ان میں شامل افراد کو ٹف ٹائم دینے کے لیے بعض اقدامات کیے لیکن وفاقی دارالحکومت میں احتجاج پر پابندی نہیں لگائی۔ ایک مذہبی سیاسی جماعت تو اپنے صوبے سے خاکی وردیوں میں ملبوس ڈنڈا بردار فورس لے کر بھی اسلام آباد پہنچی اور اپنا احتجاج تقریباً ایک ماہ تک ریکارڈ کرواتے رہے لیکن ریاست نے صبر و تحمل سے کام لیا اور ملک فساد سے بچا رہا۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ماضی کے تمام سیاسی احتجاجوں میں عوام الناس کو انتہائی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ شاید ہماری سیاسی سرشت کا حصہ بن چکا ہے کہ بلاتخصیص تمام سیاسی جماعتیں لوہے کو گرم دیکھ کر زور دار انداز میں چوٹ لگانے کی کوشش کرتی ہیں اور مروّجہ سیاسی نظام میں اصول بھی یہی ہے کہ حکومت کو گرانے اور اقتدار پر قبضہ کرنے کے لیے کسی حد تک بھی جایا جا سکتا ہے، انگریزی کے اُس مقولے کی مانند کہ ’’Everything is fair in love and war‘‘۔ ہمیں انگریزی کے اس مقولے پر بھی اعتراض ہے کہ ہمارا دین تو ہر حال میں اخلاقی اصولوں کے مطابق عمل کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ شاید انگریزی کا مذکورہ بالا مقولہ فساد اور فحاشی دونوں کو ترقی دینے کے لیے تشکیل دیا گیا تھا۔ بہرحال تحریک انصاف کے حالیہ احتجاج جسے ’’فائنل کال‘‘ کا نام دیا گیا اُس پر اسلام آباد کی ریاستی مشینری کا ردِعمل ہرگز مناسب نہیں تھا۔ اگرچہ نقصان دونوں طرف سے ہوا اور اعدادوشمار کے حوالے سے کوئی حتمی بات نہیں کہی جا سکتی لیکن ریاست کا کام صبر و ضبط کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے۔ پھر یہ کہ حکومت اور اداروں کو زیب نہیں دیتا کہ وہ ایک ایسے سیاسی احتجاج کو جو ملک کی ایک بڑی سیاسی پارٹی کر رہی ہو اور اُس پر پابندی بھی نہ ہو، جس سیاسی جماعت نے فروری 2024ء کے الیکشن میں ملک بھر سے تقریباً دو کروڑ ووٹ لیے ہوں، اور جس کا لیڈر جیل میں ہی سہی لیکن ملک سے غداری کے کسی سنجیدہ مقدمے میں مطلوب نہ ہو، اُس کے کارکنوں اور ووٹرز و سپورٹرز کے لیے ’’انتشاری ٹولہ‘‘ ، ’’فتنہ‘‘ اور ’’انتہا پسند جتھہ‘‘ جیسے القاب دے۔ جملہ معترضہ کے طور پر عرض کیے دیتے ہیں کہ کسی بھی ریاست کے زمامِ کار چلانے والوں کو ’’خارجیوں‘‘ جیسی دینی اصطلاح کو بھی استعمال کرتے ہوئے انتہائی احتیاط سے کام لینا چاہیے کیونکہ اسلامی تاریخ اور فقہ میں فتنۂ خوارج کے حوالے سے طے شدہ، انتہائی سخت احکامات موجود ہیں۔ بہرحال حالیہ احتجاج کرنے والے تو اپنے ملک کے ہی شہری تھے اور اگرچہ ایک مخصوص صوبے سے زیادہ تعداد میں لوگ اسلام آباد آئے جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہاں پر حکومت پی ٹی آئی کی ہے لیکن انہیں دہشت گردوں سے جوڑ دینا اور ان کے ساتھ دہشت گردوں جیسا سلوک کرنا کسی صورت مناسب نہیں تھا۔ ہمارے نزدیک حالیہ احتجاج میں اپوزیشن جماعت کے کارکن احتجاج ریکارڈ کرانے کے لیے دارالحکومت پہنچ کر کسی خاص علاقے کو بند بھی کردیتے تو اُس کے برے اثرات یقیناً اس سے کم ہی ہوتے جو حکومت نے تعلیمی ادارے، ہاسٹلز، مارکیٹس، موٹر ویز ،لاری اڈے ، ٹرینز، میٹروز اور انٹرنیٹ بند کرکے پورے ملک کو ہیجانی کیفیت میں مبتلا کر دیا ۔
دوسری طرف پی ٹی آئی کے بانی عمران خان، جو کہ آج بھی پارٹی کے ڈی فیکٹو چیئرمین ہی ہیں، نے تاک کر احتجا ج کے لیے ایسا وقت چنا جب بیلاروس کے صدر دورۂ پاکستان پر تھے۔ احتجاج کی باگ ڈور اپنی اہلیہ اور سابقہ خاتونِ اوّل کے حوالے کر کے مروجہ سیاسی نظام کے داؤ پیچ کے مطابق تو ایک ماسٹر سٹروک کھیلا اور موصوفہ نے اپنے پہلے ہی بیان میں برادر اسلامی ملک پر اپنے شوہر کی حکومت گرانے کا الزام دھر دیا۔ پھر یہ کہ احتجاج کے پُرامن ہونے کا جتنا بھی دعویٰ کریں اس میں کوئی شک نہیں کہ ماضیٔ قریب میں ہی 9 مئی کا سانحہ بھی قوم نے دیکھا اور اب بھی صورتِ حال کا فائدہ اُٹھا کر حالات مخدوش کرنے والے عناصر احتجاج کرنے والوں میں شامل تھے۔ احتجاج کرنے والوں کے مطالبات بھی ایسے تھے جن کو فوری طور پر پورا کرنا کم از کم حکومتِ وقت کے بس کی بات نہیں۔ پھر یہ کہ ہر مہذب ریاست میں عدالتی معاملات کو عدالت ہی دیکھا کرتی ہے۔ بہرحال معاشی نقصان کا تخمینہ دیتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ نے بتایا کہ اپوزیشن کے احتجاج کی کال سے روزانہ 190 ارب روپے کا نقصان ہوا۔ لاک ڈاؤن اور احتجاج کی وجہ سے ٹیکس وصولیوں میں کمی ہوئی۔ احتجاج کے باعث کاروبار میں رکاوٹ سے برآمدات متاثر ہوئیں۔ پھر یہ کہ امن وامان برقرار رکھنے کیلئے سیکیورٹی پر اضافی اخراجات آئے۔ آئی ٹی اور ٹیلی کام کے شعبے میں نقصانات اس کے علاوہ ہوئے اور اِن کی بندش سے سماجی طور پر بھی منفی اثر پڑا۔احتجاج کے باعث صوبوں کو ہونے والے نقصانات الگ ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صوبوں کے زرعی شعبے کو روزانہ 26 ارب روپے کا نقصان ہوا۔ صوبوں کو صنعتی شعبے میں ہونے والا نقصان 20 ارب روپے سے زیادہ ہے۔ ان اعداد و شمار میں حقیقت کتنی ہے؟ یہ تو اللہ ہی جانتا ہے۔
ریاست کا کام ملک کے ناراض عوام کو ساتھ لے کر چلنا ہوتا ہے۔ نہ جانے کیوں جب بھی دسمبر کا مہینہ آتا ہے تو ہمارا کلیجہ منہ کو آ جاتا ہے اور 16دسمبر 1971ء کا سانحۂ فاجعہ اپنی پوری ہولناکی کے ساتھ دل و دماغ میں طرح طرح کے وسوسے ڈالتا ہے۔ اسلام آباد سے پی ٹی آئی کا احتجاج تو ختم ہوگیا ہے البتہ ہماری رائے میں معاملہ ابھی ٹلا نہیں۔ ہمارے نزدیک تمام معاملات کا حل فریقین کے مابین خلوصِ نیت کے ساتھ مذاکرات کرنے میں ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ آپس میں دہائیوں جنگ کرنے والے ممالک بھی بالآخر مذاکرات کے ذریعے ہی معاملات کو حل کرتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان اس وقت انتہائی نازک حالات سے گزر رہا ہے۔ ایک طرف مہنگائی نے عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے تو دوسری طرف دہشت گردی کا عفریت منہ کھولے کھڑا ہے۔ خصوصاً خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے حالات انتہائی مخدوش ہیں اور دہشت گرد اپنے اندرونی سہولت کاروں اور بیرونی پشت پناہوں کی مدد سے خون کی ہولی کھیل رہے ہیں۔ پھر یہ کہ اس کو فرقہ واریت اور صوبائی تعصب کا رنگ دینے کی بھی بھرپور کوشش جاری ہے۔ شیعہ سنی فسادات عالمی استعمار کا بہت بڑا ہتھیار ہیں۔ امریکہ اب اس خطے کے در پے ہے۔ بین الاقوامی سطح پر اسرائیل اپنے توسیعی منصوبے پر بڑی تیزی کے ساتھ بھرپور طریقے سے عمل درآمد کر رہا ہے جس میں امریکہ اور ہمارا ازلی دشمن بھارت اُس کے مکمل معاون ہیں۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اسرائیل کے نزدیک پاکستان گریٹر اسرائیل کے قیام کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ بقول علامہ اقبال:
وطن کی فکر کر ناداں! مصیبت آنے والی ہے
تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میںضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کے تمام اسٹیک ہولڈرز یاد رکھیں کہ ہم نے یہ مملکت کیوں لی تھی؟ دنیا کے سامنے اسلام کا نمونہ پیش کرنے کے لیے۔ہماری یہ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حکمرانوں، اپوزیشن، مقتدر حلقوں اور عوام الناس سمیت ہم سب کو ہدایت عطا فرمائے اور سب کے دلوں کو نورِایمان سے منور فرمائے۔ ہمارے آپس کے جھگڑے ختم ہوں۔ہم سب مل کر مملکت ِخداداد پاکستان کو حقیقی معنوں میں ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے لیے تن من دھن لگا دیں۔ اِسی میں ہماری بچت ہے۔ اِسی میں دنیا اور آخرت دونوں کی کامیابی ہے۔ اللہ پاکستان پر رحم فرمائے۔ آمین!
tanzeemdigitallibrary.com © 2025