(زمانہ گواہ ہے) اسرائیل لبنان معاہدہ اور شام کی موجودہ صورتحال - محمد رفیق چودھری

11 /

نیٹو طرز کا کوئی اتحاد ہو جو مسلم اُمہ کے مفادات کا تحفظ کر سکے ورنہ دشمن

طاقتیں ایک ایک کرکے مسلم ممالک کو زیر کرتی چلی جائیں گی: خورشید انجم

شام کی فرقہ وارانہ تقسیم مسلمانوں کے حق میں ہرگز نہیں ہے بلکہ اس سے

اسرائیل اور امریکہ کو فائدہ پہنچے گا :آصف لقمان قاضی

اسرائیل غزہ کے بعد لبنان ، شام ، ایران اور یمن تک حملے کررہا ہے،ان

حالات میں سعودی عرب میں فیشن شو کا انعقاد لمحہ فکریہ ہے : رضاء الحق

عالم اسلام کے الجھے معاملات کا اصل سبب ایک ہی ہے کہ ہم نے وہ مشن

چھوڑ دیا جو اللہ کے آخری نبی ﷺ ہمیں سونپ کر گئے تھے: ڈاکٹر ضمیر اختر خان

اسرائیل لبنان معاہدہ اور شام کی موجودہ صورتحال کے موضوعات پر

پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں معروف تجزیہ نگاروں اور دانشوروں کا اظہار خیال

میز بان :وسیم احمد

مرتب : محمد رفیق چودھری

سوال:حال ہی میں امریکہ کی ثالثی میں لبنان اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ ہوا ہے لیکن زمانہ گواہ ہے کہ اسرائیل نے کبھی بھی ایسے معاہدوں کی پاسداری نہیں کی ۔ آپ اس معاہدہ کا مستقبل کیا دیکھتے ہیں؟
خورشید انجم: پہلی بات یہ ہے کہ وہ اسرائیل نہیں بلکہ مقبوضہ فلسطین ہے جس پر صہیونیوں نے غاصبانہ قبضہ کیا ہوا ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ بنی اسرائیل کی پوری تاریخ  گواہ ہے کہ انہوں نے کبھی عہد کی پاسداری نہیں کی ۔ قرآن مجید میں سورۃ النساء میں ذکر ہے:
’’تو (ہم نے ان پر لعنت کی) ان کے عہد کوتوڑنے اور اللہ کی آیات کے ساتھ کفر کرنے اور انبیاء کو ناحق شہید کرنے اور ان کے یہ کہنے کی وجہ سے (کہ) ہمارے دلوں پر غلاف ہیں بلکہ اللہ نے ان کے کفر کے سبب ان کے دلوں پر مہر لگادی ہے تو (ان میں سے) بہت تھوڑے ایمان لاتے ہیں ۔‘‘(النساء:155)
اسی طرح سورۃ المائدہ میں بھی ذکرہے:’’تو ان کے عہد توڑنے کی وجہ سے ہم نے ان پر لعنت کی اور ان کے دل سخت کردئیے ۔ وہ اللہ کی باتوں کو ان کے مقامات سے بدل دیتے ہیں اور انہوں نے ان نصیحتوں کا بڑا حصہ بھلا دیا جو انہیں کی گئی تھیں اور تم ان میں سے چند ایک کےسوا سب کی کسی نہ کسی خیانت پر مطلع ہوتے رہو گے۔‘‘(المائدہ:13)
وہ تمام جرائم جن کی وجہ سے اللہ نے ان پر لعنت کی ہے ، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ یہ عہد کو توڑنے والے ہیں ۔ نبی کریم ﷺکے دور میں ان کے تین قبائل مدینہ میں تھے ۔ ان تینوں نے عہد شکنی کی جس کی وجہ سے انہیں مدینہ سے نکالا گیا ۔ عہد شکنی ان کی فطرت میں شامل ہے اوریہ ان کی مستقل روش ہے ۔ 27 نومبر کو حالیہ معاہدہ ہوا ہے اور 29 نومبر سے انہوں نے اس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جنوبی بیروت پر بمباری شروع کر دی ، اس کے جواب میں حزب اللہ نے بھی راکٹ فائر کیے ہیں ۔ اصل میں اسرائیل چاہتاہے کہ لبنان خود حزب اللہ کو کنٹرول کرے اور اسے غیر مسلح کرے تاکہ اسرائیل اپنی ساری توجہ غزہ پر مرکوز کر سکے ۔ ظاہر ہے اس کے بعدپھر لبنان کی باری دوبارہ آئے گی کیونکہ صہیونی لبنان ، اردن اور مصر کے ڈیلٹا کو گریٹر اسرائیل میں شمار کرتے ہیں۔ معاہدے کے بعد اسرائیل ایک ہفتے کے اندر54 مرتبہ خلاف ورزیاں کر چکا ہے ۔لہٰذا اسرائیل سے یہ امید رکھنا کہ وہ کسی معاہدے کی پاسداری کرے گا احمقانہ طرزعمل ہوگا ۔
سوال: شام میںہیئت تحریر الشام (STH)کے نام سے ایک عسکری گروہ نے حلب پر قبضہ کرلیا ہے ۔ کہا جارہا ہے اس گروہ کو امریکہ اور ترکی کی آشیر باد حاصل ہے، القاعدہ کے ساتھ بھی اس کے لنکس ہیں اور کافی عرصہ سے وہاں متحرک ہے اور حلب پر قبضہ کے بعد اس کی پیش قدمی جاری ہے ۔ شام کے صدر بشارالاسد کے لیے یہ کتنا بڑا چیلنج ہے ؟
رضاء الحق:2011ء میں جب عرب سپرنگ اپنے عروج پر تھی اور مختلف ممالک میں تختے الٹے جارہے تھےتو اس وقت بھی مغربی طاقتوں نے اس صورتحال سے فائدہ اُٹھا یا۔ پہلے تیونس میں سب کچھ بدلا گیا ، پھر مصرمیں عرب سپرنگ کے نتیجے میں بننے والی اخوان المسلمون کی عوامی حکومت کا تختہ اُلٹ کر جنرل سیسی کو مصر کا حکمران بنایا گیا ۔ اسی طرح لیبیا میں کرنل قذافی کی حکومت گرائی گئی ۔ شام میں بھی خانہ جنگی شروع کرائی گئی لیکن پھر معاملہ رُک گیا کیونکہ روس نے سلامتی کونسل کی اس قرارداد کو ویٹو کر دیا جو شام پر حملے کے لیے پیش کی گئی تھی ۔ روس کی مجبوری یہ ہے کہ اس کا گرم پانیوں تک رسائی کا واحد ذریعہ طرطوس کی بندرگاہ ہےجس کے حوالے سے شامی حکومت کے ساتھ اس کا معاہدہ ہے۔ ایران بھی شامی حکومت کی مدد کرتا ہے ۔ اب STH نامی گروہ جس نے حلب پر قبضہ کیا اور ادلب میں بھی کافی حد تک کارروائیاں کی ہیں بشارالاسد کے لیے چیلنج تو ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ بشارالاسد اس پر قابو پالے گا کیونکہ بشارالاسد کو روس اور ایران کی حمایت حاصل ہے ۔ روس نے شامی فوج کے ساتھ مل کر حلب میں اس گروہ کے ٹھکانوں پر حملے بھی کیے ہیں ۔ جبکہ دوسری طرف امریکہ اس گروہ کی مدد کر رہا ہے ۔ تاہم اسرائیل اس صورتحال سے زیادہ فائدہ اُٹھائے گا کیونکہ وہ چاہتا ہے دنیا کی نظریں غزہ سے ہٹ کر کہیں اور لگ جائیں ۔
سوال: اسرائیل اگر حزب اللہ کے ساتھ لبنان میں جنگ بندی کا معاہدہ کر سکتا ہے تو حماس کے ساتھ غزہ میں ایسا معاہدہ کرنے میں اسے کیا مسئلہ ہے؟
آصف لقمان قاضی: اصل میںحزب اللہ کی طرف سے اسرائیل پر جو حملے ہو رہے ہیں، وہ نیتن یاہو کے لیے پریشانی کا باعث ہیں کیونکہ نیتن یاہو کا اصل ہدف اس وقت غزہ کو مسمار کرنا اور پورے فلسطین پر قبضہ کرنا ہے، اس میں جتنی رکاوٹ اور طوالت آرہی ہے اتنا ہی نیتن یا ہو کے لیے اپنی سیاسی موت کا خطرہ بھی بڑھ رہا ہے ۔ اس لیے وہ چاہتا ہے کہ فی الحال لبنان کی طرف سے توجہ ہٹا کر ساری توجہ غزہ پر مرکوز کر سکے ۔
سوال:حلب پر STHکے قبضہ کو آپ کس نظر سے دیکھ رہے ہیں اور آپ کے خیال میں اس کے نتیجہ میں آئندہ چند ماہ میں مشرق وسطیٰ میںکیا تبدیلیاں رونما ہونے والی ہیں ؟
آصف لقمان قاضی:شام کی صورتحال پیچیدہ ہوتی جارہی ہے ۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ وہاں متعدد گروہ متحرک ہیں ۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ وہاں پر اس وقت امریکہ، روس، ایران اورترکی کے فوجی بھی موجود ہیں ۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ شام کی سرحدیں لبنان اور فلسطین کے ساتھ بھی لگتی ہیں ۔ فلسطین میں اس وقت جو مزاحمت کی تحریک چل رہی ہے اس کے اثرات بھی شام کے متحارب گروہوںپر پڑرہے ہیں ۔شام کی 75 فیصد آبادی سنّی ہے لیکن علویوں کے ایک قلیل گروہ نے شام پر عرصہ دراز سے قبضہ کیا ہوا ہےاور2011ء اور 2016ء میں بھی سنّیوں پر مظالم کی انتہا کی گئی تھی ، ان کے شہروں اور دیہاتوں کو برباد کر دیاگیا ، ان کی املاک پر قبضے کر لیے گئے۔ یہ عنصر بھی شام کی صورتحال پر اثرا نداز ہوتاہے ۔ پھر یہ کہ شامی حکومت ایران کی اتحادی ہے اور ایران کی اسرائیل کے ساتھ کشیدگی ہے۔
سوال: کیا STHکے حلب پر قبضہ سے مشرق وسطیٰ  میں دہشت گردی کا ایک نیا محاذ نہیں کھل جائے گا ؟
آصف لقمان قاضی:STHبہت سے عسکری گروہوں کا مجموعہ ہے ۔ اس میں ایسے عناصر بھی شامل ہیں جن کا تعلق القاعدہ اور داعش کے ساتھ بھی ہے۔وہاں  شیعہ سنی تنازعات بھی ہیں۔یہ فرقہ وارانہ تقسیم مسلمانوں  کے حق میں ہرگز نہیں ہے بلکہ اس سے اسرائیل اور امریکہ کو فائدہ پہنچے گا ۔ عسکریت کی بجائے مذاکرات کے ذریعے سیاسی حل نکال لیا جاتا تو وہ زیادہ بہتر تھا ۔ شام کے تمام گروہ مل کر کسی ایک دستور پر اتفاق کرلیں۔ ایسا نہیں ہوگا تو تقسیم در تقسیم سے خونریزی اور فساد پھیلے گا ۔ جبکہ اس وقت مسلم عوام کی خواہش ہے کہ تقسیم در تقسیم سے بچا جائے ۔
سوال: فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس نے عندیا دیا ہے کہ وہ خرابی صحت کے باعث شاید اپنی صدارت جاری نہ رکھ سکیںاور انہوں نے اپنا جانشین بھی مقرر کرنے کی بات کی ہے۔کیا واقعی یہی وجہ ہو سکتی ہے یا اس کے پس پردہ حقائق کچھ اور ہیں؟
آصف لقمان قاضی:اس میں دیگر وجوہات بھی شامل ہیں اور ان میں سے ایک وجہ یہ ہے کہ اس وقت غزہ کی جنگ کا سیاسی حل تلاش کرنے کے لیے مذاکرات بھی زیر غور ہیں ۔ اس حوالے سے دو طرفہ قیدیوں کی رہائی، اسرائیلی فوج کا غزہ سے انخلاء ، غزہ کا آئندہ کا سیٹ اپ کیا ہوگا ، کس کی حکومت ہوگی ، یہ ساری باتیں زیر غور ہیں ۔ لہٰذا ایک کوشش یہ بھی ہوسکتی ہے کہ محمود عباس کی جگہ کسی ایسے شخص کا نام سامنے لایا جائے جس پر حماس اور الفتح  دونوں کا اتفاق ہو کیونکہ حماس کو اس وقت پورے فلسطین میں عوامی حمایت حاصل ہے ۔ امریکہ اور اسرائیل کی ترجیح یہ ہے کہ مذاکرات الفتح کے ساتھ ہوںکیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ الفتح کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل کر سکتے ہیں جبکہ حماس کی کوشش ہے کہ مذاکرات اُس کے ساتھ ہوں ۔ اس لیے کوئی متفقہ شخص سامنے لانے کی کوشش ہو سکتی ہے ۔
سوال:شام کے شہر حلب پرSTHکا قبضہ ہو چکا ہے ، اطلاعات کے مطابق اس گروہ کی پشت پر امریکہ بھی ہے جو کہ اسرائیل کا حلیف ہے ۔ کیا ایران اور روس اس قبضہ کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر لیں گے؟
خورشید انجم: 2011 ءمیں بھی بشارالاسد کے خلاف بغاوت ہوئی تھی ، پھر 2016ء میں بھی معاملہ اُٹھا تھا لیکن اس وقت باغیوں کو اتنی کامیابی نہیں ہوئی تھی مگر اب انہوں نے حلب میں بشارالاسد کی رہائش گاہ پر بھی قبضہ کرلیا ہے ، اس کے علاوہ دو تین شہروں کے ایئرپورٹس، جیلوںاور سرکاری عمارات پر بھی ان کا قبضہ ہے ۔ یہاں تک کہ بشارالاسد کی فوج کے کئی اسلحہ ڈپو اور ٹینک بھی باغیوں کے قبضے میں آچکے ہیں۔ تازہ اطلاعات کے مطابق بھاری جانی نقصان اُٹھانے کے باوجود بھی STH کی پیش قدمی جاری ہے ۔ یہ اطلاعات بھی ہیں کہ انہوں  نے روس کا ایک بمبار طیارہ بھی مار گرایا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اس گروہ کے پاس عسکری صلاحیت ہے ۔ ایرانی وزیر خارجہ عباس کرامچی نے یہ الزام لگایا ہے کہ اس کے پیچھے اسرائیل اور امریکہ کا ہاتھ ہے ۔ لیکن اگر حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو افغانستان میں بھی امریکہ ملوث تھا لیکن پھر وہی مجاہدین امریکہ کے خلاف بھی لڑے اور انہوں نے وہاں اپنی حکومت بھی بنائی ہے۔ا سی طرح  شام میں بھی جوجنگ رہی ہے اس کے نتیجہ میں ایسے گروہ پیدا ہو چکے ہیں جو اپنے ملک کی باگ ڈور خود سنبھالنا چاہتے ہیں اسی لیے STHنے لوگوں کے لیے عام معافی کا اعلان بھی کیا ہے ، لوگوں کو اپنے گھروں میں رہنے کی اجازت بھی دی ہے اور عوام کی حمایت بھی اسے حاصل ہے ۔ لہٰذا بہتری کی اُمید کی جا سکتی ہے ۔ احادیث میں بھی جس طرح خراسان کا ذکر ہے اسی طرح شام کا بھی ذکر ہے کہ اس میں ایمان ہوگا۔ شام میں ہی حضرت عیسیٰ d کا نزول ہوگا اور وہ دجال کو قتل کریں گے ۔ اس لحاظ سے یہ سارا علاقہ مستقبل کے منظرنامے میں بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے ۔
رضاء الحق:جو بائیڈن نے حال ہی میں یوکرائن کو اجازت دی ہے کہ وہ لانگ رینج میزائلز روس کے خلاف استعمال کر سکتا ہے اور اس نے استعمال بھی کیے ہیں۔ دوسری طرف روسی صدر نے بھی ایک ایگزیکٹیو آرڈر پاس کیا ہے کہ اگر کوئی روس پر روایتی اسلحہ کے ساتھ بھی بڑا حملہ کرتا ہے تو روس جوابی طور پر ایٹمی حملہ کرے گا اور اگر روس کے اتحادیوں میں سے کسی پر حملہ ہوتا ہے تو روس اس کی ایٹمی ہتھیاروں سے مدد کرے گا۔ اس طرح ایک بڑی جنگ کی طرف جانے کا اندیشہ پیدا ہوچکا ہے ۔
سوال: غزہ میں اسرائیل مسلمانوں کی نسل کشی جاری رکھے ہوئے ہے ، اطلاعات کے مطابق اب تک 44 ہزار مسلمان شہید ہو چکے ہیں اور 1 لاکھ سے زائد زخمی ہیں، غزہ کھنڈر بن چکا ہے جبکہ دوسری طرف محمد بن سلمان امریکی ثالثی میں اسرائیل سے تعلقات میں مزید پیش قدمی چاہتے ہیں ۔ تعلقات اُستوار کرنے کی یہ امریکی مہم اس وقت کس مرحلہ میں ہے ؟
رضاء الحق: حماس کے طوفان الاقصیٰ آپریشن سے قبل محمد بن سلمان کا فوکس نیوز کو انٹرویو تھا کہ سعودی عرب اب روشن خیالی کی طرف جارہا ہے جس سے معاشی ترقی بھی بڑھے گی۔ انہوں نے کہا تھا کہ ہم سیاحت کو فروغ دیں گے ، کنسرٹس کروائیں گے اور ماڈریٹ اسلام کو لے کر آئیں گے ۔ سعودی عرب کے پہلے حکمران مذہب کے معاملے میں سخت تھے لیکن ہم نرمی لائیں گے ، خواتین کو ہر قسم کی آزادی دیں گے اور ہم اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے بہت قریب ہیں وغیرہ۔ لیکن 7 اکتوبر 2023ء کو حماس کے طوفان الاقصیٰ آپریشن کے بعد سعودی ولی عہد کے یہ منصوبے پس منظر میں چلے گئے ۔ موجودہ حالات میں جبکہ اسرائیل غزہ میں مسلمانوں کا خون بہا رہا ہے ، لبنان ، شام ، ایران اور یمن تک حملے کررہا ہے ، اس جنگ میں امریکہ بھی کھل کر اسرائیل کی مدد کررہا ہے ، نئے امریکی صدر نے بھی حماس کو دھمکی دی ہے ،جبکہ دوسری طرف سعودی ولی عہد کا ایسا طرزعمل نہایت افسوسناک ہے ۔ حالانکہ عالمی فوجداری عدالت نے نیتن یاہو اورسابق اسرائیلی وزیر دفاع کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے ہیں اور کہا ہے کہ ان دونوں نے غزہ میں غذائی قلت کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے ۔یہاں تک کہ اٹلی ، انگلینڈ اور فرانس نے بھی کہا ہے کہ وہ عالمی قانون کی پاسداری کریں گے اور اگر یہ دونوں مجرم ہمارے ملک میں آئیں  گے تو ہم انہیں گرفتار کریں گے ۔
سوال:حال ہی میں سعودی عرب کے شہر ریاض میں منعقدہ ایک فیشن شو کے متعلق متنازعہ ویڈیو سامنے آئی جو بعد میں جھوٹی ثابت ہوئی البتہ سعودی عرب تیزی سے جدیدیت کی طرف بڑھ رہا ہے ۔ اس حوالے سے آپ کیا کہیں گے ؟
ڈاکٹر ضمیر اختر خان:متنازعہ ویڈیو کے حوالے سے سعودی حکومت کاتردید پر مبنی موقف سامنے آگیا ہے۔اس لیے اس پر ہم کوئی بات نہیں کریں گے البتہ جو فیشن شو ہوا ہے اس میں کیٹ واک بھی ہوئی ہے، راگ و رنگ کی محافل بھی سجائی گئی ہیں اور یہ دراصل محمد بن سلمان کے ویژن 2030 ء کا ہی حصہ ہے ۔ ان کا موقف ہے کہ چونکہ تیل کی پیداوار کم ہورہی ہے اس لیے متبادل کے طور پر ہم سیاحت کو فروغ دے رہے ہیں تاکہ معیشت کا انحصار تیل پر کم سے کم ہو جائے لیکن سیاحت کے فروغ کے لیے ان کا طریقہ دراصل مغرب کی نقالی والا ہے جس سے اسلامی اقدار و تہذیب کے مسمار ہونے کا اندیشہ ہے ۔ نبی اکرم ﷺ نے حجاز کو جہالت قدیمہ سے نکال کر اسلام کی روشنی سے منور کیا تھا مگر محمد بن سلمان حجاز مقدس کو دوبارہ جاہلیت کی طرف لے جارہے ہیں ۔ یہ قابل مذمت ہے اور موجودہ حالات کے تناظر میں بھی ہرگز مناسب نہیں ہے ۔
سوال: مشرق وسطیٰ عملی طور پر بارود کے ڈھیر پر کھڑا ہے۔ اعداد وشمار یہ بتاتے ہیں کہ دوسری جنگ عظیم سے زیادہ بارود اس خطے میں اب تک گرادیا گیا ہے ۔ دوسری طرف مسلم ممالک چھوٹے چھوٹے مسائل میں الجھے ہوئے ہیں۔ان حالات میں تنظیم اسلامی کا پاکستانی حکمرانوں اور اُمت مسلمہ کے لیے کیا پیغام ہے ؟
خورشید انجم: خلافت عثمانیہ کے خاتمہ کے بعد مسلم اُمت کو چھوٹے چھوٹے ٹکروں میں تقسیم کرکے قومی ریاستوں کا تصور دینے کا مقصد ہی یہی تھا کہ یہ اپنے مسائل میں اُلجھے رہیں ۔ چنانچہ ہر ملک اپنے مفاد کو ترجیح دے رہا ہے۔ جیساکہ نعرہ تھا:’’ سب سے پہلے پاکستان۔‘‘ جب یہ سوچ ہوگی تو پھر اُمت کا تصور تو ختم ہوگیا۔ دوسری بات یہ ہے کہ زیادہ تر مسلم ممالک کے حکمران عوام کی رائے سے حکومت میں نہیں آئے بلکہ جابرانہ طور پر مسند اقتدار پر قابض ہیں ۔ جیسا کہ عرب بادشاہتیں ہیں۔ ان کی اولین ترجیح یہ ہوتی ہے کہ کسی طرح ان کا اقتدار بچارہے ۔ اس کی خاطر وہ امریکہ اور دیگر عالمی قوتوں کے ہر حکم کو مانتے ہیں ۔ اس وجہ سے وہ متحد ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ تاہم اس مسئلے کا حل یہی ہے کہ نیٹو طرز پر کوئی اتحاد ہو جو مسلم امہ کے مفادات کا تحفظ کر سکے ورنہ دشمن طاقتیں ایک ایک کرکے مسلم ممالک کو زیر کرتی چلی جائیں گی۔ ابھی اسرائیل غزہ پر قبضے کی کوشش کررہا ہے ، پھر وہ لبنان کی طرف بڑھے گا ، اس کے بعد شام ،اردن ، مصر اور سعودی عرب کے علاقوں پر بھی قبضہ کرے گا ۔ احادیث میں جیسے ذکر ہے کہ اسلامی لشکر امام مہدیؒ کی مدد کے لیے جائیں گے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ یہاں اسلامی حکومت قائم ہو ۔ یہی اُمت مسلمہ اور فلسطینیوں کی اصل مدد ہوگی۔ خلافت جیسی بھی ہوگی وہ مسلمانوں کے مفاد میں ہوگی ۔ شیخ الہندؒ جب انگریزوں کی قید میں تھے تو انہوںنے انگریز وارڈن سے پوچھا تھا کہ تم ہماری خلافت کےدرپے کیوں ہو حالانکہ وہ ویسے بھی کمزور ہو چکی ہے ۔ انگریز وارڈن نے کہا تھا کہ خلافت جیسی بھی ہے ، اگر خلیفہ نے جہاد کا حکم دے دیا تو پوری دنیا کے مسلمان جہاد کے لیے اکٹھے ہو جائیں گے ۔ انگریز تو اس حقیقت کو سمجھتے تھے لیکن ہم نہیں سمجھ پائے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھ اور ادراک عطا فرمائے ۔
ڈاکٹر ضمیر اختر خان:مشرق وسطیٰ کی صورتحال اور عالم اسلام کے معاملات جس طرح الجھے ہوئے ہیںاس کا اصل سبب ایک ہی ہے کہ ہم نے وہ مشن چھوڑ دیا جو اللہ کے آخری نبی ﷺ ہمیں سونپ کر گئے تھے ۔ وہ مشن یہ تھا کہ ہم نےدین کو دنیا میں غالب اور قائم کرکے عدل و انصاف کا ایک نمونہ پیش کرنا ہے ، دنیا کے معاملات کو ، نظام کو اپنے کنٹرول میں لینا ہے ۔ یہ اس اُمت کی ذمہ داری ہے لیکن بدقسمتی سے اُمت اس فریضہ سے منحرف ہو گئی ۔ جیسا کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا لیکن 77 سال میں باقی سارے کام ہوئے ہیں لیکن اسلام کی طرف کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ۔ کہنے کو قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں ہوگی لیکن یہاں سب کچھ ہورہا ہے ۔ ہمارے حکمران اصل میں آزاد نہیں ہیں ، وہ امریکہ کے غلام ہیں ۔ ان کو سمجھ آجانی چاہیے کہ حل صرف ایک ہے کہ اپنے رب کی طرف رجوع کریں، نبی اکرم ﷺ کے ساتھ وفاداری کا عہد نبھائیں، اپنے اپنے ملکوں میں اللہ کے دین کو غالب کریں اور ایک اُمت بن جائیں ۔ بدقسمتی سے ہمارے حکمران قومی ریاستوں کا تصور لے کر بیٹھے ہوئے ہیں اس وجہ سے ہم اپنے ملکوں میں مقید ہو چکے ہیں ۔ اپنی جغرافیائی حدود سے نکل نہیں پار ہے ۔اسلام نے تو بالآخر غالب ہونا ہے۔ یہ نبی اکرم ﷺ کی طرف سے دی گئی خبریں ہیں ۔ اصل امتحان ہمارا ہے کہ کون اللہ کے دین کے ساتھ کھڑا ہوگا ۔ تنظیم اسلامی اور اہل پاکستان کو اللہ نے موقع دیا ہے کہ وہ آگے بڑھ کر یہاں اسلام کو غالب کریں۔ اگر ہم اس میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یقیناً یہ پورے عالم کے مسلمانوں کے لیے ایک مشعل راہ ہوگا ۔ اگر ہم اہل پاکستان اس راہ پر چلیں گے تو ان شاء اللہ ہمیں بھی اللہ کی مدد حاصل ہو گی اور ہم بھی امن اور استحکام پائیں گے ۔ ہمارا پوری دنیا کے مسلمانوں کے لیے یہی پیغام ہے کہ وہ اللہ کے دین کو قائم کرنے کی جدوجہد کے لیے کھڑے ہو جائیں ۔ اس کے نتیجہ میں اللہ کی مدد آئے ۔گی ۔ان شاء اللہ !