(نقدو نظر) حکومت بوکھلاہٹ کا شکار کیوں؟ - ایوب بیگ مرزا

11 /

حکومت بوکھلاہٹ کا شکار کیوں؟

ایوب بیگ مرزا

میری رہائش ڈی چوک اسلام آباد کے قریب ہے۔ 26 نومبر 2024ء کی رات میں گھر پر موجود تھا بہت زیادہ شور اور چیخنے چلانے کی آوازیں آنے لگیں میں گھر سے باہر نکلا ہر طرف تاریکی چھائی ہوئی تھی اور فائرنگ کی آواز آ رہی تھی میں حیران و پریشان کھڑا تھا، اتنے میں ایک نوجوان جس کی ٹانگ پر گولی لگی تھی اور خون بہہ رہا تھا۔ وہ ہسپتال لے جانے کی دہائی دیتا ہوا میرے پاس سے گزرا۔ میں اُس کی مدد کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔ قیامتِ صغراں کا سماں تھا ہر طرف چیخ و پکار تھی۔ فائرنگ کی آواز مسلسل آ رہی تھی۔ میں زیادہ دیر کھڑا نہ رہ سکا، گھر چلا گیا۔ رات بھر میں سو نہ سکا صبح اُٹھ کر پہلا کام یہ کیا کہ استعفیٰ لکھ دیا (سلمان راشدی ڈپٹی سیکرٹری وزارتِ اطلاعات وفاقی حکومت پاکستان) یہ اُس انٹرویو کا خلاصہ اور مفہوم ہے جو موصوف نے مطیع اللہ جان صحافی کو ایک انٹرویو میں دیا۔ اگلے روز مطیع اللہ جان گرفتار ہوگئے اُن کا اضافی جرم یہ بھی تھا کہ اُنہوں نے ایک دوسرے صحافی ثاقب بشیر کے ساتھ پمز ہسپتال جا کر یہ تحقیق کرنے کی کوشش کی تھی کہ اِس سانحہ میں فائرنگ کے نتیجہ میں کتنی اموات اور زخمی ہوئے ہیں۔ مطیع اللہ جان رہا ہو چکے ہیں اور وزارت اطلاعات کے استعفیٰ دینے والے سلمان راشدی بالکل محفوظ ہیں۔ تصویر سے یہ صاحب پینتالیس (45) سال سے زائد عمر کے نہیں لگتے۔ اپنے ضمیر کی آواز پر اُنہوں نے اپنے شاندار مستقبل کو دنیوی نقطہ نظر سے مخدوش کر دیا حالانکہ راولپنڈی کے سابق کمشنر جنہوں نے یہ انکشاف کیا تھا کہ سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان نے مل کر انتخابی نتائج کو مکمل طور پر الٹ دیا تھا۔ اُن کا آج تک کوئی سراغ نہیں لگ سکا۔یقیناً استعفیٰ دینے والے وزارتِ اطلاعات کے اعلیٰ افسر کے علم میں بھی اُن کا انجام ہوگا۔
راقم قطعی طور پر نہیں جانتا کہ اِس واقعہ میں کتنا جانی نقصان ہوا ہے یا بالکل نہیں ہوا جیسا کہ حکومت دعویٰ کر رہی ہے۔ لیکن چند سوالوں کے جواب بہت ضروری ہیں۔ پہلا یہ کہ روشنیاں گُل کرنے کی ضرورت کیوں پڑی تھی۔ پھر یہ کہ آپریشن سے پہلے قریب کی مارکیٹیں اور آس پاس کے بازار بند کروا کر کرفیو جیسی صورتِ حال کیوں پیدا کی گئی۔ حکومت جتنے افراد کی گرفتاری بتا رہی ہے، اُن کے علاوہ بے شمار لوگ کیوں لاپتہ ہیں۔ لاشیں وصول کرنے کی جو شرائط سوشل میڈیا پر چل رہی ہیں جو عین ممکن ہے کہ غلط ہوں کیونکہ سوشل میڈیا خبر کا کوئی قابلِ اعتماد ذریعہ نہیں ہے۔ لیکن اُن کا دلائل اور ثبوتوں کے ساتھ ابطال کیوں نہیں کیا جا رہا وغیرہ وغیرہ۔
دوسری طرف راقم عمران خان اور تحریک انصاف سے بھی یہ پوچھے گا کہ وقفہ وقفہ سے اسلام آباد میں طویل دھرنوں کی جو کالیں دی جا رہی ہیں اور فائنل کال میں یہ کہنا جب تک عمران خان کو رہا نہیں کروائیں گے واپس نہیں جائیں گے۔ اِس میں کیا منطق ہے۔ عام شہری ہو یا جماعت کا انتہائی Commited Worker اُس کی جسمانی برداشت کی کوئی حد ہوتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ کوئی انسان جو نہتا بھی ہو اور وسائل بھی نہ رکھتا ہو وہ کھائے پیئے اور سوئے بغیر ریاست کا کتنی دیر مقابلہ کر سکتا ہے۔ حکومت اگر انتقامی جذبہ اور انتہائی ظالمانہ طریقہ اختیار نہ بھی کرتی تو احتجاج کرنے والے کتنا وقت اور نکال سکتے تھے۔ راقم کی رائے میں ایک طرف تحریک انصاف میں دانش اور حکمت کا فقدان اور بغیر ہوم ورک کیے میدان میں کود پڑنے کا رویہ نظر آتا ہے تو دوسری طرف حکومت کا یہ احساس اُسے پاگل پن کی طرف لے جا رہا ہے کہ وہ جعلی اور مصنوعی حکومت ہے۔ طاقتوروں کے سہارے کے بغیر وہ ایک پل بھی نہیں کھڑی رہ سکتی اور اُس کا یہ پاگل پن اُسے عوام سے مزید دور سے دور کر رہا ہے۔ وہ اِس بات کو سمجھنے سے اب تک قاصر ہے کہ وہ وقت گیا جب اخبارات اور ٹیلی ویژن پر بڑے بڑے اشتہارات دے کر عوامی مقبولیت حاصل کر لی جاتی تھی اب معاملہ اِس کے بالکل برعکس ہو چکا ہے۔ اب جب بھوکے ننگے عوام اربوں کے اشتہارات پر آپ کی تصویریں دیکھتے ہیں تو جس طرح کا ردِعمل دیتے ہیں اُس کو تحریر میں نہیں لایا جا سکتا۔
حقیقت میں یہ چار دن کی چاندنی ہے اِس کی آزمائش اگر کرنی ہے تو پنجاب کے کسی حلقہ سے ایک فری اینڈ فیئر انتخاب کروا کر دیکھ لیں، یہ تصویروں والی وزیر اعلیٰ ویسے تو آٹھ (8) فروری والے انتخابات میں بُری طرح ہار گئی تھیں (وہ بھی فارم 47 کی پروڈکشن ہیں) لیکن اگر اب اِسی یا کسی اور حلقہ سے انتخابات کا تجربہ کر لیں، وہ کسی صورت اپنی ضمانت نہیں بچا سکیں گی۔ اُن کے والد محترم گزشتہ چند ماہ میں کئی مرتبہ یہ اعلان کر چکے ہیں کہ وہ پنجاب بھر کے سیاسی دورے کریں گے لیکن صورتِ حال سے خوفزدہ ہیں۔ ایک چھوٹا سا جلسہ کرنے کی بھی پوزیشن میں نہیں ہیں۔
اللہ کی ذات بے نیاز ہے اُس نے اِس سیاسی جماعت کو ایسی سزا سنا دی ہے کہ اِس کے چھوٹے بڑے ظاہری طور پر آزاد ہو کر بھی قید ِتنہائی میں ہیں۔ پاکستان میں کیا وہ تو دنیا میں کہیں بھی نہ بازاروں میں آزاد گھوم سکتے ہیں، نہ شاپنگ کر سکتے ہیں، نہ ہوٹلوں میں جا سکتے ہیں، اللہ نے اُنہیں گھروں میں نظر بند کر دیا ہے۔ بس ایک حصار ہے جس میں وہ خوفزدہ زندگی گزار رہے ہیں۔ دنیا بھر میں جو پاکستانی اُن کی آؤ بھگت کرتے نظر آتے ہیں اُس پر کہا جاتا ہے کہ یہ پی ٹی آئی والے ہیں ابھی تک اُن کو یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ عوامی سطح پر پاکستان میں جب پی ٹی آئی اہل ِپاکستان کی عظیم اکثریت کے دلوں میں بستی ہے تو اُس کا نتیجہ بیرونِ پاکستان بھی یہی نکلے گا۔ کس کس کو کہو گے کہ یہ تو پی ٹی آئی والے ہیں۔
ہر گزرتے ہوئے دن کے ساتھ حکومت کی عوامی مخالفت بڑھتی جا رہی ہے۔ اِنہیں ایک اور بہت بڑی غلط فہمی ہے کہ حکومتی مقبولیت میں کمی مہنگائی کی وجہ سے ہے لہٰذا مہنگائی کی کمی کی جھوٹی خبریں اخبارات میں شائع کروا رہے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مہنگائی کا رول اِن کی عدم مقبولیت میں دس پندرہ فیصد سے زیادہ نہیں ہے۔ اصل وجہ یہ ہے کہ پنجاب کے عوام اگرچہ کوئی ایسے بہادر تو خود بھی نہیں ہیں لیکن بہادری کے دلدداہ بہت ہیں اور بزدلی سے شدید نفرت کرتے ہیں۔ مسلم لیگ کے سربراہ کی مقبولیت جو کسی زمانہ میں یقیناً بہت زیادہ تھی، مقبولت سے بدترین نفرت میں بدل چکی ہے جس کی اصل وجہ اُن کا کبھی جدہ اور کبھی لندن کی طرف راہِ فرار اختیار کرنا ہے اور وہ عمران خان جنہیں اپنی حکومت کے آخری دنوں میں انتہائی عدم مقبولیت کا سامنا تھا آج مقبولیت کی معراج پر صرف اِس وجہ سے ہیں کہ اُس نے بہادری سے اور ڈٹ کر بدترین جیل میں جسمانی و ذہنی اذیت کا مقابلہ کیا۔ تمام حکومتی آفرز یہ کہہ کر مسترد کر دیں کہ میں جیل میں مرجاؤں گا، کسی سے NRO نہیں لوں گا۔
راقم کی رائے میں عمران خان کا مقدر یا قبر ہے یا باعزت رہائی۔ یاد رکھیے کہ عوام کسی کا لحاظ نہیں کرتے اگر اُنہیں محسوس ہوا کہ اُس کی رہائی کسی ایسی ڈیل سے ہوئی ہے جو باعزت نہیں ہے اور اُس کے بنیادی اصولوں سے متصادم ہے تو عوام لحاظ کسی کا نہیں کریں گے۔ اس صورت میں عمران خان کی مقبولیت کا گراف بھی نیچے آئے گا جیسے لڈو کے کھلاڑی کو سانپ ڈس کر پتال میں پہنچا دیتا ہے۔
راقم کو ریاستی سطح پر جو انتہائی مہلک اور تشویشناک نقصان نظر آ رہا ہے وہ یہ ہے کہ 26 نومبر 2024ء کے سانحہ نے KPK کے پشتونوں کو بہت زیادہ مشتعل کر دیا ہے۔ پٹھان کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ دوستی تو زندگی بھر نبھاتا ہے لیکن دشمنی کو قبر تک لے جاتا ہے۔ اللہ پاکستان کی حفاظت کرے اور پاکستان کے دشمنوں کو ناکام اور نامراد کرے، لیکن اِس کے لیے پاکستانیوں کو بہت کچھ کرنا ہوگا۔ ہم دہشت گردی کی شدید مذمت کرتے ہیں لیکن جن کا سب کچھ اُجڑ جائے اُن کے لیے اپنے جذبات ہی نہیں دماغی توازن کو برقرار رکھنا بھی بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ اچھے بھلے لوگوں پر دیوانگی طاری ہو جاتی ہے۔ جہاں تک دہشت گردی کا تعلق ہے۔
راقم کی رائے میں دہشت گردی بھی صرف اور صرف بندوق کے زور پر ختم نہیں ہو سکے گی۔ اِس ناسور کو ختم کرنے کے لیے مذاکرات اور افہام و تفہیم سے کام لینا ہوگا۔ بندوق کا استعمال آخری حربہ ہونا چاہیے۔ سوال یہ ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام کے لیے کیا کیا جائے؟ جواب تو بڑا سیدھا سا ہے کہ کوئی اپنے حق اور اپنی حد سے تجاوز نہ کرے۔ کاش!فریقین کو یہ بات سمجھ آ جائے تو مسئلہ حل ہوتے دیر نہیں لگے گی۔ بہت بڑا سوالیہ نشان یہ ہے کہ طاقتوروں کا دست ِشفقت اور سہارا ہونے کے باوجود آخر یہ حکومت کیوں لڑکھڑا رہی ہے، کیوں ملک کو سیاسی استحکام حاصل نہیں ہو رہا، معیشت سنبھلنے کا نام کیوں نہیں لے رہی IMF ہر دوسرے روز نئی سے نئی شرائط لگا رہا ہے۔ حکومتی وزرا ءکے بیانات سے بدحواسی کیوں ٹپک رہی ہے اُنہیں کس چیز کا کھٹکا لگا ہوا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگرچہ پاکستان میں آج تک کوئی انتخابات بھی صاف اور شفاف نہیں ہوئے، 2018ء کے انتخابات پر بھی بڑے سوال اٹھے تھے، لیکن راقم نہیں سمجھتا کہ فروری 2024ء سے پہلے کے انتخابات میں کبھی 8 یا 10 فی صد سے زیادہ دھاندلی ہوئی ہو اور دس بیس سے زیادہ سیٹس اِدھر سے اُدھر ہوئی ہوں لیکن انتخابات کبھی یوں برباد نہیں ہوئے تھے کہ صرف 17 سیٹس جیتنے والی جماعت کو 87 سیٹس الاٹ کر دی جائیں اور ایم کیو ایم جو کراچی سے ایک سیٹ بھی جیت نہ پائی تھی سارا کراچی اُس کے حوالے کر دیا جائے۔ 8 فروری کے انتخابات کے نتائج کو سرے سے ہی بدلنے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ عوام کا ووٹ اور جمہوری نظام سے اعتماد اُٹھ گیا۔ حقیقی خدشہ یہ ہے کہ انتہا پسندی اور دہشت گردی میں اضافہ نہ ہو جائے لہٰذا حکومت اور ریاستی اداروں کا پہلا فرض یہ ہے کہ وہ عوام کا اعتماد بحال کریں۔انتہا پسندی اور دہشت گردی کے ناسور کا خاتمہ کرنے کے لیے عوام کا اعتماد حاصل کرنا لازم ہے جو اُس وقت تک ممکن نہیں جب تک مینڈیٹ اُس کے حقیقی حق اداروں کو لوٹا نہ دیا جائے اور ووٹ کو صحیح معنوں میں عزت دی جائے۔