سقوطِ ڈھاکہ کا سانحہ ٔفاجعہ
اسباب و عوامل پر ایک نظر اور آئندہ کے لیے سبق آموزی کے پہلو
16دسمبر1994ء کو یومِ سقوط ڈھاکہ کے جلسے سے بانی ٔتنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمدؒ کا فکر انگیز خطاب !
(چند اقتباسات)
16دسمبر1971ء کو وہ پاکستان دولخت ہو گیا جو14اگست 1947ء کو دنیا کے نقشے پر وجود میں آیا تھا۔ سقوطِ مشرقی پاکستان کا سانحہ ہماری قومی تاریخ کا الم ناک ترین باب ہے‘ لیکن آج کی ہماری نوجوان نسل اس سانحہ فاجعہ کی سنگینی اور اس کے اسباب و عوامل سے یکسر بے خبر ہے۔ بقول مشیر کاظمی ع
’’آج کے نوجواں کو بھلا کیا خبر ‘ کیسے قائم ہوا یہ حصارِ وطن!‘‘
بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمدؒنےآج سے ربع صدی قبل ’’یومِ سقوطِ ڈھاکہ‘‘ کے موقع پر یہ فکر انگیز خطاب فرمایا تھا‘ جسے جنوری1995ء کے میثاق میں شائع کیا گیا تھا۔ اپنی قومی تاریخ کے اس سیاہ باب پر ایک نگاہِ عبرت ڈالنے کے لیے اس سے چند اقتباسات کو قند ِ مکرر کے طور پر شائع کیا جا رہا ہے۔ (ادارہ)
خطبہ ٔمسنونہ ‘ ادعیہ ماثورہ اور موضوع سے متعلق قرآنی آیات کی تلاوت کے بعد فرمایا:
معزز حاضرین اور مہمانانِ گرامی! میرا یہ خیال ہے کہ اس بات پر وقت صرف کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ سقوطِ ڈھاکہ یا سقوطِ مشرقی پاکستان پوری دنیا کی تاریخ کے اعتبار سے بھی اہم واقعات میں سے ہے اور اس کی اہمیت اس اعتبار سے بھی بہت زیادہ ہے کہ اُمت ِمسلمہ کو بیسویںصدی کے نصف ِآخر اور چودھویں صدی ہجری کے ربع آخر میں جن دو عظیم ترین صدمات سے دوچار ہونا پڑا‘ ان میں سے ایک سقوط ڈھاکہ ہے۔ پہلا حادثہ1967ء کی عرب اسرائیل جنگ کے نتیجے میں یروشلم پر یہودیوں کے قبضے ‘مصر‘ شام اور شرقِ اردن کی شرمناک شکست اور اسرائیل کی عظیم توسیع کی صورت میں پیش آیا۔قرآن حکیم کی رُو سے اس اُمت ِ مسلمہ کے دو حصے ہیں‘ پہلا حصہ ’’اُمِّیِّین‘‘ یعنی عرب مسلمانوں پر اور دوسرا حصہ ’’آخَرِین‘‘ یعنی غیر عرب مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ پہلے حصے یعنی ’’اُمِّیِّین‘‘ کے لیے عظیم ترین حادثہ 1967ء کی شرمناک شکست ہے‘ جبکہ ’’آخَرِین‘‘ میں جو عظیم ترین اسلامی مملکت قائم ہوئی تھی‘ اس کے لیے عظیم ترین سانحہ سقوطِ ڈھاکہ ہے جو1971ء میں پیش آیا۔ پھر اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ جہاں تک پاکستان کی تاریخ کا تعلق ہے تو اگرچہ اور بھی حوادث ہیں کہ جن سے ہمیں دوچار ہونا پڑا‘ لیکن سقوطِ ڈھاکہ واقعتاً آج تک سب سے بڑا حادثہ ہے۔
حوادث و مصائب کے بارے میں بنیادی قرآنی اصول
ایسے حوادث کے بارے میں مَیں چاہتا ہوں کہ پہلے قرآن کریم‘ کتابِ ہدایت سے کچھ بنیادی اصول سمجھ لیے جائیں۔ اس لیے کہ ہمارا اعتقاد ہے کہ یہ حوادث الل ٹپ نہیں ہوتے۔ اس کائنات میں کوئی شے بھی اذنِ ربّ کے بغیر حرکت نہیں کرتی‘ اور اذنِ ربّ اللہ تعالیٰ کی حکمت کے ساتھ ہوتا ہے‘ یہ سنت اللہ کے تابع ہے۔ ان حوادث کے حوالے سے پہلی بات یہ کہ اللہ تعالیٰ ہرگز ظالم نہیں ہے۔ وہ خود قرآن حکیم میں فرماتا ہے کہ:{وَمَا اَنَا بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِ(29)}(قٓ) ’’میں اپنے بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہوں‘‘۔ اتنا بڑا حادثہ‘ اتنی بڑی تباہی اور اتنی شرمناک شکست‘ بہرحال اللہ کا ظلم نہیں ہے۔ یہ بات قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے پانچ مرتبہ فرمائی ہے:{وَاَنَّ اللّٰہَ لَیْسَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِ(10)}(الحج)
’’اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے حق میں ہرگز ظالم نہیں ہے۔‘‘
دوسری بات یہ کہ یہ حوادث تمام تر انسانوں کے اپنے کرتوتوں کا نتیجہ ہیں۔ میں نے سورۃ الشوریٰ کی آیت مبارکہ تلاوت کی ہے :{وَمَآ اَصَابَکُمْ مِّنْ مُّصِیْبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اَیْدِیْکُمْ} ’’جو بھی مصیبت تم پر آتی ہے تو یہ تمہارے اپنے ہاتھوں کے کرتوتوں کے باعث ہے‘‘۔ اس کے بعد فرمایا کہ{وَیَعْفُوْا عَنْ کَثِیْرٍ(20)}
’’ابھی بہت سی چیزوں سے تو وہ درگزر فرماتا رہتا ہے‘‘۔ اگر پروردگار ساری غلطیوں کی سزا دے تو زمین پر کوئی ایک انسان بھی چلتا ہوا نظر نہ آئے۔ اللہ تو بہت درگزر کرتا ہے۔ بہرحال دوسرا قاعدہ و کلیہ یہ ہے کہ یہ حوادث انسانوں کے اپنے کرتوتوں کا نتیجہ ہوتے ہیں۔
ان حوادث کے وقوع پذیر ہونے کے حوالے سے تیسری بات بڑی اہم ہے۔ اور وہ یہ کہ کسی بھی قوم پر اتنا بڑا سانحہ اور حادثہ فاجعہ صرف چند لوگوں کے کرتوتوں کے نتیجے میں ظہور پذیر نہیں ہوتا۔ ایسے واقعات اُس وقت وقوع پذیر ہوتے ہیں جب قوم میں اجتماعی طور پر فساد پیدا ہو چکا ہو۔ اللہ تعالیٰ کا قانون یہ ہے کہ افراد کی برکتیں تو پھیل سکتی ہیں کہ پوری قوم پر سائبان بن جائیں‘ جیسا کہ نیکیوں کے حوالے سے اللہ تعالیٰ کا قاعدہ ہے کہ دس گنا سے سات سو گنا تک بھی اجر دے گا‘ لیکن گناہ کی سزا بالکل حساب کے مطابق ملتی ہے‘ زیادہ نہیں ملتی۔ اجر تو اللہ تعالیٰ بغیر حساب کے عطا فرمادیتا ہے۔ اسی طرح افراد کے فسق و فجور اور جرائم پر اللہ تعالیٰ پوری قوم کو اتنی بڑی سزا نہیں دیا کرتے۔ درحقیقت یہ سزا اس وقت ملتی ہے جب قوم کی معتدبہ تعداد میں اجتماعی سطح پر وہ غلطیاں ہو رہی ہوں اور قوم کی ایک عظیم تعداد نے اس ضمن میں اپنا کردار ادا کیا ہو۔ جب جرائم یہ صورت اختیار کر لیتے ہیں تو اتنے بڑے حوادث رونما ہوتے ہیں۔
لیکن جب قوم کے اجتماعی کرتوتوں پر سزا آتی ہے تو پھر چوتھا قانون یہ ہے کہ گیہوں کے ساتھ گھن بھی پستا ہے۔ قرآن حکیم میں آتا ہے کہ :{وَاتَّقُوْا فِتْنَۃً لَّا تُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْکُمْ خَآصَّۃًج} (الانفال:25) ’’اور بچتے رہو اس فساد سے کہ جو تم میں سے خاص ظالموں ہی پر نہیں پڑے گا‘‘۔ تو اللہ کی پکڑ سے‘ اس کے عذاب سے اور اس کی سزا سے ڈرو! کیونکہ جب اجتماعی فساد ہو جائے تو جو لوگ اس فساد میں ملوث نہیں ہیں وہ بھی مجرم قرار پاتے ہیں۔ اس لیے کہ انہوں نے ظالموں کو روکا کیوں نہیں ہے۔ چنانچہ پھر جب سزا آتی ہے تو وہ لوگ جو چاہے اس گناہ اور جرم میں بالفعل شریک نہیں بھی تھے انہیں بھی سزا مل کر رہتی ہے۔
پانچویں بات یہ کہ جہاں تک اس قسم کے حوادث کی آخری ’’stages‘‘کا معاملہ ہے تو اس میںقرآن حکیم کے الفاظ{وَالَّذِیْ تَوَلّٰی کِبْرَہٗ مِنْہُمْ لَہٗ عَذَابٌ عَظِیْمٌ(11)}(النور)یعنی ’’ان میں سے وہ شخص کہ جس نے سب سے بڑا گناہ کمالیا‘‘ کے مصداق کچھ افراد یقیناً نمایاں ہو جاتے ہیں۔ لیکن بہرحال یہ نہ سمجھئے کہ یہ درحقیقت صرف چند افراد کی سازش کا نتیجہ ہے۔ ساتھ ہی یہ بات بھی نوٹ کریں کہ اتنا بڑا حادثہ تاریخ میںاپنی نظیر نہیں رکھتا کہ ہمارے ترانوے (93)ہزارکڑیل جوان ہندو کے قیدی بنے۔ سابقہ اُمت مسلمہ کی تاریخ میں583 قبل مسیح میں بخت نصر نے یروشلم میں جو تباہی مچائی تھی کہ چھ لاکھ افراد کو قتل کیا اور چھ لاکھ کو قیدی بنا کر لے گیا‘ یہ واقعہ شاید تاریخ انسانی میں اس اعتبار سے سب سے بڑا ہے کہ لوگوں کو اتنی بڑی تعداد میں قیدی بنا کر ایک ملک سے دوسرے ملک نہیں لے جایا گیا۔ بخت نصر چھ لاکھ افراد کوبھیڑ بکریوں کی طرح ہانکتا ہوا عراق کے شہر بابل لے گیا تھا۔ لیکن میں نے ہمیشہ تجزیہ کیا ہے کہ ان چھ لاکھ میں ترانوے ہزار یا ایک لاکھ جوان نہیں ہوں گے۔ ان میں بوڑھے بھی تھے‘ بچے بھی تھے اور عورتیں بھی تھیں‘ جبکہ ہمارے ترانوے ہزار کڑیل جوان‘ سپاہی سے لے کر جرنیل تک ہندو کی قید میں گئے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اتنی بڑی شکست کسی فوری سبب کا نتیجہ نہیں ہوا کرتی بلکہ اس کا ایک طویل پس منظر ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ وہ مہلت دیتا ہے۔ جب تک پے بہ پے غلطیاں نہ ہو رہی ہوں اور جرائم نہ کیے جا رہے ہوں اُس وقت تک وہ اتنی بڑی سزا نہیں دیتا۔ یہ بات اللہ تعالیٰ کے عدل‘ اُس کے فضل و کرم اور شانِ غفاری سے بالکل بعید ہے۔
پس چہ باید کرد؟
اب آیئے اس گفتگو کے عملی پہلو کی طرف کہ اس وقت جو ’’نیوورلڈآرڈر‘‘ کاعفریت ہمارے سامنے کھڑا ہے آخر اس کا علاج کیا ہے۔ بقول اقبال ع ’’علاج اس کا وہی آبِ نشاط انگیز ہے ساقی‘‘۔ علاج یہ ہے کہ رجوع کرو اپنی اس اصل کی طرف جس کے لیے پاکستان بنایا تھا۔ افراد بھی توبہ کریں اور اپنی معاش اور معاشرت میں سے غیر اسلامی چیزیں نکال دیں۔ پھر پوری قوم توبہ کرے اور اجتماعی توبہ کے لیے ایک مضبوط جماعت ہو کہ جو منکرات کے خلاف طاقت کے ساتھ جہاد کرے۔ یہ جماعت پاور پالیٹکس کے کسی کھیل میں شریک نہ ہو۔ یہ جماعت پاکستان میں خلافت کے نظام کی داعی ہو اور پورے عالمی سطح پر نظام خلافت کی علمبردار بن کر کھڑی ہوجائے جس میں پہلا مرحلہ پان اسلام ازم کا ہو گا‘ یعنی پورے عالمِ اسلام کو متحد کر کے خلافت کے نظام کے تحت کرنا۔میں آپ کو گاندھی کا جملہ سنا چکا ہوں جو اس نے قائد اعظم سے کہا تھا کہ ’’آپ کے پاکستان کا مطلب پان اسلام تو نہیں ہے؟‘‘
(i نظام خلافت کا قیام - قرآن و سنت کی غیر مشروط بالادستی
نظام خلافت کے خدوخال کے حوالے سے میں کئی کئی گھنٹے کی مفصل تقاریر کر چکا ہوں۔ اس وقت ایک آیت کا حوالہ دے رہا ہوں جس میں جدید اسلامی خلافت کا پورا نقشہ موجود ہے۔ یہ سورۃ النساء کی آیت 59ہے۔ فرمایا:
{یٰٓــاَیـُّـہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَاُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ ج فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِط ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِیْلًا(59)}’’اے اہل ایمان! اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول (ﷺ) کی اور اپنے میں سے اولولو الامر کی بھی۔ پھر اگر تمہارے درمیان کسی معاملے میں اختلافِ رائے ہو جائے تو اسے لوٹا دو اللہ اور رسول کی طرف اگر تم واقعتاً اللہ پراور یومِ آخر پر ایمان رکھتے ہو ۔ یہی طریقہ بہتر بھی ہے اور نتائج کے اعتبار سے بھی بہت مفید ہے۔‘‘
دیکھئے جدید ریاست کے تین ستون شمار ہوتے ہیں۔ پہلا ستون مقننہ (Legislature) ہے۔ اس کے بارے میں فرمایا:{اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ}یعنی کتاب وسنت کی بالادستی۔دستور میں ایک ترمیم کر دیجیے کہ ہر معاملہ میں شریعت کو مکمل بالادستی حاصل ہو گی‘ تواس سے دستوری سطح پر خلافت قائم ہو جائے گی۔ قراردادِ مقاصد میں یہ بات اصولاً طے ہوچکی ہے‘ صرف دستور میں ایک ترمیم درکار ہے جو نواز شریف صاحب نہیں کر سکے۔ اس کے لیے تو ایک عوامی جدوجہد کی ضرورت ہو گی۔ یہ کام تب ہو گا جب پوری قوم جانیں دینے کے لیے کھڑی ہوجائے گی۔ اور پوری قوم سے میری مراد لوگوں کی اتنی معتدبہ تعداد ہے جو پوری قوم کے اندر ایک آگ لگا دیں۔ اگر اس طرح کی تحریک برپا کر دی جائے تو کوئی امریکہ کیا امریکہ کا باپ بھی کچھ نہیں کر سکتا۔ اور سب سے بڑی بات یہ کہ پھر اللہ کی مدد آئے گی‘ اس لیے کہ قرآن حکیم میں کہا گیا ہے:{ اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰہَ یَنْصُرْکُمْ} (محمد:7) ’’اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا۔‘‘ اور ایک دوسرے مقام پر فرمایا:{وَلَیَنْصُرَنَّ اللّٰہُ مَنْ یَّنْصُرُہٗ ط} (الحج:40) ’’اللہ لازماً ان کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کریں گے۔‘‘
دوسری چیز جو اس آیت مبارکہ میں جدید دستور اسلامی کے لیے رہنمائی فراہم کرتی ہے وہ لفظ ’’اُولِی الْاَمْرِ‘‘ہے۔ گویا یہ لفظ انتظامیہ(Executive)کے ادارے کو ظاہر کرتا ہے۔ اسلامی ریاست میں یہ ’’اولی الامر‘‘ مسلمانوں میں سے ہو گا‘ غیر مسلم نہیںہو سکتا۔ غیر مسلم کی حیثیت ذمی یعنی’’Protective Minority‘‘ کی ہو گی۔ اسلامی ریاست اس کے جان‘ مال اور عزت کی حفاظت کا ذمہ لے گی۔ لیکن نہ تو مقننہ (Legislature) میں اس کا عمل دخل ہو سکتا ہے‘ اس لیے کہ وہاںقانون سازی کتاب و سنت کے مطابق ہوگی اور وہ کتاب و سنت کو تسلیم ہی نہیں کرتا‘ اور نہ ہی انتظامیہ میں وہ کلیدی عہدوں پر فائز ہو سکتاہے۔ تاہم ٹیکنیکل شعبوں میں اس کی خدمات سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔
جدید ریاست کا تیسر استون عدلیہ ہوتی ہے اور عدلیہ کا ادارہ ہی دستور کا محافظ ہوتا ہے کہ اگر اختلاف ہو جائے کہ آیا یہ شے شریعت کے مطابق ہے یا نہیں تو وہ اس کا فیصلہ کرے۔ مقننہ ایک قانون پاس کرتی ہے‘ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ کتاب و سنت کے منافی ہے تو اب جھگڑا ہو گیا۔ اس جھگڑے کو کیسے طے کرنا ہے؟ اس کا ذکر آیت کے اگلے ٹکڑے میںہے۔ فرمایا:{ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ} ’’پھراگر تم کسی معاملے میں جھگڑنے لگو تو اسے اللہ اور رسولؐ کی طرف لوٹا دو‘‘۔ تنازع کے حوالے سے یہاں عدلیہ (Judiciary) کا ذکر آ گیا۔ کوئی قانون دستور سے متصادم ہے یا دستور کے مطابق ہے‘ اس کا فیصلہ عدلیہ کرے گی۔ جدید ریاست انہی تین اداروں سے بحث کرتی ہے‘ جن کو اس ایک آیت سے اخذ کیا جا سکتا ہے۔
اس حوالے سے یہاں میں ذکر کرتا چلوں کہ ضیاء الحق مرحوم نے فیڈرل شریعت کورٹ قائم کر کے صحیح رخ پر قدم اٹھایا تھا‘ یہ دوسری بات ہے کہ ’’ half-heartedly‘‘ بلکہ ’’quarter heartedly‘‘ ہی تھا۔ چنانچہ اپنی بنائی ہوئی فیڈرل شریعت کورٹ کو انہوں نے دو ہتھکڑیاں پہنا دیں اور دو بیڑیاں ڈال دیں۔ وہ دو ہتھکڑیاں یہ تھیں کہ دستور بھی شریعت سے بالاتر ہے اور عائلی قوانین بھی۔ اور دو بیڑیاں یہ تھیں کہ مالی قوانین بھی شریعت سے بالاتر ہیں اور عدالتی قوانین بھی۔ اب آپ سوچیے کہ سوائے فراڈ کے باقی رہ کیا گیا؟ ہاں یہ بات ہے کہ کچھ لوگوں کی ان عدالتوں کے حوالے سے تنخواہیں چل رہی ہیں۔ لیکن وہ کچھ کر نہیں سکتے! قوانین کے حوالے سے جو بیڑی یا ہتھکڑی تھی وہ دس سال کے لیے تھی‘ لہٰذا دس سال پورے ہونے کے بعد کھل گئی ہے۔ لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ وفاقی شرعی عدالت نے مالی قوانین کے خلاف فیصلہ دے دیا۔ لیکن میاں نواز شریف کی حکومت نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر کے اس فیصلے کو عملاً کالعدم کر دیا۔
(iiوفاقی صدارتی نظام کی ضرورت
دوسری بات یہ کہ اس ملک کے لیے اگر کوئی خیر ہے تو وہ صدارتی نظام میں ہے۔ یہ پارلیمانی نظام انگریز کی وراثت ہے جو اپنی روایت پرستی کے ہاتھوں مجبور ہے۔ انہوں نے تو خواہ بادشاہ ہو یا ملکہ ہر صورت میں اسے اپنے سر پر بٹھانا ہے۔ میں اسے ’’Human Zoo‘‘ (یعنی انسانی چڑیا گھر) سے تعبیر کیا کرتا ہوں۔ لوگ وہاں جاتے ہیں، شاہی عمارات کی سیر کرتے اور شاہی خاندان کے افراد کی زیارت کر کے واپس آ جاتے ہیں۔ گویا یہ ان کا ایک کھیل اور دلچسپی کا سامان ہے۔لہٰذا انہیں تو پارلیمانی نظام بنانا ہی ہے‘ ہمارے ہاں یہ ثنویت خواہ مخواہ اختیار کر لی گئی ہے۔ ہمارے دستور کے مطابق ریاست کا سربراہ کوئی اور ہے اور سربراہِ حکومت کوئی اور ! اب جو ریاست کا سربراہ ہے وہ یا تو چودھری فضل الٰہی بن کر رہ جائے گا یا غلام اسحاق خان بن جائے گا ‘بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر ضیاء الحق ثابت ہو گا۔ مجھے بتا دیجیے کہ تیسری شکل کون سی ہے ؟ یہ انگریز کی وراثت ایک لعنت ہے‘ اس کا جنازہ جتنی جلدی نکالا جا سکے ہمارے حق میں اتنا ہی بہتر ہے۔ لیکن یہ سب کچھ ثانوی ہے۔ ہماری اولین ترجیح یہ ہے کہ پہلے شریعت کی غیر مشروط بالادستی طے ہو۔ اگر یہ نہیں تو پھر چاہے صدارتی نظام ہو‘ چاہے پارلیمانی‘ سب لعنت ہے۔ شریعت کی بالادستی کے بغیر دونوں شرک اور کفر ہیں۔ ہاں‘ ملک کے عوام مسلمان ہوا کریں‘ نظام بہرحال کافرانہ ہے۔
ایک اور چیز جو روح عصر کا ایک تقاضا ہے وہ صحیح معنوں میں وفاقی نظام ہے۔ اور یہ حکمت کابھی تقاضا ہے۔ یہ فطری بات ہے کہ ہر ایک کو اپنی زبان پسند ہے۔ لیکن میں عرض کرچکا ہوں کہ ہمارے لیے کوئی زبان بھی مقدس نہیں سوائے عربی زبان کے۔ پنجابی کو پنجابی پسند ہو‘ سندھی کو سندھی پسند ہو تو کوئی حرج نہیں۔نہ سندھی زبان کفر ہے اور نہ ہی پنجابی زبان کفر ہے۔ وفاق کے اندر جو بھی لسانی اور نسلی اکائیاں ہوں ان کو مناسب مقام دینا چاہیے۔ بھارت سے سبق سیکھئے‘ اس نے لسانی بنیادوں پر صوبے بنا دیے تو اس میں کون سی کمی یا کمزوری پیدا ہوگئی؟ وہاں ہر صوبے کی اپنی اپنی زبان ہے اور اپنی زبان میں سارا صوبائی معاملہ چل رہا ہے۔ مرکز کے ساتھ معاملہ ہو گا یا بین الصوبائی ہو گا تو وہ انگریزی زبان میں ہوگا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ تامل ناڈو میں تامل زبان ہے‘ آندھرا پردیش میں تلگو اور کیرالہ میں ملیالم دفتری زبان ہے۔ اس کے علاوہ بے شمار زبانیں ہیں جو وہاں چل رہی ہیں اور کوئی بھی ترقی کے راستے میں مانع نہیں ہے۔ آخر اتنی زبانوںسے وہاں کون سی قیامت آ گئی ہے؟ اسی طرح ہمارے ہاں بھی ایک کروڑ افراد کی اگر کوئی لسانی یا نسلی عصبیت ہے تو اسے تسلیم کریں‘ اس کی نفی نہ کریں۔ اس حوالے سے یہ بات بہرحال ذہن میں رکھنی چاہیے کہ معمولی سے لسانی فرق کی بنیاد پر تقسیم ممکن ہے نہ مناسب۔اس لیے کہ زبان میں معمولی سا فرق تو ایک گائوں سے دوسرے گائوں میں ہوجاتا ہے۔ گوجرانوالہ سے سیالکوٹ جا کر زبان بدل جائے گی۔ لیکن جو موٹی موٹی تقسیمیں ہیں ان کے مطابق صوبوں کی تقسیم میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس طرح اگر ’’ریاست ہائے متحدہ پاکستان‘‘ وجود میں آجائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ البتہ ایک مضبوط وفاقی نظام ضروری ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ’’states‘‘ کو اختیارات بھی دیجیے‘ انہیں اجازت دیجیے کہ اپنے کلچر کو رواج دیں۔ ہاں یہ طے ہو کہ شریعت کے خلاف کوئی شے نہیں ہو نے دیں گے۔ یکجہتی کی ذمہ دار فیڈرل گورنمنٹ ہوگی۔ آج دنیا میں امریکہ کا وفاقی صدارتی نظام کس کامیابی سے چل رہا ہے ۔
یہ صدارتی نظام بھی دراصل نظامِ خلافت سے لیا گیا ہے۔ علامہ اقبال نے کہا ہے ؎
ہر کجا بینی جہانِ رنگ و بو
آں کہ از خاکش بروید آرزو
یا ز نورِ مصطفیؐ اورا بہاست
یا ہنوز اندر تلاشِ مصطفیؐ ست
چنانچہ شیطان کو جمہوریت بھی اسی لیے دینی پڑتی ہے کہ خلافت راشدہ میں عوام کو ایک حق دیا گیا تھا کہ مسلمانوں کا منتخب خلیفہ ہو گا۔ خلیفہ کے انتخاب میں مسلمانوں کی رائے یعنی امر المسلمین فیصلہ کن ہو گا۔ انسانوں کو یہ حق تاریخ انسانی میں پہلی مرتبہ اسلام نے دیا ہے‘ تب شیطان کو بھی پیروی کرنی پڑی۔ اب اگر دنیا کی کوئی ’’achievements‘‘ ہیں تو ان کو تسلیم کیجیے۔
(iii نئی صوبائی تقسیم
تیسری بات یہ کہ سندھ کے مسئلے کا اس کے سوا کوئی حل نہیں ہے کہ صوبے چھوٹے بنائے جائیں۔ اس وقت میں سیاست دانوں کے مختلف فیہ بیانات کے حوالے سے بات نہیں کر رہا‘ اس لیے کہ وہ پینترے بدلتے رہتے ہیں۔ یہ تو سیاست دانوں کی حکومت کے ساتھ سودا بازی ہے جس میں اتار چڑھائو آتا رہتا ہے۔ لیکن میں ڈنکے کی چوٹ کہتا ہوں اور بہت عرصے سے کہہ رہا ہوں کہ سندھ کے مسئلے کا کوئی حل نہیں ہے سوائے اس کے کہ چھوٹے صوبے بنائے جائیں۔ ایک کروڑ سے زیادہ مہاجر جو اردو سپیکنگ ہیں ان کی اس حیثیت کو تسلیم کیجیے اور انہیں کوئی تو علاقہ دیجیے کہ وہ کہہ سکیں کہ یہ ہمارا ہے۔ انہوں نے ایک زمانے میں یہ کہا تھا کہ ہمیں یہاں دو چیزیں دے دیجیے۔ ایم کیو ایم کا کہنا تھا کہ کراچی کی کارپوریشن ہمارے حوالے کر دیجیے اور پولیس اور ٹریفک ہمیں دے دیجیے ۔ لیکن یہ چیزیں دینے کو بھی کوئی تیار نہیں تھا۔ اگر آپ کسی کو اس کے حق سے محروم کریں گے تو احساسِ محرومی اس انتہا کو پہنچے گا جہاں اس وقت پہنچ گیا ہے۔ میں نے آج سے دس سال قبل ’’استحکامِ پاکستان‘‘ نامی کتاب لکھی تھی‘ جس میں استحکامِ پاکستان اور اس کے لوازم بیان کیے تھے۔ اس کے کچھ ہی عرصہ بعد اس کتاب کا دوسرا حصہ ’’استحکام پاکستان اور مسئلہ سندھ‘‘ لکھی تھی۔ میں سیاست دان ہرگز نہیں ہوں۔ بقولِ شاعر ع ’’بازار سے گزرا ہوں خریدار نہیں ہوں!‘‘ لیکن حالات کو اچھی طرح جانتا ہوں۔ یہ بصیرت مجھے اللہ نے عطا کی ہے۔ اور ع ’’سرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف!‘‘یہاں مدینہ ونجف کے بجائے کہہ لیجیے کہ ہماری آنکھ کا سرمہ قرآن و سنت ہے۔ میری دو آنکھیں اللہ کی کتاب اور اس کے رسولﷺ کی سنت ہیں۔ بہرحال میںنے اپنی مذکورہ بالا کتاب میں مسئلہ سندھ کے مختلف پہلوئوں کا جائزہ لیا ہے۔ اس وقت میں بتانا یہ چاہتا ہوں کہ یہ باتیں میں آج نہیں کہہ رہا بلکہ برسوں سے کہہ رہا ہوں۔
(ivعربی بطور سرکاری زبان
اس ضمن میں آخری بات یہ کہ سرکاری زبان کے بارے میں طے کیجیے کہ یہاں عربی ہوگی اور عملی اقدام کے طور پر فوری طور پر عربی کی تدریس پہلی جماعت سے لازمی کیجیے۔ اور یقین رکھیے کہ بیس برس کے اندر اندر کایا پلٹ جائے گی۔ عربی زبان کی وجہ سے پورے عالم عرب کے ساتھ ایک رابطہ قائم ہوجائے گا۔ یہ رابطہ گویا پان اسلام ازم کی طرف ایک اہم قدم ہو گا‘ اور اس سے پان اسلام ازم کی تحریک کو تقویت ملے گی۔ یہ اقدامات کریں گے تو مسئلہ حل ہو گا ‘ورنہ نہیں!
حرف ِآخر
اور سب سے بڑی بات یہ کہ آج کی نشست کے آغاز میں سورئہ بنی اسرائیل کی جو آیات پڑھی گئی ہیں ان کے آخر میں جو بات فرمائی گئی ہے وہ ہم پر صد فی صد راست آتی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: {عَسٰی رَبُّکُمْ اَنْ یَّرْحَمَکُمْ ج وَاِنْ عُدْتُّمْ عُدْنَا ۷} یعنی ’’تمہارا رب اب بھی تم پررحم فرمانے کے لیے تیار ہے‘لیکن اگر تم نے پھر وہی روش اختیار کی تو ہم بھی وہی کچھ کریں گے‘‘۔ یہ تو دنیا کی سزا کا ذکر ہے۔ آیت کے اگلے حصے میں فرمایا:{وَجَعَلْنَا جَھَنَّمَ لِلْکٰفِرِیْنَ حَصِیْرًا(8)} ’’اور ہم نے کافروں کے لیے تو جہنم تیار کر رکھی ہے‘‘۔ اس کے بعد فرمایا:{ اِنَّ ھٰذَا الْقُراٰنَ یَھْدِیْ لِلَّتِیْ ھِیَ اَقْوَمُ} ’’بے شک یہ قرآن اس راستے کی طرف راہنمائی کرتا ہے جو سب سے سیدھا ہے‘‘۔اللہ کی رحمت کا دروازہ یہ قرآن ہے۔ اگرسائبان کے نیچے آنا چاہتے ہو تو یہ قرآن کا سائبان موجود ہے۔ گویا رحمت خداوندی میں داخل ہونے کا ’’شاہ درہ‘‘ یہ قرآن ہے۔ بہرحال میں یہ بات تحدیث نعمت کے طور پر عرض کر رہاہوں کہ میں نے اپنی زندگی کے تیس سال اس قرآن حکیم کے پڑھنے پڑھانے اور سیکھنے سکھانے میں لگائے ہیں۔ اس عرصے میں انجمن خدام القرآن قائم کی‘ قرآن اکیڈمی اور قرآن کالج قائم کیا‘ قرآن کانفرنسیں اور قرآنی تربیت گاہیں منعقد کیں۔ میں نے یہ سارا کام اس تشخیص کی بنیاد پر کیا ہے کہ اس وقت اُمت اس قرآن کو چھوڑنے کی وجہ سے زوال سے دوچار ہے۔ بقول اقبال ؎
خوار از مہجوریٔ قرآں شدی
شکوہ سنج گردشِ دوراں شدی
اے چو شبنم بر زمیں افتندئہ
در بغل داری کتابِ زندئہ
یہی بات علامہ اقبال نے اپنے ایک اردو شعر میں بہت سادہ انداز میں بیان کی ہے ؎
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر!
سورئہ بنی اسرائیل کے پہلے رکوع کی آخری آیات میں بہت اہم پیغام دیا جا رہا ہے :
{اِنَّ ہٰذَا الْقُرْاٰنَ یَہْدِیْ لِلَّتِیْ ہِیَ اَقْوَمُ وَیُبَشِّرُ الْمُؤْمِنِیْنَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَہُمْ اَجْرًا کَبِیْرًا(9) وَّاَنَّ الَّذِیْنَ لاَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَۃِ اَعْتَدْنَا لَہُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا(10)}
’’بے شک یہ قرآن راہنمائی کرتا ہے اُس راہ کی طرف جو سب سے سیدھی ہے اور خوشخبری دیتا ہے ایمان والوں کو جو عمل صالح کی روش اختیار کرتے ہیں کہ ان کے لیے بڑا اجر ہے ‘ اور یہ کہ جو آخرت کے منکر ہیں ان کے لیے ہم نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔‘‘
بہرحال یہ کام قرآن ہی کے ذریعے ہو گا۔ قرآن کے ساتھ تعلق استوار کرنے کے لیے بھی پہلی جماعت سے عربی کی تدریس ضروری ہے۔ ہمارے اس اقدام سے قوم بحیثیت مجموعی قرآن کے قریب تر ہوتی چلی جائے گی۔ یہ بات میں پوری انشراحِ صدر کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ اس کے سوا اس ملک کے لیے کوئی بچائو کی راہ نہیں ہے۔ اقبال کا یہ شعر پاکستان پر بھی صد فیصد صادق آتا ہے کہ ؎
اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمیؐ
اس لیے کہ پاکستان کے استحکام کے لیے اسلام کے سوا اور کوئی بنیاد سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ اگر ادھر نہیں آئیں گے تو اللہ کے عذاب کا دوسرا کوڑا بھی ہماری پیٹھ پر پڑے گا اور ’’ہماری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں‘‘۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس انجامِ بد سے بچائے اور توبہ کی توفیق عطا فرمائے۔
اقول قولی ھذا واستغفرا للّٰہ لی وَلکم وَلسائر المُسلِمینَ والمُسلِمات