یہود کی مذہبی تحریفات اور معصوم مسلمان
تحریر و ترجمہ: خالد نجیب خان
قرآن مجید اللہ کی آخری کتاب ہے ،اس سے قبل تورات، زبور، انجیل اور دیگر صحیفوں کے ذریعے بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے احکامات اپنے نبیوں اور رسولوں کی وساطت سے بندوں تک پہنچائے ہیں ،اِن الہامی کتابوں پر ایمان لانا ہر مسلمان پرفرض ہے۔اِن پر ایمان لائے بغیر کسی بھی مسلمان کا ایمان مکمل نہیں ہوتا۔قبل از قرآن کتب پر آج ایمان لانے کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ اِن کتابوں میں بیان کئے گئے احکامات پر عمل بھی کیا جائے بلکہ یہ ہے کہ یہ کتابیں اپنے وقت میں اللہ کی سچی کتابیں تھیں۔جس طرح آج کوئی کتاب جو ہمارے زیر مطالعہ ہے اس کے مندرجات میں بعد از تحقیق کوئی اضافہ مقصود ہوتا ہے تو اُسے نئے ایڈیشن میں شامل کردیا جاتا ہے اور پھر ہمیشہ کے لیے اُسے ہی شائع کیا جاتا ہے جب تک کہ اُس میں مزید کسی ترمیم کی ضرورت پیش نہ آئے۔ نبی آخرالزماں حضرت محمدمصطفیٰﷺ کے بعد چونکہ کوئی نبی اور رسول نہیں آنا اِس لیے کسی نئی الہامی کتاب کی بھی قطعاً کوئی ضرورت نہیں رہی۔پرانی الہامی کتابوں پر ایمان لانے کے بعد اُن کی تعلیمات پر عمل نہ کرنے میں یہی حکمت پوشیدہ ہے کہ اُن پرانی کتب میں لوگوں نے اپنی مرضی سے نہ صر ف تحریفات کیں بلکہ اُن تحریفات کو جانتے بوجھتے کتاب کا اصل متن بھی قرار دیتے رہے ۔
بڑی الہامی کتابوں میں ترتیب نزولی کے اعتبار سے تورات کا پہلا نمبر ہے۔یہ کتاب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑ کو اُس وقت عطا کی تھی جب اُنہیں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے تیس دنوں کے لیے کوہِ طور پر بلایا تھا اور جب اُنہیں دس دن کے لیے مزید وہاں روک لیا گیا تو پیچھے اُن کی قوم بہت زیادہ پریشان ہو گئی اور انہوں نے بچھڑے کی پوجا کرنا شروع کردی۔واپس آکر جب حضرت موسیٰ ؑ نے اپنی قوم کا حال دیکھا تو وہ خود بھی بہت رنجیدہ ہوئے۔حضرت موسیٰ ؑ کوتورات اللہ تعالیٰ نے پتھر کی تختیوں پر لکھی ہوئی دی تھی ،گویا اُس میں تحریف کی گنجائش موجود نہیں تھی ۔اس کے باوجود حضرت موسیٰ ؑ کے وصال کے کچھ عرصہ کے بعد بنی اسرائیل کے لوگوں نے من مانی تحریفات کرنا شروع کردیں۔حتیٰ کہ حضرت عیسیٰ ؑ کی ولادتِ باسعادت سے قبل ہی تورات میں واضح طور پر معنوی اور لفظی تبدیلیاں کی جاچکی تھیں لہٰذا حضرت عیسیٰ ؑ کو انجیل دی گئی ۔انجیل میں بے شک کوئی نئی شریعت نہیں تھی بلکہ شریعت موسوی کا ہی اعادہ کیاگیا تھاجو یہودیوں کے لیے قابل قبول نہیں تھا کیونکہ اِس سے اُن کے مفادات پر زد پڑتی تھی۔
یہودی ’’حاخاموں‘‘(مفسرین)نے برسوں تورات پر مختلف خود ساختہ شرحیں اور تفسیریں لکھیں ہیں۔
یہودی حاخامات کے نزدیک اللہ تعالیٰ نے طورسینا پر موسیٰ ؑ پر دو شریعتیں مکتوب شریعت اورزبانی شریعت نازل کیں۔زبانی شریعت کو ہی اُنہوں نےاصل شریعت قرار دیاہے، جو اللہ کی مراد اور مکتوب شریعت یعنی تورات کی حقیقی تفسیر ہے۔یوں یہود میں دُہری شریعت کا آغاز ہوا اور 40 نسلوں تک یہ سرّی شریعت زبانی منتقل ہوتی رہی اور یہودی حاخامی زبانی و سرّی شریعت کی آڑ میں تورات کی من مانی تفسیر کرتے رہے۔ زبانی شریعت کے مکتوب نہ ہونے کی وجہ سے یہودی قوم متعین عقائد پر متفق نہیں تھی۔ہر یہودی ربی کی اپنی تشریح و تفسیر ہوتی،جس پر اس کے خاندان اور متبعین یقین رکھتے تھے۔ ان تمام شرحوں اور تفسیروں کو حاخام ’’یوخاس‘‘ نے 1500ء میں جمع بندی کر کے اِس میں کچھ دوسری کتابوں کا جو 230ء اور 500ء میں لکھی گئی تھیں اضافہ کردیا۔اس مجموعہ کو ’’تلمود‘‘یعنی تعلیم ِدیانت و آدابِ یہود کے نام سے موسوم کیا گیا۔یہ کتاب یہودیوں کے نزدیک بہت تقدس کی حامل ہے اور تورات و عہد عتیق کے مساوی حیثیت رکھتی ہے۔( بلکہ تورات سے بھی زیادہ اہمیت کی حامل ہے جیسا کہ گرافٹ نے کہا: جان لو کہ حاخام کے اقوال پیغمبروں سے زیادہ بیش قیمت ہیں)۔
آج مسلمانوں میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو یہودیوں کے حوالے سے خود نرم گوشہ رکھتا ہے اور اپنی زبان و قلم سے دوسروں کو بھی قائل کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔اُن کے نزدیک اہل غزہ کو اسرائیل اور یہودیوں کے خلاف ’’پنگا‘‘ نہیں لینا چاہئے تھا۔گویا غزہ کی موجودہ صورتحال کی تکلیف اُنہیں اہل ِغزہ سے زیادہ ہے۔اُن کے دل میں موجود نرم گوشے کے بارے میں یہی خوش گمانی کی جاسکتی ہے کہ اُن کا مطالعہ محدود ہے۔اُنہوں نے یہودیوں کی کتابیں تو درکنار ،اپنی کتابوں کو بھی پڑھ کر نہیں سمجھا۔اگر یہ لوگ یہود کی کتب کا بھی مطالعہ کرکے ان کو سمجھنے کی کوشش کریں تو یقیناًوہ اپنی رائے پر رجوع کرلیں گے۔اہلِ یہود کی ایک ویب سائٹ //www.etzion.org.il/en/ پر موجود ایک مضمون میں واضح طور پر لکھا ہے کہ تلمود یہودیوں کو اجازت دیتا ہے کہ وہ اپنی رفاقت کے 'غیر ماننے والوں اور 'غیر اراکین سے جھوٹ بولیں۔ان کی چند مثالیں یہ ہیں۔
صحیفہ:سنہڈرین 59a: ’’گوئم(غیر یہودی) کو قتل کرنا جنگلی جانور کو مارنے کے مترادف ہے۔‘‘
ابودا زارا 26 ب:’’غیرقوموں میں سے بہترین کو بھی قتل کیاجائے۔‘‘
سنہڈرین 59a: ’’ایک گوئم جو قانون (تلمود) کی پیروی کرتا ہے،وہ موت کا مجرم (حقدار)ہے۔‘‘
Libbre David 37: ’’ہمارے مذہبی تعلقات کے بارے میں کسی گوئم کو کچھ بھی بتانا تمام یہودیوں کے قتل کے مترادف ہوگا، کیونکہ اگر گوئم کو معلوم ہوجائے کہ ہم اُن کے بارے میں کیا تعلیم دیتے ہیں،تو وہ ہمیں کھلم کھلا قتل کر دیں گے۔‘‘
Librre David 37: ’’اگر کسی یہودی سے ربی کی کتابوں کے کسی حصے کی وضاحت کے لیے کہا جائے تو اُسے صرف جھوٹی وضاحت کرنی چاہیے۔ جو بھی اِس حکم کی خلاف ورزی کرے گا،اُسے سزائے موت دی جائے گی۔‘‘
یبھموت 11b: ’’چھوٹی لڑکی کے ساتھ جنسی تعلق جائز ہے، اگر وہ تین سال کی ہو۔‘‘
Schabouth Hag. 6d:’’ تخریب کاری کے الفاظ استعمال کرکے یہودی جھوٹی قسم کھا سکتے ہیں۔‘‘
ہلکوتھ اکم X1: ’’گوئیم کو موت کے خطرے سے نہ بچائیں۔‘‘
ہلکوتھ اکم X1: ’’گوئیم پر رحم نہ کرو۔‘‘
Choschen Hamm 388, 15: ’’اگر یہ ثابت ہو جائے کہ کسی نے بنی اسرائیل کی رقم گوئم کو دی ہے تو اُسے روئے زمین سے مٹانے کے لیے دانشمندانہ غور و فکر کے بعد کوئی راستہ تلاش کرنا چاہیے۔‘‘
,1 Choschen Hamm 266: ’’کوئی یہودی کسی بھی معزز غیر یہودی سے تعلق رکھنے والے کی کوئی چیز پائے تواُسے اپنے پاس رکھ سکتا ہے کیونکہ جو کھوئی ہوئی جائیداد (غیر قوموں کو) واپس کرتا ہے وہ فاسقوں کے لیے قانون کی طاقت بڑھا کر قانون کے خلاف گناہ کرتا ہے۔ تاہم، اگر خدا کے نام کی تعظیم کے لیے کیا جائے تو کھوئی ہوئی جائیداد کو واپس کرنا قابل تعریف ہے، یعنی اگر ایسا کرنے سے، عیسائی یہودیوں کی تعریف کریں گے اور اُنہیں عزت دار لوگ سمجھیں گے۔
Szaaloth-Utszabot، The Book of Jore Dia 17: ’’ جب گوئم پوچھے کہ کیا ہماری کتابوں میں ان کے خلاف کچھ ہے تو ایک یہودی کو جھوٹی قسم کھانی چاہیے۔ ‘‘
بابا نیکیا 114، 6: ’’یہودی انسان ہیں، لیکن دنیا کی قومیں انسان نہیں حیوان ہیں۔‘‘
شمعون ہیڈرسن، فول۔ 56-D: ’’جب مساحا آئے گا تو ہر یہودی کے پاس 2800 غلام ہوں گے۔‘‘
نیدراسچ تالپیوت، ص۔ 225-L: ’’یہوواہ نے غیر یہودی کو انسانی شکل میں پیدا کیا تاکہ یہودی کو درندوں کی خدمت نہ کرنا پڑے۔ غیر یہودی اس کے نتیجے میں انسانی شکل میں ایک جانور ہے، اور یہودی کو دن رات خدمت کرنے کی مذمت کی گئی ہے۔‘‘
گاڈ شاس 2:2: ’’ایک یہودی مرد زنا کر سکتا ہے لیکن کسی غیر یہودی لڑکی سے شادی نہیں کر سکتا۔‘‘
توسیفتہ۔ ، عبدہ زارا B 5: ’’اگر کوئی غیر یہودی لڑکا کسی لڑکے یا یہودی کو مارتا ہے تو وہ ذمہ دار ہے؛ لیکن اگر کوئی یہودی کسی لڑکے کو مارتا ہے تو وہ ذمہ دار نہیں ہے۔‘‘
Schulchan Aruch, Choszen Hamiszpat 388: ’’یہودی کی مذمت کرنے والے کو ہر جگہ قتل کرنے کی اجازت ہے۔ اس کی مذمت کرنے سے پہلے ہی اُسے قتل کرنے کی اجازت ہے۔‘‘
Schulchan Aruch, Choszen Hamiszpat 348: ’’دوسری قوموں کی تمام جائیدادیں یہودی قوم کی ہیں، جس کے نتیجے میں، بغیر کسی شکوک کے اس پر قبضہ کرنے کا حقدار ہے۔‘‘
توسیفتہ، عبدہ زارا ہشتم، 5: ’’ڈکیتی کے لفظ کی تشریح کیسے کی جائے۔ ایک گوئم کے لیے چوری کرنا، لوٹنا، یا عورتوں کو لونڈی بنا لینا حرام ہے، گویا یہودی سے لیکن یہودی کے لیے یہ منع نہیں ہے۔ یہ سب ایک گوئم لڑکے کے لیے ہے۔‘‘
سیف Jp. 92, 1: ’’خدا نے یہودیوں کو تمام قوموں کے مال اور خون پر اختیار دیا ہے۔‘‘
Schulchan Aruch, Choszen Hamiszpat 156: ’’جب ایک یہودی کسی غیر قوم کو اپنے شکنجے میں رکھتا ہے، تو دوسرا یہودی اسی غیر قوم کے پاس جا سکتا ہے، اُسے قرض دے سکتا ہے اور بدلے میں اُسے دھوکہ دے سکتا ہے، تاکہ غیر قومیں برباد ہو جائیں۔ ایک غیر قوم کی جائیداد کے لیے۔ ہمارے قانون کے مطابق، کسی کا نہیں، اور جو پہلے یہودی گزرے گا اسے اس پر قبضہ کرنے کا پورا حق ہے۔‘‘
شولچن آروچ، جوہر دیہ، 122: ’’ایک یہودی کے لیے کسی ایسے شراب کے گلاس سے پینا منع ہے جسے کسی غیر قوم نے چھوا ہے، کیونکہ چھونے سے شراب ناپاک ہو گئی ہے۔‘‘
• نیدارم 23b: ’’جو شخص یہ چاہتا ہے کہ سال بھر میں کسی خاص شخص کی کوئی بھی نذر درست نہ ہو، وہ سال کے شروع میں کھڑا ہو اور اعلان کرے،ہر وہ نذر جو وہ آئندہ کرے وہ باطل ہو جائے گی، اس کی منتیں یہ ہیں۔ …‘‘
اختتامیہ…
غرض کہاں تک سنو گے کہاں تک سنائیں
جو لوگ اللہ تعالیٰ کی آیات کو جانتے بوجھتے بدل دیتے ہیں اور پھر اُسے اللہ سے منسوب بھی کر دیتے ہیں۔ اُن کے حوالے سے قرآن پاک میں بارہا وعید آئی ہے۔ سورۃ البقرۃ کی آیت 79 میں ایسے ہی لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے کہا ہے:’’تباہی ہے اُن لوگوں کی جو اپنے ہاتھوں سے کتاب لکھتے ہیں پھر(لوگوں سے) کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے تاکہ اس کے ذریعے تھوڑا سا فائدہ اٹھائیں۔ پس تباہی ہے اُن لوگوں کے لیے جو انہوں نے اپنے ہاتھوں سے لکھا اور تباہی ہے اُن پر اُس کمائی کی وجہ سے جو انہوں نے کمائی۔‘‘
اللہ تعالیٰ اُن مسلمانوں کو یہ ہدایت عطا فرمائے جو نادانستگی میں اہل یہود سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں۔