(الہدیٰ) اہلِ علم کی قارون کو نصیحت - ادارہ

11 /
الہدیٰ
 
اہلِ علم کی قارون کو نصیحت 
 
 
 
آیت 80{وَقَالَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ} ’’اور کہا اُن لوگوں نے جنہیں علم عطا ہو اتھا‘‘
اس معاشرے میں کچھ نیک سرشت لوگ اور اصحابِ علم و فہم بھی تھے جنہیں دُنیوی زندگی کے ٹھاٹھ باٹھ اور زیب و زینت کی اصل حقیقت معلوم تھی۔ ایسے لوگوں نے قارون کے ٹھاٹھ باٹھ سے متاثر ہونے والے لوگوں کو سمجھاتے ہوئے کہا:
{وَیْلَکُمْ ثَوَابُ اللہِ خَیْرٌ لِّمَنْ اٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًاج} ’’افسوس ہے تم پر! اللہ کا (عطا کردہ) ثواب (اس سے) کہیں بہتر ہے اُس شخص کے لیے جو ایمان لایا اور اُس نے نیک عمل کیے۔‘‘
یعنی تم خواہ مخواہ اس کی شان و شوکت کو حسرت بھری نظروں سے دیکھ رہے ہو۔ اگر تم حقیقی ایمان اورعمل ِصالح کی شرائط پر پورے اترو تو اللہ تعالیٰ تمہیں دنیا و آخرت میں جن نعمتوں سے نوازے گا وہ اس سے کہیں بڑھ کر ہوں گی۔ 
{وَلَا یُلَقّٰىہَآ اِلَّا الصّٰبِرُوْنَ(80)} ’’اور وہ نہیں ملے گامگر اُن لوگوں کو جو صبر کرنے والے ہیں۔‘‘
آخرت کا وہ اجر و ثواب صرف انہی لوگوں کو حاصل ہو گا جو دنیا میں صبر و قناعت سے گزر بسر کرتے رہے اور اپنی ضروریات سے زیادہ کی ہوس سے بچتے رہے۔ 
 
درس حدیث
 
سفر سے جلد لوٹ آنا
 
 
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ  ؓ  اَنَّ رَسُوْلَ اللہِ ﷺ قَالَ :((السَّفَرُ قِطْعَۃٌ مِّنَ الْعَذَابِ یَمْنَعُ اَحَدَکُمْ طَعَامَہٗ وَشَرَابَہٗ وَنَوْمَہٗ  فَاِذَا قَضٰی اَحَدُکُمْ نَھْمَتَہٗ مِنْ سَفَرِہٖ فَلْیُعَجِّلْ اِلٰی اَھْلِہٖ))  ( متفق علیہ)
حضرت ابو ہریرہ ؓ  سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :’’سفرایک طرح کا عذاب ہے جس سے کھانے پینے اور سونے کے نظام میں خلل پڑتا ہے (پورا آرام نہیں ملتا)۔ اس لیے تم میں سے کوئی کسی کام کے لیے سفر کرے‘ وہ کام پورا ہو جائے تو پھر جلد اپنے گھر لوٹ آئے۔‘‘
تشریح:اس حدیث پاک سے یہ بات معلوم ہوئی کہ انسان کو بلاضرورت سفر سے گریز کرنا چاہیے۔ سفر کی حالت میں انسان نہ تو صحیح طریقے سے آرام کر سکتا ہے اور نہ عبادات، اس لیے انسان کو حتی المقدور غیر ضروری سفر سے پرہیز کرنا چاہیے، اگر جانا بھی پڑ جائے تو جلدازجلد واپس لوٹنے کی کوشش کریں۔