الہدیٰ
قارون کی ہلاکت :دنیا کے لیے نشانِ عبرت
آیت 81{فَخَسَفْنَا بِہٖ وَبِدَارِہِ الْاَرْضَ قف} ’’تو ہم نے اُسے اور اُ س کے محل کو زمین میں دھنسا دیا۔‘‘
چنانچہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے قارون ’’خسف فی الارض‘‘ کے عذاب کا شکار ہو گیا۔
{فَمَا کَانَ لَہٗ مِنْ فِئَۃٍ یَّنْصُرُوْنَہٗ مِنْ دُوْنِ اللہِ ز} ’’تو اُس کے لیے نہ تو کوئی ایسا لشکر تھا جو اُس کی مدد کرتا اللہ کے مقابلے میں‘‘
{وَمَا کَانَ مِنَ الْمُنْتَصِرِیْنَ(81)} ’’اور نہ وہ خود اس قابل تھا کہ بدلہ لینے والوں میں ہوتا۔‘‘
وہ اپنے لائو لشکر اور تمام تر جاہ و جلال کے باوجود اس قابل نہ تھا کہ (معاذاللہ!) اللہ تعالیٰ سے اپنی بربادی کا انتقام لے سکتا۔
آیت 82{وَاَصْبَحَ الَّذِیْنَ تَمَنَّوْا مَکَانَہٗ بِالْاَمْسِ یَقُوْلُوْنَ} ’’اور جن لوگوں نے کل اس کے مرتبے کی تمنّا کی تھی اب وہ یوں کہہ رہے تھے‘‘
{وَیْکَاَنَّ اللہَ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآئُ مِنْ عِبَادِہٖ وَیَقْدِرُج} ’’ہائے افسوس !اللہ ہی کشادہ کرتا ہے رزق جس کا چاہتا ہے اپنے بندوں میں سے اور وہی تنگ کرتا ہے۔‘‘
رزق کا معاملہ تو اللہ تعالیٰ نے اپنے قبضہ ٔقدرت میں رکھا ہوا ہے۔ وہ اپنے بندوں میں سے جس کا رزق چاہتا ہے کشادہ کردیتا ہے اور جسے چاہتا ہے نپا تلا دیتا ہے۔
{لَوْلَآ اَنْ مَّنَّ اللہُ عَلَیْنَا لَخَسَفَ بِنَاط} ’’اگر اللہ نے ہم پر احسان نہ کیا ہوتا تو ہمیں بھی زمین میں دھنسا دیتا۔‘‘
یعنی ہم نے بھی اُس جیسی دولت اور شان و شوکت کی خواہش کی تھی ‘ا س لیے عین ممکن تھا ہمیں بھی وہی سزا ملتی‘مگر اللہ تعالیٰ نے ہم پر احسان کیا اور ہمیں اس انجام سے بچا لیا۔
{وَیْکَاَنَّہٗ لَا یُفْلِحُ الْکٰفِرُوْنَ (82)} ’’افسوس !کہ کافر بالکل فلاح نہیں پائیں گے۔‘‘
درس حدیث
اللہ کی جنت سے محروم حاکم
عَنْ مَعْقَلْ بِنْ یَسَار ؓ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ یَقُوْلُ :((مَامِنْ عَبْدٍ یَسْتَرِعِیْہِ رَعِیَّۃً یَمُوْتُ یَوْمَ یَمُوْتُ وَھُوَغَاشٌ لِرَعِیَّتِہِ اِلَّا حَرَّمَ اللہُ عَلَیْہِ الْجَنَّۃَ))(متفق علیہ)
حضرت معقل بن سیار ؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا ہے کہ جس بندے کو حاکم بنا کر رعیت اس کے سپرد کر دی جائے اگر اسے ایسی حالت میں موت آئے کہ رعیت و عوام میں خیانت کا ارتکاب کرتا رہا ہو تو ایسے حاکم پر اللہ تعالیٰ اپنی جنت حرام کر دیتا ہے۔‘‘
تشریح:اسلامی مملکت میں سربراہ مملکت کا فرض ہے کہ وہ اپنے منصب پر رہتے ہوئے صرف وہی کام کرے جو شریعت نے اُسے تفویض کیے ہیں۔ اپنی پسند یانا پسند کے پیش نظر کوئی فیصلہ نہ کرے۔ ہر ایک کو عدل فراہم کرنا ہی اُس سے مطلوب و مقصود ہے۔ کسی سے ناانصافی نہ کرے۔ رعایا کے جائز اور قانونی کاموں کی انجام دہی میں آسانیاں اور نرمی کے اسباب پیدا کرے اور کوئی ایسا حکم جاری نہ کرے جو قانوناً اور شرعاً ناجائز ہو۔ اگر وہ اپنی رعایا کے لیےیا اپنی آسانی کے لیے مشکلات پیدا کرے گا تو اُس کے لیے بڑی وعید ہے کہ وہ اللہ کی جنت سے محروم رہ جائے گا۔