اداریہ
خورشید انجم
کیا یہ قائدِ اعظم کا پاکستان ہے؟
اگرچہ پاکستان کا قیام قائداعظمؒ کی قیادت میں مسلمانوں کی سیاسی جدوجہد کا نتیجہ تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ ’’پاکستان کا مطلب کیا: لا الٰہ الا اللہ‘‘ کے ایمان افروز اور ولولہ انگیز نعرے نے اِس سیاسی جدوجہد کو ایسی قوت بخش دی تھی کہ انگریز حکمران اور ہندوؤں کی جماعت آل انڈیا کانگرس دونوں ’’متحدہ ہند‘‘ کے مؤقف سے پسپا ہونے پر مجبور ہو گئے۔ پھر اللہ تعالیٰ کا فضل ہوا اورقیام پاکستان کے ½ 1سال بعد 1949ء میں قراردادِ مقاصد منظور ہو گئی جس سے ریاست کی سمت بجا طور پر متعین ہوگئی۔ اس پر مستزاد یہ کہ پاکستان کے تمام مکاتب فکرکے31 جید علماء نے22 متفقہ نکات پر مشتمل متفقہ فارمولا پیش کیا کہ پاکستان کو جدید دور کی اسلامی فلاحی ریاست کیسے بنایا جا سکتا ہے اور نفاذ اسلام کے حوالے سے حجت قائم کر دی۔ البتہ مسلم لیگ کے بعض آزاد منش اراکین اور کچھ دوسرے لبرلز/ سیکولرز اِس پر ناخوش تھے، لیکن قائد ملت لیاقت علی خان قرارداد کو عملی شکل دینے کے لیے پُرعزم تھے۔ بعض عالمی قوتیں بھی اِس قرارداد کو عملی تعبیر دینے کی مخالفت کر رہی تھیں۔
بہرحال 16 اکتوبر 1951ء کو وزیراعظم پاکستان لیاقت علی خان کو جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے شہید کر دیا گیا۔ پھر کیا تھا، ترقی کی گاڑی نہ صرف رُک گئی بلکہ اُسے ریورس گیئر لگ گیا اور عملی طو رپر ریاستی عناصر نے سیکولرازم کو اپنا ہدف اور مقصود بنا لیا ۔ گویا گاڑی کا انجن اُس کی پشت پر لگ گیا اور اسلام کے نام پر قائم ہونے والا ملک عملاً سیکولرازم کی راہ پر چل پڑا۔ اگرچہ کسی خاص طبقہ کو اِس حوالہ سے موردِ الزام ٹھہرایا نہیں جا سکتا، لیکن یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ پاکستان کو کمزور کرنے ،لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کرنے اور ملک کو اپنے وجہ جواز یعنی اسلام سے دور کرنے میں ملک کی اشرافیہ کا کردار کیا رہا ہے۔ یہاں ہم یہ بھی واضح کرتے چلے جائیں کہ اس اشرافیہ میں سیاست دان، جاگیردار ، سرمایہ دار اور سول، ملٹری اور عدالتی بیوروکریسی سب شامل ہیں۔جس کا نتیجہ قوم77 سال سے مسلسل بھگت رہی ہے۔ پہلے 1971ء میں بھارت کے ہاتھوں ذلت آمیز شکست ہوئی او رملک دو حصوں میں بٹ گیا۔ اب بھی کبھی جنوب سے سندھو دیش کی آواز اُٹھتی ہے اور لسانی بنیادوں پر قومیت کے نعرے لگتے ہیں اور کبھی شمال سے پختونستان کا نعرہ بلند ہوتا ہے۔ جس سے پاکستان کی بقاء کو شدید خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔ کوئی ادارہ بھی اپنے آئینی حدود میں رہتے ہوئے کام کرنے کو تیار نہیں۔پھر یہ کہ دہشت گردی کے عفریت نے ملک کو بری طرح گھیر رکھا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر ہماری مشرقی سرحد کے ساتھ ساتھ مغربی سرحد بھی غیر محفوظ ہو چکی ہے۔ اسرائیل اپنے توسیع پسندانہ عزائم پر تیزی سے عمل درآمد کر رہا ہے اور پاکستان کو اپنے گریٹر اسرائیل کے منصوبے کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتا ہے۔ ہم نے یہ ساری تمہید اس لیے باندھی ہے کہ آج بھی بعض حلقوں کی جانب سے یہ سوال بار بار اُٹھایا جاتا ہے کہ قائد اعظم کیسا پاکستان چاہتے تھے؟ لیکن قائد اعظم محمد علی جناح نے تو آغاز سے ہی واضح کر دیا تھا کہ پاکستان کا نظام کیسا ہو گا!
حقیقت یہ ہے کہ 1937ء سے 1947ء تک قائد اعظم نے اسلام کا جو راگ الاپا ہے اس پر ان کے ایک سو اقتباسات (quotations) موجود ہیں۔ ان دس سالوں کے دوران انھوں نے اپنی تقاریر میں برملا کہا ہے کہ ہمارا قانون‘ ہمارا نظام‘ بلکہ ہماری ہر شے اسلام کے مطابق ہو گی۔ ان کے علاوہ ان کی تقاریر کے چالیس اقتباسات اور بھی ہیں جو ان کی پاکستان بننے کے بعد کی تقاریر سے ماخوذ ہیں جن میں انھوں نے اسلام ہی کی بات کی ہے۔ لیکن ہمارے ہاں کاسیکولرحلقہ ان کی صرف ایک تقریر کے چند الفاظ کو ان کے باقی تقریباً ڈیڑھ سو خطابات پر حاوی قرار دے کر اسے دستورِ پاکستان کا حصہ بنانا چاہتا ہے۔ ہم یہاں پر قائد اعظم محمد علی جناح کی تقاریر کے صرف دو حوالے دیں گے ‘ جس سے اندازہ کیجیے کہ یہ مسٹر محمد علی جناح بول رہے ہیں یا مولانا محمد علی جناح خطاب فرما رہے ہیں! 11جنوری1938ء کو گیا ریلوے سٹیشن (بہار) پر ایک بہت بڑے مجمع عام سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم نے مسلم لیگ کا جھنڈا لہرا کر فرمایا:
’’آج اس عظیم الشان اجتماع میں آپ نے مجھے مسلم لیگ کا جھنڈا لہرانے کا اعزاز بخشا ہے۔ یہ جھنڈا درحقیقت اسلام کا جھنڈا ہے‘ کیونکہ آپ مسلم لیگ کو اسلام سے علیحدہ نہیں کر سکتے۔ بہت سے لوگ بالخصوص ہمارے ہندو دوست ہمیں غلط سمجھے ہیں۔ جب ہم اسلام کی بات کرتے ہیں یا جب ہم کہتے ہیں کہ یہ جھنڈا اسلام کا جھنڈا ہے تو وہ خیال کرتے ہیں کہ ہم مذہب کو سیاست میں گھسیٹ رہے ہیں‘ حالانکہ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس پر ہم فخر کرتے ہیں۔اسلام ہمیں مکمل ضابطۂ حیات دیتا ہے۔ یہ نہ صرف ایک مذہب ہے بلکہ اس میں قوانین‘ فلسفہ اور سیاست سب کچھ ہے۔ درحقیقت اس میں وہ سب کچھ موجود ہے جس کی ایک آدمی کو صبح سے رات تک ضرورت ہوتی ہے۔ جب ہم اسلام کا نام لیتے ہیں تو ہم اسے ایک کامل لفظ کی حیثیت سے لیتے ہیں۔ ہمارا کوئی غلط مقصد نہیں ‘بلکہ ہمارے اسلامی ضابطہ کی بنیاد آزادی ‘ عدل و مساوات اور اخوت ہے۔‘‘
اس کے بعد آپ 6مارچ 1946ء کو فرماتے ہیں:
’’ہمیں قرآن پاک‘ حدیث شریف اور اسلامی روایات کی طرف رجوع کرنا ہو گا جن میں ہمارے لیے مکمل رہنمائی ہے‘ اگر ہم ان کی صحیح ترجمانی کریں اور قرآن پاک پر عمل پیرا ہوں۔‘‘
یہاں پر قائد اعظم محمد علی جناح کی تقاریر کی چند شہ سرخیاں تبرکاً پیش خدمت ہیں:
l 6 جون 1938ء : ’’مسلم لیگ کا جھنڈا نبی اکرمﷺ کا جھنڈا ہے۔‘‘
l 22نومبر1938ء : ’’اسلام کا قانون دنیا کا بہترین قانون ہے۔‘‘
l 8اپریل 1938ء ‘ اسٹار آف انڈیا : ’’ملتِ اسلامیہ عالمی ہے۔‘‘
l 7اگست 1938ء : ’’مَیں اوّل وآخر مسلمان ہوں۔‘‘
l 9نومبر1939ء : ’’مغربی جمہوریت کے نقائص۔‘‘
l 14نومبر1939ء : ’’انسان خلیفۃ اللہ ہے۔‘‘
ٹائمز آف لندن‘ 9 مارچ 1940ء :’’ ہندو اور مسلمان دو جداگانہ قومیں ہیں۔‘‘
26 مارچ 1940ء : ’’میرا پیغام قرآن ہے۔‘‘
یہ بھی ریکارڈ پر رہے کہ سیکولر لبرل حلقے 11 اگست 1947 ء کی تقریر کی جو تعبیر کر رہے تھے قائد اعظم نے خود ا س کی نفی کر دی تھی۔ چنانچہ 2جنوری1948ء کو کراچی بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم نے دوٹوک انداز میں فرمایا تھا :
"Islamic principles today are as applicable to life as they were thirteen hundred years ago. He could not understand a section of the people who deliberately wanted to create mischief and propaganda that the constitution of Pakistan would not be made on the basis of Sharia."
’’اسلامی اصول آج بھی ہماری زندگی کے لیے اسی طرح قابل عمل ہیں جس طرح تیرہ سو سال پہلے قابل عمل تھے۔ وہ یہ نہیں سمجھ سکے کہ لوگوں کا ایک گروہ جان بوجھ کر فتنہ اندازی سے یہ بات کیوں پھیلانا چاہتا ہے کہ پاکستان کا آئین شریعت کی بنیاد پر مدوّن نہیں کیا جائے گا۔‘‘
یعنی جو لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کا دستور شریعت کے مطابق نہیں بنے گا وہ فتنہ پرور اور شرارتی ہیں اور غلط پروپیگنڈا کر رہے ہیں۔
قائدا عظم کے حوالے سے مزید جان لیجیے کہ ان کی وفات سے دو تین دن پہلے پروفیسرڈاکٹر ریاض علی شاہ صاحب سے ان کی ملاقات ہوئی اور قائد اعظم نے ان سے فرمایا:
’’تم جانتے ہو کہ جب مجھے یہ احساس ہوتا ہے کہ پاکستان بن چکا ہے‘ تو میری روح کو کس قدر اطمینان ہوتا ہے! یہ مشکل کام تھا اور میں اکیلا اسے کبھی نہیں کر سکتا تھا‘ میرا ایمان ہے کہ یہ رسولِ خدا ﷺ کا روحانی فیض ہے کہ پاکستان وجود میں آیا۔ اب یہ پاکستانیوں کا فرض ہے کہ وہ اسے خلافت راشدہ کا نمونہ بنائیں تاکہ خدا اپنا وعدہ پورا کرے اور مسلمانوں کو زمین کی بادشاہت دے۔‘‘
پاکستان کا اسلامی فلاحی ریاست بننا تو ہمارے ایمان کا جزو ہے ہی لیکن اگر حقائق کو مدِنظر رکھتے ہوئے بھی پاکستان کے ماضی اور حال پر نگاہ ڈالی جائے تو ہر ذی شعور پاکستانی مسلمان اِس نتیجہ پر پہنچے گا کہ ہم نے اسلام سے دور ہٹ کر اور سیکولرازم کی راہ اختیار کر کے ذلت و خواری کے سوا کیا حاصل کیا ہے؟ سیاسی عدم استحکام، اقتصادی دیوالیہ پن اور بدترین معاشرتی بگاڑ اور عالمی قوتوں کی محتاجی بلکہ غلامی ہمارا مقدر بن گئی۔ آج صورتِ حال اس قدر مخدوش ہو چکی ہے کہ مملکتِ خدادادِ پاکستان مسلسل مصائب اور عذاب کے سائے میں ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ بقائے پاکستان کو مستحکم بنیادیں فراہم کرنے کے لیے نفاذِ عدلِ اسلام ناگزیر ہے جو اب تک تشنہ تکمیل ہے۔ اس سے فکر کا خلا پیدا ہو چکا ہے اور خلا کا پُر ہونا چونکہ فطری عمل ہوتا ہے لہٰذا لسانی ، نسلی اور جغرافیائی بنیادوں پر فتنے سر اُٹھانے لگے ۔ ہماری رائے میں ریاست کو ایک اکائی کی حیثیت سے قائم رکھنے اور اِسے مستحکم و مضبوط کرنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ کہ ہم اپنی اصل کی طرف لوٹیں۔ جس نظریہ کی بنیاد پر اِس ملک کو معرضِ وجود میں لایا گیا تھا، اُس نظریہ یعنی دینِ اسلام کو اپنے تمام تر نظام کی بنیاد اور جڑ قرار دے کر پاکستان کو ایک حقیقی اِسلامی ریاست بنانے کی جدوجہد کا آغاز کریں کیونکہ اسلام ہی پاکستان کی واحد بائنڈنگ فورس ہے۔ یہ بات واضح رہنی چاہیے کہ جو عمارت اپنی بنیادوں سے ہٹ کر تعمیر کی جائے گی، کبھی مضبوط و مستحکم نہ ہو گی اور گزرتے زمانے کے حوادث اُسے کسی وقت بھی زمین بوس کر سکتے ہیں۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں پاکستان کو صحیح معنوں میں ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانے کی جدوجہد کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
بقول علامہ اقبال:؎
تا خلافت کی بِنا دنیا میں ہو پھر استوارلا کہیں سے ڈھونڈ کر اسلاف کا قلب و جگر
tanzeemdigitallibrary.com © 2025