(اداریہ) ووٹ،انتخابات،جمہوریت اور اسلامی نظام - ایوب بیگ مرزا

8 /

اداریہایوب بیگ مرزاووٹ،انتخابات،جمہوریت اور اسلامی نظام

پاکستان میںعام انتخابات آیا ہی چاہتے ہیں بلکہ شاید بعض علاقوں میںہماری یہ تحریر پہنچنے تک الیکشن ہو چکے ہوں۔اِس تناظر میں ایک طرف ووٹ کے مقدس قومی امانت ہونے کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے تو دوسری طرف بعض اوقات ایسی بات بھی سامنے آتی ہے کہ ووٹ کا استعمال ناجائز ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جمہوریت، انتخابات اور ووٹ کے حوالے سے اگر تنظیم اسلامی کا مؤقف بیان کر دیا جائے تو بات ہر زاویہ سے واضح ہو جائے گی۔ تنظیم اسلامی ایک اصولی اسلامی انقلابی جماعت ہے جو اولاً پاکستان اور بالآخر ساری دنیا میں اسلام کو غالب کرنے کے لیے کوشاں ہے گویا دینِ اسلام کے جامع تصور پر یقین رکھتی اوراُسی جامع تصور کی بنیاد پرانقلابی جدوجہد کے ذریعے اُس نظام یعنی دینِ حق بالفاظِ دیگر خلافت جس کی خالص ترین عملی تعبیر خلافتِ راشدہ کے دور میں نظر آتی ہے کو قائم ونافذ اور غالب کرنے کی قائل ہے۔تنظیم اسلامی کی سوچی سمجھی رائے ہے کہ پاکستان میں نفاذِ اسلام ووٹ، انتخابات اور جمہوریت سے انتہائی مشکل دکھائی دیتا ہے بلکہ سچ پوچھیے تو یہ صرف انقلاب سے ہی ممکن دکھائی دیتا ہے۔ قرآن و سنت ہی سے اِستنباط کرتے ہوئے اسلامی انقلاب کے مراحل اخذ کیے جائیں گے۔ حضور ﷺ نے انقلاب کیسے برپا کیا تھا،بانی ٔتنظیم اسلامی ڈاکٹر اسراراحمدؒ نےاِسے واضح کردیا یعنی انقلاب نبویﷺ کا منہج مرحلہ وارہے،اُس کے مراحل کو کھول کر بیان کر دیا۔ یہ کتنے مراحل اور کس ترتیب سے ہیں، وہ اپنے خطابات میں واضح کر دیئے جنہیں جمع کرکے” منہج انقلاب نبویﷺ “کے نام سے ایک کتاب شائع ہوگئی لہٰذا اُس کی تفصیل کی یہاں ضرورت نہیں۔اصل بات یہ ہے کہ اس حقیقت میں رتی بھر کسی کو شک نہیں کہ مسلمانوں کے انفرادی اور اجتماعی مسائل کا حل صرف اور صرف اسلامی نظام میں ہے۔
سوال یہ ہے کہ جب تک اسلامی انقلاب کے ذریعے ایک حقیقی اسلامی فلاحی ریاست قائم نہیں کر دی جاتی اُس وقت تک کارِ سر کار کیسے چلایا جائے اور طرزِ حکومت کیا ہو۔اِس حوالےسے تاریخ یہ واضح کرتی ہے کہ جب سے دنیا انفرادیت سے آگے بڑھ کر اجتماعیت تک پہنچی ہے اورجب افراد قبائل کی صورت میں جمع ہوئے اور کسی نہ کسی انداز میں نظم و ضبط اور اصول یا قوانین طے کیے گئے اور حکم دینے اور سننے کا سلسلہ شروع ہوا تو دنیا نے سرداری نظام، بادشاہی نظام، فوجی ڈکٹیٹر شپ اور نظام خلافت کے تحت حکومتیں اور کارِ سرکار چلتا دیکھا ہم ببانگ دہل کہہ سکتے ہیں کہ منہج نبویﷺ کے مطابق خالص نظام خلافت اگرچہ مختصر ترین وقت کے لیے رہا لیکن اللہ کی مخلوق کے لیے اُس سے بہتر کوئی نظام نہ آسکا اور نہ آئندہ عین اِسی نوعیت کا نظام ممکن ہے۔یہی دور ایک سنہری دور تھا جب عدل اپنی معراج پر نظر آیا۔ جب شعبدہ بازی ہرگز نہیں تھی اور حُکام حقیقت میں خادم اعلیٰ تھے۔گویا حدیث ’’سيد القوم خادمهم‘‘(قوم کا سردار ان کا خادم ہوتا ہے)کا عملی نمونہ تھے۔ اِس دور میں حکومت کے سربراہ راتوں کو اُٹھ کر شہروں کی گلیوں میں چکر لگاتے تھے کہ کہیں کوئی بھوکا تو نہیں سویا، کسی پر ظلم تو نہیں ہوا۔ یقیناً یہی نظام اور طرزِ حکومت ہی مطلوب ہے کیونکہ جب اللہ کے بندے راضی ہوں گے تو اللہ بھی راضی ہو جائے گا۔ لیکن ظاہر ہے جب تک یہ دنیوی ہدف حاصل نہیں ہوتا یعنی اسلامی فلاحی ریاست قائم نہیں ہوتی تب تک کارِ ریاست تو چلانا ہے، ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر تو نہیں بیٹھنا ۔یہ انتظار تو نہیں کرنا کہ انار کی پیدا ہونے دو، دنگا فساد ہونے دو اور خاموش رہو ۔ چنانچہ دیکھنا یہ ہوگا کہ اسلامی نظام یا نظامِ خلافت تک پہنچنے سے پہلے کس طرزِ حکومت کو اِس عبوری دور میں سپورٹ کیا جائے اور کس کی مخالفت کی جائے۔پھر یہ کہ جس طرح ایک انسان کو زندہ رہنے کے لیے ہوا اور پانی کی ضرورت ہوتی ہےاِسی طرح جب تک نظام بدل نہیں جاتا اور اسلامی انقلاب آ نہیں جاتا ،مملکت کو زندہ رکھنے اور چلانے کے لیے کوئی نظام تو در کار ہوگا۔ اس پس منظر میں تنظیم اسلامی کی رائے میں بادشاہت یا فوجی ڈکٹیٹر شپ کی نسبت جمہوریت قابلِ قبول ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں یہ اس لیے بھی قابلِ قبول ہے کہ اِس میں اسلامی انقلاب کے لیے کام کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ آزادی حاصل ہے۔ آپ دروسِ قرآن و حدیث کے ذریعے عوام کی ذہن سازی کر سکتے ہیں، آپ حکومت کے کسی غیر اسلامی یا غیر شرعی کام کے خلاف جلسہ یا احتجاج کر سکتے ہیں۔ ریلیاں نکال سکتے ہیں، آپ مختلف رسائل و جرائد میںتحریروں اور سوشل میڈیا کے ذریعے اسلامی انقلاب کی طرف توجہ دلا سکتے ہیں۔ عوام الناس کو اسلامی طرزِ حکومت کے ثمرات بتا سکتے ہیں وغیرہ وغیرہ ۔جب کہ اِن میں سے کوئی کام بھی کسی بادشاہ یا فوجی طالع آزما کی مارشل لاء حکومت میں نہیں کیا جا سکتا ۔یہاں کم از کم سعودی عرب اور مصر کی مثال دی جا سکتی ہے۔
اب آجائیے ووٹ اور انتخابات کی طرف۔ کوئی بھی شخص بقائمی ہوش و حواس یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ خلافت راشدہ میں خلیفہ کے انتخابات کے لیےیہی ووٹنگ کا طریقہ اختیار کیا جاتا تھا جو آج ہے ۔ درحقیقت یہ سب ارتقائی مراحل طے کرنے کے بعد ہوا۔ حضورﷺ نے کسی کو اپنے بعد خلیفہ نامزد نہیں کیا تھا صرف حضرت ابوبکرصدیقؓ سے اپنے خصوصی تعلق کاذکر فرمایا اور علالت کے دوران اُنہیں نماز پڑھانے کا حکم دیا جسے ایک اشارہ کہا جاسکتا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ ایک مشاورت کے نتیجہ میں خلیفہ بنے ۔ حضرت عمرؓ کو حضرت ابوبکرؓ نے نامزد کیا۔ حضرت عمرؓ نے ایک چھ (6) رکنی کمیٹی قائم کر دی جن میں سے کسی کو خلیفہ منتخب کرنے کا کہا۔ اِس کمیٹی نے جس طرح حضرت عثمانؓ کے حق میں فیصلہ دیا، اُسے اُس دور کا ووٹنگ سسٹم کہا جا سکتا ہے۔ اِس لیے کہ چھ میں سے چار افراد نے دستبرداری کا اعلان کر دیا۔ اب میدان میں حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ رہ گئے۔ اُنہوں نے حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کو یہ اختیار دے دیا کہ وہ فیصلہ کریں کہ دونوں میں سے کون خلیفہ ہوگا ۔ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے مدینہ کے مردوں اور عورتوں سے یہاں تک کہ گلی میں کھیلتے بچوں سے حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ کے بارے میں رائے لی اور نتیجتاً حضرت عثمانؓ کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ اُس زمانے میں لوگوں کی رائے جاننے کے حوالے سے اِس سے بڑھ کر کیا کیا جا سکتا تھا۔ کیا آج پاکستان جیسے ملک جس کی آبادی پچیس (25) کروڑ ہے، اُس میں یہ طریقہ کار قابل عمل ہے کہ کوئی گلی گلی محلے محلے جا کر پوچھے کہ کسے صدر یا وزیراعظم بنایا جائے۔ لہٰذا ووٹنگ کا موجودہ طریقہ کار مجبوری ہے۔ گویا موجودہ جمہوریت، اِس خلا کے دوران جبکہ ابھی بوجوہ اسلامی نظام قائم نہیں ہے، کارِ سرکار چلانے کے لیے باقی طرز ہائے حکومت سے بہتر نظر آتی ہے۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ جب اسلامی نظام کے تحت اسلامی ریاست وجود میں آئے گی تب بھی حکومت سازی کا کوئی نہ کوئی طریقہ تو طے کیا جائے گا اور ظاہر ہے کہ 25 کروڑ لوگوں کو جمع کرکے فرداً فرداً یہ پوچھا نہیں جا سکے گا کہ کس کو خلیفہ کے منصب پر فائز کریں۔یہ بات تو یقینی ہے کہ پہلا خلیفہ انقلاب لانے والی جماعت کا سربراہ ہوگا اِس حوالے سے تو دو آرا نہیں ہیں لیکن بعد ازاں اُس طے شدہ طریقہ کے مطابق بات آگے بڑھے گی۔ جہاں تک اِس عبوری دور میں ووٹ دینے کا تعلق ہے تو تنظیم اسلامی کی انتخابی سیاست کے حوالے سے پالیسی یہ ہے کہ تنظیم اسلامی نہ بحیثیت جماعت ملکی انتخابات میں حصہ لے گی، نہ ہی اپنے کسی رفیق/رفیقہ کو اجازت دے گی کہ وہ کسی انتخاب میں خود بحیثیت امیدوار کھڑا/کھڑی ہو یا کسی دوسرے امیدوار یا جماعت یا محاذ کے حق میں کنویسنگ کرے۔البتہ رفقاء /رفیقات تنظیم اپنا حق رائے دہی، جو اصلاً قومی امانت ہے، ادا کرنے کے لیے کسی امیدوار کو ووٹ دے سکیں گے/گی۔ بشرطیکہ وہ امیدوارکم از کم ظاہری اعتبار سے فسق وفجور کا مرتکب نہ ہو۔ اور کسی ایسی جماعت سے وابستہ نہ ہو جس کے منشور یا اس کی اعلیٰ قیادت کے اعلانیہ نظریات و تصورات میں کوئی بات خلاف شریعت موجود ہو۔ اِن شرائط پر امیدوار اور اُس کی جماعت پوری اُترتی ہو تو اُسے ووٹ دیا جاسکتا ہے۔ تاہم نظم کے اعتبار سے اس ضمن میں متعلقہ رفیق/رفیقہ کی ذاتی رائے اور صوابدیدہی حتمی ہوگی۔
تنظیم اسلامی کے مطابق اِس عبوری دور میں انتخابات بروقت اور وقتاً فوقتاً اِس لیے ہونے بھی ضروری ہیں کہ لوگوں کی سوچ اور اُن کا طرزِ فکر سب پر عیاں رہے۔ وگرنہ اِس حوالے سے ہی دنگا فساد ہوتا رہے گا کہ کون حکمران بنے اور کون نہ بنے۔ بانی تنظیم ڈاکٹر اسرار احمدؒ فرمایا کرتے تھے کہ کوئی شےstuckنہیں ہونی چاہیے۔ پانی بھی ایک وقت تک کسی جگہ کھڑا رہے تو وہ بدبو دینے لگتا ہے۔ یہاں قارئین پر یہ بات بھی واضح کرنا ضروری ہے کہ اصلاً جمہوریت کس شے کا نام ہے اور یہ کب اور کہاں سے شروع ہوئی، لوگوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ جمہوریت ہر لحاظ سے مغرب کے طفیل ہمارے سامنے آئی یا یہ کہ جمہوریت کا تصور یونان نے دیا تھا۔ جس کی کوئی عملی صورت اُس وقت سامنے نہ آئی لیکن جمہوریت اگر عوام کی حکومت ہے، عوام سے ہے اور عوام کے لیے ہےاور اس میں اس بات کا بھی اضافہ ہو جائے کہ حاکمیت اعلیٰ اللہ کی ہوگی اور کوئی قدم،عمل یا قانون قرآن و سنت کے منافی نہیں ہوگا۔ تو اِس کا اصل نقشہ خلافت راشدہ کے دور میں دنیا نے دیکھا۔ پھر یہ کہ بعد میں حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ خلیفہ نامزد ہو جاتے ہیں لیکن اُس وقت تک خلیفہ بننے سے انکار کر دیتے ہیں جب تک اُنہیں وسیع مشاورت سے چُن نہیں لیا جاتا پھر یہ کہ تاریخ شاہد ہے کہ کیسے عوام کی فلاح اور اُن کے تحفظ کے لیے خلفاء راتوں کو سوتے نہیں تھے۔ خلیفہ کا معیار زندگی کسی طرح بھی ریاست کے غریب آدمی سے بہتر نہ تھا۔ خلیفہ وقت پتھر کو تکیہ بنا کر صحرا میں آرام سے سو جاتا تھا۔ لباس میں کئی پیوند لگے ہوتے تھے لیکن اگر عوام میں سے کوئی چاہے وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہو اگر بھیک مانگتا نظر آجاتا تھا تو خلیفہ انتظامیہ پر برہم ہو جاتا تھا۔
اس موقع پر یہ سوال اٹھتا ہے کہ تنظیم اسلامی کو اگر جمہوریت میں کچھ اوصاف نظر آتے ہیں تو تنظیم اسلامی خود جمہوری راستے کو اختیار کیوں نہیں کرتی اوروہ جمہوریت کے ذریعےاسلامی نظام کیوں نہیں لاتی؟ توسوال کے پہلے حصے کا جواب یہ ہے کہ تنظیم اسلامی نے جمہوریت کا حوالہ صرف اُس عبوری دور کے لیے دیا ہے جب ملک میں کوئی فرسودہ نظام ہو اور اسلامی انقلاب کے لیے جدوجہد جاری ہو لہٰذا اُس کا سوچا سمجھا فیصلہ ہے کہ انقلاب لانے کے لیے انقلابی جماعت کی ضرورت ہوگی جو سمع وطاعت فی المعروف کی بیعت کی بنیاد پر بنی ہو اور جہاں تک سوال کے دوسرے حصے کا تعلق ہے تو عرض ہے کہ جمہوریت بیچاری توخود انقلاب کی محتاج تھی وہ کیا انقلاب لائے گی یورپ میں انقلابِ فرانس نے عملی طور پر جمہوریت کو متعارف کروایا۔ قصہ کوتاہ اگر آپ تنظیم اسلامی کو اِن تمام حوالوں سے سمجھنا چاہتے ہیں تو جان لیں کہ وہ اُس نظام کے حق میں ہے جس میں قرآن و سنت کو مکمل بالادستی حاصل ہو، آئین ہو یا تعزیراتِ پاکستان ،شریعت کے حوالے سے کسی قانون یا فرد کو کسی بھی درجہ میں کوئی استثناء حاصل نہ ہو۔ عدل کا ڈنکا بج رہا ہو چاہے اُس کی زد میں حکمران یا اُس کی فیملی آجائے۔وقت کی حکومت کےپیشِ نظر وہ حدیث رہے جب آپ ﷺ نے قریش کی ایک فاطمہ نامی عورت کو چوری کے مقدمہ میںفیصلہ دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ اگر( بالفرض محال) فاطمہؓ بنت محمد ﷺ بھی( خدانخواستہ) چوری کرتیں تو اُن کا ہاتھ بھی کاٹ دیا جاتا۔