(الہدیٰ) آخرت میں نیکی کا اجر بڑھ چڑھ کر ملے گا - ادارہ

8 /
الہدیٰ
 
آخرت میں نیکی کا اجر بڑھ چڑھ کر ملے گا
 
آیت 84{مَنْ جَآئَ بِالْحَسَنَۃِ فَلَہٗ خَیْرٌ مِّنْہَاج } ’’جو کوئی نیکی لے کر آئے گا تو اُس کے لیے بدلہ ہوگا اس سے بہتر۔‘‘
سورۃ النمل کی آیت ۸۹ میں بھی یہ مضمون بالکل ان ہی الفاظ میں بیان ہوا ہے ۔
{وَمَنْ جَآئَ بِالسَّیِّئَۃِ فَلَا یُجْزَی الَّذِیْنَ عَمِلُوا السَّیِّاٰتِ اِلَّا مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ84}’’اور جو کوئی بُرائی لے کر آئے گا تو بُرائیوں کا ارتکاب کرنے والوں کو بدلہ نہیں دیا جائے گا مگر وہی کہ جو کچھ وہ کرکے لائیں گے۔‘‘
مطلب یہ کہ برائی کی سزا برائی کے عین مطابق دی جائے گی‘اس میں کسی قسم کا اضافہ نہیں کیا جائے گا۔ لیکن نیکوکاروں کے لیے ان کی نیکیوں میں اللہ تعالیٰ کے خاص فضل سے دس گنا سے سات سو گنا تک اضافہ کر دیا جائے گا‘ بلکہ غور کیا جائے تو ’’خَیْرٌ مِّنْہَا‘‘کی کوئی حد اور انتہا مقرر نہیں۔ جیسا کہ سورۃ البقرۃ میں ارشاد ہوا ہے : {وَاللہُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآئُ ط وَاللہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ(261)}’’اور اللہ جس کے لیے جتنا چاہے گا بڑھا دے گا۔ اور اللہ بہت وسعت والا خوب جاننے والا ہے‘‘۔ بہر حال ’’خَیْرٌ مِّنْہَا‘‘کے الفاظ میںسب سے نچلی سطح پر بھی یہ بشارت موجود ہے کہ تم جیسی بھی کوئی نیکی کر کے لے جائو گے وہاں اس کا اجر اس سے بہتر ہی ملے گا۔
 
درس حدیث 
 
اپنے نفس کا محاسبہ اور موت کی تیاری
 
 عَنْ شَدَاد بِنْ اُوْس ؓ، عِنِ النَّبِیْ ﷺ قَالَ  : (( اَلْكَيّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَهُ وَعَمِلَ لِمَا بَعْدَ الْمَوْتِ وَالْعَاجِزُ مَنْ أَتْبَعَ نَفْسَهُ هَوَاهَا وَتَمَنّٰى عَلَى اللهِ تَعَالٰى))(ترمذی)
سیدنا شداد بن اوس ؓ  نبی ﷺ سےروایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: ’’عقلمند وہ ہےجو اپنے نفس کا محاسبہ کرے اور موت کے بعد کی تیاری کرے۔ احمق اور بے وقوف وہ ہے جس نے اپنے نفس کو خواہشات کے تابع کیا اور الله سبحانہ وتعالیٰ سے بڑی بڑی تمنائیں رکھے۔‘‘
تشریح:اس حدیث مبارکہ میں عقل مند اور بے وقوف کی نشانی بتائی گئی ہے۔عقل مند شخص اپنی زندگی میں اپنے قول و فعل کا محاسبہ کرتا رہتا ہے اگر نیکیوں کا غلبہ معلوم ہو تو اللہ کا شکر ادا کرتا ہے اور اگر برائیوں کا غلبہ ہو تو توبہ استغفار کرتا ہے۔ بیوقوف شخص کا نفس اُس کی خواہشات کے تابع ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے امید بھی رکھتا ہے کہ اللہ میری مغفرت کرے گا۔ ہمیں اللہ تعالیٰ سے ہمیشہ یہ دعا مانگتے رہنا چاہیے:
   ((اَللّٰھُمَّ إِنِّیْ أَسْئَلُکَ نَفْسًا مُّطْمَئِنَّۃً تُؤْمِنُ بِلِقَائِکَ وَتَرْضٰی بِقَضَائِکَ وَتَقْنَعُ بِعَطَائِکَ))(سنن ابن ماجہ)
 ’’اے اللہ! ہم آپ سے وہ نفس مطمئنہ مانگتے ہیں جو آپ سے ملاقات کا یقین رکھے، آپ کے حکم پر اضی رہے اور آپ کی عطا پر قناعت کرے۔‘‘(آمین)