(اداریہ) 2024 ءتو گزر گیا … ہم نے کیا سبق سیکھا ؟ - خورشید انجم

8 /

اداریہ

خورشید انجم


2024 ءتو گزر گیا … ہم نے کیا سبق سیکھا ؟


شمسی سال2024 ءتو گزر ہی گیا …دیکھنا یہ ہے کہ ہم نے کیا سبق سیکھا ؟یہ تو دنوں کا اُلٹ پھیر ہے اور اس سال نے بھی بیتنا ہی تھا۔ اِس دوران میں کئی ہونیاں اور کئی انہونیاں بھی ہوئیں جنہیں ہم قدرت کا لکھا کہیں یا اپنی شامتِ اعمال، بہرحال یہ سب ہونیاں،انہونیاں ہو چکیں ۔حقیقت یہ ہے کہ اُمت ِمسلمہ کے لیے تو شاید یہ جملہ بھی اب اپنی اہمیت کھو چکا ہے کہ’’ ہمیں اپنی غلطیوں سے سبق لینا چاہیے‘‘،کیونکہ یہ جملہ لکھا اور بولا تو جاتا ہے مگر تاثیر نہیں رکھتا ۔ سال گزشتہ کاجائزہ لیتے ہوئے تو اِس بات کا بڑی شدت سے احساس ہوا کہ اُمتِ مسلمہ نے بالعموم اور پاکستانی قوم نے بالخصوص جیسےدوسروں کی یا خود اپنی غلطیوں سے سبق لینا غیر ضروری قرار دے رکھا ہے۔
سال گزشتہ کے اوراق پلٹنے سے مستحضر ہوا کہ 16 جنوری کو ایران کا ایک میزائل پاکستان کی سرزمین پر گرنے سے تین افرادشہیدہوگئے جن میں سے ایک خاتون اور دو معصوم بچے تھے ۔ اِس سانحہ کے بعد پاکستان نے ایران سے اپنے سفیر کو واپس بلا لیا اور ایرانی سفیر جو بوجوہ ایران میں ہی تھے ،انہیں پاکستان واپس نہ آنے کے لیے کہہ دیا۔یہ بھی خبر تھی کہ ایران نے پاکستان کے ساتھ ساتھ عراق اور شام میں بھی حملے کئے ۔مگر ماضی کی تلخ حقیقتوں سے صرفِ نظر کرتے ہوئےہمسایہ برادر مسلم ممالک سال کے آغاز میں ہی ایک مرتبہ پھر آپس میں لڑ پڑے۔چند روز بعد ہی پاکستان نے طورخم بارڈر کو ایک مرتبہ پھر بند کردیا جس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ افغانستان سے دہشت گرد اِسی راستے سے پاکستان آتے ہیں ۔ طورخم بارڈر کی یہ بندش پہلی مرتبہ نہیں ہوئی تھی اوراس بندش سے افغانستان کے عوام کے ساتھ ساتھ حکومت کو بھی پریشانی ہوئی مگر پاکستان کے تاجر بھی اس سے سخت پریشان ہوئے ،مگرحسبِ سابق سبق حاصل نہیں کیا گیا کہ مل بیٹھ کر مسائل کا دیر پا اور اصلی حل تلاش کرنادونوں برادر ہمسایہ ممالک کے لیے ناگزیر ہے۔
فروری میں پاکستان میں عام انتخابات کا انعقاد ہوا۔ ہم ان انتخابات کے ماقبل کی صورتحال پر بحث نہیں کریں گے کیونکہ اِسی فورم سےہم اِس پر سیر حاصل گفتگو کر چکے ہیں۔کس طرح ایک پارٹی کو انتخابات سے باہر رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی اور ریاست بشمول عدلیہ نے بلا مبالغہ فسطائیت پر مبنی حربے استعمال کیے۔ البتہ ہر سوچنے سمجھنے والا پاکستانی جانتا ہے کہ انتخابات کے دن سےاسٹیبلشمنٹ نے2013ء اور 2018ء کی طرح ایک مرتبہ پھر اپنی جادوئی چھڑی گھما دی ۔الیکشن کمیشن اور عبوری حکومت سب نے یہی دعویٰ کیا کہ عوامی مینڈیٹ کا احترام کیا جائے گا مگر انتخابات کے نتائج نے فارم 45 سے فارم 47 تک کے سفر کی ایک نئی تاریخ رقم کر دی۔ نتیجتاً جو حکومت بنائی گئی وہ عوامی مینڈیٹ کی بجائے کسی اور کی خواہشات کی عکاس تھی۔ بہرحال داخلی سطح پر مختلف سیاسی جماعتوں اور مقتدر حلقوں کے مابین سر پھٹول جاری ہے۔ ہمارا تو روزِ اوّل سے یہی موقف رہاہے کہ الیکشن کی سیاست سے چہرے تو بدل سکتے ہیں لیکن فرسودہ نظام کو بدلنا ممکن نہیں۔ہمیں یقین ہے کہ سیاسی جماعتیں اور مقتدر حلقے ملک و قوم سے مخلص ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ اس نوعیت کے اقدامات کے اصل مظاہر و مقاصد بعد میں سامنے آیا کرتے ہیں۔آئی ایم ایف نے قرضے کی سخت ترین شرائط رکھیں اورحکومت و مقتدر حلقوں کی خون آلود ناک سے لمبی لمبی لکیریں کھنچوائیں۔ بہرحال آئی ایم ایف سے سودی قرضہ تو حاصل کر لیا گیا اور اس پر خوب دھمال ڈالا گیا۔ اگرچہ بعض معاشی اشاریے اب بہتری کا عندیہ دے رہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ عوام بدستور مہنگائی کے پہاڑ تلے بری طرح پسے ہوئے ہیں اورریلیف کے منتظر ہیں۔ وفاقی شرعی عدالت کا 2022ء کا سود کے خلاف فیصلہ ہنوز شرمندہ تعبیر ہے۔ بھلا اللہ اور اس کے رسولﷺ سے جنگ کی حالت میں رہتے ہوئے بھی کوئی مسلم قوم صحیح معنوں میں کیسے ترقی کرسکتی ہے؟یہی بات قادیانی مبارک ثانی کے خلاف مقدمے کےعدالتی فیصلہ میں نظر آئی۔حقیقت یہ ہے کہ اگر دینی و مذہبی جماعتیں، وکلاء تنظیمیں اور عوام الناس اس معاملے پر از خود نوٹس نہ لیتے تو ملک میں ایک اور واردات ہوا چاہتی تھی۔ عقیدہ ختم نبوت کے ان جان نثاروں نے اس معاملے پر ایک تحریک کا سا سماں باندھا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عدالت عظمٰی نے اپنے سابقہ فیصلے واپس لے لیے جو یقیناً ایک خوش آئند سنگ میل سے کم نہیں۔یقیناًایک مرتبہ پھر یہ پہلو سامنے آیا کہ ایک پُرامن احتجاجی تحریک ہی نظام کو بدلنے کا واحد ذریعہ ہے۔
اسرائیل کی غزہ پر وحشیانہ بمباری سال بھر بلا تعطل جاری رہی۔ میڈیا میں بتائے جانے والے اعداد و شمار کے مطابق تقریباً 45000 مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا ہے۔ جن میں اکثریت بچوں اور عورتوں پر مشتمل ہے۔ایک لاکھ سے زائد افراد شدید زخمی ہیں اور اس سے تقریباً دو گنا زائدملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔پھر یہ کہ غزہ کے سکولوں، ہسپتالوں، پناہ گزین کیمپوں پر صہیونی فوج کی بمباری جاری ہے اور اطلاعات کے مطابق غزہ میں 90 فیصد گھر تباہ کر دیئے گئے ہیں۔لہٰذا گمان ہے کہ شہداء اور زخمیوں کی حقیقی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ بیس لاکھ سے زائد افراد تک بجلی، گیس، تیل کے علاوہ خوراک، پانی اور جان بچانے والی ادویات کی رسائی بھی روک دی گئی ہے۔ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل غزہ میں مسلمانوں کی نسل کُشی پر تلا ہوا ہے۔ 2024ء کے دوران تحریک مزاحمت کے کئی اعلیٰ عہدیداران کو شہید کر دیا گیا۔ اسرائیل نے جنگ کا دائرہ پھیلا کر لبنان، ایران اور یمن کو بھی نشانہ بنایا۔ مگر اہل غزہ نے بھی یہ ثابت کیا کہ اُنہیں جتنا زیادہ دبایا جائے گا وہ اتنا ہی زیادہ ابھریں گے۔ ناجائزصہیونی ریاست، گریٹر اسرائیل کے منصوبے کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے تیزی سے عمل درآمد کر رہا ہے۔ غیروں سے کیا گِلا، المیہ تو یہ ہے کہ مسلمان ممالک میں سے بھی کسی نے اسرائیل کے ظالمانہ اقدام کو روکنے اور مسجد اقصیٰ کی حفاظت کے لیے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا۔ اسی دوران میں وفاقی دارالحکومت کے ڈی چوک میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف ایک مظاہرہ کرنے والوں پر ایک ’’نامعلوم شخص‘‘ نے گاڑی چڑھا دی جس سے دو افراد شہید اور متعدد زخمی ہوگئے ۔ ڈی چوک اسلام آباد جیسے حساس علاقے میں ایسی واردات کی کوئی سی سی ٹی وی فوٹیج کاسامنے نہ آنا ایک اور سوالیہ نشان چھوڑ گیا۔گویا:
حمیت نام ہے جس کا، گئی تیمورَّ کے گھر سےالبتہ اسرائیل کے ان انسانیت سوز مظالم بلکہ جرائم کے خلاف سال بھر امریکہ اور کئی دیگر مغربی ممالک کی مختلف یونیورسٹیوں میں طلبہ اور پروفیسرز کا شدید احتجاج دیکھنےمیںآیا۔
مارچ 2024ء میں سقوط خلافتِ عثمانیہ کو سو سال مکمل ہوگئے۔حقیقت یہ ہے کہ خلافتِ عثمانیہ کے خاتمے سے ہی مسلمانوں کا اصل زوال شروع ہوا جو آج تک جاری ہے، مگراُمت اور اس کے حکمران و مقتدر طبقات یہ سبق حاصل کرنے کے لیے بھی تیار نہیں کہ اگر وہ متحد ہو کر اپنی طاقت میں اضافہ کریں اور غیرت دینی و حقیقی ایمان کا مظاہرہ کریں تو صرف اسی صورت میں اسرائیل سمیت دنیا کی تمام طاغوتی قوتوں کو منہ توڑ جواب دیا جا سکتا ہے۔
جون میں منعقدہ بھارت کے عام انتخابات میں نریندر مودی مقبولیت میں کمی کے باوجود مسلسل تیسری مرتبہ وزیراعظم منتخب ہوئے تو جیسے بی جے پی نے بھارتی مسلمانوں کو واضح طور پیغام دے دیا کہ بھارت اب صرف ہندؤوں کا ہی ہے اور یوںبھارت میں اقلیتی بے توقیری اور ہنود و یہود کے گٹھ جوڑ کے ایک نئے باب کا آغاز ہوگیا۔
پاکستان میں 26ویں آئینی ترمیم کا بل منظور ہونے سے قبل جس طرح کی بے چینی اور بے یقینی کی سی صورتحال تھی اس کی شدت لاہور کے ایک نجی تعلیمی ادارے کی ایک طالبہ کے ساتھ جنسی زیادتی کی خبر نے بہت کم کردی۔ عوام الناس اِسی بحث میں اُلجھے رہے کہ اُس طالبہ کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے یا نہیں اور مقننہ میں 26ویں آئینی ترمیم کا بل پاس بھی ہوگیا جس کے بارے میں تصور کیا گیا تھا کہ اِس بل کا پاس ہونا بہت مشکل ہے ۔ اکتوبر کے اختتام پر صوبہ بلوچستان اور خیبر پختونخوامیں ایک مرتبہ پھرسیکورٹی فورسزپردہشت گرد حملے کئے گئے جس میں ملک عزیز کا وہ نقصان ہواجو کہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔کرم اور پارہ چنار میں حالات بدستور انتہائی کشیدہ ہیں۔
شام میں بشار الاسد حکومت کی شام ہوئی۔اس کا یہ فائدہ تو ضرور ہوا کہ 53سالوں سے اسد خاندان جو کہ ایک ایسے مذہبی گروہ سے تعلق رکھتی تھی جو اہلِ سنت اور اہلِ تشیع دونوں کے نزدیک دائرہ اسلام سے خارج ہے اور جس خاندان کے ادوار حکومت میں شام کی 75 فیصد مسلمان آبادی پر شدید ترین اور انسانیت سوز ظلم و ستم کیا گیا، بالاخر اُس کا خاتمہ ہو گیا۔ ایک تجزیہ یہ بھی ہے کہ بشار الاسد کی حکومت کے جانے سے گریٹر اسرائیل کے حصول کی راہ کسی حد تک ہموار ہوتی ہوئی محسوس ہوئی ہے ۔ تاہم اس حوالے سے حتمی طور پر کچھ کہنا قبل از وقت ہے کیونکہ اسد خاندان نے 1974ء سے اسرائیل کو ہمیشہ سکون کا سانس لینے دیا اور اس دوران اسرائیل نے نہ صرف گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ مضبوط کیا بلکہ اس اہم ترین شامی خطہ کو اسرائیل میں شامل بھی کر لیا اور بشار حکومت کے گرتے ہی اسرائیل خود کو محفوظ کرنے کے لیے گولان میں بالفعل داخل ہوگیا۔ بہرحال عالمی استعماری قوتوں کی یہ خواہش ہے کہ شام جس کی فضیلت کے بارے میں نبی اکرم ﷺ کی احادیث مبارکہ موجود ہیں اور جہاں حضرت مہدی اور حضرت عیسیٰ بن مریم ؑ دجال سے مقابلہ کریں گے وہ کمزور سے کمزور ہوتا رہے۔ طاغوتی قوتیں حفظِ ماتقدم کے طور پر اپنے تئیں حفاظتی تدابیر کر رہے ہیں۔ لیکن بالآخر ہوگا وہی جو اللہ چاہے گا۔{وَمَکَرُوْا وَمَکَرَ اللہُ ط وَاللہُ خَیْرُ الْمٰکِرِیْنَ (54)} (آل عمران)
نومبر کے مہینے میں ڈونلڈ ٹرمپ دوسری مرتبہ امریکہ کے صدر منتخب ہو گئے۔ نومنتخب صدر بے شک ابھی تک اپنے دفتر’’سفید گھر‘‘ تک نہیں پہنچے ہیں مگر پاکستان سمیت عالمی سیاست پر ان کے منتخب ہونے کے اثرات ظاہر ہونا شروع ہوچکے ہیں۔بے شک امریکہ کی یہ خواہش ہے کہ پاکستان اور افغانستان آپس میں گتھم گتھا ہو جائیں اور خراسان کا وہ خطہ کہیں تشکیل نہ پا جائے جس کے بارے میں احادیث میں بشارت آئی ہے۔
ہفتہ عشرہ قبل پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام سے متعلق 4کمپنیوں پر آئی ایم ایف کے مائی باپ امریکہ نے پابندیاں لگا دیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ امریکہ کو راضی کرنے کے لیے جب جب اقدامات کیے گئے تب تب ملک و قوم کو نقصان کے سوا کچھ نہ ملا۔
حقیقت یہ ہے کہ سال نو یعنی 2025ء مسلم ممالک بشمول پاکستان کے لیے اپنے ساتھ نئی آزمائشیں لے کر آن وارد ہوا ہے۔جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو ہم ایک عرصہ سےیہ بات کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کے پاس اِس کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے کہ جس نظریہ کی بنیاد پر پاکستان معرضِ وجود میں آیا تھا، اُسےعملی تعبیر دی جائے۔ یعنی اسلام کا عادلانہ نظام یہاں قائم و نافذکیا جائے۔ جس دُنیوی امتحان سے آج پاکستان گزر رہا ہےاُس کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ کتنے خوش قسمت ہیں پاکستان کے مسلمان کہ اُن کی دنیا اور آخرت کی کامیابی ایک ہی راستے سے جڑی ہوئی ہے۔ لہٰذا سب مل کر پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنائیں تاکہ یہ دنیا کی سپر پاوربن سکے۔ دین کو سربلند کرنے کی جدوجہد کریں گے تو آخرت میں بھی کامیاب و کامران ٹھہریں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اِس کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارا حامی وناصر ہو۔ آمین یا رب العالمین!