(منبرو محراب)  صلہ رحمی اور شام کے حالات - ابو ابراہیم

8 /

 صلہ رحمی اور شام کے حالات

(سورۃ النساء کی پہلی آیت کی روشنی میں )

 

مسجد جامع القرآن ، قرآن اکیڈمی لاہور میںامیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ حفظ اللہ  کے20دسمبر 2024ء کے خطاب جمعہ کی تلخیص

 

خطبۂ مسنونہ اور تلاوتِ آیاتِ قرآنی کے بعد!
اللہ کے نبی ﷺکے جو عمومی خطبات ہوا کرتے تھے اُن میں آپ ﷺچار آیات کی اکثر تلاوت فرمایا کرتے تھے۔ ان چار آیات میں سورہ نساء کی پہلی آیت بھی شامل ہے۔ بالخصوص خطبہ نکاح میں بھی یہ آیت شامل ہوا کرتی تھی ۔آج ہم اسی آیت کا مطالعہ کریں گے اور اس کے بعد ان شاء اللہ شام کے حالات کا تذکرہ بھی ہوگا ۔ فرمایا :
{یٰٓــاَیـُّــہَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّـکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّـفْسٍ وَّاحِدَۃٍ} ’’اے لوگو! اپنے اس رب کا تقویٰ اختیار کرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا۔‘‘ 
یہ تمام پیغمبروں کی دعوت کا بنیادی نکتہ ہے۔ سورہ شعراء میں چھ رسولوں کے حالات کا اہتمام کے ساتھ تذکرہ ہے ۔ وہاں بھی ہر رسول نے اپنی قوم کو یہی دعوت دی ہے :
{فَاتَّقُوا اللہَ وَاَطِیْعُوْنِ(144)} (الشعرا:144)  ’’پس اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔‘‘
انسانی اصلاح کی اصل بنیاد خوفِ خدا ہے۔ یہ خوف ِ خدا ہی تھا کہ خلیفۃ المسلمین حضرت عمر ؄ دنیا کے عظیم حکمران ہونے کے باوجود راتوں کو اُٹھ کر گلیوں میں گشت کیا کرتے تھے کہ جائزہ لے سکیں کہ اُن کی حکومت میں کوئی انسان بھوکا ، پیاسا ، مصیبت زدہ یا تکلیف میں تو نہیں ہے ۔ دوران گشت ایک مرتبہ وہ تھک کر ایک گھر کے سامنے تھوڑی دیر کے لیے بیٹھ گئے۔ اندر سے ایک عورت کی آواز آئی جو اپنی بیٹی سے کہہ رہی تھی کہ دودھ میں تھوڑا ساپانی ملا دو کونسا عمر دیکھ رہا ہے ۔ بیٹی نے کہا ماں! عمرنہیں دیکھ رہا مگر عمر کا رب تو دیکھ رہا ہے ۔ یہ خوف ِ خدا ہی تھا جو اس بیٹی کو یہ کہنے پر مجبور کر رہا تھا ۔ تقویٰ  وہ شے ہے جو بندوں کو سات پردوں میں بھی صراط مستقیم پر قائم رکھ سکتاہے اور اگر خوف ِخدا اُٹھ جائے تو پھر جتنے مرضی چیکس اینڈ بیلنسز لگاتےپھریں ، کرپشن اور دیگر جرائم کوروکا نہیں جا سکتا ۔ انسان اپنی عقل کے مطابق چیکس اینڈ بیلنسز بناتا ہے کہ کرپشن کو کیسے روکنا ہے ، اس کے لیے قوانین اور پالیسیاں بناتاہے ۔ لیکن دوسری طرف وہی انسانی عقل اُن قوانین کا توڑ بھی نکال لیتی ہے۔ جیسا کہ ہمارے ہاں باقاعدہ کنسلٹنٹس ہوتے ہیںکہ FBR والوں کو کیسے ڈیل کرنا ہے ،  اپنے اعداد وشمار کی پریزنٹیشن میں ونڈو ڈریسنگ کیسے کرنی ہے اور ٹیکس کنسلٹنٹس کی خدمات حاصل کرکے اپنے ٹیکس کوکیسے بچانا ہے ۔ہائی ویز پر سپیڈ کو چیک کرنے کے لیے کیمرے لگے ہوتے ہیں، اس کے بعد گاڑیوں میں جیمرز لگادیے گئے ۔ پھر ان کے توڑ کے لیے اینٹی جیمرز آنا شروع ہوگئے ۔ لہٰذا عقل کا توڑ عقل سے ہی ہوجاتا ہے۔ میں آڈٹ کی فیلڈ میں رہا ہوں۔ ہمیں پتا ہے کہ چیکس اینڈ بیلنسز کے لیے کروڑوں  روپے کے لاحاصل اخراجات کرنا پڑتے ہیں۔لیکن اگر دلوں میں خوفِ خدا ہو تواربوں ڈالرز کے اخراجات کے بغیر بھی نظام درست ہو جائے گا ۔ جیسا کہ خلافت راشدہ کی تاریخ میں ہم اِس کی مثالیں دیکھ سکتے ہیں ۔ آگے فرمایا :
{وَّخَلَقَ مِنْہَا زَوْجَہَاوَبَثَّ مِنْہُمَا رِجَالاً کَثِیْرًا وَّنِسَآءً ج}(النساء:1)   ’’اور اُسی سے اس کا جوڑا بنایا‘اور ان دونوں سے پھیلا دیئے (زمین میں) کثیر تعداد میں مرد اور عورتیں۔‘‘ 
جیسا کہ پہلے بتایا گیا کہ یہ آیت آپ ﷺ نکاح کے خطبہ میں پڑھا کرتے تھے ۔ نکاح کا ایک مقصد جہاںباحیا اور باوقار معاشرے کا قیام ، خاندانی نظام کو مضبوط کرنا اور زوجین کے لیے سکون کا حصول ہے وہاں اس کا ایک بڑا مقصد اولاد کا حصول بھی ہے۔ کسی بھی قوم کو معدوم ہونے سے بچانے کے لیے سالانہ شرح پیدائش کم ازکم 1.8 ہونی چاہیے۔ جن معاشروں  میں نکاح کی پاکیزہ روایت دم توڑ رہی ہے وہاں سالانہ شرح پیدائش  1.8 فیصد سے بھی نیچے آچکی ہے۔ اِس کی وجہ سے اُن قوموں کو اپنے مٹ جانے کا خدشہ لاحق ہو گیا ہے جبکہ دوسری طرف مسلمانوں کی سالانہ شرح پیدائش اوسطاً 3.5  فیصد سے زائد ہے ۔ اس وجہ سے بھی باطل قوتوں کو یہ پریشانی لاحق ہو گئی ہےکہ مسلمان تو دنیا پر غالب آجائیں گے ۔ بہرحال غلبہ تو اسلام کا ہونا ہی ہے اور ہمیں بھی عزت اسلام کی وجہ سے ملے گی، یہ محض افرادی قوت کا مسئلہ نہیں ہے۔آگے فرمایا:
{وَاتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیْ تَسَآءَ لُوْنَ بِہٖ وَالْاَرْحَامَ ط} ’’اور تقویٰ اختیار کرو اُس اللہ کا جس کا تم ایک دوسرے کو واسطہ دیتے ہو‘ اور رحمی رشتوں کا لحاظ رکھو۔‘‘ 
رشتوں کے بندھن میں تقویٰ کی اس قدر اہمیت اور ضرورت ہے کہ یہاں ایک مرتبہ پھر اس کا تقاضا کیا جا رہا ہے ۔ نکاح کے موقع پر ایک تو ضابطے کی کارروائی ہوتی ہے کہ دو گواہ لڑکے کی طرف سے ہوں گے اور دو گواہ لڑکی کی طرف سے ہوں گے ، لڑکی کی طرف سے ایک وکیل ہوگا۔ اِن سارے ضابطوں کے باوجود اصل چیز تقویٰ ہے۔ اگر خدا کا خوف نہ ہو تو یہ سارے ضابطے بھی رشتوں کے تقدس کو برقرار رکھنے میں ناکام ہوجاتے ہیں ، نہ گھر بچتے ہیں اور نہ ہی معاشرے سلامت رہتے ہیں ۔  اِس لیے فرمایا جارہا ہے کہ جس اللہ کا نام لے کر تم نکاح کا بندھن باندھتے ہو اُسی اللہ کا خوف دل میں رہے گا تو سارے معاملات ٹھیک رہیں گے ۔ 
دوسری بات یہ بیان ہوئی کہ رحمی رشتوں کا لحاظ رکھو ۔ یعنی ماں باپ کا ادب کرو ، بڑوں کی عزت کرو ، چھوٹوں پر شفقت کرو ۔ گستاخی ، سرکشی اور بغاوت والا رویہ نہیں ہونا چاہیے۔ مگر آج کے پُرفتن دور میں بچے بڑوں کا ادب نہیں کرتے ، والدین کی نافرمانی ، گستاخی حتیٰ کہ توہین آمیز رویہ بڑھتا جارہا ہے الا ماشاء اللہ ۔ یہاں تک کہ بڑھتا ہوا دجالی فتنہ نوجوانوں سے’’ میرا جسم میری مرضی‘‘ جیسے باغیانہ نعرے بھی لگوا رہا ہے ۔ یہ ساری بغاوت اور سرکشی اِسی وجہ سے ہے کہ اللہ کا خوف دلوں سے جاتا رہا ہے ۔ حالانکہ یہ خوفِ خدا ہی تھا جو ہماری معاشرت اور اقدار کو مثالی رکھے ہوئے تھا ۔ آج بھی گھروں میں جب جھگڑا ہو تا ہے تو بڑے بوڑھوں کا آخری جملہ یہی ہوتاہے کہ خداکے لیے باز آجاؤ ، خدا کا خوف کرو، خدا کے واسطے مان جاؤ ۔ اگر یہ خوفِ خدا دلوں میں ہوگا تو رشتے بھی مثالی ہوں گے اور معاشرے بھی مثالی ہوں گے ورنہ سب کچھ تلپٹ ہو جائے گا ۔ قرآن میں اللہ فرماتاہے :
’’اورجو کچھ تمہارے دلوں میں ہے خواہ تم اسے ظاہر کرو خواہ چھپائو اللہ تم سے اس کا محاسبہ کر لے گا۔پھر وہ بخش دے گا جس کو چاہے گا اور عذاب دے گا جس کو چاہے گااور اللہ ہر چیز کی قدرت رکھتا ہے۔‘‘  (البقرہ:284)
دوسری جگہ فرمایا :
{یَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ اَخْبَارَہَا0} (الزلزال) ’’اُس دن یہ زمین اپنی خبریں کہہ سنائے گی۔‘‘
آگے فرمایا :
’’توجس کسی نے ذرّہ کے ہم وزن بھی کوئی نیکی کی ہو گی وہ اُسے دیکھ لے گا اور جس کسی نے ذرّہ کے ہم وزن کوئی بدی کی ہو گی وہ بھی اُسے دیکھ لے گا۔‘‘(الزلزال)
آخرت کی اِس جوابدہی کا احساس اور خوف دلوں  میں ہوگا تو ہمارے سب معاملات درست ہو جائیں گے ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کے حساب کو آسان فرمائے ۔ آمین ! 
رحمی رشتوں کے حوالے سے ہمارے دین نے بڑی توجہ دلائی ہے ۔ بخاری شریف میں ایک حدیث قدسی نقل ہوئی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : جو رحمی رشتوں کو جوڑے گا اللہ تعالیٰ اُس کو(اپنی رحمت کے ساتھ) جوڑے گا ۔ جو اُسے توڑے گا میں بھی اُس کو توڑ کر رکھ دوں گا ۔ 
آج ہم اپنے معاشرے میں یہ جملے سنتے ہیں کہ سگے بھائی سے تین سال سے بات نہیں ہوئی ، پانچ سال سے چچا نے ہمارے گھر میں قدم نہیں رکھا ۔ دوسال سے بہن کی شکل نہیں دیکھی ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون! یہ کوئی فخر کی بات نہیں ہے بلکہ لمحہ فکریہ ہے ۔ اللہ کا دین تو بندہ مومن کو تین دن سے زیادہ کسی مسلم سے ناراضگی کی اجازت نہیں دیتا ہے ۔ سوائے اس کے کہ اسلام و کفر کا معاملہ ہو ۔    اللہ کے رسول ﷺکی یہ حدیث بھی بہت معروف ہے :
((مَنْ أَحَبَّ لِلّٰہِ وَأَبْغَضَ لِلّٰہِ وَأَعْطٰی لِلّٰہِ وَمَنَعَ لِلّٰہِ فَقَدِ اسْتَکْمَلَ الإْیمَانَ))’’جو شخص اللہ کے لیے محبت رکھے اور اللہ کے لیے بغض رکھے اور اللہ ہی کے لیے کوئی چیز دے اور اللہ ہی کے لیے روکے(نہ دے)تو اس نے ایمان مکمل کر لیا۔‘‘
      مسلمان کا رویہ یہ ہوکہ اُس کی ذات دوسروں کے لیے سلامتی اور امن کا باعث بنے ۔ ایک اور معروف حدیث میں ذکر ہے کہ :
((لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ قَاطِعٌ))(بخاری) ’’قطع رحمی کرنے والا کبھی جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ ‘‘
اِسی طرح اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا کہ جو چاہتا ہے کہ اُس کی عمر میں اضافہ ہو ، اُس کے رزق میں اضافہ ہو تو اُسے چاہیے کہ وہ صلہ رحمی کرے۔ یعنی جن رشتوں کو اللہ نے جوڑے رکھنے کا اور اُن کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے کا حکم دیا ہے اُن کے ساتھ بھلا سلوک کرے ۔ اسی طرح اللہ کے پیغمبر ﷺکی دو احادیث کا حاصل یہ ہے کہ جس نیکی کا اجر اللہ دنیا میںجلد عطا کرتاہے وہ صلہ رحمی کرنا ہے۔ اس کےبرعکس جن گناہوں کی سزا اللہ جلد دنیا میں دیتا ہے ان میں قطع رحمی، ماں باپ کو ستانا ، قریبی رشتہ داروں پر ظلم اور ناانصافی کرنا شامل ہے ۔ 
صلہ رحمی اور حسن سلوک کے لیے ضروری نہیں کہ آپ مال ہی خرچ کریں ، بلکہ آپ کا اچھا برتاؤ ، دُکھ سُکھ میں کام آنا ، نیک مشورہ دینا ، مشکل میں کام آنا ، مسائل کے حل میں تعاون کرنا ، تیمارداری کرنا ، اللہ سے ان کے حق میں ایمان ، صحت ، سلامتی اور بخشش کی دعا کرنا بھی صلہ رحمی میں شامل ہے ۔تاہم مالی لحاظ سے جن رحمی رشتوں کی کفالت بندے کے ذمہ ہوتی ہے جیسا کہ ماں باپ ، بیوی بچے ، دادا دادی ، نانانانی ، پوتا پوتی ان کو زکوٰۃ نہیں دی جا سکتی کیونکہ ان کی کفالت بندے پر لازم ہے ۔ البتہ ان کے علاوہ جو رشتے ہیں، جیسا کہ چچا چچی، ماموں ممانی وغیرہ ان کو زکوٰۃ دی جاسکتی ہے ۔ حدیث میں ذکر ہے کہ    رشتہ داروں کی مالی مدد کرنے کا دہرا اجر ہے ۔ ایک تو مال دینے کا اجر، دوسرا صلہ رحمی کا اجر ۔ 
ہمارے ہاں عام تصور ہے کہ جو رشتہ دار ہمارے ساتھ بُرا سلوک کرے اس کے ساتھ نہ صرف قطع تعلقی کر لیتے ہیں بلکہ اگر وہ ضرورت مند اور مستحق بھی ہو تو اس کی کوئی مدد نہیں کرتے ۔ جبکہ امام الانبیاءﷺ نے فرمایا صلہ رحمی یہ نہیں ہے کہ کسی نے تمہارے ساتھ بھلا سلوک کیا تو تم بھی اُس کے ساتھ بھلا سلوک کرو بلکہ صلہ رحمی تو یہ ہے کہ جو رشتہ دار تمہارے ساتھ بُرا سلوک کرے اس کے ساتھ بھی تم اچھا سلوک کرو ۔ یہ اصل امتحان ہے اور اللہ کی جنت سستی نہیں ہے ۔ بڑے امتحانوں سے گزرنے کے بعد اللہ کی جنت نصیب ہو سکتی ہے ۔ قرآن میں فرمایا:
 ’’اور (دیکھو!) اچھائی اور برائی برابر نہیں ہوتے۔ تم مدافعت کرو بہترین طریقے سےتو (تم دیکھو گے کہ) وہی شخص جس کے اور تمہارے درمیان دشمنی ہے وہ گویاگرم جوش دوست بن جائے گا۔اور یہ مقام نہیں حاصل ہو سکتا مگر ان ہی لوگوں کو جو بہت صبر کرتے ہوںاور یہ نہیں دیا جاتا مگر ان ہی کو جوبڑے نصیب والے ہوں۔‘‘(حٰمٰ السجدہ:34،35)
 یہ مقام اور مرتبہ ان کو ہی ملتا ہے جن کے کردار ، اخلاق اور معاملات اچھے ہوں ۔ حضورﷺ پر جب پہلی وحی نازل ہوئی تھی تو ان لمحات میں ام المومنین حضرت خدیجہ ؅ نے آپﷺ کی حوصلہ افزائی کے لیے آپ ﷺ کے اخلاق و کردار کو بیان کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کو ہرگز ضائع نہ کرے گا کیونکہ آپﷺ صلہ رحمی کرنے والے ہیں ۔ جو آپؐ کو تکلیف پہنچاتاہے، آپ ﷺ اس کے ساتھ بھی بھلا سلوک کرتے ہیں ۔ 
ایک اور حدیث میں ذکر آیاکہ ایک قوم کی حرکتیں ایسی ہیں کہ اللہ رحمت کی نگاہ بھی نہ ڈالے مگر اس کے باوجود اللہ تعالیٰ اُن کو نعمتیں عطا کرتاہے ۔ ان کو اولاد دیتاہے ، رزق عطا کرتا ہے ، جانور اور فصلیں عطا کرتاہے ، صر ف اس لیے وہ ضرورت مندوں پر خرچ کرتے ہیں ، صلہ رحمی کرتے ہیں ۔ معلوم ہوا کہ صلہ رحمی ایسی نیکی ہے جس کا اجر اللہ تعالیٰ دنیا میں بھی عطا کرتاہے اور اس کی بدولت انسان کو نعمتیں میسر آتی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اِس کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین ! 
 شام کے حالات
شام کے حالات ہم سب کے سامنے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ اللہ تعالیٰ کے کلام اورامام الانبیاءﷺکی احادیث کی روشنی میں ان حالات کا بغور جائزہ لیں۔ اس نقطۂ نظر سے اگر ہم دیکھیں گے تو بہت سی چیزیں واضح ہو جاتی ہیں ۔ ایک فوری فائدہ تو یہ ہوا کہ ایک ظالم حکومت کا خاتمہ ہوا ۔ 54 سال سے ایک ظالم نصیری علوی خاندان نے شام کی75 فیصد مسلمان آبادی کو یرغمال بنایا ہوا تھا۔ جیلوں میں اور ٹارچر سیلوں میں مسلمانوں کے ساتھ جو انسانیت سوز مظالم اس حکومت کے دوران روا رکھے گئے اُن کی داستانیں اب کھل کر سامنے آرہی ہیں۔ امریکہ اور دوسری عالمی طاقتیں جو ایسے آمروں کی پشت پناہی کرتی ہیں، اُن کے انسانی حقوق کے دعوؤں کی حقیقت بھی کھل کر سامنے آرہی ہے ۔ ایسے ایسے مظالم روا رکھے گئے کہ سوچ کر انسان کی روح کانپ اُٹھے۔ بچپن میں کسی کو جیل میں ڈالا اور وہ بوڑھا ہو کر جیل سے نکل رہا ہے ۔ ڈرل مشین سے ہڈیوں کے اندر سوراخ کیے گئے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فلسطین میں اسرائیل نے مسلمانوں پر جو ظلم کیا ہے اُس کی دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی مگرکم ازکم اُس کی کوئی نہ کوئی خبر تو عالم اسلام تک پہنچتی ہے مگر جو ظلم شام میں مسلمانوں پر علوی خاندان نے ڈھائے ہیں اُن کا تو دنیا کو پتا بھی نہیں چلنے دیا گیا ۔ امریکہ اور عالمی طاقتیں جمہوریت اور انسانی حقوق کی علمبردار ہونے کا دعویٰ رکھتی ہیںلیکن جہاں مسلمانوں کا معاملہ ہوتو نہ صرف ان پر ایسی ظالم بادشاہتوں کو برداشت کرتی ہیں بلکہ اُن کی مکمل پشت پناہی اور معاونت بھی کرتی ہیں اور جب وہ آمر اُن کےکسی کام کے نہیں رہتے یا مقاصد پورے ہو جاتےہیں تو پھر وہ بڑے آرام سے ان کو سائیڈ پر کر دیتے ہیں۔ جیسے افغانستان کے اشرف غنی اور شام کے بشارالاسد کو خزانے سمیت محفوظ انخلا کا راستہ دیا گیا ۔اس میں بھی مسلمانوں کے لیے بڑا سبق ہے کہ اسلام دشمن قوتوں کی مدد سے بشارالاسد جیسے ظالم حکمران حکومت میں آتے ہیں ،قومی وسائل کو نچوڑتے ہیں ، عوام کے پیسے سے عیاشیاں کرتے ہیں اور پھر جب اُن کا وقت پورا ہو جاتاہے تو قومی وسائل کو لوٹ کر اپنے ساتھ اسلام دشمن قوتوں کے پاس لے جاتے ہیں۔ اب بھی اگر مسلمانوں کی آنکھیں نہ کھلیں تو کتنے نقاب اُترنے کا انتظا ر ہے جس کے بعد بات ہماری سمجھ میں آئے گی ۔ 
رسول اللہ ﷺکی احادیث میں جس شام کا ذکر ہے اس میں فلسطین ، غزہ ، اردن اور لبنان بھی شامل تھے ۔ اس سرزمین کو انبیاء علیہم السلام کی سرزمین کہا جاتاہے ۔ مستقبل کے اعتبار سے بھی یہ مقام اُمت مسلمہ کے لیے بڑا اہم ہے۔اسی سرزمین سے اُمت مسلمہ کو سربلندی ملنی ہے اور اللہ کی زمین پر اللہ کا دین غالب ہونا ہے جس کے بارے میں بارہا بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسراراحمدؒ نے توجہ دلائی ہے ۔ یہی وہ مقام ہے جہاں آخری معرکۂ حق و باطل سجنا ہے۔ اسی سرزمین پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے دوبارہ تشریف لانا ہے ۔ یہ تمام بشارات احادیث میں آئی ہیں ۔ 
عالمی تناظر میںد یکھا جائے تو ایک طرف یوکرائن کا میدانِ جنگ ہے جہاں ایک طرف روس ہے اور دوسری طرف یورپی یونین اور امریکہ ہیں۔ روس بشارالاسد حکومت کو سپورٹ کرتا تھا ۔ بشارالاسد حکومت کے جانے سے روس اور ایران کے مفادات پر بھی ضرب لگی ہے ۔  اس وجہ سے اسرائیل کو زیادہ موقع مل گیا ہے اور اب وہ کھل کر علاقے میں جارحیت کا مرتکب ہورہا ہے ۔ اس نے گریٹر اسرائیل کے ناپاک منصوبے کو آگے بڑھاتے ہوئے گولان کی پہاڑیوں پر دوبارہ قبضہ کرلیا ہے ۔ 
شام پر 54 سال سے مسلط یہ خاندان ایک ایسے  گروہ سے تعلق رکھتا تھا جو اہل تشیع اور اہل سنت دونوں کے نزدیک مسلمان ہی نہیں ہے ۔ آج تک عیسائی رسومات مناتاہے ۔ اس گروہ نے ماضی میں بھی کفار کے ساتھ مل کر مسلمانوںپر بڑے مظالم ڈھائے ہیں ۔ خاص طور پر برطانوی اور فرانسیسی ادوار حکومت میں یہ گروہ اسلام دشمن قوتوں کے مفادات کے لیے سرگرم رہا ۔ مسلمانوں ، بالخصوص حکمرانوں کو سوچنے کی ضرورت ہے، آخر کب تک ہم دوسروں کے آلۂ کار بن کر اپنے وقتی مفادات کے حصول میں لگے رہیں گے اور اپنی اُمت کے ہی بگاڑ اور  نقصان کے درپے رہیں گے۔
کل تک ہمارے حکمران بھی کہتے رہے کہ امریکہ ناراض ہوگیا تو ایسا ہو جائے گا ، فلاں ہو جائے گا ۔ آج دیکھ لیا سب نے کہ کس طرح اس نے پاکستان کی چار کمپنیوں  پر پابندی عائد کردی کیونکہ یہ کمپنیاں پاکستان کے میزائل ٹیکنالوجی پروگرام کو سپورٹ کر رہی تھیں ۔ حالانکہ یہی عالمی طاقتیں بشارالاسد کو مسلمانوں کی نسل کشی کے لیے کیمیائی ہتھیار تک فراہم کر رہی تھیں۔ آج غزہ میں  مسلمانوں کی نسل کشی کے لیے اسرائیل کو امریکہ سے جہاز بھر بھر اسلحہ آرہا ہے ۔ لیکن پاکستان اپنے دفاع میں اگر میزائل ٹیکنالوجی پر کام کررہا ہے تو وہ اُن کو برداشت نہیں ہورہا ۔ مسلمانوں کو غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ایک طرف اسرائیل اپنے گریٹر اسرائیل کے منصوبے پرمسلسل آگے بڑھ رہا ہے اور دوسری طرف پاکستان پر پابندیاں لگائی جارہی ہیں۔حکمرانوں کو بھی یہ بات سمجھ میں آنی چاہیےکہ کب تک امریکہ کی غلامی کرتے رہیں گے ۔ اس مملکت خداداد کو ہم نےنظریۂ اسلام کی بنیاد پر حاصل کیا تھا مگر اس نظریہ کو ہم نے پس پشت ڈال دیا جس کی وجہ سے آج ہماری ساری طاقت بے اثر ہو رہی ہے ۔ سوویت یونین بھی ایک نظریہ کی بنیاد پر بنا تھا لیکن جب اس نظریہ کو چھوڑ دیا تو کوئی ٹیکنالوجی کام نہیں آئی۔ حکمرانوں کو سوچنا چاہیے کہ کس طرح اسلام دشمن قوتیں مسلمانوں کے خلاف آپس میں اتحاد کر رہی ہیں ۔ اسرائیل کی مدد امریکہ اور بھارت بھی کر رہے ہیں اور ان کو سب سے بڑا خطرہ اس مملکتِ خداداد پاکستان سے ہےجس کو اللہ نے  نظریۂ اسلام بھی عطاکیا اور چھپر پھاڑ کر ایٹمی صلاحیت بھی عطا کی۔ جہاں ایٹمی صلاحیت کی حفاظت ضروری ہے وہاں اپنے نظریہ کی حفاظت بھی ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ  حکمرانوں کو اور مقتدر طبقات کو یہ بصیرت بھی عطا فرمائے اور ایمانی غیرت کے ساتھ فیصلے کرنے کی توفیق بھی عطا فرمائے۔ رہے ہمارے عوام تو وہ بھی مستقبل کے منظرناموں کو سامنے رکھیں ، آج تو دنیا اندھیر نگری ہے مگر اللہ اور اُس کے رسول ﷺنے اس زمین پر اپنے دین کے غلبہ کی بشارت دی ہے کہ بالآخراسلام پوری دنیا پر غالب ہوکر رہے گا۔ ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ ہم اللہ کے دین کے لیے کیا کررہے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین !