شہداء کا اعزا ز و اکرام
سعد عبد اللہ (استاذ قرآن انسٹیٹیوٹ لطیف آباد)
حالیہ اسرائیل و فلسطین جنگ میں اب تک پچیس ہزار سے زائد مسلمان مرد عورتیں اور بچے اپنی جانیں بیت المقدس پر قربان کر چکے ہیں، اسرائیل ایک پاگل ہاتھی کی طرح امریکی اسلحہ و بارود کے بل بوتے پر سینکڑوں فلسطینوں کو روزانہ کی بنیاد پر شہید کر رہا ہے، غزہ کی تمام عمارتوں کو ملبہ کا ڈھیر بنا کر اب مسلسل پناہ گزین کیمپوں پر گولہ باری جاری ہے۔کسی بھی باضمیر انسان کے لیے یہ صورتِ حال انتہائی تکلیف دہ ہے لیکن بحیثیت ِ مسلمان جب ہم قرآن و حدیث میں شہادت کا مقام و مرتبہ دیکھتے ہیں تو دل کو بے حد تسکین ہوتی ہے کہ بظاہرمعصوم فلسطینیوں کے جسموں کو بموں سے ٹکڑے ٹکڑے کیا جا رہا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ کے ہاں شہداء کا کتنا عظیم الشان اعزاز و اکرام کیا جائے گا۔ ذیل میں قرآن و حدیث کی روشنی میں شہداء کے فضائل تحریر کیے جاتے ہے:
شہداء کا اعزاز و اکرام، قرآنِ حکیم کی روشنی میں:
سورۃ آلِ عمران میں اللہ تعالیٰ نے غزوہٴ احد پر تبصرہ فرمایا، اس جنگ میں مسلمانوں کو وقتی طور پر شکست ہو ئی ، نبی اکرمﷺ مجروح ہوئے اور 70 جلیل القدر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شہید ہوگئے، مسلمانوں کے دل غم سے چور چور تھے۔ وہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:{وَیَتَّخِذَ مِنْکُمْ شُہَدَآئَ ط}( آلِ عمران: 140)’’ اور اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ تم میں سے بعض کو شہادت کے مرتبہ پر فائز کرے۔
سورۃ البقرۃ اور آلِ عمران میں اللہ تعالیٰ نے شہید کو مردہ کہنے سے بھی منع فرمایا ہے: {وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّـقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ اَمْوَاتٌ ط بَلْ اَحْیَـآئٌ وَّلٰـکِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ(169)}’’اور مت کہو ان کو جو اللہ کی راہ میں قتل ہو جائیں کہ وہ مردہ ہیں بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تمہیں اس کا شعور نہیں۔‘‘
{وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللہِ اَمْوَاتًاطبَلْ اَحْیَــآئٌ عِنْدَ رَبِّہِمْ یُرْزَقُوْنَ(169) فَرِحِیْنَ بِمَآاٰتٰىہُمُ اللہُ مِنْ فَضْلِہٖ لا وَیَسْتَـبْشِرُوْنَ بِالَّذِیْنَ لَمْ یَلْحَقُوْا بِہِمْ مِّنْ خَلْفِہِمْ لااَلَّا خَوْفٌ عَلَـیْہِمْ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُوْنَ(170) یَسْتَبْشِرُوْنَ بِنِعْمَۃٍ مِّنَ اللہِ وَفَضْلٍ لا وَّاَنَّ اللہَ لَا یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ(171)} (آل عمران)’’اور ہر گز گمان نہ کرنا ان کے بارے میں جو اللہ کی راہ میں قتل ہو جائیں کہ وہ مردہ ہیں بلکہ وہ زندہ ہیں، اپنے رب کے پاس رزق پا رہے ہیں ۔ خوش ہیں اس (انعام و اکرام) سے کہ جو اللہ نے اپنے فضل سے انہیں عطا فرمایا اور خوش خبریاں حاصل کر رہے ہیں اپنے بعد والوں میں سے ان لوگوں کے بارے میں کہ جو ابھی ان کے ساتھ شامل نہیں ہوئے کہ نہ ان پر کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے، خوشخبریاں حاصل کر رہے ہیں اللہ کے انعام اور اس کے فضل پر اور اللہ تعالیٰ مومنوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔‘‘
اس آیت کی وضاحت میں حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ:ہم نے اس آیت کے بارے میں نبی اکرمﷺ سے پوچھا تو آپﷺ نے فرمایا کہ شہداء کی روحیں جنت میں سبز رنگ کے پرندوں کی صورت میں ہوں گی۔ ان کے گھر قندیلوں کی طرح ہونگے جو عرش سے لٹکی ہوں گی۔وہ جنت میں سیر کریں گے جہاں چاہیں گے۔ پھر اپنی قندیل میں آکر بیٹھ جائیں گے۔ ان کا رب پوچھے گا تمھیں کسی شے کی خواہش ہے؟ وہ کہیں گے ہمیں کس شے کی خواہش ہو، ہم جنت میں جہاں چاہتے ہیں پہنچ جاتے ہیں۔ان کا رب ان سے تین بار پوچھے گا۔ جب وہ دیکھیں گے کہ انہیں بغیر پوچھے چھوڑا نہیں جائے گا تو وہ کہیں گے ہم چاہتے ہیں کہ ہماری روحوں کو دوبارہ ہمارے جسموں میں ڈال کر دنیا میں بھیج دیا جائے تاکہ ہم دوبارہ اللہ کی راہ میں قتل ہوں۔ اس کے بعد ان سے کسی شے کی خواہش کے بارے میں نہ پوچھا جائے گا۔مسلم
قرآنِ حکیم اور احادیثِ مبارکہ سے رہنمائی ملتی ہے کہ شہداء کو ان کی شہادت کے فوراً بعد جنت میں داخل کردیا جاتا ہے یعنی ان کے لیے برزخ کا مرحلہ جنت میں طے ہوتا ہے۔سورۃ یٰسین میں اللہ کے ایک نیک بندے کے بارے میں الفاظ آتے ہیں:
{قِیْلَ ادْخُلِ الْجَنَّۃَطقَالَ یٰـلَیْتَ قَوْمِیْ یَعْلَمُوْنَ(26)} (یٰسین)’’حکم ہوا کہ داخل ہو جاؤ جنت میں، اس نے کہا کاش میری قوم کو خبر ہوتی کہ میرے رب نے مجھے بخش دیا اور مجھے عزت والوں میں سے کر دیا۔‘‘
سورۃ محمدﷺمیں یہ مضمون زیادہ وضاحت کے ساتھ آیا ہے:
{وَالَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللہِ فَلَنْ یُّضِلَّ اَعْمَالَہُمْ(4) سَیَہْدِیْہِمْ وَیُصْلِحُ بَالَہُمْ (5) وَیُدْخِلُہُمُ الْجَنَّۃَ عَرَّفَہَا لَہُمْ(6)} (محمد)’’ اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے گئے ان کے اعمال کو اللہ تعالیٰ ہر گز ضائع نہیں کرے گا بلکہ ان کو سیدھے رستے (جنت کی طرف) چلائے گا اور ان کی حالت درست کر دے گا اور ان کو داخل کرے گا جنت میں جس سے انہیں شناسا کر رکھا ہے۔‘‘
شہداء کا اعزاز و اکرام،احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں:
’’ کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں کہ جو جنت میں داخل ہونے کے بعد دنیا کی طرف لوٹنے کی تمنا کرے خواہ اس کو ساری زمین پر جو کچھ ہے وہ دے دیا جائے مگر شہید تمنا کرے گا کہ وہ دنیا کی طرف لوٹ جائے پھر دس مرتبہ قتل ہو، اس اعزاز کی وجہ سے جو شہادت پر اس نے دیکھا۔‘‘(بخاری)
نبی اکرم ﷺخود بھی اللہ تعالیٰ کی راہ میں شہادت کی تمنا فرمایا کرتے تھے:((لَوَدِدۡتُ اَنِّی اُقۡتَلُ فِی سَبِیۡلِ اللہِ ثُمَّ اَحۡیَا ثُمَّ اُقۡتَلُ ثُمَّ اَحۡیَا ثُمَّ اُقۡتَلُ ثُمَّ اَحۡیَا ثُمَّ اُقۡتَلُ)) (بخاری )
’’ میری تمنا ہے کہ میں اللہ کے راستہ میں قتل کر دیا جاؤں پھر مجھے زندہ کیا جائے پھر قتل کیا جاؤں پھر مجھے زندہ کیا جائے پھر قتل کیا جاؤں پھر مجھے زندہ کیا جائے اور پھر قتل کیا جاؤں۔‘‘
ہر مسلمان کو خلوص کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے شہادت کی موت طلب کرنی چاہیے۔((مَنْ سَأَلَ اللہَ الشَّھَادَۃَ بِصِدْقٍ بَلَّغَہُ اللہُ مَنَازِلَ الشُّھَدَاءِ وَاِنْ مَاتَ عَلٰی فِرَاشِہٖ))(مسلم)
’’ جس نے سچی نیت کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے شہادت طلب کی، اللہ تعالیٰ اس کو شہداء کے مقامات میں پہنچا دیں گے خواہ وہ بستر پر مرے۔‘‘
اللہ ہی کے رستے میں موت آئے مسیحا
اکسیر یہی ایک دوا میرے لیے ہے
tanzeemdigitallibrary.com © 2025