(کارِ ترقیاتی) …خون ہے، لاشے ہیں، شور ہے - عامرہ احسان

11 /

…خون ہے، لاشے ہیں، شور ہے

عامرہ احسان

 

اسرائیل اور اس کے سرپرستوں کو لگام دینے کے لیے بین الاقوامی عدالتِ انصاف کے عبوری اقدامات کے لیے فیصلے کا دنیا کو انتظار تھا۔ اگرچہ سبھی جانتے تھے کہ لگام کا اصل اختیار عملاً صرف امریکا کے پاس ہے برسرِزمین! عدالتی فیصلے کی حیثیت اخلاقی دباؤ اور سفارش کی ہے جس نے بہرطور اسرائیل مخالف عالمی رائے کو قوت دی ہے۔ اخلاقی دباؤ تو اخلاق والوں کے لیے اہمیت رکھتا ہے۔ پوری دنیا نے اسرائیل اور اس کی پشت پناہ حکومتوں کو شرم، عار دلانے، اخلاقی دباؤ ڈالنے کو اپنی جانیں گھلا دیں مگر چکنے گھڑوں پر بوند پڑی اور پھسل گئی۔ بالخصوص امریکا! کان پر جوں تک نہ رینگی۔ اسرائیل نے عدالت کو یہود دشمن (Anti-Semitic) قرار دے کر دامن چھڑا لیا۔ وہ جانتا ہے کہ اس فیصلے یا اس کے احکامات کی حیثیت صرف ایک معتبر بین الاقوامی کاغذی رائے کی ہے۔ اس پر عملدرآمد کا اختیار سیکورٹی کونسل کے پاس ہے جہاں امریکا ویٹو لیے بیٹھا ہے بین الاقوامی اجماع کے پرزے اُڑانے کو!
عدالت نے غزہ کی صورت حال کا احاطہ کرکے اسرائیلی فوج کو فلسطینیوں کے قتل سے روکنے کا واضح حکم دیا ہے۔ فوری اطلاق کے ساتھ فوج کا فلسطینیوں کو دماغی، جسمانی نقصان پہنچانا یا ایسی صورت حال جس سے وہ جسمانی طور پر کلیتاً یا جزواً برباد ہوکر رہ جائیں، سے باز رہنا ہے۔ یہ قتلِ عام کی روک تھام اور اس جرم کی سزا پر مبنی کنونشن کے آرٹیکل 2 کے تحت ریاستِ اسرائیل کا فرض ہے کہ وہ غزہ میں فلسطینیوں کے تحفظ کے لیییہ تمام اقدامات کرے۔ نیز یہ بھی کہ فلسطینیوں کے ہاں ولادت روکنے والے اقدام سے بھی باز رہنا ہوگا۔ اگرچہ اس کنونشن کے تحت یہ سب کچھ اسرائیل پر پہلے بھی لازم تھا مگر تمام بین الاقوامی قوانین اور کنونشنز کے پرزے اسرائیلی سرپرست امریکا خود 2001ء سے ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کی آڑ میں اُڑا چکا اور بظاہر یہ لاحاصل صبر آزما تکرار ہے۔ تاہم ایک بین الاقوامی معتبر ادارے نے خود یو این کی رپورٹوں کے ہولناک مندرجات کے حوالے دے دے کر اسرائیل کی غزہ پر ڈھائی گئی قیامت کو قانونی زبان دے دی ہے۔
اب یہ ذیلی اداروں کی نری رپورٹیں نہیں رہیں، اعداد وشمار کے ساتھ UNRWAاور UCHAکی رپورٹوں کی بین الاقوامی عدالت میں تصدیق ہے۔ اسرائیل کے جرائم ریکارڈ پر لائے گئے ہیں۔ خود نیتن یاہو، اسرائیلی صدر اور کابینہ کے دو اہم وزراء کے بیانات کا حوالہ بھی عدالت میں لکھا گیا، جس میں وہ فلسطینیوں کے قتلِ عام کی نیت اور ارادے کا برملا اظہار کر رہے ہیں۔ 15 بمقابلہ 2ووٹ سے یہ حقائق ریکارڈ پر آگئے۔ اس پر اسرائیل نے فوری 180فلسطینی قتل کرکے اپنا ردعمل دے دیا۔ نیز ایک نیا کیس گھڑ کر واویلا کر دیا کہ 7اکتوبر کے حماس حملے میں (فلسطینیوں کو تمام تر انسانی ضروریات فراہم کرنے والے اہم ترین امدادی ادارے ’ ا لانروا‘، UNRWA) کے 12ورکر شامل تھے۔ کل 30ہزار ورکرز میں سے 12کا تعین کرکے ہنگامہ کھڑاکر دیا۔ اگرچہ یہ تحقیق وتصدیق طلب ہے کیونکہ یہ صرف اسرائیلی انٹیلی جنس رپورٹ ہے۔ اب جھوٹ کا نیا پلندہ لے آئے کہ وہ 190کی تعداد میں ہیں جسے حماس نے ثبوتوں کے ساتھ رد کردیا۔ فوری نتیجہ یہ نکلا کہ امریکا اور مغربی ممالک نے فلسطینیوں کی بحرانی صورت حال میں مدد دینے والے واحد ادارے کی فنڈنگ روکنے کا اعلان کردیا۔ کل فنڈ جو یہ ممالک فراہم کرتے ہیں، وہ 94.9 فیصد ہے کل بجٹ کا، جس سے امدادی ضروریات پوری کی جاتی ہیں۔ فلسطینی زندگیاں بچانے کے لیے اس ادارے کا قیام 1949 ء میں یہودی مسلح جتھوں سے بے گھر، قتل زخمی ہونے والے مظلوم فلسطینیوں کے لیے عمل میں آیا تھا۔ اس کا سارا انحصار رضاکارانہ مدد پر ہے جو ان ممالک کے ذمے رہا۔
تمہی نے درد دیا ہے تمہی دوادوگے، کے اصول پر! یاد رہے کہ عالمی عدالت نے اسی ادارے کی غزہ پر تفصیلی رپورٹ دی تھی۔ مہاجرین کی حالتِ زار، قحط سے دوچار کی گئی آبادی! موت، تباہی اور انخلاء: غزہ پٹی کے 100دن۔ جو احاطہ UNRWA نے کیا تھا، اسی کو ریکارڈ کا حصہ بنایا تھا، پیرا نمبر 49 میں۔ لہٰذا اس ادارے کو فوری سزا کا سامنا امریکا، یورپی ممالک کے ہاتھوں کرنا پڑا۔ اس پر فلسطینیوں اور یو این کی طرف سے شدید تنقید ہوئی۔ ’الانروا‘ کے سربراہ نے کہا کہ یہ بھی ’قتلِ عام کنونشن کی خلاف ورزی ہے۔ فلسطینیوں کو مزید اجتماعی سزا دینے کی ضرورت نہ تھی، یہ ہم سب کو داغدار کرتا ہے۔‘ یو این سیکریٹری جنرل نے حالات کی سنگینی پر متوجہ کیا۔ یہ یقین دہانی کروائی کہ وہ کسی یو این ملازم کو7اکتوبرمیں ملوث پانے پر احتساب کریں گے۔ تاہم اس پر اتنی پھرتی دکھانے (فنڈز فوری روکنے) پر شدید دھچکا لگنے کا اظہار کیا کہ ’ان مجبور اور بے بس آبادیوں کی شدید ناگزیر ضروریات لازماً پوری ہونی چاہئیں۔‘ ترجمان ’الانروا‘ نے اپنے خصوصی پیغام میں عرب اور خلیج ممالک سے کہا: ’’تم کہاں ہو جو روزانہ اربوں ڈالر تیل سے کماتے ہو؟ ‘‘
اس کا چھوٹا سا حصہ ادارے کی ان ضروریات کو پورا کرنے کو کافی ہے جس سے مغربی ممالک کی طرف سے ملنے والی کمی پوری ہوسکتی ہے۔ ترجمان گِن نیس نے ’الجزیرۃ‘ سے کہا: ’عرب ممالک کو تو اس وقت انتہائی مجبور وبے کس لوگوں کی پلیٹ بھرنی چاہیے جو بھوک اور قحط کا سامنا کر رہے ہیں۔‘ ترجمان کے مطابق: اس ادارے پرحملہ سوچا سمجھا سیاسی حملہ ہے (ان کو سہولیات فراہم کرنے کے مرکز پر بھی اسرائیلی حملہ ہوا، معاشی حملے کے علاوہ) ۔ اسرائیل یہ کہہ چکا ہے کہ ’جب تک ’الانروا‘ ختم نہیں کی جاتی، غزہ جنگ جیتی نہیں جا سکتی۔‘ اس سے زیادہ واضح پیغام اور کیا ہوسکتا ہے۔ نیز مغربی ممالک کا سیاسی اخلاقی بھرم اس اقدام سے شدید مجروح ہوا ہے۔ یہ فوری ردعمل امداد کی بندش کا، یہ معنی رکھتا ہے کہ قتلِ عام کی رفتار تیزتر ہو جائے امدادی کام کا گلا گھونٹ کر۔ تاہم عالمی سطح پر بڑی بڑی شخصیات کی تحاریر، تقاریر، اقدامات، مغربی نوجوان نسل کا شدید ردعمل سبھی کچھ اسرائیل اور مغربی حکومتوں کے خلاف نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ان کے میڈیا کا اتنے ہولناک واقعات سے چشم پوشی کا رویہ بھی انہیں آگ بگولہ کیے دے رہا ہے۔ یہ سب ایک بڑے انقلاب کا پیش خیمہ ہے۔ کریگ مرے، برطانوی سفارت کار، دانشور فنڈز روکنے پر یہ کہتا ہے کہ ’میں (امریکا، مغرب کا) اتنا صریح ظالمانہ ہونے کی توقع نہ رکھتا تھا۔ خدا کی چکی بہت آہستہ پیستی ہے مگر پیستی بہت باریک ہے۔ ہمیں اپنا کردار ادا کرتے رہنا ہے۔ انسانوں کی طاقت استعمال کرکے ان لوگوں کے ہاتھوں سے کنٹرول چھین لیا جائے جو ظالم قاتلوں کی ایک سیاسی جماعت ہے۔ بہرحال امید کی کرن افق پر موجود ہے۔‘ کوئین میری یونیورسٹی آف لندن کے ماہر قانون پروفیسر نیو گارڈن کا کہنا ہے (اس بحث کے ضمن میں کہ اگر جنوبی افریقہ اسے یو این سکیورٹی کونسل لے جائے تو اس صورت میں ICJ احکامات پر صورت کیا بنے گی؟) کہ اب امریکا جیسے ممالک کو بھی سنجیدگی سے ازسرنو سوچنا پڑے گا ویٹو کرنے یا اسرائیل سے سفارتی تعلقات معمول پر رکھنے کے حوالے سے۔ اب یہ ایک بالکل نئی صورت حال ہے جہاں دنیا کی اعلیٰ ترین عدالت یہ کہہ رہی ہے کہ بظاہر، بادی النظر میں اسرائیل قتلِ عام کا مرتکب ہو رہا ہے۔ (الجزیرہ۔ 26جنوری)
سو باذن اللہ صبر کا میٹھا پھل غزہ کے لیے صرف آخرت میں نہیں، دنیا میں بھی نہایت گہرے، دیرپا اثرات کی صورت ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کے دنیا میں ایک نئے تعارف کی صورت بھی اہلِ غزہ کے ثبات ہی کا پھل ہے۔ اسرائیل صرف حماس کے ہاتھوں بری طرح مار نہیں کھا رہا۔ بلکہ بہت بھاری معاشی قیمت بھی اسے جنگ کے ہاتھوں ادا کرنی پڑ رہی ہے۔ اگر آج امریکا ہتھیار دینے بند کر دے تو جنگ بندی خودبخود کرنی پڑے گی۔ آبادکار فوجی کے جنازے پر دھواں دھار روتے شکست خوردہ فوجی ہی اسرائیلی ایٹمی طاقت کا منہ نہیں چڑا رہے۔ غاصب آبادکاروں کا مآل بیان نہیں کر رہے بلکہ اعلیٰ اسرائیلی کمانڈرز نے نیویارک ٹائمز (20جنوری) سے اس کا اقرار کیا ہے کہ ’اسرائیل فلسطینی مزاحمت سے غزہ میں ہار رہا ہے ہم غزہ کے بہت کم حصے پر قبضہ کر پائے ہیں۔ ہمارے حساس اداروں کے اندازوں کے برعکس حماس کا نظام نہایت چوکس اور جدید ہے۔ یرغمالیوں کی رہائی صرف سفارتی ذرائع سے ممکن ہے۔‘ نیتن یاہو کی جنگ اس کی کرسی اور اقتدار، ہٹ دھرمی کی جنگ ہے۔ وہ بھی کلیتاً امریکا، برطانیہ کے بل بوتے پر۔ سو یہ ودیگر مغربی ممالک قتلِ عام اور ہولناک تباہی غزہ پر مسلط کرنے کے برابر کے مجرم ہیں۔ 1967ء میں نعیم صدیقی نے کہا تھا اقصیٰ پر:
تاریکیاں ہیں، خون ہے، لاشے ہیں، شور ہے
تہذیب کے عروج پہ ہے بزمِ ہست و بود
ہشیار! پاسبان ہی یاں کرتے ہیں رہزنی
اب قافلے کا سخت مراحل میں ہے ورود