رام مندر کا افتتاح کرکے مودی نے اپنے اور BJPکے عزائم کو واضح کر دیا
ہے ۔ جس طرح حماس اسرائیل کے خلاف مزاحمت کر رہی ہے اسی طرح بھارتی
مسلمانوں کو بھی مودی کے خلاف ممکنہ حدتک کھڑا ہونا ہو گا :رضاء الحق
بھارت نے اینٹی اسلام اقدامات کر کے اپنے آپ کو ایک ہندوریاست کے طور پر
منوالیا ہے ۔ لہٰذا پاکستان کو بھی چاہیے کہ یہاں اسلام کو نافذ کرکےخود ایک
اسلامی فلاحی ریاست کے طور پر منوائے : ڈاکٹر حسن صدیق
رام مندر کا افتتاح اور بھارت کی انتہاپسندی؟ کے موضوع پر
حالات حاضرہ کے منفرد پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں معروف دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کا اظہار خیال
میز بان :وسیم احمد
مرتب : محمد رفیق چودھری
سوال:22جنوری 2024ء کو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے ایودھیا کے مقام پر جہاں پہلے بابری مسجد ہوا کرتی تھی، رام مندر کا افتتاح کیا ہے۔ اس خاص موقع پر مودی نے یہ افتتاح کر کے دنیا کو کیا پیغام دیا؟
ڈاکٹر حسن صدیق: بی جے پی جب قائم ہوئی تھی تواس وقت وہ آج کی نسبت دھیمے خیالات کی جماعت تھی۔ اُس وقت اس کے لیڈرواجپائی تھے ۔ جب پہلی دفعہ بی جےپی نے انتخابات میں حصہ لیاتھا تواس کو صرف دو سیٹیں ملی تھیں،لیکن جب انہوں نے اپنے منشورمیں بابری مسجد کوشہید کرکے رام مندر بنانے کی شق شامل کی توپھر ان کو تقریباً 90سیٹیں ملیں۔ اس کے بعد ایل کے ایڈوانی بی جےپی کاسربراہ بن گیا جواسلام اور مسلمانوں سے شدید نفرت کرتاتھا ۔2019ءکے الیکشن میں بھی رام مندر کے ایجنڈے کو بڑی اہمیت حاصل تھی۔جس دن یہ افتتاح کرنا تھااس دن انڈیا کی سٹاک مارکیٹ بند ہوگئی۔ پوری دنیامیں تقریبات ہوئیں۔گویا اب انہوں نے یہ اعلان دنیا بھر میں کر دیا ہے کہ ہم ایک ہندوریاست ہیں ۔ یعنی انہوں نے پہلے گاندھی کاقتل کیااور اب اس کی فلاسفی کا بھی قتل کردیا ہے ۔اس افتتاحی تقریب میں جن اپوزیشن پارٹیز نے شرکت نہیں کی وہ کوئی رام مندر کے خلاف نہیں ہیں بلکہ وہ کہتے ہیں کہ اس ایشوکو مودی اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کررہا ہے۔وہاںپرتقریباً سات ہزار سیاست دان اور بڑی شخصیات کو مدعو کیاگیا تھا۔ یعنی انڈیا میں تقریباً تمام جماعتیں بی جے پی کے ہندوریاست والے فارمولا پر متفق ہوچکی ہیں اورواضح ہو چکا ہے کہ وہاں پر مسلمانوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ 6دسمبر 1992ء کو جب بابری مسجد کو شہید کیا گیا تھا تواس وقت بھی دو ہزار مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا تھا اور اس قتل عام میں انتہا پسند ہندوئوں سمیت انڈیا کی پولیس بھی ملوث تھی۔ اس کے بعد BJPکا بھارت پر راج قائم ہوگیا اور وہ مختلف انتہا پسندانہ اقدامات کے ذریعے مسلمانوں کو ٹارگٹ کرتی آرہی ہے ۔ دوسری طرف دنیا کے کسی ملک نے انڈیا کے ان اقدامات کانوٹس نہیں لیا۔آئندہ کچھ عرصہ میں انگلینڈ کی کرکٹ ٹیم انڈیا جارہی ہے ، اس میں شامل پاکستانی نژاد کھلاڑی شعیب کو ویزہ دینے سے انکار کردیا ۔ یعنی وہ دنیا کو واضح طور پر بتا رہے ہیں کہ اگر کوئی بندہ مسلمان ہوبالخصوص پاکستانی ہوتو اس کے ساتھ ہم نے ایسا ہی سلوک کرنا ہے ۔ جبکہ دنیا انڈیا کے خلاف کوئی بات نہیں کرنا چاہتی کیونکہ دنیا کے انڈیا کے ساتھ معاشی مراسم ہیں ۔ بابری مسجد کے بعد ان کا ٹارگٹ بھارت میں دوسری مساجد ہوں گی اوروہ مسلمانوں کا قلع قمع کرنے کے درپے ہیں۔
سوال:کیا رام مندرکا افتتاح کر کے مودی نے اپنی الیکشن مہم کا آفیشلی آغاز کیا ہے ؟
رضاء الحق:رام مندر کا افتتاح کرکے نریندر مودی نے اپنے اور بی جےپی کے سیاسی عزائم کو واشگاف الفاظ میں کھول کے رکھ دیا ہے ۔ دوسری طرف اس نے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ بڑا ڈ راسخ العقیدہ ہندو ہے اوران دونوں چیزوں کو ساتھ ساتھ جوڑا ہے۔اس کی تیاری میں مودی نے12 جنوری سے روزہ رکھا ہوا تھا۔2014ء میں جو مودی کاحلیہ تھا وہ اب بالکل تبدیل ہو چکا ہے ۔ اب اس کی بڑی بڑی داڑھی ہے اوروہ سیفرون لباس زیب تن کیے ہوئے ہے ۔پھر اس نے اس موقع پر لمبی تقریر کی اور ہندومذہبی کتابوں کے حوالے دیے ۔ بہرحال یہ افتتاح مودی کی الیکشن مہم کالازماً حصہ ہے ۔ کچھ لوگوں کی رائے ہے کہ بی جےپی میں اپرکاسٹ ہندوئوں کی تعداد زیادہ ہے یعنی برہمن، کھشتری وغیرہ لیکن گہرائی میں جاکر دیکھاجائے تو بی جے پی کی بنیادی رکنیت میں 10 کروڑ ہندو شامل ہیں۔ یہاں تک کہ کمیونسٹ پارٹی آف چائنہ سے بھی زیادہ بنیادی رکنیت ہے ۔بی جے پی کاآغاز آر ایس ایس سے ہوا تھا اورآر ایس ایس کے متعلق ہم سب جانتے ہیں کہ اس کی اٹھان ہندو توا او راکھنڈ بھارت کی سوچ کے ساتھ ہوئی ہے ۔ اسی سوچ کو لے کر بی جے پی آگے بڑھ رہی ہے ۔ وہاں صورت حال یہ ہے کہ مسلمانوں کے عائلی قوانین بھی غیرمحفوظ ہوچکے ہیں ۔ کچھ عرصہ پہلے وہاں تین طلاق کامسئلہ آیا توعدالت نے طے کیا کہ کیاصحیح ہے اور کیا غلط ہے ۔حالانکہ اس سے پہلے یہ فیصلے مسلمانوں کی کمیونٹی پر چھوڑ دیا جاتا تھا ۔ ابھی مودی حکومت نے یونیفارم سول کوڈ کو لاگو کرنا ہے ۔ یعنی بھارت کے تمام شہریوں کے طرز زندگی کے متعلق قوانین بنائے جارہے ہیں کہ وہ کونسا لباس پہنیں گے اور کس طرح زندگی گزاریں گے چاہے ان کا مذہب کچھ کہتا ہو۔عدالتوں کے فیصلے بھی انہی کے ایماء پر ہوں گے کیونکہ ان کی عدالتیں بھی اس بنیاد پر فیصلے دے رہی ہیں کہ ہندوا کثریت کی رائے کیا ہے ۔لوک سبھا میں 543 سیٹیں ہوتی ہیں ،ان میں سے کم سے کم 101سیٹوں پر مسلمانوں کااچھا خاصا اثرورسوخ ہوتا تھالیکن رام مندر جیسے واقعات کے بعد مسلمانوں کو بالکل بیک فٹ پہ ڈال دیا گیااور دوسری طرف ہندوئوں کو اکٹھا کیا گیا۔ وہاں مسلمانوں کے خلاف تمام ہندو متحد ہو چکے ہیں اور مسلمانوں کو ہرگز اجازت نہیں دے رہے کہ وہ اپنی آواز اٹھا سکیں ۔ بہرحال رام مندر کا افتتاح مودی کی الیکشن مہم کا حصہ ہے اور اس کا بھرپور فائدہ اٹھائے گا ۔ اس کو معلوم ہے کہ امریکہ، اسرائیل اور پورا یورپ اس کے ساتھ ہے ، کچھ مذمتی بیانات آئیں گے لیکن اس سے آگے بڑھ کر کوئی اس کے خلاف کچھ نہیں کرے گا ۔ لہٰذا مستقبل قریب میں مسلمانوں کے لیے بڑے مشکل حالات دکھائی دیتے ہیں ۔
سوال: ایودھیا میں بابری مسجد مغلیہ دورمیں قائم ہوئی اور 1949ء تک یعنی 421سال تک وہاں نماز پابندی سے ادا کی جاتی تھی ۔1949ء میںہندوئوں نے شوشا چھوڑا کہ وہ رام کی جائے پیدائش ہے لہٰذا یہاں رام مندر قائم ہوگا۔ اس کے بعد سے انہوںنے اس کے لیے کوششیں شروع کردیں اورآج اس کا افتتاح بھی کردیا گیا ہے ۔ سیکولر ازم کا دعویٰ کرنے والا بھارت کیا اب واقعی ایک ہندو ریاست بن چکا ہے ؟
ڈاکٹر حسن صدیق:یقیناً! اوراس کاوقت بہت اہم ہے ۔ مسلمانوں نے کئی سوسال ہندوستان پر حکومت کی ۔ ہندوئوں کاہمیشہ یہ خواب تھاکہ یہاں پر ہمیں حکمران ہونا چاہیے ۔مذہبی سمبل کی بہت زیادہ اہمیت ہوتی ہے ۔جس طرح یہودی یہ سمجھتے ہیں کہ ہم دنیا پر اس وقت تک حکمرانی نہیں کرسکتے جب تک ہم ہیکل سلیمانی کی تعمیر نہ کرلیںاور مسجد اقصیٰ کو شہید نہ کرلیں۔ اس کوسامنے رکھیں تو بابری مسجد مسلمانوںکے عروج کاسب سے پرانا سمبل تھا ، ہندو سمجھتے ہیں کہ اس کی جگہ اب ہمارا رام مندر بن گیا ہے تو یہ بنیادی طور پر مذہبی لحاظ سے اتنا اہم ہے کہ ہم اس کو استعمال کرکے اپنا سیاسی،معاشی اورمعاشرتی آرڈر بنائیں گے ۔ بھارت میں اتر پردیش ہندوئوں کا بہت بڑا گڑھ ہے ۔ یقیناً وہاں مسلمان بھی بہت ہیں اور دیوبند بھی وہاں ہے لیکن ایودھیا میں ہوٹلز بن رہے ہیں ، لوگوں کو روزگار مل رہا ہے اور وہاں پر بڑے بڑے ہندوسرمایہ کار آرہے ہیں۔ یعنی اس علاقے کو وہ معاشی اعتبار سے استعمال کررہے ہیں۔ انڈیا کے ہندوتواریاست بننے میں رکاوٹ پاکستان بن سکتا تھا لیکن پاکستان اس وقت کچھ بھی نہیں کر رہا ۔ حالانکہ پاکستان کو چاہیے تھا کہ اس حوالے سے اقوام متحدہ میںڈپلومیٹک آواز بلند کرتاکہ مسلمانوں کو دنیا بنیاد پرستی کا طعنہ دیتی ہے لیکن بھارت تو خود ایک ہندو انتہا پسند ریاست میں تبدیل ہو چکا ہے ۔ اس کے خلاف بھی آواز اٹھنی چاہیے ۔اگر اسرائیل کو حماس کی طرف سے ایک مزاحمت کاسامنا ہے تودنیا بھی اسرائیل کے خلاف آواز بلند کررہی ہے ۔ لیکن انڈیا کو تو بالکل مزاحمت نہیں مل رہی ہے یعنی اس کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے توپھر اس نے کامیاب ہی ہونا ہے۔ قیام پاکستان کے لیے انڈین مسلمانوں کا ایک اہم رول تھا۔اب اگر وہ مشکل میں ہیں تو پھر ہمارا فرض بنتا ہے کہ ان کاساتھ دیں اور ان کو سپورٹ کریں ۔مسلمانوں کی شہریت ختم کرنے اور ان پر مظالم ڈھانے سمیت بہت سارے اقدامات ہیں جو وہ اب تک کر چکے ہیں اور اب وہ اس سے آگے بڑھ کر باقاعدہ مسلمانوں کی نسل کشی کی طرف آئیں گے جس کو مسلمان برداشت نہیں کرسکیں گے ۔
سوال:جب اس مندر کاافتتاح ہوا توانڈیا کے مسلمان ، علماء کرام، اورکانگریس سمیت وہاں کی اپوزیشن جماعتیں کیارول ادا کررہی ہیں؟
رضاء الحق:قرآن پاک میں راہنمائی موجود ہے کہ
{لَـتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَۃً لِّـلَّذِیْنَ اٰمَنُوا الْیَہُوْدَ وَالَّذِیْنَ اَشْرَکُوْاج}(المائدہ:82) ’’تم لازماًپائو گے اہل ِایمان کے حق میں شدید ترین دشمن یہود کو اور ان کو جو مشرک ہیں۔‘‘
ہندو مشرک اور صہیونیوں میں مماثلت ہے اور دونوں ایک دوسرے کو تقویت دیتے ہیں ۔ گریٹر اسرائیل اور اکھنڈ بھارت کا منصوبہ ایک جیسا ہی ہے ۔احادیث کی پیشین گوئیوں کو سامنے رکھیں توآخری دور میں ایک جنگ مشرق وسطیٰ میں اور دوسری جنگ برصغیر میں لڑی جارہی ہوگی اور بظاہر دیکھا جائے تو غزہ کی جنگ اس کاآغاز ہے۔دوسری طرف ہندو انتہا پسندی بھی اس کا آغاز معلوم ہورہی ہے ۔ جہاں تک مذمت کی بات ہے کہ تو اس وقت ہندوستان کا ہندو مودی کوسپورٹ کررہاہے۔یہی وجہ ہے کہ اس کو دو تہائی اکثریت حاصل ہے ۔ دوسری طرف وہاںکانگریس ہے جس پر نہرو خاندان کی مکمل اجارہ داری تھی لیکن راجیوگاندھی کے بعد اس کا زوال شروع ہوگیا۔ جبکہ دوسری طرف بے جے پی ہندو اکثریت میں مقبولیت حاصل کرتی چلی گئی ۔ اب مودی کے خلاف بولنے والے لوگ بہت کم رہ گئے ہیں اور ان کی کوئی پوزیشن بھی نہیں رہی ۔ کانگریس ایک تو کمزورہے دوسرا اس کو بھی ہندوؤں کا ووٹ چاہیے ہوتاہے اس لیے وہ بھی خاموش ہے ۔ جبکہ مسلمان آپس میں تقسیم ہیں ۔ بہت سارے مسلمان لیڈر بی جے پی میں بھی شامل ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے مودی نے کچھ اقدامات کیے تومسلمان علماء نے بھی اس کو سپورٹ کیا ۔اس کی وجہ یہی ہے کہ ایک توکمزور ہیں اور دوسرے متحدنہیں ہیں اور ان کی کوشش یہی ہے کہ ہم حکومت کو ناراض نہ کریں تاکہ ہمارے اوپر سختی کم سے کم ہو۔ عوام کی آواز مختلف ہے اورایسے مواقع پرہی تحریکیں اٹھتی ہیں لیکن اس میں ابھی وقت لگے گا۔ پاکستان کاردعمل بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ ماضی میں کشمیر پر یا بھارت کے مسلمانوں کے خلاف بھارتی حکومت کوئی کارروائی کرتی تھی تو پاکستان کےعوام سڑکوں پر نکل آتے تھے اور مذہبی جماعتیں ان کو لیڈ کرتی تھیں۔ مشرق وسطیٰ کے مسلم ممالک چونکہ انڈیا کے ساتھ معاشی معاہدوں میں بندھے ہوئے ہیں اس لیے وہ بھی کوئی ردعمل نہیں دے رہے ۔ ان کو پتا ہے کہ انڈیا اور مغرب کا اتحاداس قدر اہمیت کا حامل بن چکا ہے کہ وہ دونوں ایک دوسرے پر انحصار کر رہے ہیں ۔ بہرحال یہ ساری صورت حال ہمارے لیے ایک المیہ ہے ۔
سوال:مودی سرکار کے کشمیر کے حوالےسے اقدامات اور پھر حالیہ رام مندر کا افتتاح ، کیااب ثابت نہیں ہوا کہ مسلم لیگ اور قائد اعظم کافیصلہ درست تھا؟
ڈاکٹر حسن صدیق: بالکل آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں ۔ بیس سال پہلے پاکستان کے میڈیا پر امن کی آشا کے نام سے ایک مہم شروع کی گئی جس میں کچھ سیاست دانوںنے بھی یہ کہاکہ یہ درمیان میں ایک لکیر ہے ورنہ ہم توسینکڑوں سال سے اکٹھے رہ رہے ہیں۔ ہمارا کلچر ایک ہے وغیرہ ۔ یعنی وہ قائد اعظم اور علامہ اقبال کے نظریے کے خلاف بات کررہے تھے ۔درحقیقت قائد اعظم اور علامہ اقبال نے ہندوستان کی سیاست میں رہ کر ہندو ذہنیت کو پڑھا اور پھر اپنے مشاہدے کی بنیاد پر یہ فیصلہ کیاکہ ہم اکٹھے نہیں رہ سکتے۔ ان کے مقابلے میں وہاں کے بڑے مسلمان لیڈر تھے ۔ حال ہی میں انڈین اداکار عامرخان کی ویڈیو وائرل ہوئی جس میں اس نے دعویٰ کیا کہ وہ مولانا ابوالکلام آزاد کے رشتہ دار ہیں ۔ لیکن عملی طور پر دیکھیں تو عامر خان نے ہندو عورت سے شادی کی اور اب اس کی بیٹی نے بھی ایک ہندو لڑکے سے شادی کی ہے۔ بہرحال اب قائداعظم کاموقف بالکل کھل کرثابت ہوگیا ہے ۔ انڈیا میں پہلے کانگریس ایک منافقانہ سیاست کرتی تھی یعنی بظاہر سیکولرازم کا دکھاوا کرتی تھی لیکن پس پردہ ہندوؤں کو سپورٹ کرتی تھی ۔ 1971ء میں اس نے وہی کیا جو ہندو توا کا نظریہ تھا ۔ بی جے پی کے دور میں وہی انتہائی پسندی کھل کر سامنے آگئی ہے اور اب پاکستان کا لبرل طبقہ بھی ماننے پر مجبور ہوچکا ہے کہ قائد اعظم کا فیصلہ سوفیصد درست تھا۔ہم یہ نہیںکہتے ہیں کہ انڈیا سے معاشی وتجارتی تعلقات نہ ہوں ،وہ کشمیر سے مشروط ہونے چاہئیں لیکن نظریاتی طور پر ہماری نوجوان نسل کنفیوژن کا شکار تھی کہ پاکستان بننا چاہیے تھا یانہیں ۔ لیکن موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے وہ ساری کنفیوژن ختم ہوچکی ہے اور یہ بات بالکل واضح ہوچکی ہے کہ انڈیا ایک ہندو ریاست ہے ۔
رضاء الحق:اس میں کوئی شک نہیںکہ قائد اعظم اورعلامہ اقبال کی سوچ درست ثابت ہوئی لیکن دوسری طرف ہم نے پاکستان بنانے کے بعد کیا کیا ؟انڈیا سیکولرازم کی بنیاد پر قائم ہوااور پاکستان اسلام کے نام پر بنا اور ہمارا دعویٰ تھا کہ ہم یہاںخلافت راشدہ کے طرز پر جدید تقاضوں سے ہم آہنگ نظام قائم کریں گے ۔یعنی خلافت پر پڑے ملکوکیت کی دھبوں کو ختم کریں گے اور دنیا کو دکھائیں گے کہ یہ ہے اسلام کا اصل نظام ۔ لیکن عملی طور پر دونوں ملکو ں نے اپنی جگہ ریورس گیر لگا دیا۔ آج انڈیا سیکولرازم سے نکل کرایک فاشسٹ ہندو ریاست کے طور پرسامنے آرہا ہے اور پاکستان سیکولرائز ہوتا جارہا ہے۔ پاکستان میں اسلامی نظام کے لیے صرف جزوی کوششیں ہوئی ہیں۔جن میں قرارداد مقاصد کاپاس ہونا،31علماء کا 22نکات مرتب کرلینا، 56اور 73ءکے آئین میں اسلامی دفعات کاشامل ہونا وغیرہ شامل ہیں ۔ بہرحال انڈیا اسی طرح انتہا پسندانہ اقدامات کرتا رہے گا تومستقبل میں وہ تباہ وبرباد ہوجائے گا کیونکہ وہاں اقلیتیں بڑی تعداد میں ہیں اور پاکستان نے اگر اپنا رخ اسلام کی طرف نہ کیا تواس کے ساتھ بھی کوئی بڑا حادثہ پیش آسکتا ہے ۔
سوال: موجودہ حالات میں بھارت کے مسلمان بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ اور اپنے اسلامی تشخص کے بچائو کے لیے کیا اقدامات کریں ؟
رضاء الحق:جس طرح اسرائیل کے خلاف حماس مزاحمت کر رہی ہے اور اسے مشکلات کا سامنا ہے۔ اسی طرح انڈیا میں مسلمان تقریباً21 کروڑ ہیں ۔ وہ اگر سیاسی اور مسلکی طور پر متحد ہوجائیں تو بہت بڑی فورس بن سکتے ہیں اورمسلمانوںکے حقوق کادفاع کرسکتے ہیں۔کیونکہ ان کے بنیادی حقوق وہاں کے آئین میں موجود ہیں لیکن اگر ان کی حفاظت نہیں کریںگے تووہ چھین لیے جائیں گے ۔لہٰذا جو بھی آئینی و قانونی طریقہ کار موجود ہے اس کو استعمال میں لے کے آئیں۔ایک دفعہ انڈین عدالت نے مسلمانوں کے عائلی قوانین میں دخل دینے کی کوشش کی تھی تومسلمانوں نے متحد ہوکراس قدر بڑی مزاحمت کی کہ عدالت کو فیصلہ واپس لینا پڑ ا۔ پھر انڈیا میں دیگر اقلیتوں کے ساتھ بھی مظالم ہورہے ہیں ۔ وہاں کم ازکم بیس سے زیادہ ایسی تحریکیں چل رہی ہیں جوانڈیا سے علیحدگی چاہتی ہیں ۔ اسی طرح بی جے پی کی مخالف جماعتیں بھی موجود ہیں ۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ ان سب کے ساتھ اپنا اتحاد قائم کریں اور ایک مضبوط پوزیشن میں آکر اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھائیں ۔ اہم بات یہ ہے کہ اب انڈیا کے مسلمانوں کو اپنی لیڈر شپ سامنے لانے کی ضرورت ہے ۔ 21کروڑ مسلمانوںکی رہنمائی کے لیے وہاں متبادل لیڈرشپ ہی موجود نہیں ہے ۔ جس طرح مسلم لیگ نے مسلمانوں کو لیڈ کیا تھا اور پاکستان بن گیا تھا اسی طرح اگر اب بھی انڈیا کے مسلمان اپنے اندر قیادت اور تحریک پیدا کریں تو ایک نیا پاکستان بن سکتا ہے ۔
ڈاکٹر حسن صدیق:انڈیا نے وہاں اینٹی اسلام اقدامات کر کے اپنے آپ کو ایک ہندوریاست کے طور پرمنوالیا ہے ۔ لہٰذا پاکستان کو بھی چاہیے کہ وہ یہاں اسلام کو نافذ کرکے ایک اسلامی ریاست خود کو منوائے ۔ اس کے لیے مذہبی اور دینی سیاسی جماعتیں اپنا کردار ادا کریں ۔ انہوں نے اپنے آپ کو ہندوازم کی بنیاد پر متحد کرلیا لیکن آخر ہم کب اپنے آپ کو اسلام کے نام پر متحد کریں گے ۔ آخر میں جوناامیدی پھیلی ہے اس کے حوالے سے قرآن کی آیت پیش کرنا چاہوں گا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
{یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِئُوْا نُوْرَ اللہِ بِاَفْوَاہِہِمْ وَاللہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ(8) ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ وَلَــوْ کَرِہَ الْمُشْرِکُوْنَ(9)} (الصف) ’’وہ تلے ہوئے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے منہ (کی پھونکوں) سے بجھا کررہیں گے‘اور اللہ اپنے نُور کا اتمام فرما کر رہے گا ‘ خواہ یہ کافروں کو کتنا ہی ناگوار ہو۔وہی ہے (اللہ) جس نے بھیجا اپنے رسولؐ کو الہدیٰ اور دین ِحق کے ساتھ تاکہ غالب کر دے اس کو پورے نظامِ زندگی پر‘اور خواہ مشرکوں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو!‘‘
ہمیں یہی امید لگانی چاہیے وقتی طور پر وہ کامیاب ہیںلیکن بالآخر فتح مسلمانوں کی ہونی ہے ۔ ہمیں چاہیے کہ اللہ کے دین اورقرآن کو نافذ کرنے کی کوشش کرتے رہیں۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2025