انتخابی مہم اور عمومی منکرات
مرکزی شعبہ تعلیم و تربیت تنظیم اسلامی
نبی اکرمﷺ کے فرمان کے مطابق ’’اللہ تعالیٰ، رسول اللہﷺ اور قرآن حکیم کی وفاداری کے ساتھ عام مسلمانوں اور ان کے حکمرانوں کی خیرخواہی بھی دین میںمطلوب ہے۔‘‘ (صحیح مسلم)
خیرخواہی کے اسی جذبے کے تحت ہم اپنے ہم وطنوںکو ان منکرات سے آگاہ کرنا چاہتے ہیں جن کا ارتکاب دانستہ یا نادانستہ طور پر کثرت کے ساتھ انتخابی مہم وسیاست میں ہوتا ہے۔
انتخابی مہم کے دوران ہونے والے عمومی منکرات
بہتان و الزام تراشی:
ہماری سیاست میں مخالف سیاستدانوں کی مقبولیت کم اور عوام کو ان کی طرف سے متنفر کرنے کے لیےبہتان اور الزام تراشی عام ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’جو کسی مسلمان کی طرف ایسی بات منسوب کرے جو اُس میں نہیں ہے تو اللہ اُس وقت تک اُسے دوزخ میں جہنمیوں کے پیپ وخون اور میل کچیل میں کھڑا رکھے گا جب تک وہ اپنے جرم کی سزا بھگت نہ لے۔‘‘ (سنن ابی داؤد)
چغل خوری:
ہمارے ہاں مخالف پارٹی میں پھوٹ ڈالنے کے لیےچغل خوری کا استعمال عام ہے اور اس کے ماہر کو بہترین سیاستدان سمجھا جاتا ہے۔ جبکہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ کے (پیدا کردہ) بندوں میں سب سے برے لوگ وہ ہیں جو چغلیاں لگاتے پھرتے ہیں اور اس طرح وہ باہم دوستی رکھنے والوں کے درمیان دوری پیدا کرتے ہیں۔‘‘ (مسند احمد) نیز فرمایا کہ ’’چغل خور جنت میں داخل نہ ہو گا۔‘‘ (صحیح مسلم)
نبی اکرم ﷺ قبرستان سے گزرے تو ایک قبر والے کے بارے میں فرمایا : ’’اُسے چغل خوری کی پاداش میں عذاب دیا جا رہا ہے۔‘‘ (صحیح بخاری)
طعنہ زنی:
ایک دوسرے پرطعنہ زنی، تحقیرو استہزا اور برا بھلا کہنا بھی ہماری سیاست کا معمول بن چکا ہے۔نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’مومن طعنے دینے والا، لعنت کرنے والا، برا بھلا کہنے والا اور بے ہودہ گوئی کرنے والا نہیں ہوتا۔‘‘ (سنن ترمذی)
آپ ﷺنے فرمایا: ’’آدمی کے برا ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ دوسروں کی تحقیر کرے۔‘‘ (صحیح مسلم)
جھوٹ بولنا:
کاغذات کی جانچ پڑتال اور دیگر مواقع پر جھوٹ ہمارے ہاں عام ہے جب کہ قرآن مجید میںجھوٹوں پر اللہ کی لعنت کی گئی ہے (آل عمران:61)
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:’’جھوٹ سے بچو بے شک جھوٹ برائی کی طرف لے جاتا ہے اور برائی دوزخ تک پہنچا دیتی ہے۔‘‘ (صحیح مسلم)
نبی ﷺکو ایک بار کچھ مبتلائے عذاب لوگ دکھائے گئے۔ اُن میں سے ایک آدمی کی باچھیں لوہے کے زنبور سے چیری جا رہی تھیں۔ آپ ﷺ کے پوچھنے پر حضرت جبریلؑ اور حضرت میکائیلؑ نے بتایا یہ ایک جھوٹا شخص ہے جو ایسے(بڑے بڑے) جھوٹ بولا کرتا تھا جو لوگوں کے ذریعے پوری دنیا میں پھیل جایاکرتے تھے۔ پس قیامت کے دن تک اُسے یہی عذاب ہوتا رہے گا۔ ‘‘ (صحیح بخاری)
جھوٹے دعوے کرنا:
انتخابی مہمات میں ملک وقوم کی خدمت کے عظیم دعوے کئے جاتے ہیں۔ ہماری سیاست کی تاریخ اور سیاستدانوں کا کردار ان کے جھوٹا ہونے پر شاہد ہے۔ فرمان الٰہی ہے: ’’اے ایمان والو! کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں، اللہ کے غضب کو بہت بھڑکانے والی ہے یہ بات کہ تم وہ کہو جو کرتے نہیں۔‘‘ (الصف)
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’میرے بعد ایسے ناخلف حکمران آئیں گے جو ایسے دعوے کریں گے جن پر عمل نہ کریں گے۔‘‘ (مسنداحمد)
’’قیامت کے دن اللہ جھوٹے حکمران کی طرف نہ تو کرم کی نظر کرے گا، نہ ہی اس سے بات کرے گا اور نہ ہی اس کے گناہ معاف کرے گا بلکہ اسے دردناک عذاب دے گا۔‘‘ ( مسلم)
بلند وبانگ دعوے کرنا:
لاف زنی اور بڑھکیں لگانا اسلام میں پسندیدہ نہیں ہے جب کہ ہماری سیاسی سرگرمیوں میں یہ وبا عام ہے۔ عام وعدوں، منصوبوں یا دعووں کے ساتھ ’’ان شاء اللہ‘‘ کا استعمال کم ہی دیکھنے میں آتا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’کبھی مت کہو کہ میں کل یہ کام کروں گا مگر ساتھ ان شاء اللہ (یعنی اللہ نے چاہا تو) کہا کرو۔‘‘ (الکہف23،24)
آپ ﷺ نے فرمایا : ’’انسان کے کمالِ ایمان میں سے یہ بھی ہے کہ وہ ہر بات (کام) میں ان شاء اللہ کہے۔‘‘(المعجم الاوسط)
عہد شکنی:
قرآن و حدیث میں وعدے کی بہت اہمیت بیان کی گئی ہے۔ ارشاد خداوندی ہے: ’’عہد کی پاسداری کرو، بے شک عہد کے بارے میں پوچھا جائے گا۔‘‘
(بنی اسرائیل:34)
وعدے کی پاسداری دین کا اتنا اہم اور ضروری حصہ ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا: ’’جس شخص میں وعدے کی پاسداری نہیں اس کا کوئی دین ہے ہی نہیں۔‘‘ (مسند احمد)
’’منافقین کی ایک نشانی عہد شکنی بھی ہے۔‘‘ (صحیح بخاری)
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’قیامت والے دن ہر عہد شکنی کرنے والے کے لیےبطور نشانی ایک جھنڈا بلند کیا جائے گا اور جو جتنا بڑا عہد شکن ہو گا اس کا جھنڈا بھی اتنا ہی بلند ہو گا اور کہا جائے گا یہ فلاں کی دھوکے بازی کا جھنڈا ہے۔‘‘ (احمد)
مدح سرائی کی حوصلہ افزائی:
نبی اکرم ﷺ کے سامنے ایک شخص نے دوسرے کی تعریف کر دی تو آپ ﷺ نے کئی بار فرمایا : ’’تم نے تو اپنے ساتھی کی گردن اڑا دی۔‘‘ (مسلم)
اسلام میں یہ بھی پسند نہیں کیا گیا کہ انسان اپنی تعریف پسند کرے، خوشامدپرستوں کی حوصلہ افزائی کرے اور انہیں اپنی تشہیری مہم چلانے کی اجازت دے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:’’جب تعریف کرنے والے تم سے ملیں تو اُن کے منہ میں خاک بھر دو۔‘‘ (ابوداؤد)
شہرت پسندی وخود نمائی :
نیکی کی توفیق ملنے پر اپنی تعریف اور دنیاوی فائدے کے بجائے اللہ کا شکر اور آخرت میں بھرپور اجر کی دعا کرنی چاہیے۔ دنیاوی فائدےکے لیے اپنی نیکی یا خدمت خلق کی تشہیر سے اجر ضائع ہو جاتا ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’جو نیکی کے کسی کام پر اپنی ستائش و تعریف چاہے گا تو اس نے اپنے رب کا شکر ادا کرنے کا موقع گنوا دیا اور اس کا عمل بھی ضائع ہو گیا۔‘‘ (الجامع الکبیر)۔ ایک حدیث کے مطابق ’’شہرت پسندی انسان کو اندھا اور بہرا کر دیتی ہے۔‘‘ (الجامع الصغیر)
پھر انسان ناکردہ کاموں پر بھی شہرت حاصل کرنے سے باز نہیں رہتا۔ قرآن حکیم میں اس کی مذمت میں فرمایا گیا ’’جو لوگ اپنے کیے ہوئے کاموں پر اتراتے ہیں اور ناکردہ کاموں پر بھی اپنی تعریف کروانا پسند کرتے ہیں، اُنہیں عذاب سے محفوظ نہ سمجھنا بلکہ اُن کے لیے دردناک عذاب ہے۔‘‘ (آل عمران:188)
ریاکاری:
شہرت پسندی کی انتہا یہ ہے کہ انسان نیک کام دنیامیں نام ونمود کے لیے کرنے لگتا ہے۔ ’’روزِ قیامت جب اللہ بندوں کو اُن کے اعمال کا بدلہ دے گا تو دکھاوا کرنے والوں سے کہے گا:’’ جاؤ ان لوگوں کے پاس جا کر اجر مانگو جنہیں تم دنیا میں اپنے نیک کام دکھایا کرتے تھے۔‘‘ (مسنداحمد)
حدیث پاک کے مطابق شہرت پسند شہید، عالم اور سخی کوقیامت کے دن جہنم میں جھونک دیا جائے گا۔ ‘‘ (صحیح مسلم)
حکومت وعہدے کی حرص :
ہماری سیاست میں جھوٹ، وعدہ خلافی اور دیگر غیر اخلاقی اور خلاف شریعت امور اسی لالچ کا شاخسانہ ہیں۔ نبی اکرم ﷺنے فرمایا: ’’عنقریب تم لوگ حکومت کی حرص کرنے لگو گے اور ایسی حکومت قیامت کے دن باعثِ ندامت ہو گی۔ پس دودھ پینا تو بہت عمدہ ہے لیکن دودھ کا چھڑانا بہت ہی برا ہوتا ہے۔‘‘(بخاری)
آپ ﷺنے فرمایا:’’مانگے بغیر حکومت مل جائے تو اس پر اللہ کی مدد حاصل ہوتی ہے لیکن مانگے کی حکومت پر اللہ کی مدد نہیں ملتی۔‘‘ (مسلم)
آپ ﷺ نے فرمایا ’’خدا کی قسم ہم یہ عہدہ نہ تو اس کو دیتے ہیں جو اس کی طلب کرے اور نہ ہی اسے دیں گے جو اس کا لالچ رکھتا ہو۔‘‘ (مسلم)
حکمرانی طلب کرنا خود کو سخت خطرے اور آزمائش میں ڈالنا ہے۔ نبی کریم ﷺنے فرمایا: ’’تم پر مشرق و مغرب کھول دیے جائیں گے البتہ تمہارے حکمران دوزخی ہوں گے۔ سوائے اس کے کہ جو اللہ کا تقویٰ اختیار کریں اور حکومت (کے جملہ فرائض کی) امانت ادا کریں۔‘‘ (مسند احمد)
اللہ تعالیٰ، اس کے رسول ا اور قرآن کی وفاداری کا تقاضا ہے کہ:
انفرادی زندگی میں کتاب اللہ اور سنت رسول ﷺ کے مطابق اللہ کی عبادت کی جائے۔ امیدواروں کو چاہیے کہ انتخابی مہم میں مذکورہ بالا منکرات سے قطعی اجتناب کریں اور حکومت ملنے کے بعد اللہ کے دین کو نافذ کریں۔ عوام اور سیاسی کارکن ان منکرات سے خود بھی بچیں اور دوسروں بالخصوص انتخابی امیدواروں اور سیاسی جماعتوں کو بھی اِن سے بچنے کی ترغیب دیں اور ان سے بھرپور طور پر نفاذ اسلام کا مطالبہ کریں۔
فرمان الٰہی ہے:
’’اور چاہیے کہ تم میں سے ایک جما عت ہو جو خیرکی طرف بلا ئے اور نیکی کا حکم دے اور برا ئی سے روکے اور یہی لو گ کامیاب ہو نے والے ہیں‘‘۔(آلِ عمران:104)
انتخابی مہم کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں سے پاک رکھیے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو احکامِ الٰہی اور سنت رسول اللہ ﷺ کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق دے۔ آمین یا رب العالمین!
tanzeemdigitallibrary.com © 2024