(منبرو محراب) امانت اور عدل، ووٹ اور حکمرانی - ابو ابراہیم

11 /

امانت اور عدل، ووٹ اور حکمرانی


جامع مسجدقرآن اکیڈمی، کراچی میںامیر تنظیم اسلامی شجاع الدین شیخ حفظ اللہ کے 26 جنوری2024ء کے خطابِ جمعہ کی تلخیص

خطبہ ٔمسنونہ اور تلاوت آیات کے بعد
آج ہم ان شاء اللہ سورۃ النساء کی آیت58 کی روشنی میںامانت کی پاسداری اور عدل کے قیام کے متعلق احکام الٰہی کا مطالعہ کریں گے ۔ فرمایا : 
{اِنَّ اللہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُــؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَہْلِہَالاوَاِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ ط اِنَّ اللہَ نِعِمَّا یَعِظُکُمْ بِہٖ طاِنَّ اللہَ کَانَ سَمِیْعًام بَصِیْرًا(58)}(النساء)
یہاں پہلی ہدایت یہ ہے کہ امانتیں اہل لوگوں کے سپرد کرو ، دوسری ہدایت یہ ہے کہ جب فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ فیصلہ کرو اور بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ عمدہ وصیت اور نصیحت فرما رہا ہے۔ البتہ اللہ خوب سننے والا ہے کہ تم اللہ کے احکام کے متعلق کیا فیصلہ کرتے ہو ۔ یہ بات محض انفارمیشن کے لیے اللہ تعالیٰ نہیں بتا رہا بلکہ واضح اعلان ہے کہ کل اللہ تعالیٰ اس بارے میں تم سے پوچھے گا بھی ۔ اس وقت پاکستان میں عام انتخابات کی گہما گہمی ہے ۔ آئندہ خطبہ جب لاہور میں ہوگا تو اس وقت تک الیکشن ہو چکے ہوں گے ۔ تب اس حوالے سے کچھ باتیں وہاں بھی عرض کی جائیں گی ۔ ان شاء اللہ ۔ الیکشن سے پہلے کچھ باتیں ہم یاددہانی کے طور پر بیان کرنا چاہیں گے ۔
ووٹ ایک مقدس امانت ہے: یہ ایک معروف جملہ ہے، اس پر فتاویٰ بھی موجود ہیں اور اس کے برعکس بھی کچھ آراء بیان کی جاتی ہیں تو درمیان کی شکل کیا ہے، وہ ہم آپ کے سامنے رکھ دیں گے لیکن بہرحال وہ ایک امانت اگر ہے تو پھرامانت کا دین نے حکم دیا ہے کہ اس کو اہل لوگوں کے حوالے کرو۔امانت کا تصور ایک وسیع تصور ہے۔ ہر پیغمبر نے اپنے تعارف کے ذیل میں فرمایا : {اِنِّیْ لَـکُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌ(125)}(الشعراء) ’’یقیناً مَیں تمہارے لیے ایک امانت دار رسول ؑ ہوں۔‘‘
یہ رسولوں کا بنیادی وصف ہے۔ رسالت مآب ﷺ کے بارے میں ہم سب واقف ہیں کہ مشرکین بھی آپ ﷺ کو صادق اور آمین کہتے تھے ۔بدقسمتی سے آج ہم نے اس پیغمبرانہ وصف کا بھی مذاق اڑانا شروع کر دیا ۔ ہمارے آئین کے آرٹیکل 62اور63 پر کلام کرتے ہوئے بعض  سیاستدان ، ججز ، وکلاء ، اینکرز اور وی لاگرز جو منہ میں  آتاہے بولتے چلے جاتے ہیں۔ خیال کرنا چاہیے کن صفات پر کلام ہو رہا ہے اور ان صفات کی نسبت کائنات کی کن عظیم ہستیوں کے ساتھ ہے ۔ اللہ کے پیغمبرﷺ نے ا س وصف کو ایمان کے ساتھ جوڑا ہے ۔ فرمایا:
((لاایمان لمن لاامانۃ لہ ))’’جس میں امانت کی پاسداری نہیں اس کا ایمان نہیں۔‘‘
یہ کوئی دین سے باہرکی شے نہیں ہے ۔ اگر ایمان واقعتاً ہو گا تو بندہ دیانت دار ہوگا ، امانت کی پاسداری کرے گا ۔ اللہ تعالیٰ نے جنت الفردوس پانے والوں کی صفات قرآن میں بیان فرمائی ہیں :{وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِاَمٰنٰتِہِمْ وَعَہْدِہِمْ رٰعُوْنَ(8)} (المومنون ) ’’اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کی حفاظت کرنے والے ہیں۔‘‘
اللہ کے رسول مکرم ﷺنے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ منافق کی چار نشانیاں ہیں:جب بات کرے گا جھوٹ بولے گا؟ جب وعدہ کرے گا خلاف ورزی کرے گا، جب امانت رکھوائی جائے گی خیانت کرے گا اور جب جھگڑا ہوگا تو گالیوں پر اُتر آئے گا۔ بقول ڈاکٹر اسرار احمدؒ عموم کے اعتبار سے آج ہمارایہ قومی مزاج بن چکا ہے۔ وہ تو اپنے دور میںکہہ رہے تھے۔ آج تو 136سے زائد سیٹلائٹ چینلز ہیں اور لاکھوں کی تعداد میںیوٹیوبر ز ہیں ۔ ذرا دیکھیے آج ہمارا قومی مزاج کیا ہے۔ جھوٹ ،وعدہ خلافی خیانت اور گالیاں! اللہ ہم سب کی حفاظت فرمائے، یہ منافقین کا طرز عمل ہے۔
امانت صرف وہ نہیں جو کسی کے پاس بطور امانت رکھوا دی جائے بلکہ امانت کا تصور بڑا وسیع ہے۔اللہ نے مجھے اور آپ کو جسم دیا تو یہ بھی امانت ہے اور اس کے بھی ہر عضو کے بارے میں کل پوچھا جائے گا ۔ فرمایا : 
{اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ اُولٰٓئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْئُوْلًا(36)}( بنی اسرائیل) ’’یقیناً سماعت‘ بصارت اور عقل سبھی کے بارے میں باز پُرس کی جائے گی۔‘‘
اسی طرح انسان کو دنیا میں جو بھی نعمتیں میسر ہیں ان سب کے بارے میں کل پوچھا جائے گا : {ثُمَّ لَتُسْئَلُنَّ یَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِیْمِ(8)}(التکاثر) ’’پھر اُس دن تم سے ضرور پوچھا جائے گا نعمتوں کے بارے میں۔‘‘
آنکھ کہاں استعمال ہو رہی ہے ،کان کہاں استعمال ہو رہے ہیں، زبان کہاں استعمال ہو رہی ہے ، یہ ہاتھ ، پیر ، صلاحیتیں ، ذہن ، طاقت ، اختیار ، عہدہ کہاں کہاں استعمال ہورہے ہیں ، ہر چیز کے بارے میں پوچھا جائے گا ۔
{وَاِنْ تُـبْدُوْا مَا فِیْ اَنْفُسِکُمْ اَوْ تُخْفُوْہُ یُحَاسِبْـکُمْ بِہِ اللہُ ط}(البقرۃ:284) ’’اورجو کچھ تمہارے دلوں میں ہے خواہ تم اسے ظاہر کرو خواہ چھپائو اللہ تم سے اس کا محاسبہ کر لے گا۔‘‘
اس وجود میں اللہ نے روح پھونکی ہے اوراس روح کی آبیاری کرنا، اس روح کے تقاضوں کو پورا کرنا بھی امانت کی پاسداری کا تقاضا ہے ۔ فرمایا :
{قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰىہَا(9) وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىہَا(10)}(الشمس) ’’یقیناً کامیاب ہو گیا جس نے اس (نفس) کو پاک کر لیا۔اور ناکام ہو گیا جس نے اسے مٹّی میں دفن کر دیا۔‘‘
کامیاب وہی ہوگا جو اس امانت کی پاسداری کرے گا ۔ اسی طرح یہ اللہ کا کلام بھی اللہ کی امانت ہے ، اللہ کے رسول ﷺ پورا دین دے کر گئے ، یہ بھی امانت ہے ۔ ان کے بارے میں کل جواب دینا ہے۔ یہاں تک کہ جو مال و اسباب ہم دنیا میں استعمال کرتے ہیں ۔ اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا : روز محشر بندے کے قدم اُٹھنے نہ پائیں گے جب تک کہ وہ پانچ سوالوں کا جواب نہ دے لے ۔ زندگی کہاں لگائی، جوانی کہاں کھپا دی ،مال کہاں سے کمایا ، کہاں خرچ کیا ،علم جو حاصل کیا ، اس پر کتنا عمل کیا ۔
مفسرین نےلکھا ہے کہ علماء کے پاس دین کا علم امانت ہے ، اگر صحیح طور پر نہیں پہنچا رہے تو یہ بھی امانت میں خیانت ہے ۔ کسی کے پاس حکومتی عہدہ ہے ، اگر اس کا صحیح استعمال نہیں کر رہا تو یہ بھی امانت میں خیانت ہے ۔ بازار میں ایک ریڑھی والااگر تول میں ڈنڈی مارتا ہے تو کتنوں کا نقصان ہوتا ہے ۔ ذرا سوچئے ! یہ جو لوگ حکومتی عہدوں پر بیٹھے ہوئے ہیں ،مختلف محکموں میں ، اداروں ، بیوروکریسی میں بڑے عہدوں پر ہیں ، یہ اگر اپنے اختیارات اور عہدے کا غلط استعمال کریں گے تو پوری قوم کا کتنا نقصان ہوگا ۔ یہ تو پوری قوم کے مجرم ہیں ۔ رسول اللہﷺ کے دور میں ایک شخص آپ ﷺکے ساتھ مل کر کفار کے خلاف جہاد کرتا رہا ۔ ایک جنگ میں مارا گیا تو صحابہؓ نے کہا یہ شہید ہوگیا لیکن حضورﷺنے فرمایا : شہید نہیں بلکہ یہ تو سیدھا جہنم میں گیا ۔ فرمایا : جب مال غنیمت تقسیم ہورہا تھا تو اس نے ایک چادر چرا لی تھی ۔ آج دیکھئے ! ہمارے قومی اداروں میں بیٹھے ہوئے لوگ کتنی بڑی بڑی کرپشن کر رہے ہیں ۔FBRکا چیئرمین سینٹ میں کھڑے ہوکر گواہی دے رہا ہے کہ صرف FBR میں 600 ارب روپے کی کرپشن ہوئی ہے ۔ یہ وہ ادارہ ہے جس نے قوم سے ٹیکس وصول کرنا ہوتا ہے ، ٹیکس بھی قوم کی امانت ہے ۔ جب اس ادارے کا یہ حال ہے تو باقی قوم کا کیا حال ہوگا ۔ ایک رسی اضافی لینے پر اللہ کے رسول ﷺ نے جہنمی قرار دیا اس شخص کو جو اللہ کے دین کے لیے لڑ رہا تھا ، اس نے کوئی اربوں روپے کے جزیرے نہیں بنائے تھے ، کھربوں روپے کی جائیدادیں نہیں بنائی تھیں ۔ آج ہم اس کے باوجود خود کو جنت کا مستحق سمجھتے ہیں ۔کیا اللہ کی جنت اتنی سستی ہے ؟ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا :
((کُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْؤُوْلٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ)) (متفق علیہ) ’’تم میں سے ہر آدمی نگہبان ہے اور ہر آدمی اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہ ہے۔‘‘
باپ ہے تو اولاد کے بارے میں سوال ہوگا، آج ہمیں خیال ہے کہ ان کے لیے گاڑی ہو ، اے سی ہو ، مہنگے سکولوں میں تعلیم ہو ، باہر کے ویزے ہوں لیکن کیا ہمیں یہ بھی احساس ہے کہ روز محشر کیا پوچھا جائے گا ؟ انہیں حلال کھلایا یا حرام ؟ ان کو کونسی تعلیم دلوائی ، دین کا شعور سکھایا؟ انہیں اچھا مسلمان بنایا ؟اسی طرح حقوق العباد اور حقوق اللہ بھی امانت ہیں ۔ ماں باپ سے اولاد کے حقوق کے بارے میں ، اولاد سے ماں باپ ، رشتہ داروں کے حقوق کے بارے میں شوہر سے بیوی کے حقوق کے بارے میں اور بیوی سے شوہر کے حقوق کے بارے میں پوچھا جائے گا ۔ بندے سے اللہ کے حقوق کے بارے میں پوچھا جائے گا کہ عبادات و فرائض کو پورا کیا ، بندگی کے تقاضے پورے کیے ؟ الغرض مفسرین نے لکھا یہ آیت اتنی جامع آیت ہے کہ پورا دین اس میں سما جاتاہے ۔ فرمایا : {اِنَّ اللہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُــؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَہْلِہَالا}’’اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل امانت کے سپرد کرو۔‘‘
یہ عہدے ، یہ مناصب ، اختیار ،کرسی ، حکومت سب امانت ہیں ۔اس امانت کی پاسداری کا تقاضا ہے کہ سرکاری عہدوں اور حکومتی ایوانوں میں بیٹھے ہوئےلوگ  کسی کی appointment کرتے ہیں تو اہل لوگوں کی کریں ۔ اسی طرح ووٹ بھی امانت ہے اور اس امانت کی پاسداری کا تقاضا ہے کہ عوام بھی اہل لوگوں کو ووٹ دیں ۔
تنظیم اسلامی کا اصولی مؤقف یہ ہے کہ انتخابات سے نظام تبدیل نہیں ہوسکتا ۔ یہ ملک اسلام کے نام پر بنا ہے ۔ یہاں اسلام انتخابات کے ذریعے نہیں آسکتا ۔ پاکستان کی 76 سالہ تاریخ بھی اس کی گواہ ہے ۔ اسلام صرف ایک انقلابی تحریک کے ذریعے آئے اور تنظیم اسلامی کی اصل جدوجہد اسی مقصد کے لیے ہے ۔ لیکن ہمارا یہ بھی مؤقف ہے کہ جب تک اسلامی انقلاب نہیں آجاتا تب تک اس ملک کا نظام چلانے کے لیے جمہوریت سے بہتر راستہ کوئی اور نہیں ہے اور جمہوریت کے لیے انتخابات کا ہونا ضروری ہے ۔ اس ضمن میں عوام کے لیے ضروری ہے کہ وہ ووٹ اہل لوگوں کو دیں ۔ تنظیم اسلامی اپنے رفقاء کو ووٹ دینے سے نہیں روکتی البتہ اس کے لیے دو بنیادی شرائط طے کر دی ہیں : 
1۔ اس امیدوار کو ووٹ دیں جو بظاہر فسق و فجور میں مبتلا نہ ہو ۔
2۔آپ جس امیدوار کو ووٹ دے رہے ہیں اس کا تعلق کسی ایسی جماعت سے نہ ہو جس کے منشور میں کوئی خلاف اسلام بات شامل ہو ۔ یہ بھی دیکھیں کہ اس جماعت کی قیادت کے بیانات میں کوئی خلاف اسلام بات شامل تو نہیں ہے ۔
اگر ان دو شرائط کو آپ مدنظر نہیں رکھتے تو گویا آپ بھی امانت میں خیانت کر رہے ہیں اور اسلام کے خلاف ووٹ دے رہے ہیں ۔ یہ ہماری تنظیم اسلامی کی سوچی سمجھی رائے ہے ۔
یہ دیکھ کر افسوس ہوتاہے کہ آج دینی سیاسی جماعتیں بھی ایک دوسرے کے خلاف کھڑی ہوئی ہیں اور کہیں یہ سیکولر سیاسی جماعتوں کے ساتھ بھی کھڑی ہیں ۔ حالانکہ اس دینی سیاسی جماعتوں کا نعرہ اسلام تھا لیکن آج مفادات کی خاطر سیکولر جماعتوں کے ساتھ کھڑی ہو گئی ہیں۔
ہماری یہ بھی رائے ہے کہ انتخابات صاف و شفاف ہونے چاہئیں ۔ امانت میں خیانت نہیں ہونی چاہیے ۔ خاص طور پر اسٹیبلشمنٹ کو سیاست سے بالکل دور رہنا چاہیے اور عوام کو حق دینا چاہیے کہ وہ کس کو منتخب کرتے ہیں۔ لیکن قصور سیاستدانوں کا بھی ہے کہ وہ دوڑ دوڑ کر اسٹیبلشمنٹ کے پاس جاتے ہیں ،کبھی کوئی اس کا لاڈلا ہوتا ہے ، کبھی کوئی لاڈلا ہو جاتا ہے ۔ عجیب مفاد پرستی کا دور دورہ ہے۔حالانکہ یہ ملک اسلام کے نام پر بنا تھا اور اس سے ہمیں محبت اسلام کی وجہ سے ہے ۔ محض زمین کا ٹکڑا کوئی معنی نہیں رکھتا ۔ ہمارا دین وطن پرستی نہیں سکھاتا ۔
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جوپیرہن اس کا وہ مذہب کا کفن ہے
ہاں اس مملکت سے محبت اس لیے ہے کہ اس کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے اور اسلامی ملک یہ تب بنے گا جب یہاں اللہ کا دین نافذ ہوگا ۔ مگر ہماری سول حکومتیں ہوں ، فوجی حکومتیں ہوں یا سیاسی جماعتیں ہوں ان کی ترجیحات میں اسلام شامل ہی نہیں ہے ۔ ان میں سے کوئی بھی سود کے خاتمے کے لیے سنجیدہ نہیں ہے ۔ ان کی ساری جدوجہد کرسی ، اقتدار ، چند دنیوی مفادات کے لیے ہے ۔ آخرت میں کیا جواب دیں گے کہ یہ ساری جدوجہد ، اکھاڑ بچھاڑ ، پکڑ دھکڑ کس لیے کی گئی ؟کیا اللہ کے دین کے لیے بھی تم نے کبھی کوئی قدم اُٹھایا ؟ یہ آج الیکشن لڑنے والوں کو بھی سوچنا چاہیے کہ ان کی ترجیحات کیا ہونی چاہئیں ۔ کل اللہ کو کیا جواب دیں گے کہ اقتدار میں ہم کس نیت سے آئے اور اسلام کے لیے کیا کیا ؟آگے فرمایا: 
{وَاِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ ط اِنَّ اللہَ نِعِمَّا یَعِظُکُمْ بِہٖ ط} (النساء :58) ’’اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ فیصلہ کرو۔یقیناً یہ بہت ہی اچھی نصیحتیں ہیں جو اللہ تمہیں کر رہاہے ۔‘‘
ہمارے استاد ڈاکٹر اسرار احمدؒنے بھی اس بات کو واضح کیا کہ ہمارے ہاں دین کا بس ایک ہی ورژن پیش کیا جاتاہے جس میں چند عبادات ہیں ، کچھ رسومات ہیں اور حلال اور حرام کے کچھ مسائل ہیں بس ۔ حالانکہ اللہ کا دین ان تمام چیزوں کے ساتھ ساتھ سیاسی ، معاشی اور معاشرتی سطح کے احکامات بھی دیتاہے ۔ ان تمام سطحوں پر بھی عدل ہونا چاہیے ۔ عدل ایک جامع لفظ ہے۔ اپنی ذات میں عدل ، اپنے گھر میں عدل ، اپنے معاشرے میں عدل ، عدالت میں عدل ، ملک میں اور ریاست میں عدل ، یہ سب عدل کے تقاضے ہیں ۔ عدل اسلام کا کیچ ورڈ ہے ۔ آج ہماری عدالتوں کے باہر ترازو تو لگا ہوتاہے لیکن اندر کیا ہوتاہے ہم سب جانتے ہیں ۔ یہ عدل کی کرسی اور عہدہ بھی امانت ہے ، اگر آپ اس کی پاسداری نہیں کر سکتے تو استعفیٰ دے کر گھر چلے جائیں لیکن اگر اس کا غلط استعمال کروگے تو کل اللہ کو جواب بھی دینا پڑے گا ۔ آگے اللہ فرما رہا ہے:
{اِنَّ اللہَ کَانَ سَمِیْعًام بَصِیْرًا(58)} ’’یقیناً اللہ تعالیٰ سب کچھ سننے والا دیکھنے والاہے۔‘‘
اللہ خوب سنتا ہےتم کیا باتیں کر رہے ہو۔ تم کیا کمنٹس پاس کر رہے ہو۔ آج تو عوام بھی جانتے ہیں ، سارا سوشل میڈیا بھرا ہوا ہے ۔ لوگ خدا کی ذات سے انکار پر اتر آئےمعاذ اللہ ،دین کا مذاق اڑاتے ہیں ،دین والوں کا مذاق اڑاتے ہیں ۔اللہ یہ سب کچھ سن بھی رہا ہے اور دیکھ بھی رہا ہے اور یہ محض قرآن خبر نہیں دے رہا ہے بلکہ مقصد یہ ہے کہ کل اللہ کے سامنے پیش بھی ہونا ہے ۔ یہ بات جب مدنظر ہو تو سات پردوں میں بھی انسان امانت کی پاسداری کرتاہے ۔ حضرت عمر ؑ کے دور میں ایک ماں دودھ میں پانی ملا رہی تھی ، بیٹی نے اعتراض کیا تو ماں نے کہا کونسا عمرؓ دیکھ رہا ہے ۔ بیٹی نے کہا : ماں ! عمر تو نہیں دیکھ رہا مگر اللہ تو دیکھ رہا ہے ۔ آج ملک اور ریاست کے بڑے بڑے عہدوں پر بیٹھے ہوئے پڑھے لکھے ، ڈگری ہولڈر اور پی ایچ ڈی کیے ہوئے کیا کیا گل کھلا رہے ہیں ، سب واقف ہیں ۔ ان پڑھے لکھے لوگوں کو نہیں معلوم کہ کل رب کو جواب دینا ہے ؟ وجہ صرف یہ ہے کہ دنیا پرستی نے ہم لوگوں کو اندھا کر دیا ہے۔
کچھ عرصہ قبل تنظیم اسلامی نے عدل کے حوالے سے ایک مہم بھی چلائی تھی جس کا مقصد یہی تھا کہ عوام الناس کے اندر اس بات کا شعور پیدا ہو ۔ ہر بندہ اگر خود اپنی اصلاح کر لے گا تو معاشرہ خود بخود ٹھیک ہو جائے گا ۔ ہماری دینی جماعتوں سے اس حوالے سے کوتاہی ہوئی ہے کہ دین کے اس اہم تقاضے کے حوالے سے عوام الناس کی تعلیم و تربیت کا وہ اہتمام نہیں کیا جو کرنا چاہیے تھا ۔ اللہ تعالیٰ  ہم سب کو امانت کی پاسداری اور عدل کو قائم کرنے والا بنائے اور دین کے جملہ تقاضوں پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے ۔ آمین یا رب العالمین!