(اداریہ) 5 فروری۔ یومِ کشمیر؟ - ایوب بیگ مرزا

11 /

اداریہ
ایوب بیگ مرزا

5 فروری__ یومِ کشمیر؟

 

ہم عجب قوم ہیں، اتنے عجیب کہ اب بھی 5 فروری کو یومِ کشمیر کے طور پر مناتے ہیں۔ ہم اُس دن چھٹی مناتے ہیں، سیر سپاٹے کرتے ہیں،ڈیجیٹل ٹی وی اور آن لائن ویب سائٹس بلکہ سمارٹ فون پر بھی ہندوستانی فلمیں دیکھ کر کشمیر کے حوالہ سے اپنا احتجاج رجسٹرڈ کراتے ہیں۔ مارکیٹیں بند ہوتی ہیں۔ بہرحال کاروبار زندگی بند ہونے سے مزدور پیٹ پوجا کرنے کی بجائے شدید سردی میں آگ سینک کر گزارہ کرتا ہے۔
سنی سنائی بات ہے کہ ایک انگریز وزیراعظم نے بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں یہ تحقیق کروائی کہ جرمنی کی معیشت برطانوی معیشت سے قدرے بہتر نسبت سے کیوں ترقی کر رہی ہے۔ حاصل تحقیق یہ تھا کہ جرمن قوم قبل از دوپہر چائے کا وقفہ نہیں کرتے۔ ہم پھر عجیب قوم ہیں کہ اِسی یورپ کے کہنے پر ’’وقفہ بہت ضروری ہے‘‘ کے شدت سے قائل ہو چکے ہیں۔ سچ پوچھئے تو ہمارے پاس اب وقفوں کے سوا بچا ہی کیا ہے۔ کشمیر کے معاملے میں وقفہ ہو تو لچک آ جاتی ہے۔ سچ یہ ہے کہ کشمیر کے معاملے میں دشمن انگریز اور متعصب ہندو نے جو کچھ کیا سو کیا، اپنوں نے بھی کوئی کسر نہ چھوڑی۔ کانگریس کی مخالفت کے باوجود ہم نے انگریز سے یہ طے کروایا کہ ریاستوں کی قسمت کا فیصلہ اُن کے عوام نہیں بلکہ والیانِ ریاست کریں گے۔ صرف اِس لیے کہ ہماری نگاہیں حیدر آباد دکن کی ریاست کی دولت پر تھیں، جہاں کا والی مسلمان تھا اور اس کے خزانے میں بہت دولت تھی۔ سوال یہ ہے کہ اگر حیدر آباد کا والی پاکستان کے حق میں فیصلہ کرتا ہے تو کشمیر کے راجہ کو بھارت کے ساتھ الحاق کرنے کا حق کیوں نہیں دیا جا سکتا؟ جب کہ الحاق کا طریقہ کار خود مسلم لیگ کے اصرار پر طے کیا گیا۔ اِس کا ہرگز ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم کشمیر کے مسئلہ پر بھارت کے موقف کو درست اور پاکستان کے موقف کو غلط سمجھتے ہیں، یہ ایک نا قابل بحث مسئلہ ہے۔ ہم صرف اپنی غلطیوں کا جائزہ لے رہے تھے۔ یہی ہماری پہلی غلطی تھی جس سے کشمیر بھارت کی گود میں پکے ہوئے پھل کی طرح جا گرا۔ بعد میں ہم غلطیوں پر غلطیاں کر تے چلے گئے، حتیٰ کہ کشمیر کا مسئلہ ایک مذاق بن گیا۔ اب 5 فروری کو ہم دنیا والوں کو ہنستاتے ہیں اور اتنا ہنساتے ہیں کہ خود ہمیں بھی روتے روتے ہنسی آ جاتی ہے۔
بھارت نے ایک عرصہ سے مقبوضہ کشمیر میں قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا ہوا ہے۔ فلسطین کے مسلمانوں پر 7 اکتوبر کے بعد جو بیت گئی ہے فلکِ پیر نے ایسی انسان دشمنی کا مظاہرہ کبھی نہ دیکھا ہو گا۔حقیقت یہ ہے کہ ایشیا اور افریقہ میں مسلمانوں پر ہونے والے ظلم وستم کی داستان اتنی طویل، اتنی خونچکاں اور اتنی لرزہ دینے والی ہے کہ اسے قرطاس پر منتقل کر دینا عملاً ممکن نہیں ہے۔ جھوٹے نگوں سے مرصع چمکتی دمکتی آنکھوں کو خیرہ کرتی مغربی تہذیب کس طرح مسلمانوں کے خون کے دریا بہا رہی ہے، لیکن اپنے دامن پر چھینٹ نہیں پڑنے دیتی۔ حیرت ہے یہ سب کچھ کر کے اِن خونی درندوں کا معاشرہ پھر مہذب اور تہذیب یافتہ معاشرہ کہلاتا ہے۔ جس عیاری اور چالاکی کے ساتھ مسلمانوں کو تختۂ مشق بنایا جا رہا ہے، اور اُن پر ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں اور پھر اس ظلم وتشدد اور ریاستی دہشت گردی کو جس طرح قانون کا لبادہ اوڑھا دیا جاتا ہے، غزہ میں مسلمانوں کی نسل کُشی کے ثبوتوں کو ناقابلِ تردید تسلیم کرنے کےباوجود عالمی عدالت(نا) انصاف اسرائیل کو جنگ بند کرنے کا پابند نہیں کرتی۔ اِس کا جامع حکمت عملی سے اور اسلام کے بنیادی اصولوں کو مدنظر رکھ کر مقابلہ کرنا ہو گا۔ امریکہ اور اہل مغرب کا اوّلین ہتھیار میڈیا کے ذریعہ جھوٹا پروپیگنڈا کر کے دنیا کو مس گائیڈ کرنا ہے۔ پھر سائنس اور ٹیکنالوجی میں اپنی برتری سے اعدائے اسلام عالم اسلام پر جنگ اس طرح مسلط کرتے ہیں کہ قصور وار بھی مسلمان ہی دکھائی دیتے ہیں۔ عالم اسلام کا المیہ یہ ہے کہ مسلمان حکمران اپنے اقتدار کے تحفظ کے لئے اُن کی ڈکٹیشن کو قبول کر کے اُن کے مفادات کو آگے بڑھاتے ہیں۔ میڈیا کے ذریعے ایسی فضا قائم کر دی گئی ہے کہ مغرب مسلمانوں کو مار رہا ہے اور پھر بھی مظلوم ہے اور مسلمان مار کھا رہے ہیں اور خون میں نہا رہے ہیں، پھر بھی ظالم اور دہشت گرد ہیں۔ یہ دشمنوں کی حکمت عملی کا کمال ہے اور میڈیا کی جادوگری ہے کہ وہ سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ ثابت کر رہا ہے۔
سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے؟ اس ظالم کا ہاتھ کیسے توڑا جائے؟ جہاں تک میڈیا کا تعلق ہے ہمیں جوابی طور پر کسی جادو گری کا مظاہرہ نہیں کرنا، البتہ یہ امر لازم ہے کہ جھوٹ کی برملا تردید کی جائے، حق کی صدا بلند کی جائے اور کرنے کا اصل کام یہ ہے کہ قوت کا جواب قوت سے دیا جائے۔ اُس کی اس برتری کو چیلنج کیا جائے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سائنس اور ٹیکنالوجی میں مسلمان جس قدر پیچھے رہ گیا ہے یہ فاصلہ ختم کرنا بلکہ کم کرنا بھی انتہائی مشکل ہے۔ لیکن ایک تو یہ کہ ہمیں جدوجہد کرنا چاہیے اور ہمت نہیں ہارنا چاہیے۔ دوسرا یہ کہ غور کریں ہمیں کس چیز نے کمزور کیا ہے۔ ہم جو انسانی تاریخ میں طویل ترین عرصہ تک اس دنیا میں سپریم پاور کی حیثیت رکھتے تھے، کیوں ناتواں ہوئے؟ حقیقت یہ ہے کہ اللہ، رسول اللہ ﷺ اور کتاب الٰہی سے دور ہو کر ہم دنیا بھر میں خوار ہوئے اور ذلت و رسوائی ہمارا مقدر بن گئی۔ امت ِ مسلمہ کو ایک بار پھر سپریم پاور آن دی ارتھ بننے کے لئے اللہ اور رسولﷺ سے اپنے تعلق کو دوبارہ استوار کرنا ہو گا۔ ذرا سوچئے، نبی اکرمﷺ تو اللہ کے نبی اور رسول تھے، اگرچہ آپﷺ نے دین متین کو نافذ اور غالب کرنے کے لیے تمام تر جدوجہد انسانی سطح پر کی لیکن کوئی کہہ سکتا ہے کہ آپﷺ کو استثنا حاصل تھا ۔آپ کی حیثیت خصوصی تھی۔ ابوبکرصدیقؓ نے جس طرح حالات کا مقابلہ کیا اور آپﷺ کے وصال کے بعدبھی دین پر آنچ نہ آنے دی۔ دور فاروقی ؓ میں اُس وقت کی دو سپر قوتوں کو جس طرح تہس نہس کیا گیا۔ دور عثمانی ؓ میں بھی یہ سلسلہ دس سال تک جاری رہا۔ آج حالات اُس سے زیادہ مشکل نہیں۔ ستاون مسلمان ممالک دنیا میں ہیں۔ ان کو قدرت نے بے شمار وسائل دے رکھے ہیں۔ دنیا بھر میں پونے دو ارب کے لگ بھگ مسلمان موجود ہیں۔ تو کیا آج ہم پانسہ نہیں پلٹ سکتے۔ یقیناً ایسا ممکن ہے۔ لیکن اللہ کی مدد کے بغیر ممکن نہیں، کسی طرح ممکن نہیں۔ اور اللہ کی سنت یہ ہے کہ وہ مدد کرتا ہے بشرطیکہ مسلمان اپنےتئیں جدوجہد کا حق ادا کردیں تب اُس کی مدد آتی ہے ۔یعنی اللہ کا دین نافذ کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگادیں ۔ فرشتے میدان بدر میں مدد کو اترے تھے، آج بھی قطار اندر قطار اتریں گے۔ شرط یہ ہے کہ ہم مسلمان فضائے بدر پیدا کریں۔ گویا بال ہمارے کورٹ میں ہے۔ دل یا شکم کا فیصلہ ہم کو کرنا ہے۔ ہمیں اِس بات پر لازماً غور کرنا ہو گا کہ آخر ’’پاکستان سےرشتہ کیا: لا الٰہ الا اللہ‘‘ کا نعرہ اِس وقت مقبوضہ کشمیر کا مقبول ترین نعرہ کیوں بن گیا ہے اور اِس حوالے سے اہل پاکستان کی ذمہ داری کیا ہے۔ اِس لیے کہ یہ نعرہ اُس وقت تک نہ کوئی معنی رکھتا ہے اور نہ ہی مؤثر ہو گا جب تک پاکستان میں اِسلامی نظام قائم نہیں ہوتا اور پاکستان عملی طو رپر ایک اسلامی فلاحی ریاست نہیں بن جاتا۔ جب پاکستان کے اسلامی فلاحی ریاست بننے کے ثمرات دنیا کے سامنے آئیں گے تومقبوضہ کشمیر میں اِس حوالے سے ایسا اضطراب پیدا ہو گا اور کشمیریوں کی آزادی حاصل کرنے کی جدوجہد میں اتنی شدت آئے گی کہ بھارت کی ساری فوج بھی اُنھیں کنٹرول نہیں کر سکے گی آج تو کشمیریوں کو یہ بھی مسئلہ ہے کہ ہم جانوں کا نذرانہ دے کر اگر بھارت سے آزادی حاصل کر لیتے ہیں تو جس ملک سے ہم جڑنے کے خواہش مند ہیں وہاں کےحالات کیسے ہیں، وہاں کا نظام کیسا ہے، ایسا نہ ہو کہ آسمان سے گرا کھجور میں اٹک جائے۔ آخری اور حتمی بات یہ کہ اِس خطے بلکہ پوری دنیاکی بدلتی ہوئے صورتِ حال کا تقاضا ہے کہ کشمیر بھارت سے آزاد ہو کر پاکستان کا حصہ بنے وگرنہ پاکستان کی سلامتی بھی خطرے میں پڑ جائے گی۔ لہٰذا مقبوضہ کشمیر کی آزادی اگر اِس لیے ضروری ہے کہ ہمارے کشمیری بہن بھائی بھارت کے ظلم و ستم سے نجات حاصل کریں تو اِس لیے بھی ضروری ہے کہ پاکستان کی سلامتی اور تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔ہمیں اپنے گھوڑے تیار رکھنے کی ضرورت ہے، تاکہ ظالم جان لے کہ اُسے منہ توڑ جواب ملے گا۔آخر میں ہم اِس بات کا اعادہ کرنا لازمی سمجھتے ہیں کہ بیرونی دشمن کو اُس وقت تک دندان شکن جواب نہیں دیا جا سکتا جب تک پاکستان سیاسی، معاشی اور عسکری لحاظ سے مستحکم نہ ہوجائے اور یہ استحکام نظریۂ پاکستان کی عملی تعبیر کے بغیرحاصل کرنا ممکن نہیں ۔