(دعوت فکر) رام مند اور بھارت کا مستقبل - یوسف عرفان

7 /

رام مند اور بھارت کا مستقبل

یوسف عرفان

بی جے پی کے کٹرپنتھی وزیراعظم نریندرا مودی نے22 جنوری بروز پیر اجودھیامیں رام مندر کی تعمیر کی سرکاری تقریب کی صدارت کی۔ تقریب کی خوشی میں وفاقی اور صوبائی سرکاری ملازمین کے لیے عام تعطیل کا اعلان تھا۔ رام مندر اور اجودھیا شہر پر ہیلی کاپٹر کے ذریعے گل پاشی کی گئی۔ مودی کے ایک جانب RSSکے سربراہ موہن بھگوت، دوسری جانب یوپی کے وزیراعلیٰ اورگورنرتھے جو گجرات کے سابق وزیراعلیٰ بھی رہ چکے ہیں۔ یاد رہے کہ فروری 2002ء میں بھارتی گجرات میںکئی دن مسلمانوں کا قتل عام جاری رہا۔ مسلمانوں کے گھر اور مساجد مسمار کر دی گئیں۔ گجرات میں مسلم کشی کے وقت موجودہ وزیراعظم مودی، وزیراعلیٰ تھے۔گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام کا بہانہ گودھراں ریل بوگی میں مسلمانوں کا آگ لگانا تھا۔ قتل عام کے اقدام کے بعد بھارتی سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا کہ بوگی کو آگ مسلمانوں نے نہیں لگائی تھی بلکہ یہ وحشیانہ کارروائی ہندو انتہا پسندوں کی تھی تاکہ مسلمانوں کے قتل عام کے جواز کابہانہ بن سکے۔ اس نام نہاد ’’بہادرانہ قتل عام‘‘ کے صلہ میں بھارتی جنتا (عوام) نے مودی کو دوبار وزیراعظم بنایا۔ مودی نے بھارت میں مسلم کشی کی مہم کو اعلانیہ سرکاری پالیسی بنا دیا۔ نیزوزیراعظم مودی نے بنگلہ دیش کی نام نہاد آزادی یعنی مشرقی پاکستان کی علیحدگی (16دسمبر1971ء) میں مکتی بھانی فورس کے کارکن کے طور پر عملی شرکت کےاعزاز پر اظہار فخر کیا۔ رام مندرکی افتتاحی تقریب میں بالی وڈ کے کٹر پنتھی ہندو فلمسٹارز بشمول امیتابھ بچن‘ عالیہ بھٹ وغیرہ مودی کے قریب براجمان تھے۔ یہ بھارت کی مودی انتظامیہ آج بھی پاکستان میں فساد‘ انتشار‘ افتراق‘ دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ میں مصدقہ طو رپر ملوث ہے۔
رام‘ شہر اجودھیا اور رام کا جنم استھان (جنم بھومی) رام کتھا کی فرضی اخلاقی کہانیاں ہیں۔ انہیں رام لیلا اور رامائن اسے دو تین سو سال میں عوامی مقبولیت میسر آئی۔ اس قبولیت میں انگریز اور انگریز نواز برطانوی مورخین اور نام نہاد سیاحوں کی ہرزہ سرائی اور کذب کا خاصا ہاتھ ہے۔ اس کے برعکس بہت سے ہندو پنڈت اور شنکر اچاریہ ہندوئوں نے آج بھی مودی کے اقدام کو غیر حقیقی اور سیاسی شعبدہ بازی قرار دیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ اگر جھوٹ کو عام کر دیا جائے تو وہ عوامی بن جاتا ہے۔ رام مندر کی تقریبات سرکاری طور پر ہر شہر‘ محلہ اور گلی میں منانے کا اہتمام کیا گیا اور اس ملک گیر تقریبات کا اہتمام اور انتظام اسلام اور مسلم دشمنی ہندو کٹر پنتھی تنظیموں آرایس ایس‘ وشواہندو پریشد ‘شیو سینا اور علاقائی شاخوں نے پورے بھارت کو آر ایس ایس اور اس کی سیاسی پارٹی بی جے پی نے ’’ہندی ہے تو ہندو بن‘‘ کا منظر بنا دیا ہے۔ یاد رہے کہ بی جے پی کا اردو مطلوب بھارتی عوامی پارٹی (Bharati peoples party) ہے۔ ’’رام کتھا‘‘ مہابھارت سے پہلے کی کہانی ہے جس کا سال اور صدی کا تعین بھی غیر یقینی ہے۔ رشی والمیک نے رامائن لکھی۔ رشی والمیک کے رام کی بیوی سیتا کے دو جڑواں تھے۔گپتا کے بدھ راجہ بکرما جیت نے رام کہانی کے اخلاقی پہلو‘ بہادری‘ عدل‘ عوامی بہود اور خوشحالی کی فرضی داستانوں سے متاثر ہو کر بدھ مت کے مرکزی شہر ’’سکیتا‘‘ کا نام ’’اجودھیا‘‘ رکھ دیا۔ مغل سلطنت کے بانی بابر نے چار سال ہندوستان دہلی میں حکومت کی۔ ظہیر الدین بابر کی کل عمر سینتالیس سال تھی اور یہ اپنی پوری زندگی میں کبھی ’’اجودھیا‘‘ نہیں گئے۔ البتہ اجودھیا بابر کے دور میں فتح ہو چکا تھا۔ بابر کے کمانڈر میر باقی نے اجودھیا میں 1528ء میں بابری مسجد تعمیر کی۔ اس وقت تک اجودھیا میں کوئی ’’رام مندر‘‘ ’’رام چبوترہ‘‘ رام جنم استھان اور ہنومان گڑھی کا تصور نہیں تھا۔اسی لیے بابر کے پوتے اکبر اعظم کے زمانے میں تلسی داس درباری نے والمیک کی رامائن کے ہندی میں ترجمہ کیا۔ تلسی داس نے بھی اپنے ترجمہ میں اجودھیا میں ’’را م مندر‘‘ وغیرہ کا کوئی ذکر نہیں کیا کیونکہ رام کی عوامی مقبولیت کا تذکرہ برطانوی سامراج کی ’’تقسیم کرو اور راج کرو‘‘ (Divide and rule) پالیسی کے تحت اجودھیا میں رام مندر‘ رام جنم استھان اور رام مندرکو مسمار کر کے بابری مسجد بنائی گئی‘ کا تصور عام کیا گیا۔ اس ضمن میں انگریز مورخین منٹگمری مارٹن نے 1838ء ‘ جان لیڈن 1819ء نے ارسکائن اور ایلیٹ وغیرہ نے مذکورہ جھوٹی کہانیاں گھڑ کے ہندو عوام کو مسلمانوں کے خلاف کھڑا کیا۔ 1902ء میں فیض آباد کے ڈپٹی کمشنر کے ایک کمیٹی تشکیل دے کر اجودھیا میں ہندوئوں کے 145 دھرمی مقامات گھڑ کر نشاندہی کی جبکہ ہندوئوںنے1985ء میں بابری مسجد کے قریب نام نہاد ’’رام چبوترہ‘‘ کے مقام پر رام مندر بنانے کی عدالتی اجازت مانگی جو رد کر دی گئی ‘ فی الحقیقت ہندوئوں نے ’’اردو ہندی جھگڑا‘‘ کے مساوی ’’مسجد گرائو۔ مندر بنائو‘‘ تحریک شروع کی۔ جس نے ہندو مہاسبھا‘ آر ایس ایس‘ سنگھٹن‘ شیوسینا ‘ سیفران‘ برگیڈ بی جے پی‘ کانگریس وغیرہ کے ذریعے ’’مسلم آثار کو مسمار ‘‘اور ’’مسلمانوں کو دیس نکالا‘‘ کی مہم شروع کی۔ جسٹس دیو کی نندن‘ سوشیل سری واستو‘ کے ایل ایڈوانی‘ نہرو‘ گاندھی ‘راجیو‘ مودی جیسے اکابرین رام مندر کے حامی رہے ہیں جبکہ پروفیسر آرایس شرما ‘سنجے سوری‘ کے این پانیکار جیسے مورخین لکھتے ہیں کہ خیالی رام جی کی خیالی راجدھانی ’’اجودھیا‘‘ کا قدیم تاریخ سے کوئی تعلق نہیں۔ تقسیم ہند کے بعد آزاد بھارت میں ’’رام مندر مہم‘‘ منہ زور ہو گئی۔ یادرہے کہ ’’بھارت‘‘ رام کا بھائی ہے لہٰذا بھارت ماتا ہندو دھرمی ریاست ہے۔ خیالی شہر اجودھیا کا خیالی راجہ دسرتھ کی تین بیویاں اور چاربیٹے رام چندر‘ لچھمن‘ بھرت‘ شتروگھن تھے۔ خیر 23دسمبر1949ء ہندو انتہا پسندوں نے رات کی تاریکی میں رام کے مجسمے بت بابری مسجد کے اندر رکھ دیے اور عدالت میں موقف اختیار کیا کہ رام جی نے کرشمہ چمتکارکر کے از خود اپنی جنم استھان کی نشاندھی کر دی ہے لہٰذا یہ ثابت ہو گیا کہ بابر مسجد رام مندر گرا کر بنائی گئی ہے۔ عدالت نے چمتکار موقف قبول یا اور فوری طور پر محدود تعداد اور اوقات میں بابری مسجد کے اندر بت پرستی کے لیے عدالتی پروانہ دے دیا۔ وزیراعظم اندرا گاندھی نے ہندوستان کی قدیم مساجد‘ مدارس اور ملحقہ جائیداد کو آثارِقدیمہ کے حوالے کرنے کی طویل فہرست جاری کر دی جبکہ مذکورہ مساجد میں پانچ باجماعت نماز اور مدارس میں باقاعدہ تعلیم دی جاتی تھی۔ اندرا گاندھی جواہر لال نہرو کی بیٹی اور لبرل سیاسی پارٹی کانگریس کی سربراہ تھی۔ اندراگاندھی کے بیٹے وزیر اعظم راجیوگاندھی نے 1986ء میں ہندئوں کو بابری مسجد کے اندر پوجا یعنی بت پرستی کی عام اجازت دے دی۔ جسٹس دیو کی نندن نے 1990ء میں بھارت کی تمام مساجد کے آثار بھی ختم کر نے کی مہم شروع کی۔ کانگریس کی ذیلی انتہا پسند سیاسی تنظیم بی جے پی‘ ہندو پریشد‘ شیوسینا وغیرہ کے کٹرپنتھی قائدین مثلاً کے ایل ایڈوانی نے ملک گیر انتہا پسندی کو فروغ دیا اور ہندو (دلت وغیرہ) کو متحد‘ متفق‘ منظم‘ موثر کر کے بابری مسجد کے انہدام کے لیے رتھ یاتراکا آغاز کیا۔ بی جے پی کے موجودہ انتہا پسند وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے دونوں ادوار میں بابری مسجد گرا کر رام مندر کی تعمیر مکمل کی اور سرکاری طور پر رام مندر کی افتتاحی تقریب کا انعقاد کیا۔ بابری مسجد کی جگہ پر رام مندرکی تعمیر کے مطلب بھارت کی آئینی‘ قانونی‘ اصولی اور اخلاقی شناخت ختم کر دی گئی۔ بھارت کے پہلے قانون ساز دلت وزیر قانون ڈاکٹر امیبدکر نے کانگریس اور آر ایس ایس جیسی ہندو انتہاپسند جماعتوں کے اندر ’’رام راج کی آشا‘‘ دیکھ کر نہرو ‘ گاندھی‘ پٹیل وغیرہ کو مخاطب کر کے برملا کہا تھا کہ سیکولر بھارت کے اندر ’’رام راج‘‘ کا قیام بھارت کی جغرافیائی شکست و ریخت کی خشت اول ہے۔ نیز رام راج برصغیر میں ہند مسلم کشمکش کو ہوا دے گا تو بالآخر مسلم ہند کو مہمیز دے گا۔ قرآن کا فرمان ہے کہ ہر تنگی کے بعد فراخی ہے {اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا(6)} (الم نشرح:5)’’یقیناً مشکل ہی کے ساتھ آسانی ہے۔‘‘