(زمانہ گواہ ہے) الیکشن 2024ء : حقائق و تجاویز - محمد رفیق چودھری

7 /

سلیکٹڈحکومت کی عالمی سطح پر بھی کوئی ساکھ نہیں ہوتی اور وہ آزادانہ پالیسیز نہیں اپنا

سکتی بلکہ جن کے اشاروں پروہ بنتی ہے انہی کے مفادات کوپورا کر تی ہے:اعجاز لطیف

اگر ہم دیکھیں تو تاریخ انسانی میں آج تک کوئی بھی انقلاب انتخابات کے ذریعے نہیں

آیا: ڈاکٹر عطاء الرحمان عارف

پورا نظام ہی کرپٹ ہے ۔ جب تک پورا نظام نہیں بدلے گا چہرے بدلنے سے کچھ

نہیں ہوگا : خورشید انجم

الیکشن 2024ء : حقائق و تجاویز کے موضوع پر

حالات حاضرہ کے منفرد پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں معروف دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کا اظہار خیال

سوال: 8 فروری کو کیا واقعی الیکشن ہو رہےہیں؟اگر الیکشن ہو جاتے ہیں توآنے والی حکومت کی ساکھ کیا ہو گی؟
اعجاز لطیف:آپ کا سوال بڑا اہم ہے۔ لوگوں نے اس الیکشن کے لیے بہت انتظار کیا ہے اور بالآخر خدا خدا کر کے اس کی نوبت آ رہی ہے لیکن خدشات بھی ذہنوں میں ہیں کہ پتہ نہیں یہ ہو بھی پائیں گے کہ نہیں۔ کچھ سوالات بھی ذہنوں میں ہیں ۔ ایک تو یہ ہماری تاریخ ہے ہمیشہ کچھ طاقتیں پس پردہ انتخابات کو متاثر کرتی رہی ہیں ۔ کہاجاتاہے کہ سب سے منصفانہ انتخابات یحییٰ خان کے دور میں ہوئے تھے لیکن اس کے نتیجے میں جو کچھ ہوا وہ بھی ہمارے سامنے ہے۔ بہرحال اس وقت ایسا لگ رہا ہے کہ کچھ لوگوں کو ایک پلان کے تحت لایا جارہا ہے۔ مقتدرحلقوں کی ہمیشہ سے اس قسم کی ترجیحات رہی ہیں تاہم جو بھی موقع میسر آ رہا ہے اس میں اگر لوگوں کی رائے کے مطابق نمائندہ حکومت آجاتی ہے تو اس کی ساکھ ہوگی ۔ ہمارے ہاں یہ بھی ہوا ہے کہ آخری لمحات میں الیکشن کے نتائج بدلنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ اس قسم کے طرزعمل سے ملکی سطح پر بھی اور بین الاقوامی سطح پر بھی ملک اور حکومت کی ساکھ متاثر ہوتی ہے ۔
سوال:کہا جاتاہے کہ پاکستان میں کبھی بھی آزادانہ انتخابات نہیں ہوئے ۔ گزشتہ عام انتخابات کے نتیجہ میں جو بھی حکومت آئی تھی اس پر بھی سلیکٹڈ ہونے کا الزام تھا ۔ اگر یہی صورتحال جاری رہتی ہے تو عوام کا اعتماد الیکشن پر سے اُٹھ نہیں جائے گا ؟
اعجاز لطیف: نہ صرف عوام میں بلکہ عالمی سطح پر بھی ایسی حکومتوں کی کوئی ساکھ نہیں ہوتی اور وہ آزادانہ پالیسز نہیں اپنا سکتیں بلکہ وہ جن کے اشاروں پر آتی ہیں، انہی کے مفادات کوپورا کر رہی ہوتی ہیں۔ یہ چیز ملکی مفاد میںہرگز نہیں ہے ۔ بجائے اس کے اگر عوام کو موقع دیا جائے انتخاب کا تو اس کے زیادہ بہتر نتائج آسکتے ہیں کیونکہ اب عوام میں بھی کافی حد تک شعور پیدا ہو چکا ہے ۔
سوال:بعض لوگوں کے نزدیک تنظیم اسلامی محض ایک تبلیغی یا دینی اصلاحی جماعت ہے ، جس کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ تنظیم اسلامی کا اس حوالے سے کیا مؤقف ہے ؟
خورشید انجم:ایک غلط فہمی ہمارے معاشرے میں عام پائی جاتی ہے کہ اگر کسی جماعت نے الیکشن میں حصہ نہیں لیا تو کہتے ہیں کہ اس کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ یہ غلط فہمی صر ف عوام الناس یا ان لوگوں میںہی نہیں جو تنظیم کو ذرا اوپر اوپر سے دیکھ رہے ہیں بلکہ اچھے خاصے اہل علم لوگ بھی اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں ۔ حالانکہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا:
’’بنی اسرائیل کی سیاست ان کےانبیاء کرتے تھے۔‘‘
سیاست صرف انتخابات میں حصہ لینے کا نام نہیں ہےبلکہ سیاست دو طرح کی ہے ۔ ایک نظری سیاست ہے اور ایک عملی سیاست ہے ۔ نظری سیاست یہ ہے کہ آپ باقاعدہ طور پر الیکشن میں حصہ نہیں لیتے لیکن سیاست پر تبصرہ کرتے ہیں ، رائے دیتے ہیں ، مشورہ دیتے ہیں ، جیسا کہ صحافی حضرات ہیں ۔ہمارےہاں مولانا ظفرعلی خانؒ، ابوالکلام آزادؒ ،مولانا محمد علی جوہرؒسمیت بڑے بڑے نامور صحافی گزرے ہیں۔وہ سیاست کے حوالے سے عوام کی پوری ایک ذہن سازی کرتے تھے۔ آج میڈیا پر کھل کر نظری سیاست ہوتی ہے ، ٹی وی چینلز ، ٹاک شوز میں یہی تو ہورہا ہے ۔ بانی تنظیم اسلامی محترم ڈاکٹر اسرار احمد ؒ فرماتے تھے کہ کوئی باشعور شخص غیر سیاسی نہیں ہو سکتا یا سیاست سے لاتعلق نہیں رہ سکتا۔یہاں تک کہ احادیث میں اس چیز کی نفی کر دی گئی ہے کہ کوئی مسلمان اپنے مسلمان معاشرے کے معاملات سے غیر متعلق رہے ۔
سوال: کیا تنظیم اسلامی نظری سیاست کرتی ہیں؟
خورشید انجم:تنظیم اسلامی نظری سیاست بھی کر رہی ہے، سیاست کے حوالے سے شعور اور آگاہی بھی دے رہی ہے ، سیاسی صورتحال پر تبصرے بھی ہوتے ہیں ۔ محترم ڈاکٹر اسرار احمدؒ کے دور سے لے کر اب تک ہر جمعہ کے خطاب میں امیر تنظیم اسلامی موجودہ سیاسی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہیں ، اپنا موقف بھی پیش کرتے ہیں ۔ اس موقف کو ہم تنظیم کی سطح پر بھی ہر رفیق تک پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اگر دیکھا جائے تو سیاست 50 فیصد نظری اور 50 فیصد عملی ہوتی ہے۔ تنظیم اسلامی نظری سیاست میں بھرپور حصہ لیتی ہے۔ پھر عملی سیاست میں 25 فیصد انتخابی اور 25 فیصد انقلابی سیاست ہوتی ہے۔ تنظیم اسلامی انتخابی سیاست میں حصہ نہیں لیتی بلکہ انقلابی سیاست میں حصہ لیتی ہے۔ گویا کل 75 فیصد سیاست میں حصہ لیتی ہے۔ اس وقت مروجہ سیاست انتخابی ہے جبکہ تنظیم اسلامی کا واضح موقف ہے کہ انتخابات کے ذریعے چلتا ہوا نظام چل تو سکتا ہے، چہرے تو بدل سکتے ہیں لیکن نظام بدل نہیں سکتا ۔نظام کو بدلنے کے لیے انقلابی سیاست کی ضرورت ہے ۔
سوال: پاکستان میں دو طرح کے نظام حکومت رہے ہیں ، ایک آمریت اور دوسرا جمہوریت ۔ تنظیم اسلامی کا اس حوالے سے کیا موقف ہے دونوں میں سے کونسا نظام ملک کے لیے بہتر ہے ؟
ڈاکٹر عطاء الرحمٰن عارف:بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمدؒایک مثال دے کر یہ بات سمجھایا کرتے تھے کہ جس طرح انسان کا ایک جسمانی وجود ہے اور ایک روحانی وجود ہے ۔ جسمانی وجود کو زندہ رہنے کے لیے ہوا ، پانی اور غذا کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ روحانی وجود کی سلامتی کے لیے اسلام ضروری ہے ۔ اسی طرح پاکستان اسلام کے نام پر بنا ہے ۔ اس کی سلامتی اور بقاء صرف اسلام کے نفاذ میں مضمر ہے۔ یہاں اسلام صرف انقلابی راستے سے آسکتا ہے ، انتخابی راستے سے ہرگز نہیں آسکتا ۔ جب تک اسلامی نظام نہیں آجاتا تب تک اس ملک کی سلامتی اور بقا کے لیے جمہوریت ضروری ہے کیونکہ جمہوریت میں عوام اپنے نمائندگان منتخب کرکے حکومت میں شامل ہوتے رہیں گے تو گٹھن کا ماحول پیدا نہیں ہوگا ورنہ آمریت میں عوام کی رائے اور حق انتخاب چھن جانے سے اضطراب پیدا ہوگا اور ملک خدانخواستہ انتشار کی طرف جا سکتا ہے ۔ پھر یہ کہ آمریت میں مقتدر قوتیں غیر جمہوری اور غیر قانونی راستے اختیار کرتی ہیں ۔ اس لیے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جب تک پاکستان میں اسلام نہیں آجاتا تب تک جمہوری نظام آمریت کے مقابلے میں بہتر ہے ۔ اسلامی نظام کی روح شوریٰ ہے اور اگر حقیقی جمہوریت ہو تو اس میں مشاورت کا عنصر کسی قدر شامل ہوتا ہے اور مشاورت سے کسی حد تک فیصلے کیے جاتے ہیں ۔
سوال: ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس وقت پاکستان میں جو جمہوریت چل رہی ہے اس کے پیچھے کہیں آمریت کھڑی ہے ۔ جو لوگ اسمبلیوں میں آرہے ہیں ان کی اکثریت کا تعلیمی لیول ، ان کی سمجھ بوجھ ،فکری سطح ، پیشے سے کمٹمنٹ ، ادراک اور معاملہ فہمی کچھ خاص نہیں ہے۔ بس ایک عمومی رجحان بن چکا ہے کہ الیکشن میں اتنے کروڑ لگاؤ اور حکومت میں آکر اتنے گنا زیادہ بنا لو ۔ ایسی جمہوریت میں مشاورت کیا ہوگی ؟ 
اعجاز لطیف:اصل میں ہمارے مجموعی نظام کی خرابی ہے۔ ورنہ ہمارے پڑوس میں بھارت نے آزاد ہوتے ہی فوری طور پر جاگیردارانہ نظام ختم کردیا تھا ۔ اس کے نتیجہ میں وہاں ذمہ دار قسم کی قیادت سامنے آنا شروع ہوئی۔ بے شک اس میں انتہا پسندی بھی ہے لیکن ملک کو انہوں نے ترقی دی ۔ خاص طور پر دہلی حکومت کجریوال کی وجہ سے ایک مثال بنی ہوئی ہے ۔ ہمارے ہاں عوام کو جو صرف خواب دکھائے جاتے ہیں وہ وہاں بالفعل پورے کر کے دکھا رہا ہے ۔ اس کے برعکس ہمارے ہاں نظام تین بنیادی اور بڑی خرابیوں نے جکڑا ہوا ہے ۔ 1۔جاگیرداری، 2۔ سرمایہ داری ، 3 ملٹری اور سول بیوروکریسی ۔ ان تینوں کا آپس میں گٹھ جوڑ ہے جس کی وجہ سے یہ نظام پر مسلط ہیں اور ان میں سے جو حکومت میں آتے ہیں ان کے لیے ہمارے ہاں بڑی خوبصورت اصطلاح گھڑ لی گئی ہے :  Electables۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو پیسے اور اثر رسوخ کے بل بوتے پر حکومت میں آسکتے ہیں ، تعلیم ، شعور ، اداراک اور فہم چاہے کچھ بھی نہ ہو ۔ اسمبلی میں چاہیے ٹرانسجینڈر کے حوالے سے بل آجائے تو انہیں کچھ پتا نہیں ہوتا کہ کیا ہے ؟ پھر یہ کہ جو بڑے بڑے جاگیردار اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں یہ اپنی جاگیروں میں لوگوں پر مظالم کررہے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہے ۔ یہ اصل میں اس نظام کی خرابی ہے۔ تنظیم اسلامی انتخابی سیاست میں حصہ نہیں لیتی بلکہ اس کی بجائے انقلابی سیاست کی بات کرتی ہے کیونکہ یہ نظام انتخابی راستے سے تبدیل نہیں ہوگا بلکہ اس کے لیے انقلابی جدوجہد کی ضرورت ہے ۔
سوال:عارضی طور پر ہی سہی ہم ایسی جمہوریت کی تائید کیوں کر رہے ہیں جس میں خلاف شریعت قوانین بھی پاس ہوتے ہیں اور اللہ کی بجائے حاکمیت عوام کے پاس ہوتی ہے ؟
خورشید انجم: ہمارے ہاں ملک کا نظام دو طرح  سے اب تک چلتا آرہا ہے ۔ یا تو مارشل لاء رہا ہے یا پھر جمہوریت رہی ہے ۔ ہم یہ کہتے ہیں جمہوریت جیسی بھی ہے مارشل لاء یا آمریت سے بہتر ہے ۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ہم اس کے خلافِ شریعت فیصلوں کی تائید کررہے۔ ہمارا اصل ہدف اسلامی نظام ہے لیکن جب تک اسلام آنہیں جاتا تب تک ملک کا نظام تو چلانا ہے ۔ پھر یہ کہ پاکستان ایک کثیر القومی ملک ہے ۔ مارشل لاء  جب لگے گا تو صوبوں کے اندر یہ تاثر پیدا ہوگا کہ اس وقت ملک میں صرف ایک صوبے کی حکومت ہے جیسا کہ 1971ء سے پہلے مارشل لاء میں بنگالی یہ کہتے تھے کہ ہمیں کراچی کی سڑکوں سے پٹسن کی بوآرہی ہے ۔ اسی طرح بلوچستان ، کے پی کے اور سندھ کو ہمیشہ شکایت رہی ہے کہ پنجاب حکومت کر رہا ہے ۔ اس کے برعکس جمہوریت جیسی بھی ہوگی عوام کی رائے سے حکومت بنے گی تو اس میں عوام کا بھرم رہے گا ۔ جیسا کہ آج کل الیکشن کا دور ہے تو وہ سیاسی لیڈر جو عام آدمی سے ہاتھ ملانا بھی گوارا نہیں کرتے تھے آج لوگوں سے گلے مل رہے ہیں ۔ چاہے عارضی ہی ہے لیکن عوام کو ایک ڈھارس رہتی ہے کہ ہمارا نمائندہ ہے ۔ اس کے برعکس کوئی جرنیل ہو یا بیوروکریٹ ہو تو وہ عوام میں کیوں جائے گا ؟ اس نے کونسا عوام سے ووٹ لینا ہے ۔ غلام اسحاق خان جب صدر پاکستان تھے تو ان کے علاقے کے لوگوں نے ان کے سامنے کچھ مطالبات پیش کیے ۔ اس نے جواب دیا کہ میں تمہارے ووٹوں سے منتخب ہوکر نہیں آیا ۔ ایسے لوگ صرف اپنا مفاد اور وقت پورا کرتے ہیں اور پھر اگلی نسلوں میں بھی یہی سوچ منتقل کر جاتے ہیں ۔ اس لیے ہم مارشل لاء کے مقابلے میں جمہوریت کی تائید کرتے ہیں نہ کہ مطلق جمہوریت کی تائید۔
اعجاز لطیف:ہمارے آئین میں یہ لکھا ہوا ہے کہ:no legislation shall be done repugnant to the Quran and Sunnah.
اس لیے اگر ہم جمہوریت کی عارضی حمایت کرتے ہیں تو ایسی جمہوریت کی کرتے ہیں جس میں حاکمیت اعلیٰ اللہ تعالیٰ  کی ہو نہ کہ عوام کی ۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر ہمارے نمائندے اہل ثابت نہیں ہورہے تویہ بھی ایک تھیوری کی حد تک کہا جاتاہے کہ ان کو آزادنہ موقع دیا جائے تو شاید کچھ عرصہ کے بعد بہتری آجائے ۔
سوال: تنظیم اسلامی اپنے رفقاء کو کیارہنمائی دیتی ہے۔ کیا وہ الیکشن میں ووٹ ڈال سکتے ہیں؟کس کو ووٹ دینا چاہیے اور کیا کوئی رفیق تنظیم الیکشن لڑ سکتا ہے ؟
ڈاکٹر عطاء الرحمٰن عارف:تنظیم اسلامی کا اس حوالے سے موقف دو ٹوک ہے کہ بحیثیت جماعت تنظیم انتخابات میں حصہ نہیں لے گی اور نہ ہی اپنے کسی رفیق کو اس بات کی اجازت دے گی کہ وہ الیکشن لڑے ۔ اس کی بھی اجازت نہیں ہے کہ کوئی رفیق کسی سیاسی جماعت یا امیدوار کی کنویسنگ کرے ۔ البتہ ایک رفیق تنظیم ووٹ کاسٹ کر سکتا ہے لیکن اس کے لیے بھی دو بنیادی شرائط ہیں کہ جس کو ووٹ دے رہے ہیں وہ ظاہری طور پر فسق و فجور میں مبتلا نہ ہو۔
سوال: فسق و فجور سے کیا مراد ہے؟
ڈاکٹر عطاء الرحمٰن عارف:فسق و فجور سے مراد یہ کہ وہ گناہ کبیرہ کا مرتکب نہ ہو۔اس کا ظاہری کردار اور اس کے معاملات دین کے مطابق ہوں۔ دوسری شرط یہ ہے کہ آپ جس کو ووٹ دے رہے ہیں اس کا تعلق کسی ایسی جماعت کے ساتھ نہیں ہونا چاہیے جس کے منشور میں خلاف شریعت چیزیں ہوں یا اس جماعت کی قیادت کے اعلانیہ نظریات اور تصورات میں کوئی بات خلاف شریعت موجودہو ۔
سوال: ٹرانسجینڈر ایکٹ کے معاملے میں تقریباً تمام سیکولر جماعتیں ایک پیج پر ہیں ، اسی طرح کئی اور بھی خلاف شریعت چیزیں ان کے منشور میں در آئی ہیں ۔ ایسی صورتحال میں تو پھر ہمیں شایدکوئی جماعت نظر ہی نہ آئے کہ جو کہ بچی ہوئی ہو؟
خورشید انجم:تنظیم اسلامی نے ووٹ کاسٹ کرنے کے لیے جو شرائط متعین کی ہیں، وہ صرف رفقائے تنظیم کے لیے ہی نہیں بلکہ عام لوگوں کے لیے بھی ہیں  کیونکہ یہ صرف ووٹ ڈالنے کا مسئلہ نہیں ہےبلکہ اس ووٹ کی ایک شرعی حیثیت بھی ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے :
{اِنَّ اللہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُــؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَہْلِہَالا} (النساء:58)’’اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل امانت کے سپرد کرو‘‘
مفسرین کے نزدیک ووٹ ایک امانت بھی ہے، شہادت بھی ہے اور سفارش بھی ہے ۔ چوتھی چیز وکالت بھی ہے ۔ آپ کا نمائندہ اسمبلی میں جاکر آپ کی جگہ وکالت کرے گا۔ لہٰذا یہ بڑا حساس معاملہ ہے ۔ چند معمولی مفادات کو مدنظر رکھ کر ووٹ کی پرچی پر ٹھپہ نہ لگائیں کیونکہ کل روز قیامت آپ سے اس کے متعلق پوچھا جائے گا کہ آپ نے کس کے حق میں گواہی تھی، کس کی سفارش کی ۔ ایک حدیث میں ہے کہ جب امانتیں یعنی عہدے نااہل لوگوں کو دیے جائیںتو قیامت کاانتظار کرو۔
اعجاز لطیف:اللہ نے قرآن میں جو یہ حکم دیا ہے کہ عہدے اہل لوگوں کے سپرد کرو ۔ اس کے برعکس ہمارے معاشرے میں دیکھا جاتاہے کہ کون ہماری برادری کا ہے ، ہمارے علاقے کا ہے ، ہماری زبان بولنے والا ہے وغیرہ۔ یہ اللہ کے حکم کی کھلی خلاف ورزی ہے ۔ اس سے اہلیت ثابت نہیں ہوتی ۔ اہلیت میں تو امانت ہے ، دیانت ہے ، احساس ذمہ داری اور احساس مسئولیت ہے ۔جس کو آپ اسمبلی میں بھیج رہے ہیں اس میں قانون سازی کے حوالے سے کتنا شعور ہے ۔ ہمارے ہاں جب ووٹ دیتے وقت اس اہلیت کا خیال نہیں رکھا جاتا تو اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اسمبلیوں میں اونگھتے ہوئے ممبران کے سامنے بل رکھ دیا جاتاہے اور انہیں پتا ہی نہیں ہوتا کہ اس میں لکھا کیا ہے ۔ اسی وجہ سے ٹرانسجینڈر ایکٹ پاس ہو گیا تو بعد میں پتا چلا جی کہ یہ تو غلط ہوگیا ۔ بعد میں شریعت کورٹ نے بھی اس کو خلاف اسلام قرار دے دیا ۔ اس لیے لازم ہے کہ عوام شعوری طور پر اپنا حق رائے دہی اسلام کے تقاضوں کو مدنظر رکھ کر استعمال کریں۔ یقیناً اس سے کچھ خیراور بہتری کے پہلو برآمد ہوں گے ۔ ہمارے ہاں چونکہ کبھی حقیقی جمہوریت آنے ہی نہیں دی گئی اس لیے یہ سب مسائل پیش آرہے ہیں ۔ وہ کام جو لوکل گورنمنٹ کے ہوتے ہیں وہ آکے وفاقی وزراء کر رہے ہیں۔ یعنی آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ پھر گھوم پھر کے بات وہیں آتی ہے کہ یہ جمہوریت مسائل کا حل نہیں ہے بلکہ مسائل کا اصل حل اس پورے نظام کو بدلنے میں ہے اور نظام انتخابات سے نہیں بلکہ انقلاب سے بدلے گا ۔ یہاں اسلام کا وہ نظام قائم کرنے کی ضرورت ہے جس کے لیے یہ ملک بنا تھا اور جس نظام کے اندر ہر ایک کو حقوق مل رہے تھے اور قوم کے حکمران خود کو قوم کا خادم سمجھتے تھے ۔ جن کو احساس تھا کہ اگر کوئی جانور بھی ان کی سلطنت میں بھوکا مرگیا تو اس کی بھی پوچھ ان سے ہوگی ۔ یہی وہ احساس تھا کہ خلیفہ وقت اپنے کندھوں پر بوجھ اُٹھا کر لوگوںکے گھروں میںراشن پہنچاتے تھے ۔
سوال: لوگ یہ کہتے ضرور ہیں کہ خمینی کی طرح کا انقلاب آنا چاہیے لیکن انقلاب کی طرف پھر بھی لوگ نہیں آتے ۔ زیادہ تر لوگ انتخابی سیاست کو ہی مسائل کا حل سمجھتے ہیں ۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ جس طرح کے لوگ اسمبلی میں آ رہے ہیں اور جو ملک کی بیوروکریسی کی صورت حال ہےاس کے ہوتے ہوئے انتخابات سے کوئی بہتری آسکتی ہے ؟
ڈاکٹر عطاء الرحمٰن عارف:جس طرح کے الیکشن ہمارے ہاں ہوتے ہیں ان سے تو کوئی تبدیلی نہیں آسکتی ۔ اگر ہم دیکھیں تو تاریخ انسانی میں آج تک کوئی بھی انقلاب انتخابات کے ذریعے نہیں آیا یا اگر میں تھوڑا مزید آگے بڑھ کر کہوں تو جمہوری قوتوں کے ذریعے نہیں آیا۔ کیونکہ جمہوری جماعتوں کو ایک نظام کے تحت کام کرنا ہوتا ہے ۔ جبکہ نیا نظام لانے کے لیے پہلے نظام کے خلاف کھڑا ہونا پڑتا ہے ۔ اس کی رہنمائی ہمیں قرآن سے ملتی ہے ۔
{ہُوَ الَّذِیْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ لِیُظْہِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ}(الصف:16)’’وہی ہے (اللہ) جس نے بھیجا اپنے رسولؐ کو الہدیٰ اور دین ِحق کے ساتھ تاکہ غالب کر دے اس کو پورے نظامِ زندگی پر‘‘
نبی اکرم ﷺ کا جو اصل مشن تھا وہ یہی تھاجو آپﷺ کے مبارک ہاتھوں سے جزیرہ نماعرب میں مکمل ہوا اور اس کے بعد تصدیر انقلاب بھی ہوئی ۔ یہ انقلاب بھی انتخابات کے بغیر ہی آیا تھا ۔ یہ بات تاریخی طور پر طے شدہ ہے کہ انتخابات کے ذریعے نہ ہی ایران میں آیت اللہ خمینی کی حکومت بن سکی اور نہ بن سکتی تھی۔بانی تنظیم اسلامی محترم ڈاکٹر اسرار احمدؒ کا کتابچہ رسول انقلاب کا طریق انقلاب بھی موجود ہے ۔ اس میں یہ سب تفصیل موجود ہے کہ دنیا میں جو بھی بڑے انقلابات آئے ہیں وہ تحریک کے ذریعے آئے ہیں نہ کہ انتخابات کے ذریعے۔ اسی لیے تنظیم اسلامی کا موقف یہ ہے کہ انقلاب لانے کے لیے پہلے اپنی ذات میں تبدیلی لانا پڑے گی ، اپنے چھ فٹ کے جسم پر اسلام کو نافذ کرنا پڑے گا ، پھر اس دعوت کو دوسروں تک پہنچانے کا ذریعہ بنیں ۔ تب کہیں جاکر ہم تبدیلی یا اقامت دین کی بات کر سکتے ہیں ۔ جبکہ موجودہ نظام میں ہمارے جو سیاستدان ہیں یا حکمران ہیں ، ہماری سول اور ملٹی بیوروکریسی میں جو لوگ ہیں ان کی زندگیوں میں ہمیں کوئی ایسا عنصر نظر نہیں آتا تو تبدیلی کیسے آئے گی ۔ یہ نظام اور یہ بیوروکریسی تو انگریز خود کو غالب کرنے کے لیے قائم کرکے گئے ہیں ، ان کے تو منشور میں ہی اسلام نہیں ہے بلکہ معذرت کے ساتھ اس کے برعکس سب کچھ ہورہا ہے ۔
سوال:فرض کریں اگر ایک انتہائی سے زیادہ صادق اور امین وزیراعظم بھی آج آجائے تو کیا وہ موجودہ نظام میں رہتے ہوئے کوئی تبدیلی لا سکتا ہے ؟
خورشید انجم:پہلی بات تو یہ ہے کہ موجودہ نظام کے ہوتے ہوئے کوئی ایسا فرد وزیراعظم بن ہی نہیں سکتا اور اگر بن بھی گیا تووہ مکمل تبدیلی ہرگز نہیں لا سکتا کیونکہ سارا نظام ہی کرپٹ ہے ۔ جیسے فساد خون ہو تو کبھی پھوڑا ماتھے پر نکل آئے گا، کبھی ہاتھ پر نکل آئے گا ،کبھی ٹانگ پر نکل آئے گا۔ اسی طرح موجودہ نظام میں ہر جگہ خرابیاں  ہیں ، ہر کوئی کرپشن اور لوٹ کھسوٹ میں ملوث ہے ۔ کسی بھی ادارے میں چلے جائیں ، کسی بھی محکمے میں چلے جائیں کوئی کام جائز طریقے سے نہیں ہورہا ۔ لہٰذا جب تک پورا نظام نہیں بدلے گا چہرے بدلنے سے کچھ نہیں ہوگا ۔
سوال:جب پورا نظام ہی کرپٹ اور سیکولر ہے اور بے خدا تہذیب کی طرف بھاگتا ہوا جارہا ہے ۔ اس نظام کے تحت اگر دینی جماعتیں الیکشن میں حصہ لیتی ہیں تو ان کی کیا ویلیو رہ جائے گی اور پھراس کے بعد بھی جب وہ اکٹھی نہیں ہوں گی تو ان کی کیا ویلیو رہ جائے گی ۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ اس طرح کوئی نتیجہ خیز کام ہو سکے گا؟
اعجاز لطیف:اس بات کو بانی تنظیم اسلامی ؒ نے ہمیشہ بیان کیا ہے کہ ایسی صورتحال میں اسلام مزید تقسیم ہوتا ہے۔ جب دینی جماعتیں الگ الگ انتخابات میں حصہ لیں گی تو لوگوں کو سوچ میں ڈال دیا جاتا ہے کہ کس کے اسلام کو ووٹ دیں۔ اس کے برعکس جب دینی جماعتوں  نے متحد ہو کر انتخابات میں حصہ لیا تو ان کو زیادہ کامیابی ملی ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھی وہ ڈیلیور نہیں کر پائیں کیونکہ نظام وہی فرسودہ ہے ۔ نتیجہ میں ایک حسبہ بل تک منظور نہیں کر وا سکیں ۔ بہرحال حاصل کلام یہ ہے کہ دینی جماعتیں اگرواقعی اسلام کے لیے مخلص ہیں اور وہ سمجھتی ہیں کہ وہ انتخابات کے ذریعے اسلام کو لا سکتی ہیں تو کم ازکم وہ متحد ہو کر الیکشن میں حصہ لیں ۔
سوال:کچھ دینی جماعتیں سیکولر جماعتوں کے ساتھ اتحاد بھی کر رہی ہیں ۔ کیا ان کے پاس اس کی کوئی شرعی دلیل بھی ہے ؟ 
خورشید انجم: جس طرح کی سیاست چل رہی ہے اس میں شریعت کا تو کوئی عمل دخل ہی نہیں ہے۔ ایک سیٹ پر جب پانچ دینی جماعتیں کھڑی ہوں گی تو ظاہر ہے وہ آپس میں ایک دوسرے کی مخالفت بھی کریں گی اور بعض اوقات ایک دوسرے کے خلاف فتوے بھی نکل آتے ہیں ۔ اس کانتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عام لوگ ان سے متنفر ہو جاتے ہیں اور پھر جب یہ سیکولر جماعتوں کے ساتھ اتحاد بناتی ہیں تو دینی حلقے بھی ان سے متنفر ہوجاتے ہیں کیونکہ شریعت میں تو اس کی بالکل بھی گنجائش نہیں ہے ۔
سوال:اگر ایک دینی جماعت کسی سیکولر جماعت کے ساتھ اتحاد کرتی ہے جس کے منشور میں خلاف شریعت چیزیں شامل ہیں تو اس دینی جماعت کی ساکھ کیا رہ جائے گی کہ اس میں حمیت اسلام ہے یا صرف حمیت سیٹ ہے؟
خورشید انجم:اب تو ایسا ہی محسوس ہو رہا ہے کہ ان کے مدنظر صرف سیٹ کا حصول ہے چاہے وہ جس طرح بھی مل جائے ۔ اس کے لیے وہ امیدوار کا معیار بھی نہیں دیکھتے کہ اس میںدین کا مادہ بھی ہے کہ نہیں ۔ پھر یہ کہ ایسی جماعتوں کے ساتھ بھی اتحاد ہو رہا ہے جو ملک کی نظریاتی بنیادوں کو ہی نہیں مانتیں اور جن کے اعلانیہ نظریات دین مخالف ہیں ۔ کوئی اصول، کوئی نظریہ ان دینی جماعتوں کے مدنظر نہیں رہا ۔ بس کہتے ہیں جی سیاست ہے ۔ گویا سیاست ایک طرح سےنام ہو گیا ہے بے اصولی کا۔ ایک طرف دینی جماعتیں دین کا درس دیتی ہیں اور دوسری طرف یہ سب کریں گی تو ان کی ساکھ کیا رہ جائے گی ؟
سوال: دینی جماعتیں جو کہ اللہ اور رسولﷺ کا نام لیتی ہیں ان کی الیکشن مہم میں بھی کچھ خلاف شریعت طورطریقے نظر آرہے ہیں ، اس بارے میں آپ کیا کہیں گے ؟
ڈاکٹر عطاء الرحمٰن عارف:معذرت کے ساتھ اس نظام کے تحت جو الیکشن ہوتےہیں ان میں کوئی دینی جماعت ہو یا سیکولر ہو اسے لوگوں کو اپنی طرف راغب کرنے ، انہیں قائل کرنے اور انہیں خواب دکھانے کے لیے جو بھی طور طریقے اختیار کرنے پڑتے ہیں وہ سب ایک جیسے ہی ہیں ۔ مثال کے طور پر میوزک کا استعمال ، نماز اور اذان کے اوقات کا خیال نہ رکھنا ، اس وقت ریلیاں اور جلوس نکالنا ۔ یہ تمام وہ چیزیں ہیں جو غیر شرعی ہیں۔ پھر مخلوط جلوس اور جلسے ، سٹیج پر بھی مخلوط ماحول ۔ عوام سے وہ وعدے اور دعوے جو پورے نہیں ہو سکتے ۔ دینی جماعتوں کو کم ازکم سوچنا چاہیے کہ اس بارے میں سوال ہوگا ۔ یہ ساراماحول دیکھ کر ہم اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ڈاکٹر اسراراحمدؒ نے ہمیں اس انتخابی سیاست سے دور رکھنے کی وجوہات بتائیں اور وہ باتیں ٹھیک ثابت بھی ہورہی ہیں ۔ سیاست شجر ممنوعہ نہیں ہےبلکہ اگر اسلامی ریاست بالفعل موجود ہو اور اسلام کا اجتماعی نظام قائم ہو تو اس میں سیاست صرف عبادت ہی نہیں ہوتی بلکہ کار نبوت بھی ہے کیونکہ انبیاء کرام علیہم السلام نے بھی یہ کام کیا ہے لیکن موجودہ دور میںجو سیاست ہو رہی ہے ، خاص طور پر انتخابی سیاست اس میں غیر شرعی چیزیں زیادہ آگئی ہیں ۔ اسی وجہ سے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جہاں جہاں ہماری آواز پہنچ سکتی ہےوہاں ہم ان دینی جماعتوں کو اس حوالے سے آگاہی بھی پہنچاتے ہیں ۔ ہم نے ماضی میں بھی آگاہی منکرات مہمات چلائی ہیں اور اب بھی ہم نے اس بات کوسوشل میڈیا کے ذریعے نمایاں کیا ہے۔ اصل میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تمام دینی جماعتیں متحد ہو کر اس باطل نظام کے خلاف کھڑی ہوتیں ۔ محترم ڈاکٹر اسراراحمدؒ نے بہت پہلے یہ کہا تھا کہ کم سے کم یہ تو ہو سکتا ہے کہ دینی جماعتیں آپس میں ایک قوت بن جائیں اور سب مل کر سیکولر نظام کے خلاف کام کریں تو شاید کچھ تبدیلی آجائے ۔ بہرحال شاید وہ اس طرف جانا ہی نہیں چاہتیں ۔
خورشید انجم: ان سیاسی جماعتوں کےہاں ایک محاورہ ہے کہ جنگ اور محبت میں سب جائز ہے تو انتخابات میں بھی سب جائز ہے ۔ حالانکہ اسلام کے اصولوں کے مطابق تو نہ جنگ میں سب جائز ہے اور نہ محبت میں سب جائز ہے ۔اسلامی تاریخ میںتو جنگوں کے دوران بھی شریعت کی پابندی لازم تھی ۔
سوال:جب تک اسلامی نظام نہیں آتااس ملک کا نظام تو بہرحال چلانا ہے ۔ موجودہ حالات میں جو الیکشن ہو رہے ہیں ان میں عوام کو کیا کرنا چاہیے تاکہ ملک بہتری کی طرف جائے ؟
اعجاز لطیف: دیکھیے! یہ ایک موقع ہے ، عوام اس سے فائدہ اٹھا کر اپنا حق رائے دہی صحیح طریقے سے استعمال کریں اور اہل لوگوں کو منتخب کریں ۔ اللہ نے ہمیں یہ اختیار دیا ہے تو کل اس کے حوالے سے پوچھا بھی جائے گا کہ آپ نے حق رائے دہی کا استعمال جائز کیا تھا یا ناجائز ۔ اس احساس جواب دہی کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے حق رائے دہی کو استعمال کریں۔ جو شرائط تنظیم اسلامی نے ووٹ دینے کے لیے اپنے رفقاء کے لیے مقرر کی ہیں وہ عام مسلمانوں کے لیے بھی ہیں ۔ ان شرائط کے تحت حق رائے دہی استعمال کریں گے تو یقیناً کچھ نہ کچھ خیر برآمد ہوگی ۔ اس کے علاوہ امن عامہ کو خراب نہ ہونے دیں ۔
خورشید انجم: حدیث میں تو یہ بھی ہے کہ آپ جس راستے سے گزر رہے ہیں اس کا بھی حق ادا کریں ۔ اصل میں یہ تو ایک عمومی ذمہ داری ہےکہ ہم جس ملک میں رہ رہے ہیں اس ملک کی خیرخواہی اور بھلائی ہمارے مدنظر ہونی چاہیے کیونکہ اس ملک کی اساس اسلام ہے ۔ پاکستان کا مطلب کیا لا الٰہ الا اللہ، یہ تحریک پاکستان کا بنیادی نعرہ تھا ۔ اس بنیاد سے اگر ہم ہٹیں گے تو ہم بے لنگر جہاز یا کٹی پتنگ کی طرح ہو جائیں گے ۔ یہ طے ہے کہ اسلام تو صرف انقلاب کے ذریعے ہی آئے گا تاہم جب تک اسلام نہیں آتا اس ملک کا نظام چلانے کے لیے انتخابات ضروری ہیں ۔ان حالات میں ووٹ کی پرچی ایک طرح سے پاکستان کی تعمیر یا تخریب کی پرچی ہے ۔ اس کو باقاعدہ احساس ذمہ داری اور احساس مسئولیت کے تحت استعمال کرنا چاہیے نہ کہ برادری ازم ، علاقائی ، لسانی یا ذاتی مفادات کے تحت ۔
آصف حمید: آپ کی بات میں تھوڑا اضافہ کرنا چاہوں گا کہ اگر ہم نے اپنے حق رائے دہی کو استعمال کرنا ہے تو کسی ایماندار شخص کے حق میں کریں نہ کہ کسی خائن اور نفاق کے طرز عمل رکھنے والے شخص کے حق میں ۔ منافق کی چار نشانیاں اللہ کے رسولﷺ نے بیان فرمائی ہیں : جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے ، جب بولے تو جھوٹ بولے ، جب امین بنایا جائے تو خیانت کرے ۔ جب بحث و مباحثہ ہو تو آپے سے باہر ہوکر گالم گلوچ کرے ۔ووٹ دینے کے لیے کم ازکم یہ پیرا میٹر ہمارے پاس ہونا چاہیے کہ جس کو ہم ووٹ دیں اس کے اندر یہ چیزیں نہ ہوں ۔ اس سے کم ازکم کچھ تو بہتری آئے گی ۔ ہمارا اصل خلوص اللہ کے ساتھ ہے، اللہ کے رسولﷺ کے ساتھ ہے،اس کے بعد اپنے ملک کے ساتھ ہے ۔ اگر اللہ اور اس کے رسولﷺ کے احکامات کےمطابق اس ملک میں حکومت بنتی ہےیا معاملات چلتے ہیں توہمیں خوشی ہوگی ۔ اسی خیرخواہی کے جذبے کے تحت ہمارا یہ کہنا ہے کہ آپ جماعتوں کا تجزیہ کریں اور صحیح معنوں میں جو حق دار ہے اس کو ووٹ دیں ۔