(منبرو محراب) اہل جنت کے اوصاف - ابو ابراہیم

7 /

اہل جنت کے اوصاف(سورۃ قٓ کے تیسرے رکوع کی روشنی میں )


جامع مسجدقرآن اکیڈمی، لاہورمیں امیر تنظیم اسلامی شجاع الدین شیخ حفظ اللہ کے 19 جنوری2024ء کے خطابِ جمعہ کی تلخیص

خطبہ مسنونہ اور تلاوت آیات کے بعد
دوجمعہ قبل سورہ ق کے دوسرے رکوع کی چند آیات کا ہم نے مطالعہ کیا تھاجس میں اہل جہنم کے خصائل کے بارے میں بتایا گیا تھا ۔ یہ قرآن حکیم کا اسلوب ہے کہ جب وہ جہنم کا ذکر کرتا ہے تو ساتھ ساتھ جنت کا ذکر بھی کرتا ہے ۔اگر وہ جہنم والوں کے اوصاف کو بیان کرتا ہے تو ساتھ اہل جنت کے اوصاف بھی بیان کرتاہے ۔ اس تذکیر کا مقصد یہ ہوتاہے کہ بندہ ان حرکتوں سے باز آجائے جو جہنم میں لے جانے والی ہیں اور ان اوصاف کو اپنائے جو جنتیوں کے اوصاف ہیں ۔ چنانچہ اسی سورت کے تیسرے رکوع میں اب اہل جنت کے اوصاف کا بیان ہے ۔ فرمایا:
{یَوْمَ نَقُوْلُ لِجَہَنَّمَ ہَلِ امْتَلَئْتِ وَتَقُوْلُ ہَلْ مِنْ مَّزِیْدٍ (30)}’’جس دن ہم پوچھیں گے جہنّم سے کہ کیا تُو بھر گئی؟اور وہ کہے گی کیا کچھ اور بھی ہے؟‘‘
اسی قرآن میں اللہ تعالیٰ یہ بھی فرماتا ہے کہ تمہاری کھالیں بھی کل تمہارے خلاف گواہی دیں گی ۔ انسانی جسم مٹی سے بنا ہے ۔ یہ بھی اللہ کے حکم سے بولے گا ۔ اللہ چاہے تو ہر چیز بول اور سن سکتی ہے ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ جب جہنم سے پوچھے گا تو وہ بھی بولے گی ۔ اس کی ترجمانی دو اعتبارات سے کی گئی ہے ۔ایک تعبیر یہ کی گئی ہے کہ جہنم میں مجرموں کو سزا دینے کے اعتبار سے وسعتوں کی کمی کاکوئی مسئلہ نہیں ہے۔دوسری تعبیر یہ کی گئی ہے کہ ایک وقت آئے گا کہ جہنم بھر جائے گی۔ البتہ اکثرمفسرین کی رائے یہ ہے جہنم میں ظالموں کو سزا دینے کے اعتبار سے جگہ کی کوئی کمی نہیں ہوگی۔ اس لیے جہنم کہے گی کہ اے اللہ ! اگر کوئی کافر ، مشرک ، منافق رہ گیا ہے تو اس کو ڈال دیا جائے اور دوسرا یہ کہ ایسے مجرموں کے لیے بچنے کاکوئی امکان بھی نہیںہے ۔
((اَللّٰھُمَّ اَجِرْںَا مِنَ النَّارِ)) اے اللہ ہم سب کو آگ کے عذاب سے محفوظ فرما۔ آگے فرمایا:
{وَاُزْلِفَتِ الْجَنَّـۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ غَیْرَ بَعِیْدٍ(31)}’’اور جنّت قریب لائی جائے گی اہل ِتقویٰ کے لیے‘ کچھ بھی دُور نہیں ہو گی۔‘‘
یہ قرآن پاک کا مستقل موضوع ہے۔ اللہ کے نبی ﷺ کے عمومی خطبات میں بھی، خطاب جمعہ میں بھی اور نکاح کے خطبہ میں تقویٰ کا خاص طور پر بیان آتا ہے۔ قرآن کریم میں سورۃ البقرہ کے چار مستقل رکوع (28تا31) ہیں جن میں گھریلو زندگی کے متعلق رہنمائی موجود ہے، ان میں بھی بار بار تقویٰ کا تذکرہ ہے۔ قرآن کریم تمام انسانوں کے لیے ہدایت ہے لیکن ملے گی ان کو جن میں تھوڑا بہت تقویٰ ہوگا ۔ ازروئے الفاظ قرآنی:{ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ(۲)} (البقرہ)نسان کے دنیا میں رشتے ناطے تو بہت ہوتے ہیں لیکن سورۃ الزخرف کی آیت 67میں بتایا گیا کہ انسان کا وہ رشتہ اللہ کے ہاں مقبول ہوگا جو تقویٰ کی بنیاد پر قائم ہوگا ۔ محض دوستیاں کام آنےوالی نہیں بلکہ متقین کی دوستی کام آئے گی ۔ تقویٰ کا مفہوم ہے اللہ سے ڈرنا ، گناہوں سے بچنا ۔ ظاہر ہے جو بندہ اللہ سے ڈرنے والا ہوگا تو وہ فرائض و واجبات بھی ادا کرے گا ۔ مگر اللہ کا عذاب اکثر گناہوں پر بھڑکتا ہے ۔ پچھلی قوموں کے واقعات ہمارے سامنے سامنے ہیں ۔ قوم عاد ہو ، ثمود ہو ، قوم نوح ؑہو یا دیگر تمام اقوام جن پر اللہ کے عذاب آئے تو وہ گناہوں کی وجہ سے ہی آئے ۔ ہمارے ہاں ایک مزاج بن گیا ہے کہ خیرات کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں ۔ نوافل ، مستحبات ، تسبیح اور اذکار کا بھی اہتمام ہوتا ہے۔ اعمال کے فضائل بھی بہت بیان ہوتے ہیں ، سب سرآنکھوں پر مگر گناہوں سے بچنے کی طرف توجہ کامعاملہ کم ہے ۔حرام نہیں چھوڑ رہے ،جھوٹ نہیں چھوڑ رہے، وعدہ خلافی نہیں چھوڑ رہے، بے پردگی ، بے حیائی ، سود ، منکرات کی بھرمار ہے ۔ حالانکہ اللہ کے پیغمبرﷺ نے فرمایا: ’’اگر تم اللہ کی حرام کردہ باتوں سے بچو تو تم سب سے بڑے عبادت گزار بن جاؤ گے۔‘‘
ایک اور معروف حدیث ہے کہ جو اللہ کی حرام کردہ باتوں سے اپنے آپ کو بچاتا ہو ،اس کا اللہ کے ہاں وہی مقام ہے جو روزانہ رات کو نوافل پڑھنے اور دن کو روزہ رکھنے والے شخص کا ہے ۔ تقویٰ کی اس قدر فضیلت ہے ۔ اللہ کے پیغمبر ﷺ نے اپنے سینہ مبارک کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ تقویٰ یہاں ہے ۔ صرف ظاہری حلیہ جس قدر چاہے مسلمانوں والا ہو لیکن دل میں تقویٰ نہیں ہے تو کچھ نہیں ہے ۔ ہر کام کرنے سے پہلے بندہ دل میں سوچے کہ اللہ ناراض تو نہیں ہوجائے گا ۔ اس کیفیت کے ساتھ زندگی گزارنا تاکہ جب موت آئے تو اسی فرمانبرداری کی حالت میں آئے ۔
{یٰٓــاَیـُّـہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ} ’’اے اہل ایمان! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو جتنا کہ اُس کے تقویٰ کا حق ہے‘‘
آگے اور اس کی further elaboration کیا ہےکہ :{وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ(102)} (آل عمران) ’’اور تمہیں ہرگز موت نہ آنے پائے مگر فرمانبرداری کی حالت میں۔‘‘
اللہ کی جنت اتنی سستی نہیں ہے جتنی ہم نے سمجھ رکھی ہے ۔ جنت مشقتوں سے گھری ہوئی ہے ۔ گناہوں سے بچنا اور اللہ کی اطاعت پر کاربند رہنا مستقل محنت والا کام ہے ۔ اللہ کے پیغمبر ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جو بندہ اللہ کی فرمانبرداری اختیار کرے اور پھر گناہوں سے خود کو بچائے رکھے ، اللہ تعالیٰ دنیا کو ذلیل کرکے اس کے قدموں میں ڈال دے گا ۔ یہ دنیا تو بہت معمولی چیز ہے ۔ ایک حدیث میں ہے کہ جو بندہ تقویٰ اختیار کرے ، روزہ قیامت جب کھڑا ہوگا تو اسے جنت کی طرف بھاگنا نہیں پڑے گا بلکہ جنت خود اللہ کے حکم سے اس کے پاس آئے گی ۔
ایک اور حدیث میں ہے ادھر بندہ حساب کے لیے کھڑا ہوگا ادھرسیدھا جنت میں پہنچا دیا جائے گا ۔ آگے فرمایا:
{ہٰذَا مَا تُوْعَدُوْنَ لِکُلِّ اَوَّابٍ حَفِیْظٍ(32)} ’’(ان سے کہا جائے گا:) یہ ہے جس کا وعدہ تم لوگوں سے کیا جاتا تھا ہر اُس شخص کے لیے جو (اللہ کی طرف) رجوع کرنے والا اور حفاظت کرنے والا ہو۔‘‘
بڑی گہری اور جامع صفات ہیں۔ اواب کا سادہ ترجمہ ہے: خوب رجوع کرنے والا۔کیا مطلب؟اللہ کی نافرمانی ، گناہ کے سارے کاموں کو چھوڑ کر اللہ کی طرف متوجہ ہونے والا ۔ صرف انبیاء کرام علیہم السلام معصوم عن الخطا ہیں باقی تمام انسانوں سے غلطیاں ہوتی ہیں لیکن غلطی پر اڑنا شیطانی عمل ہے جبکہ غلطی کرکے اس کو مان لینا اور اللہ سے معافی مانگنا ، اللہ کے سامنے جھک جانا آدمیت ہے ۔ اگر گناہ ہو جائے تو فوراً رجوع کرلے ، فوراً پلٹ آئے تو یہ بھی اواب ہے ۔
دوسری صفت میں لفظ حفیظ آیا ۔یعنی حفاظت کرنے والا ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہماسے ایک بڑی پیاری حدیث اربعین نووی میں نقل ہوئی ہے ۔ حضورﷺ نے انہیں پوری طرح اپنی طرف متوجہ کیا : اے لڑکے ! جب وہ متوجہ ہوئے تو فرمایا : ’’تو اللہ کی حفاظت کر اللہ تیری حفاظت فرمائے گا ۔ تو اللہ کے حقوق کی حفاظت کر اللہ کو اپنے سامنے پائو گے اور جب مانگو تو اللہ سے ہی مانگو۔ جب مدد طلب کرو تو اللہ سے ہی مدد طلب کرو۔ اور جان لو کہ سار ی مخلوق مل کر تمہیں کوئی نفع پہنچانا چاہےنہیں پہنچا سکتی سوائے وہ جو اللہ نے طے کر دیا اور ساری مخلوق مل کر تمہیں کوئی نقصان پہنچانا چاہے نہیں پہنچا سکتی سوائے اس کےجو اللہ نے طے کر دیا۔ یہ قلم اٹھا لیے گئے، صحیفے خشک کر دیے گئے۔ ‘‘
اللہ تعالیٰ یہ یقین مجھے اور آپ کو عطا فرمائے۔
ہمارے استاد ڈاکٹر اسرار احمد ؒ فرماتے تھے کہ انسان نرا حیوان نہیں ہے ۔ اللہ نے اپنی روح میں سے اس میں پھونکا ہے ۔ اس روح کی بنیاد پر انسان کا شرف ہے، اس روح کےپھونکے جانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو آدم علیہ السلام کے سامنے جھکایا ہے ۔اس روح کی حفاظت کرنا، اس کی آبیاری کرنا انسان پر لازم ہے ۔ مگر آج انسان کو مغرب نے حیوان بنا ڈالا ۔ نہ لباس کا تکلف ، نہ محرم نامحرم کی تمیز ، نہ نکاح ، نہ گھر ، نہ خاندان ۔ بالکل جانور بنانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔ یہ سب روح کی حفاظت نہ کرنے کا نتیجہ ہے ۔ پھر اللہ نے جونعمتیں عطا فرمائی ہیں ان کی حفاظت کرنی ہے، حلال طریقے پر حاصل کرو،حلال طریقے پر ان کا استعمال کرو ۔انسانی جسم اور اعضاء بھی نعمت ہیں حرام کاموں میں استعمال نہ ہوں ۔ اولاد بھی اللہ کی امانت ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:’’تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال کیا جائے گا ۔ ‘‘
اولاد کی پرورش حلال کمائی سے ہو ، ان کی دینی تربیت کا اہتمام ہو ، انہیں اللہ کا بندہ بنانے کی پوری کوشش کی جائے۔اسی طرح اللہ کے رسولﷺ نے جو حدود معین فرما دیں ان کی حفاظت کرنا مسلمان پر لازم ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
{یٰٓــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللہِ وَرَسُوْلِہٖ} ’’اے اہل ِ ایمان! مت آگے بڑھو اللہ اور اُس کے رسول (ﷺ)سے‘‘
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنا دین ہمارے حوالے کیا ، اس کی حفاظت کرنا ، اس کو قائم کرنے کی جدوجہد کرنا مسلمان پر لازم ہے ۔ اللہ کی کتاب ہمارے پاس موجود ہے ، اس کو پڑھنا ، سمجھنا اور پر اس پر عمل کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے ۔ اللہ کی جنت سستی نہیں ہے ۔ آگے فرمایا:
{مَنْ خَشِیَ الرَّحْمٰنَ بِالْغَیْبِ}(ق ٓ: 33)’’جو ڈرتا رہا رحمٰن سے غیب میں ہونے کے باوجود۔‘‘
مفسرین نے بیان کیا ہے کہ ایک خوف ہوتا ہے اور ایک خشیت ہوتی ہے ۔ خوف یہ ہے کہ میرے سامنے کوئی طاقتور ہستی ہے ، اس کے مقابلے میں میری کوئی حیثیت نہیں ہے تو خوف ہے۔ خشیت یہ ہے کہ کسی کی بزرگی کی وجہ سےاس کی ناراضی کا خوف دل میں رہتا ہے ۔ اللہ کی بڑائی، اللہ کی کبریائی، اللہ کی بزرگی کاادراک رکھنا اور اس کی ناراضی کا خوف رکھنا اور غیب میں رہتے ہوئے اس سے ڈرنا خشیت ہے ۔ پردہ غیب ہٹ گیا پھر تو فرعون بھی ایمان لے آیا تھا ۔ سامنے جاکر تو بڑے سے بڑا کافر بھی کہے گا، اے اللہ ! ایک موقع اور دے دے ایسا نیک بنوں گا کہ کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا ۔ مگر اس دنیا میں اللہ نے ایک بار ہی بھیجا ہے ، دوبارہ آنے کا کوئی چانس نہیں ۔ یہ زندگی اللہ نے ایک مرتبہ دی ہے ،سوچ سمجھ کے گزارنی ہے۔ غیب میں رہتے ہوئے ماننے کا فائدہ ہے۔ اللہ کے پیغمبرﷺنے فرمایا: فرشتے قرآن پڑھنے والوں کی محفل میں آتے ہیں اور جاکر اللہ کو رپورٹ پیش کرتے ہیں۔ اللہ فرماتا ہے: میرے بندوں کو کس حال میں پایا۔ فرشتے کہتے ہیں یا اللہ ! تیرا ذکر کر رہے تھے ۔ اللہ پوچھتا ہے اور کیا دعا مانگ رہے تھے ۔ فرشتے کہتے ہیں یا اللہ ! تیری جنت کا سوال کر رہے تھے ۔ اللہ فرماتا ہے کیا جنت کو انہوں نے دیکھا ، فرشتے کہتے ہیں ، نہیں دیکھا ۔ اللہ فرماتا ہے اگر دیکھ لیں تو اور زیادہ شدت کے ساتھ جنت مانگیں ۔ پھر اللہ پوچھتا ہے :اور کس چیز سے بچنے کی دعائیں کر رہے تھے ۔ فرشتے کہتے ہیں : یا اللہ جہنم سے بچنے کے لیے دعائیں مانگ رہے تھے ۔ اللہ فرماتاہے کیا انہوں نے جہنم کو دیکھا ۔ فرشتے کہتے ہیں یا اللہ نہیں دیکھا ۔ اللہ فرماتاہے اگر دیکھ لیں تو اور زیادہ اس سے بچنے کی دعائیں مانگیں گے ۔ اللہ فرماتا ہے میں نے ان کے لیے جنت کا اعلان کردیا اور جہنم سے آزاد کر دیا ۔
جنت غیب میں رہ کر ماننے والوں کے لیے ہے ۔ یہیں سے مومن کا world view بہت بڑاہو جاتا ہےکہ یہ دنیا عارضی ہے ، یہ جو کچھ اس دنیا میں دکھائی دے رہا ہے سب ختم ہونے والا ہے ۔ اصل زندگی آخرت کی زندگی ہے ۔ لہٰذا مومن دنیا کے چھوٹے چھوٹے معاملات میں پھنس کر اپنے آپ کو برباد نہیں کرے گا ۔مفسرین نے ایک اور بڑی پیاری بات لکھی ہے کہ اللہ کی صفت الرحمان بھی ہے ۔ مسلم کی روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رحمت کا ایک حصہ مخلوق کو دیا اور ننانوے حصے اپنے پاس رکھے اور مخلوق میں انسان ، جنات ، جانور ، حشرات ، پرندے سب شامل ہیں ۔ جانور بھی اپنے بچے سے محبت کرتاہے ، ایک بلی بھی اپنے بچوں کی حفاظت کرتی ہے ۔ یہ اللہ کی رحمت کے سو میں سے ایک حصے کا ظہور ہے ، اندازہ کیجئے کہ ننانوے حصے جو اپنے پاس رکھے اس رحمت کا عالم کیا ہوگا ۔
لیکن مومن اس کی بنیاد پر بے خوف نہیں ہو جاتا کہ اس کی رحمت کے آسرے پر گناہ کیے چلا جائے ، حرام خوری میں لگا رہے ،نافرمانیوں میں لگا رہے۔ وہ رحمان ہے کوئی شک نہیں ،وہ رحیم ہے کوئی شک نہیں ،وہ غفار ہے کوئی شک نہیں مگر مومن کی شان یہ ہےکہ پھر بھی گناہوں سے بچتا رہتا ہے، پھر بھی اللہ کی ناراضی سے ڈرتا رہتا ہے ۔ پھر بھی اللہ کی خشیت اپنے دل میں رکھتا ہے ۔ آگے فرمایا:
{وَجَآئَ بِقَلْبٍ مُّنِیْبِ(33)}(ق ٓ)’’اور لے کرآیا رجوع کرنے والا دل۔‘‘
منیب انابت سےہے۔ انابت میں بھی رجوع کا تصور ہے۔ وہ دل جس میں رب کی طرف رجوع ہو ،مخلص بندہ ہو، دل میں اخلاص ہو اور اندر کی کیفیات میں اپنے رب سے محبت بھی ہو ۔ ارشاد ہوتا ہے :
{وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِلٰهِ}(البقرۃ:165)
’’اور ایمان والے سب سے زیادہ اللہ سے محبت کرتے ہیں‘‘
اللہ اپنی محبت کی مجھے اور آپ کوتوفیق عطا فرمائے ورنہ بندہ چھوٹی چھوٹی چیزوں کے بت بنا کر ان کی سیوا میں اور محبت میں ڈوب جاتا ہے استغفراللہ ۔ صفت منیب میں یہ بات بھی آتی ہے کہ : 
{قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ (162)}(الانعام:162)’’ آپؐ کہیے میری نماز‘ میری قربانی‘ میری زندگی اور میری موت اللہ ہی کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔‘‘
بندہ جو کچھ بھی کرے اس کا مقصود رب کی رضا ہو تاکہ کل روز قیامت اللہ تعالیٰ کہہ دے :
{یٰٓــاَیَّتُہَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ(27)ارْجِعِیْٓ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً(28)فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْ(29) وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ(30)}(الفجر)’’اے نفس مطمئنہ!اب لوٹ جائو اپنے رب کی طرف اس حال میں کہ تم اس سے راضی‘ وہ تم سے راضی۔توداخل ہو جائو میرے (نیک) بندوں میں۔اور داخل ہو جائو میری جنّت میں!‘‘
دنیا میں دیگر رشتوں سے محبت بھی فطرتی ہے مگر سب سے بڑھ کر محبت اللہ سے ہو ، اللہ مقصود اول رہے ۔ یہ ہے وہ اخلاص جو دلوں کے اندر ہو۔ پھر بدلتے حالات میں مصائب بھی آئیں گے،پریشانیاں بھی آئیں گی، تکالیف بھی آئیں گی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
{مَا اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَۃٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللہِ ط وَمَنْ یُّؤْمِنْ م بِاللہِ یَہْدِ قَلْبَہٗ ط} (التغابن:11)’’نہیں آتی کوئی مصیبت مگر اللہ کے اذن سے۔اور جو کوئی اللہ پر ایمان رکھتا ہے‘ وہ اُس کے دل کو ہدایت دے دیتا ہے ۔ ‘‘
بندہ رب کی رضا پہ راضی رہے۔
رضائے حق پہ راضی رہ یہ حرف آرزو کیسا
خدا خالق ، خدا مالک ، خدا کا حکم تو کیسا
مولانا محمد علی جوہر ؒجب قید میں تھے تو ان کی بیٹی ٹی بی کے مرض میں مبتلا ہو کر فوت ہوگئی۔ انہوں نے اپنے خط میں یہ الفاظ لکھے تھے ۔بندہ خدا کی رضا پر اس قدر راضی رہے کہ اپنی زندگی کی ساری محنت اور مشقت کا محور و مرکز اللہ کی ذات ہونی چاہیے ۔
میری زندگی کا مقصدتیرے دین کی سرفرازی
میں اسی لیے مسلماں میں اسی لیے نمازی
یہ صفات اور کیفیات جس بندے میں ہوں گی تو اللہ کی مدد اور نصرت اسے ملے گی اور ثابت قدم رہنے پر اللہ جنت بھی نصیب فرمائے گا ۔ آگے فرمایا:
{اُدْخُلُوْہَا بِسَلٰمٍ ط}(ق:34)’’(ان سے کہا جائے گا:) داخل ہو جائو اس (جنّت) میں سلامتی کے ساتھ ۔‘‘
جنت کا ایک نام دارالسلام بھی ہے جس کے معنی ہیں سلامتی والا گھر ۔ دنیامیں رنج بھی ہے، غم بھی ہے، نشیب بھی ہے، زوال بھی ہے، بیماری بھی ہے، تکلیف بھی ہے، پریشانی بھی ہے ۔ اس لیے کہ دنیا کی زندگی امتحان ہے ۔ جو اس امتحان میں پاس ہوگیا اس کے لیے آخرت میں سلامتی ہی سلامتی ہوگی اور وہ ہمیشہ ہمیش رہنے کی جگہ ہے۔
یہاں دنیا میں بحران آجاتے ہیں ، قحط سالی ، سیلاب اور دیگر مصائب ، کبھی غریب آدمی دو وقت کی روٹی کا بھی محتاج ہو جاتاہے لیکن وہاں کبھی نعمتیں ختم ہوں گی اور نہ ہی کوئی مصیبت آئے گی ۔ وہاں فرشتے سلام کہیں گے :
{اِلَّا قِیْلًا سَلٰمًا سَلٰمًا(26)}(الواقعہ)’’مگر (ان کے لیے ‘ ہر طرف سے) سلام سلام ہی کی آوازیں ہوں گی۔‘‘
سب سے بڑھ کر یہ کہ خود اللہ سلام کہے گا :
{سَلٰمٌ قف قَوْلًا مِّنْ رَّبٍّ رَّحِیْمٍ (58)} ’’ سلام کہا جائے گا ربّ ِرحیم کی طرف سے۔‘‘
جہاں رب بندوں کو سلام کہے گا وہاں کی سلامتی کا کیا عالم ہوگا ۔ البتہ یاد رہے کہ اپنے عمل کی بنیاد پر کوئی جنت میں نہیں جائے گا ۔ صرف اللہ کی رحمت کے طفیل ہی یہ ممکن ہے ۔ آگے فرمایا : { ذٰلِکَ یَوْمُ الْخُلُوْدِ(34)}(ق ٓ) ’’اب یہ ہمیشہ رہنے کا دن ہے۔‘‘
یہ دنیا کی زندگی فانی ، عارضی اور چند روزہ ہے ۔ یہاں  ہرکسی کو موت آنی ہے ۔ ہر چیز نے فنا ہو جانا ہے لیکن وہاں زندگی ہمیشہ ہمیش کے لیے ہوگی ۔ اللہ ہم سب کو عطا فرمائے۔ آخری آیت میںفرمایا:
{لَہُمْ مَّا یَشَآئُ وْنَ فِیْہَا}(ق:35)’’ان کے لیے اس میں وہ سب کچھ ہوگاجو وہ چاہیں گے‘‘
ہم چاہتے ہیںسارا کچھ اس دنیا میں ہمیں مل جائے ۔ اول تو ملے گا نہیں اور جتنا تھوڑا بھی مل بھی گیا تو وہ عارضی ہے ، دو فٹ زمین کے نیچے جاتے ہی سب چھوڑ جائیں گے ۔جبکہ جنت میں انسان جو کچھ چاہے گا اس کو ملے گا ۔ہر انسان کو اس کے ذوق اور شوق کے مطابق سب کچھ ملے گا جو وہ چاہے گا ۔ ادھر انسان کے من میں خواہش پیدا ہوگی ادھر وہ پوری ہو جائے گی ۔ آخر میں فرمایا : 
{وَلَدَیْنَا مَزِیْدٌ(35)}’’اور ہمارے پاس مزید بھی بہت کچھ ہے ۔‘‘
ایک حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے جنت میں وہ کچھ تیار کر رکھا ہے جو نہ کسی آنکھ نے دیکھا ، نہ کسی کان نے سنا ، نہ کسی دل میں خیال آیا ۔ جنت کی نعمتوں کا ہم اس دنیا میں رہ کر تصور بھی نہیں کر سکتے ۔ مسلم شریف کی روایت کے مطابق آخری بندہ جس کو جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کیا جائےگا اس کی جنت اس دنیا سے دس گنا بڑی ہوگی ۔یہ سب سے آخرمیں جنت میں جانے والے کی شان ہوگی تو ذرا سوچئے کہ اول اول جانے والوں کی جنت کتنی وسیع ہوگی ، صحابہ کی جنت کا عالم کیا ہوگا؟انبیاء کی جنتوں کا عالم کیا ہوگا؟ محمد مصطفیٰﷺ کی شان کیا ہوگی؟ سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ تعالیٰ کا دیدار نصیب ہوگا ۔ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: اے میرے صحابہ! یہ چودہویں کا چاند دیکھتے ہو۔ صحابہ ؓنے عرض کیا : یا رسول اللہ ! کوئی شک نہیں، کوئی شبہ نہیں ہم اسے دیکھ سکتے ہیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا :  بالکل ایسے ہی تم جنت میں اپنے رب کو دیکھو گے ۔
یہ اللہ کی جنت اور رحمت کی شان ہے لیکن یہ جنت انہیں ہی ملے گی جن کے اندر وہ صفات ہوں گی جن کا بیان یہاں آیا ۔ آج ہمیں دنیا کا غم کھائے جارہا ہے ، دنیا کی حرص میں ہلکان ہوئے جارہے ہیں ، کیا ہمیں اس دائمی جنت کی فکر بھی ہے ؟ جو اُدھر کی فکرکو اختیار کر لے یہ دنیا کی فکریں اس کو پاگل نہیں کریں گی ان شاء اللہ ۔ اللہ تعالی مجھے اور آپ کو اس کا یقین عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین!