(اداریہ) پاکستان کے تمام عام انتخابات کا آنکھوں دیکھا حال - ایوب بیگ مرزا

7 /

اداریہ
ایوب بیگ مرزا

پاکستان کے تمام عام انتخابات کا آنکھوں دیکھا حال

 

1970ء میں پہلی مرتبہ —پاکستان میں ملکی سطح پر عام انتخابات کا انعقاد ہوا۔ اِس سے پہلے چند ایک انتخابات صرف صوبوں کی سطح پر ہوئےتھے۔ پاکستان میں آج تک کوئی ایسے انتخابات نہیں ہوئے جن کے بارے میں قومی سطح پر اجماع ہوگیا ہو کہ یہ انتخابات شفاف اور منصفانہ تھے۔ اِس حوالے سے صرف 1970ء کے انتخابات کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہ بڑے صاف، شفاف اور منصفانہ انتخابات تھےلیکن جن لوگوں نے گہرائی سے اِن انتخابات کو دیکھا اور جانچا ہے، وہ کہتے ہیں کہ یہ انتخابات بھی ایسے صاف ،شفاف اور منصفانہ نہیں تھے۔ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ اور پنجاب و سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی نے کچھ ایسی کارروائیاں کی تھیں جن سے اِن انتخابات کی شفافیت پر سوال کھڑے ہو گئے تھے۔ در حقیقت اِن انتخابات کا ایک خاص پس منظر تھا۔ جنرل ایوب خان نے قریباًگیارہ سال پاکستان پر مطلق العنانہ حکومت کی۔ پھر اُن کی حکومت کے خلاف ایک عوامی تحریک چلی۔ مغربی پاکستان میں اِس تحریک میں ذوالفقار علی بھٹو کا کلیدی رول تھا جو 1966ء میں ایوب خان کی حکومت سے الگ ہو کر ایک اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے سامنے آئے تھے اور مشرقی پاکستان کے بنگلہ بند وشیخ مجیب الرحمٰن جو ایوب خان کے دور میں جیل میں تھے ،وہ بھی زیر ِعتاب تھے۔ اُنہیں مذکورہ تحریک کے دوران ایوب خان نے رہا کر دیایا اُنہیں کرنا پڑ گیا۔ شیخ مجیب الرحمٰن اپنے چھ نکات کی وجہ سے مشرقی پاکستان میں انتہائی پاپولر ہو چکے تھے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ جہاں ایوب خان کی حکومت کمزور پڑچکی تھی وہاں شیخ مجیب الرحمٰن مشرقی پاکستان کی اکثریت عوام کے دلوں میں راج کررہے تھے۔ لہٰذا اُن دِنوں میںبھٹو کا پنجاب اور سندھ میں بڑا دبدبہ تھا اور مشرقی پاکستان میں تو شیخ مجیب الرحمٰن کے سامنے کوئی دم نہیں مار سکتا تھا لہٰذا انتظامیہ کا قدرتی جھکاؤ اِن دونوں لیڈروں کی طرف تھا۔لہٰذا 1970ء کے انتخابات میں ان دونوں کے لیے کچھ نہ کچھ دھاندلی ہوئی، لیکن کیونکہ وہ اِن علاقوں میں بہت پاپولر بھی تھے لہٰذا خاص نوٹس نہ لیا گیا بھٹو پنجاب اور سندھ میں میدان مارنے میں کامیاب ہو گئے اور شیخ مجیب الرحمٰن نے تو مشرقی پاکستان میں کلین سویپ کردیا۔ لیکن بدقسمتی سے یحییٰ خان کی بدنیتی اور بدیانتی کی وجہ سے اور ذوالفقار علی بھٹو کی ہر قیمت پر اقتدار میں آنے کی خواہش سے اقتدار کی پُر امن منتقلی میں رکاوٹ کھڑی ہو گئی۔ اقتدار پُرامن طور پر منتقل کرنے کی بجائے بنگالیوں کے محبوب لیڈر شیخ مجیب الرحمٰن کو پھر گرفتار کر لیا گیا اوراُس وقت کی عسکری قیادت نے عوامی خواہشات کو روندنے اور کچلنے کے لیے ایک زبردست آپریشن شروع کردیا۔ باقی تاریخ ہے جو سب قارئین کے علم میں ہے ۔پاکستان کو اپنے پیدائشی اور ازلی دشمن بھارت کے ہاتھوں ذلت آمیز شکست ہوئی اور تاریخ میں پہلی بار اتنی بڑی مسلمان فوج کو دشمن کے آگے ہتھیار ڈالنے پڑے۔ یہ بات واضح رہے کہ اِس سے پہلے مسلمانوں کو دشمنوں سے اگرچہ شکست کا سامناتو رہا ۔لیکن کبھی اتنی بڑی مسلمان فوج نے دشمن کے آگے ہتھیار نہیں پھینکےتھے ۔ جس کانتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان دو لخت ہوگیا۔
سانحہ سقوطِ مشرقی پاکستان 16 دسمبر 1971ء کوپیش آیا۔ اُس وقت ذوالفقار علی بھٹو پاکستان سے باہر تھے۔ شکست خوردہ جرنیلوں نے اُنہیں پاکستان بلایااور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر مقرر کردیا۔ معلوم تاریخ میں شاید یہ پہلا واقعہ تھا کہ ایک سویلین کو چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنا دیا گیا۔ہماری رائے میں ذوالفقار علی بھٹو کو کسی صورت یہ عہدہ قبول نہیں کرنا چاہیے تھا۔ اِس لئے کہ وہ جمہوریت کے بہت بڑے علمبردار تھے۔ 1970ء کے انتخابات میں اُنہوں نے جمہوریت ہماری سیاست کا نعرہ لگایاتھا جو بہت مقبول ہواتھا۔ جمہوریت پسندی کا تقاضا تھا کہ وہ یہ عہدہ قبول کرنے کی بجائے ایک عبوری حکومت قائم کرنے کا مشورہ دیتے جس کی نگرانی میں نئے انتخابات ہوتے اُن حالات میں وہ بڑی اکثریت سے کامیاب ہوتے اور جمہوری وزیراعظم بن کر حکومت کرتے کیونکہ جن انتخابات میں بھٹو کو اکثریت حاصل تھی وہ متحدہ پاکستان میں ہوئےتھے اُن کی بنیاد پر چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹربن جانا اُن کےاِس ذہن کی عکاسی کرتا ہے کہ وہ ایک ڈکٹیٹر کی حیثیت سے حکومت کرنا چاہتے تھے۔بہرحال اُنہوں نے 1973ء میں قوم کو ایک متفقہ آئین دیا جو اُن کا بہت بڑا کارنامہ تھا۔پانچ سال بعد انتخابات کروانا اُس آئین کا تقاضا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے 1977ء میں یہ خیال کرتے ہوئے کہ اُن کے مخالفین منتشر ہیں ۔قبل از وقت غیر متوقع طور پر انتخابات کا اعلان کردیا لیکن مخالفین نے حیرت انگیز پُھرتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نو (9) جماعتی اتحاد پاکستان قومی اتحاد کے نام سے قائم کرلیا۔ 7 مارچ 1977ء کو زبردست انتخابی معرکہ ہوا جب قومی اسمبلی کے انتخابات منعقد ہوئے۔ بھٹو کی پاکستان پیپلزپارٹی نے مکمل کامیابی حاصل کی لیکن پاکستان قومی اتحادنے ان نتائج کو دھاندلی کا الزام لگاکر سختی سے مسترد کردیا اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کردیا۔یہ بائیکاٹ بوجوہ بڑا کامیاب رہا۔ اب قومی اتحاد نے حکومت کے خلاف عوامی تحریک کا اعلان کردیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسے شواہد سامنے آئے جن سے معلوم ہوتا تھا کہ دھاندلی ہوئی ہے ۔ پری پولنگ رگنگ بھی ہوئی اور پولنگ کے دن بھی دھاندلی کی گئی لیکن یہ بات بھی واضح ہو کر سامنے آئی کہ دھاندلیP.P.Pکی حماقت تھی اور اِس خواہش کا نتیجہ تھی کہ زیادہ لوگ زیادہ مارجن سے جیتیں وگرنہ مبصرین کی رائے میں بغیر دھاندلی کے بھی مناسب مارجن سے P.P.Pجیت رہی تھی ۔دھاندلی کے خلاف تحریک نے بعد ازاں نظام مصطفےٰ تحریک کی شکل اختیار کرلی جسے بھٹو ہر قسم کا حربہ استعمال کرکے بھی نہ ختم کرسکے اور 5جولائی 1977ء کو اُس وقت کے آرمی چیف نے ملک میں حالات کی خرابی کا عذر بنا کر مارشل لاء لگا دیا ۔ اِس مرتبہ چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر نے یہ چالاکی کی کہ 1973ء کے آئین کو مکمل طورپر منسوخ نہ کیا بلکہ اُس کی صرف وہ شِقات ختم کردیں جو اُس کے اقتدار کے راستے میں حائل تھیں۔بعد ازاں ہماری اُس عدلیہ نے جسے جسٹس منیر نے نظریہ ضرورت کا خوبصورت جواز فراہم کیا تھا اُسی کو استعمال کرتے ہوئے نہ صرف اِس مارشل لا ء کو جائز قرار دیاتھا بلکہ جنرل ضیاء الحق کو یہ اختیار بھی دے دیا کہ وہ خود اکیلے اِس آئین میں جو چاہیں ترامیم کرسکتے ہیں۔لہٰذا اُس کا نام تو 1973ء کا آئین ہی رہا لیکن اُس کی اچھی خاصی سرجری کردی گئی۔
جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء لگاتے وقت 90 دن میں انتخابات کروا کر عوام کو اقتدار واپس منتقل کرنے کا وعدہ کیا۔ اُس کا خیال یہ تھا کہ عوام نے جس طرح بھٹو کے خلا ف تحریک چلائی ہے وہ اب کبھی اقتدار میں واپس نہیں آسکتا۔لیکن عوام کا اپنا مزاج ہے اُن کی اکثریت نے مارشل لاءکو رد کردیا۔بھٹو ایک بار پھر پاپولر دکھائی دینے لگالہٰذا جنرل ضیاء الحق اپنے وعدے سے مُکر گیا اور انتخابات ملتوی کردیے۔جولائی 1977ءسے 1985ءتک جنرل ضیاء الحق انتخابات کے نئےنئے وعدے کرتا رہا لیکن کوئی وعدہ ایفا نہ کیا۔ درحقیقت اُسے خطرہ تھا کہ بھٹو اقتدارمیں واپس آ جائے گا اور آئین منسوخ کرنے کے جرم میں اُس پر آرٹیکل6 لگ جائے گی جس کی سزا موت ہے۔لہٰذا بھٹو کو ایک قتل کے جرم میں پھانسی کی سزا سناد ی گئی۔ انتہائی افسوسناک واقعہ یہ ہوا کہ سپریم کورٹ کے نو رکنی بینچ میں سے جن پانچ ججوں نے بھٹو کے خلاف فیصلہ سنایااُن کا تعلق پنجاب سے تھا اِس میں بھٹو کی پاپولرٹی میں صوبائیت کا رخ بھی در آیا۔ لہٰذا جنرل ضیاء الحق انتخابات کروانے سے ہچکچاتا رہا۔ وقت گزرنے کے ساتھ جنرل ضیاء الحق کا انتخابات ملتوی کرنا ممکن نہ رہا۔ 1985ءمیں اُسے یہ بات سوجھی کہ انتخابات تو کروا دیے جائیں لیکن کسی سیاسی جماعت کو اُس میں بحیثیت جماعت شرکت کی اجازت نہ ہو بلکہ غیر جماعتی انتخابات کا شوشہ چھوڑ دیا گیا۔یہ صد فی صد حقیقت ہے کہ اِن غیر جماعتی انتخابات کو انتالیس ( 39)برس ہوچکے ہیں لیکن پاکستان اِس کے نقصانات آج تک بھگت رہا ہے۔ انتخابات میں برادری، دولت اور خاندانی اثرورسوخ نے اتنا گہرا اثرڈالا کہ اب جماعتی انتخابات میں بھی سرمایہ اور برادری نے انتہائی اہم رول حاصل کر لیا۔ پھر یہ تضاد اِس انتہا پر سامنے آیا کہ اسمبلیوں کے قائم ہوجانے کے بعد ممبران اپنے اپنے مفادات کے مطابق دولت کی چمک سے اور مختلف عہدوں کی لالچ کی بنیاد پر مختلف جماعتوں میں منتقل ہو گئے۔ اب سیاست ایک مکمل کاروبار اور تجارت کا رخ اختیار کر گئی ۔
1985ء کے اس الیکشن میں مسلم لیگ جسے پیر پگاڑا کی سرپرستی حاصل تھی اُسے اقتدار منتقل ہوا اوراُن کے مرید محمد خان جونیجو وزیر اعظم بن گئےا ور جنرل ضیاء الحق نے صدارت سنبھالی لیکن صدر ضیاء الحق اور وزیراعظم جونیجو میں جلداختلافات پیدا ہو گئے۔ضیاء الحق نے آئین کی جو تراش خراش کی اُس کے مطابق صدر کو اسمبلی کو قبل از وقت برطرف کرنے کا اختیار حاصل ہو گیا تھا۔29مئی1988ء کوضیاء الحق نے وزیر اعظم جونیجو کو برطرف کردیا اور قومی اسمبلی توڑدی۔اور 16 نومبر 1988ء کو ایک اور غیر جماعتی انتخابات کا اعلان کر دیا تھا۔ لیکن اِس کے قریباً پونے تین ماہ بعد جنرل ضیاء الحق طیارے کے ایک حادثے میں جان بحق ہوگئے۔ جس پر سینٹ کے چیئرمین غلام اسحاق خان پاکستان کے صدر بن گئے۔ صدر غلام اسحاق نےغیر جماعتی انتخابات کو جماعتی انتخابات میں تبدیل کردیا۔ اِ س موقعہ پر ایک اہم واقعہ رونما ہوا جونیجو ضیاء الحق کی زندگی میں ہی اپنی برخواستگی کو کورٹ میں چیلنج کرچکے تھے کورٹ نے اُن کے حق میں فیصلہ دیا کہ صدر ضیاء الحق کا اقدام غیر آئینی تھا اوراسمبلی بحال کرد ی۔ لیکن نئے آرمی چیف نے یہ کہہ کر کورٹ کا فیصلہ بدلوا لیاکہ اب انتخابات کی تیاری ہو چکی ہے لہٰذا انتخابات کرائے جائیں نئے جنرل صاحب کا فیصلہ بھی پاکستان کو مہنگا پڑا۔ اِس لیے کہ اِس سے مستقبل کے صدر کے لیے اسمبلی توڑنے کا راستہ کُھل گیا ۔
نئے انتخابات16نومبر 1988ء کو ہوئے جس میں قومی اسمبلی میں میں پاکستان پیپلز پارٹی کو اکثریت حاصل ہوئی۔ لیکن تین دن بعد جب صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہوئے تو نواز شریف جو پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ تھے۔ انہوں نے زور دار انداز میں نعرہ لگایا ”جاگ پنجابی جاگ، تیری پگ نوںلگ گیا داگ“ اِس نعرے نے صورتِ حال کو تبدیل کردیا اور پاکستان پیپلز پارٹی جس نے پنجاب سے قومی اسمبلی کی بہت سی نشستیں جیت لیں تھی پنجاب کی صوبائی اسمبلی کا انتخاب ہار گئی اور نواز شریف پنجاب میں دوبارہ بر سر اقتدار آگئے۔ پھر جب تک اسمبلیاں قائم رہیں مرکز میں بے نظیر کی حکومت اور پنجاب میں نواز شریف کی حکومت رہی مرکز اور صوبہ پنجاب آپس میں سوکنو ں کی طرح لڑتے رہے۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ یہ خطرہ پیدا ہوگیاکہ وزیر اعظم بے نظیراگر پنجاب آئیں تو وہ گرفتار ہو سکتی ہیں۔ بہرحال یہ دور اِسی کش مکش میں گزرا۔ 1990ء میں صدر غلام اسحاق نے قومی اسمبلی توڑ دی اور بے نظیر کی حکومت ختم ہوگئی۔
24 اکتوبر 1990ء کو نئےانتخابات ہوئے مسلم لیگ نے I.J.Iکے نام سے اسلامی جماعتوں کے ساتھ اتحاد کرکے انتخابات میں حصہ لیا۔ یہی وہ انتخابات ہیں جن میںI.S.Iنے پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف I.J.Iکو سپورٹ کیا اور اس اتحاد کی تمام جماعتوں کے لیڈروں کو بڑی بڑی رقوم سے نوازا۔ جس کے خلاف اصغر خان نے سپریم کورٹ میں کیس دائر کردیا۔ یہ کیس کئی سال فائلوں تلے دبا رہا اِس میں مرزا سلم بیگ پر الزام لگاکہ یہ کام اُس نے I.S.Iکے چیف اسد درانی کے ذریعہ کیا ہے۔بالآخر یہ ثابت ہو گیا کہ سیاست دانوں میں رقوم تقسیم کی گئی تھیں لیکن کسی کو کوئی سزا نہ ہوئی۔ نئے انتخابات کے نتیجہ میں I.J.I کی طرف سے نواز شریف پہلی مرتبہ وزیر اعظم بنے ۔سندھ میں بھی مسلم لیگ کی صوبائی حکومت بنی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ 1990ء میں اگرچہ پنجاب میں نواز شریف کی مقبولیت عروج پر تھی لیکن اُس وقت سندھ خاص طور پر دیہی علاقوں میں عوام یہ بھی نہیں جانتے تھے کہ نواز شریف نامی کوئی پاکستان کا سیاست دان ہے۔ I.S.Iاور اُس کے فنڈز کی کار گزاری تھی جو ناممکن کو ممکن بنا رہی تھی۔
صدر غلام اسحاق بحیثیت صدر پاکستان کا ایک ایسا ریکارڈ قائم کرچکے ہیں جو نہ ابھی تک ٹوٹا ہے اور نہ امید ہے کہ یہ ریکارڈ مستقبل میں ٹوٹ سکے گا۔ وہ یہ کہ جناب واحد صدرِپاکستان ہیں جنہوں نے دو قومی اسمبلیاں توڑدیں۔ 1990ء میں وہ اسمبلی جس میں P.P.P کی اکثریت تھی اور بے نظیر وزیر اعظم تھیں اور دوسری1993ء کی قومی اسمبلی جس میں نواز شریف کی حکومت تھی۔ لہٰذا ایک بارپھر نئے انتخابات کا انعقاد ہوا۔
انتخابات کے حوالے سے پاکستان کی تاریخ پر نظردوڑائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ مقتدرہ کا طریقہ کار یہ رہا کہ وہ ایک سیاسی جماعت یا سیاسی قوت کو نیچا دکھاتے اور اقتدار سے فارغ کرتے تو اُس کے سیاسی مخالفین کو سہارا دے کر اقتدار کی کرسی پر براجمان کردیتے۔ لہٰذا 1993ء میں نواز شریف کی حکومت بے نظیر کے ساتھ ساز باز کرکے گرا دی گئی اور پاکستان پیپلز پارٹی کو سہارادیا اور نواز شریف کی سیاسی دشمن بے نظیر کو اقتدار سونپ دینے کے لیے اُس کی پارٹی کا مکمل ساتھ دیا ۔لہٰذا بے نظیر پھر وزیر اعظم بن گئیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اِس مرتبہ فاروق لغاری P.P.P سے تعلق رکھتے تھے اُن ہی کے ہاتھو ں ہی اُن کی پارٹی کی حکومت ختم کی گئی۔
6 فروری 1997ء کو مسلم لیگ (ن)ایک بار پھر P.P.P کو پچھاڑ کر قومی اسمبلی میں نواز شریف حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ یہ بات بھی نوٹ کرلیں کہ جتنی دیر نواز شریف برسرا قتدار رہے بے نظیر اُن کی حکومت گرانے کے لیے مسلسل طاقتور حلقوں سے رابطے میں رہیں۔ نواز شریف نے چونکہ آٹھویں ترمیم جو صدر پاکستان کے پاس ایک ایسا ہتھیار تھا جس سے مسلسل منتخب حکومت گرائی جارہی تھیں۔دو تہائی اکثریت کی بدولت اِس ترمیم کا خاتمہ کرکے صدر سے یہ ہتھیارچھین لیا تھا۔ لہٰذاP.P.P کی لیڈر بے نظیر کے لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ صدر کے ذریعے نواز شریف کی حکومت گرا سکتیں ۔پھر یہ کہ نواز شریف نے صدر بھی ایک سابق جج رفیق تارڑ کو بنا لیا تھا جو بہت سے حوالوں سے اُن کا ممنون احسان تھا۔ لیکن چونکہ امریکہ افغانستان پر یلغار کرنے کے لیے پر تول رہا تھا لہٰذا آرمی چیف پرویز مشرف نے امریکہ کے اشارے پر نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹ کر مارشل لا ء لگا دیا۔ہماری رائے میں پرویز مشرف کا یہ قدم حقیقت میں قومی سلامتی پرمہلک وار تھا جس سے پاکستان کے جسد پر ایسا زخم لگا جس میں سے ابھی تک خون رس رہا ہے اگرچہ نواز شریف نے بھی آرمی چیف کا ہوائی جہاز بھارت کی طرف موڑنے کا حکم دینے کی انتہائی احمقانہ حرکت کی تھی ،لیکن پھر بھی یہ منتخب عوامی حکومت کا تختہ الٹنے کا جواز نہیں بنتا تھا۔
ہر فوجی طالع آزما کی طرح پرویز مشرف بھی انتخابات کے حوالے سے ٹال مٹول کرتے رہے۔ لیکن بالآخر اُنہوں نے10 اکتوبر 2002ء کو انتخابات کے انعقاد کا اعلان کردیا۔ مشرف نے نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹ کر اُسے قید کردیا تھا۔ نواز شریف زیادہ عرصہ قید کی صعوبت برادشت نہ کرسکے اور مشرف کے ساتھ ایک سمجھوتہ کرکے جدہ چلے گئے۔ میدان چھوڑنے کی وجہ سے اُن کی سیاسی پوزیشن خراب ہو گئی اور مشرف مسلم لیگ میں توڑ پھوڑ کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ لہٰذا مسلم لیگ (ن)میںسے مسلم لیگ (ق) نکل آئی، جسے چودھری برادران کی سربراہی حاصل ہوگئی۔ مشرف نے چودھری برادران کی بھاری کرپشن سے صرفِ نظر کرکے اُنہیںاپنی قوت کے بل پر صاف شفاف قراردے دیا۔ ملک میں اب جو انتخابات ہوئے اُس میں مشرف نے جو کچھ مسلم لیگ(ق)کے ساتھ تعاون کر سکتاتھا اُس نے کیا لیکن مسلم لیگ (ق)پھر بھی اپنی حکومت نہ بنا سکی۔ لہٰذا مشرف کو P.P.P میں بھی توڑ پھوڑ کرنا پڑی۔
18 فروری2008ء کو پھر انتخابات ہوئے بعض اطلاعات کے مطابق امریکہ مسلم لیگ (ق)کے خلاف ہو چکا تھا پھر یہ کہ مشرف کی حالات پر Grip بھی کمزور ہو چکی تھی۔ لہٰذا مشرف کی خواہش کے خلاف P.P.P بر سر اقتدار آ گئی اور یہ پہلی اسمبلی تھی جس نے 5 سال کی مدت پوری کی ۔
11 مئی 2013ءکو ملک میں دسویں انتخابات منعقد ہوئے۔ نواز شریف نے جو مشرف کے ساتھ 10 سال انتخابی سیاست میں حصہ نہ لینے کا سمجھوتہ کیا تھا، وہ وقت پورا ہوچکا تھا۔ اگرچہ ایک عرصہ تک نواز شریف اِس سمجھوتے کا انکار کرتے رہے لیکن سعودی عرب نے اُس کا دستاویز ی ثبوت فراہم کردیا تو اُنہیں ماننا پڑگیا۔گزشتہ 5 سال میںP.P.P کی اتنہائی خراب کارکردگی کی وجہ سے مسلم لیگ (ن)کی پوزیشن پھر مقبولیت کے حوالے سے بہتر ہو گئی تھی۔ لیکن اِس دوران عمران خان پوری طرح سیاسی انتخابی میدان میںاتر چکے تھے اوروہ نواز شریف کو چیلنج کررہے تھے، لیکن عمران خان اِسی دوران ایک حادثے میں میں شدید زخمی ہوگئے اورانتخابی مہم نہ چلا سکے۔ اب مسلم لیگ(ن) کے لیے میدان خالی تھا۔ لہٰذا اِن انتخابات میں نواز شریف اکثریت حاصل کرنے میں کامیا ب ہو گئے۔لیکن عمران خان نے دھاندلی کے خلاف بھرپور مہم چلائی اور دھرنا بھی دیا۔ لیکن وہ نواز شریف کی حکومت گرانے میں کامیاب نہ ہوسکے ۔ہماری رائے میں ان انتخابات میں دھاندلی تو ہوئی ہو گی لیکن اتنی ہر گز نہیں تھی کہ اگر دھاندلی نہ ہوتی تو نوازشریف کی بجائے عمران خان جیت جاتے۔ پھر اِسی دوران پانامہ لیکس سامنے آگئیں۔ عمران خان نے پھر احتجاجی تحریک شروع کردی۔ وہ حکومت تو نہ گرا سکے لیکن معاملہ اعلیٰ عدلیہ کے پاس چلا گیا۔ جس نے نواز شریف کو غیرملک میں اقامہ ہونے کی بنیاد پر تاحیات نااہل کردیا۔ اِس میں کوئی شک نہیں ایک بار پھر اِس فیصلے کی پشت پر نامعلوم قوتیں تھیں اور یہ فیصلہ کسی صورت عدل کےتقاضے پورے نہیں کرتا تھا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ایون فیلڈ کی منی ٹریل پیش نہ کرنا اتنا بڑا جرم تھا لیکن اُس کی بجائے ایک معمولی بات پر سزا سنا دی ۔ نوازشریف نااہل ہو گئے لیکن قومی اسمبلی نے اپنی مدت پوری کی جو 2018ء میں ختم ہوئی۔
2018ۓء میں انتخابات ہوئے اِن انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ کا رخ نواز شریف کے خلاف اور عمران خان کے حق میں تھا۔ لہٰذا بہت سے Electables خاص طور پر جنوبی پنجاب سے تحریک انصاف کی طرف دھکیل دیے گئے۔ نوازشریف کو عدالت کے ذریعے نااہل کروادیا گیا تھا جس سے تحریک انصاف کو بہت فائدہ پہنچا۔پھر یہ کہ انتخابات کے نتائج سناتے ہوئے RTS گرادیا گیا جس کے بارے میں مسلم لیگ (ن) اور اتحادیوں کا دعویٰ تھا کہ اِس سے تحریک ِ انصاف کو فائدہ پہنچایا گیا جبکہ تحریکِ انصاف کے مطابق ایسا اِس لیے کیا گیا تھا تا کہ تحریکِ انصاف کو اکثریت حاصل کرنے کے لیے دوسری جماعتوں کا محتاج رکھا جائے اوراسٹیبلشمنٹ اپنا کنٹرول مضبوط رکھ سکے۔ واللہ اعلم!
2024ء کے اعلان شدہ انتخابات جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے کہ مارشل لاء کی بات تو بالکل الگ ہے جمہوری ادوار میں بھی ہر الیکشن میں اسٹیبلشمنٹ اپنی پسند کے حوالے سے رول ادا کرتی چلی آ رہی تھی۔ اپنی پسندیدہ جماعت اور لیڈر کو اقتدار میں لانے کے لیے کچھ اقدامات کرتی جن کا ذکر پہلے کیا جا چکا ہے لیکن یہ اقدامات بڑے ڈھکے چھپے انداز میںکیے جاتے اور ظاہری طور پر انتخابی معاملات سے لاتعلق رہ کر پس پردہ اُٹھائے جاتے تھے۔ لیکن موجودہ انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ کھل کر اور ایک فریق بن کر سامنے آئی اوروہ ایک جماعت یعنی تحریک انصاف اور خاص طور پر اُس کے لیڈر عمران کو طے شدہ منصوبے کے تحت اقتدار سے باہر رکھنے کے لیے کھلے عام اقدامات کر رہی ہے۔ ہم مختصر طور پر عرض کریں گے موجودہ انتخابات میں کھلے عام کس طرح کے اقدام کیے جا رہے ہیں جو پہلے کبھی نہیں ہوئے۔ سب سے بڑا جرم تو یہ سر زد ہوا کہ اپنے اِس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے دو مرتبہ کھلم کھلا آئین شکنی کا ارتکاب کیا گیا۔ جب پنجاب اور کے پی کے اسمبلی توڑی گئی تو انتہائی بھونڈے بہانے تراش کر 90 دن میں وہاں انتخابات نہ کروائے گئے۔ اِن دو صوبوں میں 13 ماہ نگران حکومتیں قائم رہیں۔ پھر آٹھ(8) ماہ تمام ملک میں نگران حکومتیں مسلط رہیں جبکہ آئین کے مطابق 90 روز سے ایک دن زائد بھی یہ حکومتیں نہیں رہ سکتی تھیں۔ اِس صورت میں نگران حکومتیں مکمل طور پر غیر آئینی اور غیر قانونی تھیں اور اصولی طور پر اِن کے احکامات کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ پھر یہ کہ PDM کی حکومت نے واشگاف طور پر اعلان کر دیا تھا کہ وہ دو صوبوں میں انتخابات کے حوالے سے سپریم کورٹ کا حکم نہیں مانے گی۔ یہ پاکستان میں تو پہلی مرتبہ ہوا شاید دنیا میں بھی پہلی بار کسی حکومت نے کیا ہو کہ وہ مقدمہ شروع ہوتے ہی یہ اعلان کر دے کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو تسلیم نہیں کرے گی۔ پھر یہ کہ اِن نگرانوں کے ذریعہ اِس سیاسی جماعت اور کارکنوں پر ناقابل بیان مظالم ڈھائے گئے۔ اُنہیں جماعت چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔ گھر کے بزرگوں کو گھر کی خواتین کے سامنے ننگا کیا گیا۔ علاوہ ازیں کارکنوں کے گھروں میں داخل ہو کر ایسی شرم ناک حرکات کا ارتکاب کیا گیا جنہیں نہ زبان بیان کر سکتی ہے اور نہ کوئی قلم تحریر کر سکتا ہے۔ اُنہیں زدو کوب کیا گیا۔ قیمتی سامان کی لوٹ مار کی گئی۔ اُن کے کاروباری اداروں میں داخل ہو کر وہاں بھی تباہی مچائی گئی۔ بدترین طریقے سے لوٹ مار کی گئی۔ گھروں کی چادر اور چاردیواری کے تقدس کو بُری طرح روندا گیا۔ پہلی بار کسی بڑی پارٹی کے سربراہ کو الیکشن کے وقت جیل میں رکھا گیا۔ (عبدالولی خان 1977ء کے الیکشن میں جیل میں تھے لیکن اُن کی جماعت کو سپریم کورٹ کالعدم قرار دے چکی تھی، اِس لیے اُس کا قانونی وجود ختم ہو چکا تھا پھر یہ کہ نیشنل عوامی پارٹی مرکزی سطح پر نہیں بلکہ صرف صوبائی سطح کی بڑی جماعت تھی۔
گھریلو عورتوں کو اُٹھا لیا گیا جن میں سے بعض تقریباً ایک سال سے جیل کاٹ رہی ہیں پہلی بار کسی ایک جماعت کا میڈیا نے مکمل بائیکاٹ کیا۔ پارٹی سربراہ کا نام لینے کی میڈیا پر پابندی لگا دی۔ انتخابات میں حصہ لینا اُس جماعت کے لیے عذاب بنا دیا گیا۔ کاغذاتِ نامزدگی چھین لیے جاتے۔ انتخابی امیدوار کے تجویز کنندہ اور تائید کنندہ کو اٹھا لیا جاتا۔ پاکستان کی عدالتیں مکمل آزاد تو کبھی بھی نہ تھیں لیکن اِس جماعت کے حوالے سے عدلیہ سے جو سلوک ہوا ہے وہ تحریر کرتے ہوئے شرم محسوس ہوتی ہے کہ کیا اِس قوم میں اب زندگی کی کوئی رمق باقی نہیں رہی۔ اِس جماعت کے ایک ایک کارکن کی دس دس بار ضمانت ہوتی ہے لیکن جیل کے باہر پولیس نیا مقدمہ بنا کر تیار کھڑی ہوتی۔ اور ہائی کورٹ کے ایک جج نے خود عدلیہ کے منہ پر زور دار طمانچہ مارا۔ وہ یوں کہ جج نے سیاسی کارکن کی ضمانت قبول کی اور کہا کہ میری طرف سے تو تم آزاد ہو لیکن پھر پولیس کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ یہ تمہیں نہیںچھوڑیں گے۔ جب تک تم پریس کانفرنس نہیں کرتے (یعنی تحریک انصاف سے علیحدگی کا اعلان نہیں کرتے) ذلت کی انتہا یہ ہے کہ وکلاء نے یہ بات عدالت سے باہر آکر میڈیا کو بتائی۔ سوشل میڈیا پر یہ خبر بھی سامنے آئی کہ ایک جج عدالت میں دھاڑیں مار کر رونے لگا۔ اور شاید اِسی کا نتیجہ ہے کہ بھاری بھرکم تنخواہیں اور لاکھوں روپے کی مراعات پانے کے باوجود جج استعفیٰ دے رہے ہیں۔ یہ بھی پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ ایک جماعت کے سربراہ کے خلاف دو سو سے زائد مقدمات قائم کر دیئے گئے اور مقدمات کے فیصلے جو پہلے نسلیں گزر جانے کے بعد آتے تھے اِس جماعت کے سربراہ کے خلاف شاید ایک ایک دن میں دو دو فیصلے آ رہے ہیں۔ فیصلوں کی قطار لگی ہوئی ہے۔
پہلی مرتبہ یہ ہوا کہ کسی لیڈر کی خانگی مسئلہ کو عدالت میں لایا گیا اور پہلی مرتبہ تاریخ میں اس حوالےسے میاں بیوی کو سزا سنائی گئی۔ ہم اخلاقی طور پر اِس قدر دیوالیہ ہو چکے ہیں کہ خانگی اور گھریلو معاملات عدالت میں گھسیٹ کر نہ صرف سربراہ جماعت بلکہ اُس کی بیوی کو بھی سزا کا اعلان کرتے ہوئے شرم محسوس نہیں کرتے۔پھر یہ کہ جیل کی کال کوٹھڑی میں ہی عدالت لگا کر عدل وانصاف کے تمام تقاضوں کو بدترین انداز میں پامال کیا گیا۔ ملزم کو ایسا وکیل فراہم کیا گیا جو اُسی مقدمہ میں پراسیکیوٹر تھا اور ملزم کا حقِ دفاع بھی غیرقانونی طور پر ختم کردیا۔ حیرت کی بات ہے کہ چیف جسٹس صاحب جن کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ انسانی حقوق کے حوالے سے بڑے حساس ہیں، وہ بھی سب کچھ دیکھ رہے ہیں اور چپ سادھے بیٹھے ہیں ۔
تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو الیکشن کے موقع پر جلسے اور ریلیاں نکالنے کی اجازت تھی لیکن جب یہ معتوب اور مغضوب جماعت جلسہ کرتی یا ریلی نکالتی تو پولیس لاٹھیاں لے کر اُن پر ٹوٹ پڑتی اور سب سے بڑا ظلم اُس جماعت سے یہ کیا کہ اُن کا انتخابی نشان انتہائی احمقانہ اور بھونڈا عذر تراش کر اُن سے چھین لیا گیا۔(سرکاری وکلاء کے سوا) پاکستان کے کسی بھی بڑے وکیل نے اِسے درست قرار نہ دیا۔ پرنٹنگ پریس اُن کے پوسٹر نہیں چھاپ سکتے، چند ایک نےہمت کی۔ لیکن پوسٹر نظرآتے ہی مخصوص حلقوں میں ہل چل مچ جاتی اور نہ صرف پوسٹراُتار دیے جاتے بلکہ پرنٹ کرنے والے پریس کو بھی زیر عتاب لایا جاتا اورآئندہ کے لیے اُنہیں سختی سے ایسی گستاخی کرنے سے روک دیا جاتا۔ اُس کے باوجود معتوب جماعت کے پوسٹررز آٹے میں نمک کے برابر دکھائی دیتے ہیں۔ انتخابات میں حصہ لینے والی تمام جماعتیں پولنگ بوتھ کے قریب کیمپ لگاتی ہیں۔ لیکن اِس کی بھی شروع میں مغضوب جماعت کو اجازت نہ تھی۔ لیکن عین وقت پر جرأت مند قسم کے امیدوار کچھ کیمپ لگانے میں کامیاب ہوگئے۔ انتخابات سے دو دن پہلے تک تحریک انصاف کے امیدواروں کی انتخابات سے دستبرداری کا زبردستی اعلان کروایا جاتا رہا۔ جب کسی جگہ اُنہیں جلسہ کی اجازت نہ ملی تو اُنہوں نے ورچول جلسہ کرنے کی کوشش کی تو انٹرنیٹ بند کر دیا گیا جس سے سارے ملک کا خوامخواہ نقصان ہوا۔
پولنگ شروع ہونے سے پہلے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کی گرفتاری اور رہائی کا عمل جاری تھا۔ پولنگ کے آغاز سے پہلے انٹرنیٹ سروس اور موبائل سروس بند کر دی گئی تاکہ غیر پسندیدہ نتائج کی خبر آؤٹ ہونے سے روکی جاسکے۔ آخری وقت تک ROs کو تبدیل کیا جاتا رہا۔ پولنگ کے حوالے سے عوام کا جوش و خروش دیکھ کر پولنگ کی رفتار بہت آہستہ کر دی گئی تاکہ زیادہ سے زیادہ ووٹر ووٹ نہ ڈال سکیں اور مایوس ہو کر واپس چلے جائیں۔ الیکشن کمیشن نے واضح اعلان کیا کہ کسی آزاد امیدوار کو پی ٹی آئی کا حمایت یافتہ نہیں کہا جا سکتا لیکن میڈیا کے پاس کوئی اور ذریعہ نہیں تھا کہ عوام پر کسی کی شناخت کیسے ظاہر کی جائے لہٰذا اِس حکم کی خلاف ورزی کرنا میڈیا کی مجبوری تھی کہتے ہیں نقل کے لیے عقل چاہیے لیکن بدیانتی کے لیے مزید عقل کی ضرورت ہوتی ہے۔ لہٰذا اِس طرح کے لطیفے بھی ہوئے کہ امیدوار کو فارم 45 دیا گیا جس پر امیدوار کا نام ہی نہیں۔ فارم 45 ایک طرح کا سرکاری اعلان ہوتا ہے لیکن بہت سے امیدوار تھے جنہیں فارم 45 کے مطابق کامیاب قرار دیا گیا لیکن میڈیا سے مخالف امیدوار کے جیتنے کا اعلان کرا دیا گیا۔ دور دراز اور افغان بارڈر کے قریب سے نتائج کا اعلان ہو رہا تھا لیکن لاہور جیسے بڑے مرکزی شہر کے نتائج نہیں آ رہے تھے۔
گویا حقیقت میں انتخابات کے نام پر ایک ڈراما رچایا گیا اور اِس غریب اور مقروض قوم کا سنتالیس (47) ارب روپیہ خاک میں ملا دیا گیا۔ کراچی میں ووٹوں کی لُوٹ سیل لگا کر ایم کیو ایم کو پھر کھڑا کر دیا گیا۔ اللہ پاکستان پر رحم فرمائے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جو کچھ 8 فروری 2024ء کو ہوا اُسے کچھ بھی کہا جا سکتا ہے الیکشن نہیں کہا جا سکتا۔ ہماری تجویز ہے کہ ایک ریفرنڈم کروایا جائے کہ ’’کیا 8فروری 2024ءکا عمل الیکشن تھا ‘‘ اگر 25، 20 فیصد لوگ بھی اِس کا جواب ہاں میں دے دیں تو یہ شمار کر لیا جائے کہ صد فی صد عوام نے اسے الیکشن قرار دے دیا ہے۔ اور اگر 25، 20 فیصد لوگ بھی اِسے الیکشن تسلیم کرنے سے انکار کر دیں تو پھر پاکستان کے اندرونی اور بیرونی کنٹرولرز کو سوچنا چاہیے کہ اِس کے نتائج کیا نکلیں گے۔ جہاں تک بیرونی کنٹرولرز کا تعلق ہے وہ تو یہ چاہیں گے کہ پاکستان میں فساد ہوں، انارکی پھیلے اصلاً لمحۂ فکریہ اندرونی کنٹرولرز کے لیے ہے کہ وہ ایک ایسی مصنوعی حکومت بنا کر جو عوام کی اکثریت کی تائید سے محروم ہو ملک کیسے چلائیں گے۔ ہمیں یہ نظر آ رہا ہے کہ یہ حکومت چند ماہ یا زیادہ سے زیادہ ایک سال کے لیے بنائی گئی ہے۔ پاکستان میں انتخابات درحقیقت امریکہ کی موجودہ برسر اقتدار پارٹی (ڈیموکریٹ) کی ضرورت بھی تھی وگرنہ امریکہ میں جو صدر کی انتخابی مہم شروع ہونے والی ہے اُس میں اُن پر اپوزیشن (ریپلکن پارٹی) کی طرف سے یہ الزام لگتا کہ پاکستان کی غیر قانونی اور غیر نمائندہ حکومت کی out of the way مدد کر رہے ہیں۔ 5 نومبر 2024ء کو امریکہ کے صدارتی انتخابات ہوں گے اور 20 جنوری 2025ء کو امریکہ میں اقتدار منتقل ہونا ہے۔ اِس کمزور، لاغر لیکن ظاہراً جمہوری حکومت کو اُس وقت تک چلایا جائے گا۔ اُس کے بعد کیا ہوگا۔ نظر یوں آ رہا ہے کہ پاکستان کا نظام ایک سفر شروع کرے گا اور مصر تک پہنچے گا۔ خدانخواستہ مصری فارمولا امریکہ کے لیے بہت کامیاب رہا ہے۔ زندگی رہی اور قلم ہاتھ میں رہا تو اِس منصوبے کو بھی آئندہ بے نقاب کریں گے۔ ان شاء اللہ! پاکستان کا اللہ حافظ ہو۔