(الہدیٰ) فرعون کا بنی اسرائیل پرظلم - ادارہ

7 /

الہدیٰ

فرعون کا بنی اسرائیل پرظلم

 

آیت 1 {طٰسٓمّٓ (1)} ’’ط‘س‘م۔‘‘
آیت 2 {تِلْکَ اٰیٰتُ الْکِتٰبِ الْمُبِیْنِ(2)} ’’یہ کتابِ روشن کی آیات ہیں۔‘‘
آیت 3 {نَتْلُوْا عَلَیْکَ مِنْ نَّبَاِ مُوْسٰی وَفِرْعَوْنَ بِالْحَقِّ لِقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ(3)} ’’ہم سناتے ہیں آپؐ کو موسیٰ ؑ اور فرعون کے کچھ احوال
حق کے ساتھ ‘ان لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے ہیں ۔‘‘
گویا سورت کا آغاز ہی حضرت موسیٰ ؑ کے ذکر سے ہو رہا ہے۔
آیت 4 {اِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِی الْاَرْضِ} ’’یقیناً فرعون نے بہت سرکشی کی تھی زمین (مصر) میں‘‘
{وَجَعَلَ اَہْلَہَا شِیَعًا} ’’اور اُس نے تقسیم کر دیا تھا اس کے باسیوں کو گروہوں میں‘‘
فرعون نے مصر کے عوام کو دو طبقوں میں تقسیم کر رکھا تھا۔ ایک طبقہ حاکم تھا اور دوسرا محکوم ۔یعنی قبطی قوم حاکم تھی جبکہ بنی اسرائیل ان کے محکوم تھے۔
{یَّسْتَضْعِفُ طَآئِفَۃً مِّنْہُمْ} ’’اس نے دبا رکھا تھا ان میں سے ایک گروہ کو‘‘
بنی اسرائیل کو اس نے محکومی اور غلامی کے شکنجے میں جکڑ رکھا تھا اور ان پر وہ بہت سختی کا برتائو کرتا تھا۔
{یُذَبِّحُ اَبْنَآئَ ہُمْ وَیَسْتَحْیٖ نِسَآئَ ہُمْ ط} ’’وہ ان کے بیٹوں کو ذبح کر دیتا تھا اور ان کی عورتوں کو زندہ رہنے دیتا تھا۔‘‘
{اِنَّہٗ کَانَ مِنَ الْمُفْسِدِیْنَ(4)} ’’یقیناً وہ فساد مچانے والوں میں سے تھا۔‘‘

درس حدیث

تین باتوں کی نصیحت


عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ عَامِرٍ ؓ قَالَ لقِیْتُ رَسُوْلَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: فَقُلْتُ مَا النَّجَاۃُ؟ فَقَالَ:(( اَمْلِکْ عَلَیْکَ لِسَانِکَ وَلْیَسَعْکَ بَیْتُکَ وَابْکِ عَلیٰ خَطِیْئَتِکَ)) (رواہ احمد والترمذی)
حضرت عقبہ بن عامر ؓ سے روایت ہے کہ میں رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا‘ اور عرض کیا‘ کہ حضرت (مجھے بتا دیجئے کہ) نجات حاصل کرنے کا گُر کیا ہے؟ (اور نجات حاصل کرنے کے لیے مجھے کیا کیا کام کرنے چاہئیں؟) آپؐ نے ارشاد فرمایا: ’’ اپنی زبان پر قابو رکھو (وہ بے جا نہ چلے) اور چاہیے کہ تمہارے گھر میں تمہارے لیے گنجائش ہو‘ اور اپنے گناہوں پر اللہ کے حضور میں رویا کرو۔‘‘
تشریح:رسول اللہﷺ نے عقبہ بن عامر کے سوال پر نجات حاصل کرنے کا گُر بتایا اور تین باتوں کی نصیحت کی اول زبان پر قابو رکھو۔ زبان کا غیر محتاط استعمال انسان کو ذلیل و خوار کر دیتا ہے جبکہ حسن کلام کی تاثیر سے دشمن کو دوست بنایا جا سکتا ہے۔ جس نے اپنی زبان پر قابو پا لیا‘ اُس نے بہت بڑا کام کیا۔ دوم یہ کہ بندہ فارغ وقت ادھر ادھر گھومنے کی بجائے اپنے گھر میں گزارے تاکہ اپنے بیوی بچوں میں رہ کر گھرکے کام کاج کرے یا عبادت کرے۔ سوم یہ کہ اللہ تعالیٰ سے عاجزی‘ انکساری کے ساتھ رو رو کر اپنے گناہوں کی بخشش مانگے۔ جس کی خطائیں بخش دی گئیں وہ کامیاب ہوا۔ یہ کام نجات دلانے والے ہیں۔