(الہدیٰ) فرعون اور ہامان کے لشکروں کو شکست - ادارہ

9 /

الہدیٰ

فرعون اور ہامان کے لشکروں کو شکست


آیت 5{وَنُرِیْدُ اَنْ نَّمُنَّ عَلَی الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِی الْاَرْضِ} ’’اور ہم نے ارادہ کیا کہ ہم احسان کریں ان لوگوں پر جو زمین میں دبا دیے گئے تھے‘‘
یعنی ہم نے بنی اسرائیل کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا جنہیں مصر میں مسلسل ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جا رہا تھا۔
{وَنَجْعَلَہُمْ اَئِمَّۃً وَّنَجْعَلَہُمُ الْوٰرِثِیْنَ(5)} ’’اور (ہم نے چاہا کہ) ہم انہیں امام بنا دیں اور انہی کو ہم وارث بھی بنائیں۔‘‘
آیت 6{وَنُمَکِّنَ لَہُمْ فِی الْاَرْضِ} ’’اور ہم تمکن عطا کریں ان کو زمین میں‘‘
ہم نے فیصلہ کیا کہ دنیا میں ہم بنی اسرائیل کو حکومت ‘طاقت اور سربلندی عطا کریں گے۔
{وَنُرِیَ فِرْعَوْنَ وَہَامٰنَ وَجُنُوْدَہُمَا مِنْہُمْ مَّا کَانُوْا یَحْذَرُوْنَ(6)} ’’اور ہم دکھا دیں فرعون‘ ہامان اور ان کے لشکروں کو وہ کچھ جس سے وہ ڈرتے تھے۔‘‘
ہامان فرعون کا وزیر تھا۔ ان لوگوں کو بنی اسرائیل کی طرف سے کیا خطرہ تھا ؟اس کے بارے میں دو توجیہات ملتی ہیں۔ ان میں سے جو توجیہہ ہماری تفسیری روایات میں بہت تکرار سے بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ فرعون نے ایک خواب دیکھا تھا جس سے اُسے یہ اشارہ ملا کہ اسرائیلیوں کے ہاں ایک ایسا بچہ پیدا ہونے والا ہے جو اُسے اور اس کی سلطنت کو ختم کر دے گا۔ چنانچہ اس نے اسرائیلیوں کے ہاں پیدا ہونے والے ہر لڑکے کو قتل کرنے کا فیصلہ کر لیا اور پھر اُس نے اپنے اس فیصلے پر سختی سے عمل درآمد بھی کروایا۔
اس سلسلے میں دوسری توجیہہ البتہ منطقی اور عقلی نوعیت کی ہے اور وہ یہ کہ فرعون اور ا س کے مشیروں کو یہ احساس ہونے لگا تھا کہ بنی اسرائیل کی تعداد بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے اور اگر ان کی تعداد میں اسی رفتار سے اضافہ ہوتا رہا تو بہت جلد یہ لوگ ان کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں اور اسی خدشے کے پیش نظر انہوں نے اسرائیلیوں کی نرینہ اولاد کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔
بہر حال اس حوالے سے ان دونوں توجیہات کا اپنی اپنی جگہ پر درست ہونے کا امکان ہے ۔

درس حدیث

قابل رشک کون؟


عَنِ ابْنِ عُمَرَ ؓ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ ﷺ: (( لَا حَسَدَ إِلَّا عَلَی اثْنَیْنِ: رَجُلٍ آتَاہُ اللّٰہُ الْقُرْآنَ فَھُوَ یَقُوْمُ بِہٖ آنَائَ اللَّیْلِ وَآنَائَ النَّھَارِ؛ وَرَجُلٍ آتَاہُ اللّٰہُ مَالًا فَھُوَ یُنْفِقُ مِنْہُ آنَائَ اللَّیْلِ وَآنَائَ النَّھَارِ)) (بخاری و مسلم)
ابن عمرؓ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’رشک صرف دو انسانوں کے حق میں درست ہے۔ ایک وہ شخص جس کو اللہ نے قرآن (کے حفظ کی دولت) سے نوازا ہے تو وہ رات اور دن کے اوقات میں قیام میں اس کی تلاوت کرتا رہتا ہے۔ اور دوسرا وہ شخص جس کو اللہ نے مال و دولت سے نوازا ہے۔ پس وہ رات اور دن کے اوقات میں اس سے خرچ کرتا رہتا ہے۔ ‘‘