اے اللہ! ہم پر رحم فرما!
’’کل کیا ہوگا یہ اللہ رب العزت کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ موجودہ صورت حال کو دیکھ کر مستقبل کے بارے میں انداز ے لگائے جا سکتے ہیں اور اندازے صحیح بھی ہوسکتے ہیں اور غلط بھی۔ ہمارے اندازے کے مطابق جس طرح یکطرفہ طور پر الیکشن کرائے جا رہے ہیں اِس کے نتائج سے مزید انتشار بڑھے گا۔ اب تک کی صورتِ حال کے مطابق الیکشن نہیں بلکہ مبینہ طور پر سلیکشن ہو رہی ہے اور کامیاب امیدواروں کا محض نوٹیفیکیشن ہو جائے گا اور عوام غیر متعلق ہو کر رہ جائیں گے اور اِس مزاحیہ کھیل میں وہ غریب قوم جو پہلے ہی قرضوں کے پہاڑ تلے دبی ہوئی ہے اُس پر انتخابات کے حوالے سے 47 ارب روپے کا قرضہ مزید بڑھ جائے گا اور حاصل کچھ نہ ہوگا۔ اس لئے کہ ایسے انتخابات کے ذریعےجو حکومت طاقتوروں کی پشت پناہی سے بنائی جائے گی اُسے 20 فیصد سے زیادہ عوام کی حمایت حاصل نہ ہو سکے گی کیونکہ اب تک کے تمام سروے یہی ظاہر کررہے ہیں ۔لہٰذا ایک انتہائی کمزور حکومت ہوگی اور یہی امریکہ چاہتا ہے۔ اور اگر الیکشن ملتوی کردیئے جائیں تو ہمیں یہ بتانے کی ضرورت ہی نہیں کہ یہ ملک کے لیے کتنے مہلک ثابت ہوں گے گویا غلط فیصلوں اور حکمت عملی کی وجہ سے ہمارے آگے گڑھا اور پیچھے کھائی ہے۔اِس بات کا ریکارڈ پر آنا لازم ہے کہ عالمی حالات اور موجودہ ملکی سیاسی عدم استحکام، عوامی بے چینی، ملک کی داخلی صورت حال اور ملک کی سلامتی پر منڈلاتے خطرات کے حوالے سے ہم تمام مسلمانوں اور خاص طور پر پاکستانی قوم کو آگاہی دے رہے ہیں کہ ہوش کے ناخن لیں تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں۔اللہ تعالیٰ سے ہی دعا ہے کہ وہ کوئی راہ نکال دے۔‘‘
یہ اقتباس ہم نے ندائے خلافت کے جنوری کے شمارہ نمبر4 کے اداریہ سے لیا ہے تا کہ قارئین کو بتائیں کہ ہم نے ڈیڑھ دو ماہ پہلے ملکی حالات کے حوالے سے جس تشویش کا اظہار کیا تھا اور جن خدشات سے قوم کو آگاہ بلکہ صحیح تر الفاظ میں متنبہ کیا تھا، وہ ہمارے اندازے کے عین مطابق سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔ الیکشن کے نام پر قوم سے جو بھونڈا مذاق کیا گیا اُس کے نتیجہ میں جو حکومت بنتی نظر آرہی ہے۔ اُس کا سر نہ ہی پاؤں دکھائی دے رہا ہے۔ ظاہر ہے ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت کے ہاتھ پاؤں باندھ کر اور دھاندلی کا طوفان برپا کرکے محض طاقتوروں کے دھکے سے جو حکومت وجود میں آئے گی اُس کا لڑکھڑانہ اور لڑکھڑاتے رہنا منطقی اور فطری ہوگا۔ ستم بالائے ستم یہ کہ سابقہ PDM کی دوسری بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے عوام کی حمایت سے محروم اِس حکومت کے قیام سے پہلے ہی یعنی متوقع حکومت پر ایسے زور دار انداز میں لوہے کا گرز مارا ہے کہ یہ حکومت پیدائشی طور پر کُبڑی نظر آئے گی۔ وہ یوں کہ P.P.Pنے واضح طور پر اعلان کردیا ہے کہ ہم ( PML(N کی حکومت کو سہارا دے کر کھڑا تو کردیں گے لیکن حکومت میں عملی طور پر شریک نہیں ہوں گےیعنی کابینہ میں شامل نہیں ہوں گے البتہ تمام آئینی عہدے یعنی صدر پاکستان، چاروں صوبوں کے گورنرز، سینٹ کا چیئرمین او ر سپیکر P.P.P سے ہوگا۔ گویا حکومت کی گورنرننس اور عوام کے حوالے سے مشکل فیصلوں سے اُن کا کوئی تعلق نہ ہوگایہ سطور تحریر کی جارہی تھیں تو یہ اطلاعات آنا شروع ہوگئیں کہ سابقہ PDM کے قائد مولانا فضل الرحمان نے بھی متوقع مرکزی حکومت سے نہ صرف لاتعلقی کا اظہار کیا ہے بلکہ گھر کے بھیدی نے لنکا ڈھائی ہے اور اپنے سابقہ حلیفوں پر کچھ الزامات بھی لگائے ہیں اور تحریکِ انصاف کے حوالے سے کچھ مثبت باتیں کی ہیں اِس نئی نویلی مگر ناتوان حکومت کے ضعف میں مزید اضافہ ہوگا۔ تحریکِ انصاف نے موقعے غنیمت جانا اور فوراً ایک وفد مولانا کی خدمت میں بھیج دیا۔ ہماری رائے میں اگر دونوں جماعتوں نے صرف اسٹیبلشمنٹ کے خلاف مزاحمت سے آگے بڑھ کر اکٹھے چلنے کا فیصلہ بھی کر لیا تو یہ دونوں کا U-Turn ہی نہیں about turn ہوگا۔
بہرحال دونوں جماعتوں کے اِس فیصلے کے تناظر میں متوقع قومی اسمبلی پر آپ نگاہ ڈالیں تو صورتِ حال کچھ یوں نظر آئے گی کہ حکومتی بنچوں کی نسبت اپوزیشن بنچوں کی آبادی شاید دگنی سے بھی کچھ زیادہ ہو۔ گویا شہباز شریف کی مرکزی حکومت ہردم P.P.P کے اشاروں پر ناچنے پر مجبور ہوگی وگرنہ ایک دن بھی نہیں نکال سکے گی گویا وزیر اعظم صاحب ہر وقت بلاول ہاؤس کے باہر بیٹھے رہیں گے تا کہ اُن کے رجحان کو دیکھ کر احکامات جاری کرسکیں۔ یہ بات ہمارے فہم سے بالاتر ہے کہ آخر پاکستان کو دنیا بھر میں تماشا کیوںبنایا جارہا ہے۔ ایک طرف تاریخ کی بدترین دھاندلی کر کے قوم کے نوجوانوں کو یہ درس دیا ہے کہ چوری اور بدیانتی کا ارتکاب کرکے بھی اپنا ناجائز مقصد یا ہدف حاصل کر لینا چاہیے ۔
خدارا سوچیے اگر آج آپ اُسے یہ سمجھا رہے ہیں کہ تمہارے ووٹ کی ردی کے کاغذ کے ٹکڑے کے سوا کوئی حیثیت نہیں، آج اگر اُس کا انتخابات پر اعتماد ختم ہوگیا اور وہ بیلٹ سے برآمد ہونے والے نتائج سے مایوس ہوگیا۔ اللہ نہ کرے، اللہ نہ کرے اُس کے ذہن کا خلجان اُسے بیلٹ کو رد کر کے بُلٹ کی طرف لے گیا تو یہ قومی خودکشی ہوگی۔انتخابات اور جمہوریت سے مایوس نوجوان پاکستان دشمن عناصر اور سازشیوں کے ہتھے چڑھ سکتا ہے۔ہمیں بعض قوم پرست رہنماؤں کے تحریک انصاف کے حق میں بیانات سے سازش کی بوآرہی ہے۔ خدارااِس صورت حال کوسمجھنے کی کوشش کریں۔ اِسے سنجیدگی سے لیں اوراِس سے پہلےکہ پاکستان کے خلاف کسی خوفناک سازش کے تانے بانے بُن لیے جائیں اور اِس سازش کو آگے بڑھانے کی مذموم کوشش کوئی شکل اختیار کر لے مقتدر حلقے ایسے اقدامات کریں جس سے یہ بات سامنے آئے کہ مقتدر حلقوں نے amicable conflict resolution کو عملی شکل دی ہے۔ البتہ مقتدر حلقے یاد رکھیں اور ہماری بات کان کھول کر سنیں کہ عوام کو کبھی اسلحہ کی طاقت سے شکست نہیں دی جا سکتی اِس کا تجربہ ہم تریپن (53) سال پہلے بھی کر چکے ہیں۔ اُس وقت بھی ہمارے دوست چین نے ہمیں طاقت استعمال نہ کرنے کا مشورہ دیا تھا لیکن قوت نے بات نہ مانی اور ہم شکست و ریخت سے دوچار ہوگئے آج بھی یہ بات طے شدہ ہے کہ اسلحہ کی قوت مسئلہ کو حل نہ کر سکے گی لہٰذا عوام کی بات سننے اور مفاہمت کا راستہ نکالنے کے سوا کوئی آپشن نہیں ہے۔ یہی صراط مستقیم ہے اِسی کو اپنانے میں خیریت اور عافیت ہے یہ واحد راستہ ہے جو پاکستان کی سلامتی اور استحکام کی طرف لے جا سکتا ہے۔ آگے بڑھنے سے پہلے بدطینت امریکہ کی سازش کا ذکر کرنا لازم ہے یہ سارا کھیل شروع کرنے سے پہلے شیطانِ بزرگ نے حکومتِ پاکستان کو افغانستان سے تعلقات خراب کرنے پر مجبور کیا ایک طرف بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ اور خطے میں اپنے دوسرے ایجنٹوں کے ذریعے پاکستان میں دہشت گردی کروائی اور دوسری طرف مختلف ذرائع سے پاکستان کو یہ باور کرایا گیا کہ اِس دہشت گردی کی ذمہ دار افغان طالبان کی حکومت ہے۔
اِس پس منظر میں سوچیے کہ اگر پختون نوجوان مایوس اور بدظن ہوگیا تو کیا ہوگا ہم خود میں ہرگز یہ ہمت نہیں پاتے کہ بتا سکیں کہ پھر حالات کس طرف جائیں گے۔ اللہ پاکستان پر رحم فرمائے۔ پھر یہ کہ وہ امریکہ جو اِس وقت ہمارے بڑوں کا ہمدرد اور خیر خواہ بنا ہوا ہے وہی پرانا وطیرہ اختیار کرے گا۔ حکومت بنتے ہی اِس نئی حکومت کا بازو twist کرنا شروع کر دے گا اور عوامی مفادات کے یکسر خلاف فیصلے کرنے پر اصرار کرے گا اور نئی حکومت امریکہ کے ناجائز مطالبات ماننے پر اِس لیے مجبور ہوگی کہ IMF امریکہ کی اجازت کے بغیر کچھ نہیں دیتا۔ جس سے خوفناک مہنگائی پیدا ہوگی اور یہ کمزور حکومت جو پہلے ہی عوامی حمایت سے محروم ہے عوام کی نفرت کا نشانہ بن جائے گی۔ ہم اِس حوالے سے وضاحت کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ PDM کی حکومت نے جس بُری طرح اپنے 16 ماہ کی حکومت میں پاکستان کی معیشت کو تباہ و برباد کر دیا تھا جسے اب بحال کرنا انتہائی مشکل ہے اور یہ کام تو کوئی زبردست عوامی حمایت یافتہ حکومت بھی آسانی سے نہیں کر سکتی۔ پاکستان کی معیشت کو کوئی معجزہ ہی بحال کر سکتا ہے۔ لہٰذا آنے والے وقت میں کیا ہوتا نظر آرہا ہے یہ لکھتے ہوئے ہمارا قلم کانپ رہا ہے۔ صرف اللہ سے دعا کر سکتے ہیں کہ وہ ہمارے گناہ معاف کرے اور غیب سے پاکستان کی مدد فرمائے آمین! اللہ ہمیں بھی توفیق دے کہ ہم صحیح معنوں میں اللہ کے بندے بن جائیں۔ اے اللہ ہم پر رحم فرما!
tanzeemdigitallibrary.com © 2025