قیادت کے اوصاف: قرآن و حدیث کی روشنی میں
فاروق طاہر
چندخصوصیات ایسی ہیں جو انسان کو دیگر مخلوقات سے ممتاز ونمایاں کرتی ہیں جن میں لیڈرشب (قیادت ) بھی شامل ہے۔قیادت کا بنیادی مقصد انسانوں کی درست رہنمائی اور ان کے مسائل کا آسان حل فراہم کرنا ہوتا ہے۔ باشعور،باصلاحیت اور دیانت دار قیادت نہ صرف انسانی مسائل کے حل میں ہمیشہ مستعدد و سرگرم رہتی ہے بلکہ معاشرے کی خوشحالی امن اور ترقی میں بھی کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔قیادت متعین مقاصد کے حصول کے لیے عوام کو بلاجبر و اکراہ ایک طے شدہ سمت پر گامزن کرنے کانام ہے۔تاثیر و کردار کے مجموعہ کوقیادت کہتے ہیں اور قائد سے مراد ایک ایساشخص ہوتا ہے جب اسے کوئی ذمہ داری یا عہدہ عطا کیا جائے تووہ اسے اپنے منصب کے شایان شان انجام دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ قیادت کوئی آسان ا ور معمولی کام نہیں ہے کہ جس کی انجام دہی کی ہر کس و ناکس سے توقع کی جائے۔قیادت کاہردم اندرونی و بیرونی چیلنجز سے سامنا ہوتا رہتا ہے ۔ ان چیلنجز سے عہدہ براں ہوکر ہی قیادت اعتماد ،استحکام اور قبولیت کا درجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوتی ہے۔گوناں گوں مسائل اور چیلنجز کے باعث قیادت کی باگ ڈور ہمیشہ اہل افراد کے ہاتھوں میں ہونا بے حد ضروری ہے۔
بلاشبہ قیادت ایک عظیم الشان اور جلیل القدر منصب ہے لیکن اس کی عظمت و جلالت کی وجہ سے قیادت کے کسی بھی حکم پراندھا دھند عمل نہیں کیا جاسکتا۔قیادت کے احکامات و نظریات کو قرآن وسنت کی کسوٹی پر پرکھا جائے گا ۔اگر وہ قرآن و سنت کے اصولوں پر پورے اترتے ہوں تب ہی قابل قبول ا ور واجب العمل ہوں گے ورنہ یکلخت انھیں نامنظور کردیا جائے گا۔’’اے ایمان والوں اللہ کی اطاعت کرو اور رسول ﷺ کی اور اپنے الوالامر ( صاحبان امر ) کی‘‘ (النساء 59 )
قیادت( الوالامر) کے احکامات و نظریات قرآن کے قطعی نصوص و احادیث رسول ﷺ سے متضاد نہ ہوں ۔ صاحبان امر(قیادت) کے نظریات ، اقوال و اعمال اگر قرآن اور سنت رسول سے ٹکرائیں تب یہ ہرگز لائق اتباع و قابل اطاعت نہیں ہوں گے اور اس کا انکار کرنے والے نہ تو غلطی پر ہوں گے اور نہ ہی باغی۔
حضرت ابوہریرہhسے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:’’ میرے بعد حکام ہوں گے جو نیک بھی ہوں گے اور فاسق بھی، تم ان کے احکام سننا جو حق کے موافق ہوں،ان کی اطاعت کرنا اوران کی اقتدا میں نماز پڑھنا اور اگر و ہ نیک کام کریں تو اس میں ان کا بھی نفع ہے اور تمہارا بھی اور اگر وہ برے کام کریں تو ان کو ضرر اور تمہیں فائدہ ہوگا۔‘‘
اسلامی تعلیما ت کی روشنی میں ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ گویا قیادت مطلق العنان نہ ہو بلکہ احکامات خداوندی ، سنت رسول کی روشنی میں متقی ،باشعور اور اہل علم افراد کی مشاورت سے خلق خداا کی درست رہنمائی کے فرائض انجام دیتی ہو۔اللہ رب العزت نے انسان کے پیکر خاکی میں قیادت و سیادت ،رہنمائی ا ور ہدایت کی ظاہری و باطنی بیش بہا قوتیں ودیعت فرمائی ہیں جن سے انسان کی قدر و منزلت میں اضافہ ہوا ہے۔انسان اللہ کی عطا کردہ ان خوبیوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ابتدائے آفرینش سے قیادت و سیادت کے فرائض انجام دے رہا ہے۔ کسی بھی فرد کو اپنا قائد منتخب کرنے سے قبل قرآن و سنت کی بیان کردہ شرائط کو نگاہ میں رکھنا ضروری ہے۔ اس مضمون میں قیادت کے ان اسلامی اوصاف پر توجہ مرکوز کی گئی ہے جس کے ذریعے آدمی کو سماجی نظام میں ترقی کے مواقع میسر آسکیں اور نیا خون پرانے خون کی جگہ لیتے ہوئے جدید تقاضوں کے مطابق عوام کی بہتر رہنمائی و رہبری کے فرائض انجام دے سکے۔
اخلاص
قیادت کی کامیابی و کامرانی میں اخلاص کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔قیادت یقیناًہمیشہ وقتی مصلحتوں اور تقاضوں کے گھیرے میں رہتی ہے لیکن قائد کا اخلاص و للہیت اسے وقار و مرتبہ عطا کرتا ہے۔عبادات میں اگر اخلاص شامل نہ ہو تو فر ض تو ادا ہوجائے گا لیکن عرفان الٰہی کی دولت سے انسان محروم رہے گا۔کسی بھی تحریک، انجمن اور تنظیم کے قائد اور کارکنان میں خلوص نیت کا پایا جانا اہم ہے۔جب قائد و قوم اخلاص سے متصف ہوجاتے ہیں تو ان کے قدموں تلے عظمتوں اور رفعتوں کے پرچم سرنگوں ہوجاتے ہیں۔
علم
علم ملک و ملت کے لیے قلعہ اور زرہ کی حیثیت رکھتا ہے۔علم میں انسانوں کی بھلائی،بہتری،ترقی ،استقامت ، تزکیہ ،رشد و ہدایت ،سعادت مندی اور نسلوں کا تحفظ پنہاں ہے۔علم سے ذہن و دل روشن ہوتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے آدم d کو علم کے ذریعے فرشتوں پر برتری عطا فرمائی۔ قیادت کے تقاضوں میں علم و حکمت کو سب پر فوقیت حاصل ہے۔علم سے آدمی میں خیر و شر کی تمیز پیدا ہوتی ہے۔ قوت تمیز کے فروغ و جلا کے لیے قائد میں عام افراد سے زیادہ علم کا ہونا ضروری ہے۔علم انسان میں عدل و توازن پیدا کرتا ہے۔علم کی وجہ سے انسان میں خشیت الٰہی پیدا ہوتی ہے۔اسلامی تعلیمات کی روشنی میں یہ بات عیا ں ہے کہ قیادت کے فرائض انجام دینے والے شخص کا علم و حکمت سے متصف ہونا لازمی ہے۔
حکمت
عقل و حکمت قیادت کی دوسری شرط ہے ۔ایک عام انسان کی بہ نسبت قائد کا زیادہ عقل مند ہونا بہت ضروری ہے تاکہ وہ اپنے فرض منصبی سے عہدہ برآ ہوسکے اور عوام کی رعایت کرسکے۔عقل و حکمت اور دانشوری سے قائد میں تجربہ،فکر اور تدبیر کا ملکہ پیدا ہوتا ہے۔قائد میں عقل و حکمت جیسے اوصاف کو لازمی گردانا جاتا ہے ۔قائد اپنی دانشوری کو برؤے کار لاتے ہوئے بہت احتیاط سے گفتگو کرتا ہے۔دانش مندی اور حکمت مظاہر عقل میں سے ایک عظیم مظہر ہے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’اور جسے دانائی عطا کی جائے تو بلاشبہ اسے بہت زیادہ بھلائی دی گئی اور نصیحت قبول نہیں کرتے مگر جو عقلوں والے ہیں‘‘۔(البقرہ: 269)
یقین واعتماد
قیادت کے تقاضوں میں سے ایک اہم تقاضا یہ بھی ہے کہ قائد کو اپنی ذات پر کامل اعتماد ہو اور قوم کو اپنے قائد کی صلاحیتوں پر۔اعتماد قیادت کی اعلیٰ ،اساسی اور گراں قدر خصوصیت ہے۔قائد جتنا پُراعتماد ہوگا اسی قدر و صائب رائے ہوگا۔ اعتماد جرات کو جنم دیتا ہے اورجب جرات پیدا ہوجاتی ہے تو غلام بھی آقاؤں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے لگتے ہیں۔
مقصد سے آگہی/ نصب العین
قائد کا نصب العین اس کی قوم کا نصب العین ہوتا ہے۔دوراندیش ولائق قیادت اپنے ملک و قوم کی ضرورتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے مقاصد کو وضع کرتی ہے۔قائد کا فرض ہے کہ وہ متعین مقاصد کو صاف اور شفاف انداز میں پوری قوم کے آگے پیش کرے اور خیال رہے کہ مقاصد کے متعلق قائد اور قوم میں کسی قسم کا ابہام نہ ہو۔مقاصد واضح ہوں اور مقاصد کے ادراک و تفہیم میں کسی کو بھی کسی قسم کی دشوار ی نہ پیش آئے ۔ قائد مقاصد کے تعین میں اپنے ملک و قوم کے معاشی ،سیاسی،معاشرتی ، اخلاقی، مذہبی ،دینی،اور علمی حالات کو پیش نظر رکھے۔کیونکہ قوم کا خادم ہےقوم کا سردار ،قوم کا خادم ہوتا ہے۔
اولوالعزمی
قرآن نے صبر کا ایک ساتھی عزیمت کو قرار دیا ہے۔’’اور جو بھی مصیبت تمہیں پہنچے ،اس پر صبر کرو،بلاشبہ یہ عزیمت کے کاموں میں سے ہے‘‘۔(سورہ لقمان)عزم کے معنی پختہ ارادہ ہے۔ وہ آدمی اولوالعزم ہے، جو کسی مقصد کے لیے ارادہ کرے اور اس پر جم جائے۔ حضرت عمرؓ ابو عبیدہ بن جراحؓ سے فرماتے ہیں:’’فتح امید سے نہیں ،یقینِ محکم اور خدا پر اعتماد سے حاصل ہوتی ہے۔‘‘
احساس ذمہ داری
اسلام ہر انسان میں احساس ذمہ داری اور جوابدہی کا جویا پیدا کرتا ہے ۔یہ احساس انسان میں نیکی، تقویٰ، پرہیزگاری، صالحیت اور اعلیٰ اخلاق و اقدار کو پروان چڑھانے کا باعث بنتے ہیں۔نبی اکرم ﷺ کا فرمان عالی شان ہے: ’’تم میں ہر شخص ذمہ دار ہے ہر ایک سے اس کی رعیت کے سلسلے میں باز پرس ہوگی۔‘‘(بخاری)
حضرت فاروق اعظمh کے احساس ذمہ داری کا یہ عالم تھا کہ وہ کھجور کی چٹائی پر سوتے راتوں کو جاگ کر رعایا کی خبر گیر ی کرتے ان کی ضرورتوں کو پورا کرتے حتیٰ کہ اپنی پیٹھ پر غلے کا بوجھ لادکر رعایا تک پہنچاتے کیو نکہ آپ نے اپنے آقا و قائد سرور عالم ﷺ کو اپنے دست مبارک سے خندق کھودتے ہوئے دیکھا تھا۔قائد اپنی قوم کا سربراہ ہوتا ہے ۔یہ مخدوم نہیں بلکہ خادم ہوتا ہے۔عوام کی خیرخواہی،ان کی ضرورتوں کا خیال،ان کی بہتری کی فکرنہ صرف قائد کی ذمہ داری ہے بلکہ اس کا فرض منصبی بھی ہے۔
امانت و دیانت
قیادت ایک امانت ہے اور اس کو اہل افراد تک پہنچانا بھی ایک اہم ذمہ داری ہے۔’’مسلمانوں اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل امانت کے سپرد کرو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو عدل کے ساتھ فیصلہ کرو،اللہ تم کو نہایت ہی عمدہ نصیحت کرتا ہے اور یقیناًاللہ سب کچھ دیکھتا ہے۔‘‘(سورہ النساء 58)قیادت جب اہل و اعلیٰ صفات افراد تک پہنچتی ہے تو وہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکراعلیٰ نصب العین کی جانب گامز ن رہتے ہیں۔ مذکورہ آیت خاندانی اور موروثی حکمرانی وقیادت کے خاتمہ کا اعلان کرتی ہے ۔موروثیت،طاقت ،اثر و رسوخ کے بل پر کوئی قیادت کا دعویدار نہیں ہوگا۔قائد وہی ہوگا جوقیادت کا اہل ہوگا،عوام کو جواب دہ ہوگاان کی خیر و بہتری کے اقدامات کرنے والے ہوگا۔
قوانین واصولوں کی پاسداری
قائد اگر پابند ڈسپلن ہوتو اس کا خوش گوار اثر معاشرے ،ماحول اور عوام پر بھی مرتب ہوتا ہے۔ قائد کی ذات اصول و قوانین سے بالاتر نہیں ہوتی ہے۔ عوام کے ساتھ قائد کی اصول و قوانین پر عمل پیرائی لازمی ہے۔ قیادت کی اصول پسندی سے اس کے رعب ، دبدبے اور مقبولیت میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔نبی کریم ﷺ نے اپنی حیات طیبہ سے ہم کو قانون کی پاسداری اور اصول پسندی کی تعلیم دی ہے۔آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’پہلی قومیں اس لیے تباہ ہوگئیں کہ جب کوئی بڑا غلطی کا ارتکاب کرتا تو مختلف حیلوں،بہانوں سے سزا سے بچ جاتا اور جب کوئی عام انسان کسی فعل شنیع کا مرتکب ہوتا تو سزا پاتا۔ اصولوں کی پاسداری اور حدود کے نفاذ میں تعلقات اور قربت داری کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
اعتدال
ہر کام کو عمدگی سے انجام دینے کے لیے اعتدال و توازن کی ضرورت ہوتی ہے۔اسلا م زندگی کے ہرشعبے میں ہمیں اعتدال کی راہ اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے’’اور ہم نے تمہیں امت وسط بنا یا ہے۔‘‘ (البقرہ :341)قیادت کے مطلوبہ اوصاف میں اعتدال اور توازن کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ ہر شخص کو اور بالخصوص قائد کو اپنی زندگی میں شدت پسندی،افراط و تفریط اور غلو سے اجتناب کرتے ہوئے میانہ روی اختیار کرنا چاہیے۔
عدل و انصاف
ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’اللہ تعالیٰ عدل کا، بھلائی کا اور قرابت داروں کے ساتھ سلوک کرنے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی کے کاموں، ناشائستہ حرکتوں اور ظلم و زیادتی سے روکتا ہے۔‘‘(سورۃ النحل)عدل کے معنی انصاف کرنے کے ہیں یعنی ایک انسان دو سرے انسان سے اس دنیاوی زندگی میں انصاف سے کام لے۔ کسی کے بھی ساتھ دشمنی، عناد، محبت یا قرابت کی وجہ سے انصاف کے تقاضے مجروح نہ ہوں۔ قائد کا عدل و انصاف کے صفات سے متصف ہونا بہت ضروری ہے۔اگر قیادت عدل و انصاف سے کام لینے میں پہلو تہی کر ے تو اسے اس کا خمیازہ دنیا اور آخرت دونوں جگہوں پر بھگتنا پڑے گا۔
شجاعت
قائد میں شجاعت کاہونا بے حدضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر امارت ،قیادت و سیادت ممکن نہیں ہے۔ سیرت طیبہ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرمﷺ سب سے زیادہ حسین اوربہادر تھے۔(بخاری)نبی کریمﷺ کا شجاعت، بہادری اور دلیری میں بھی مقام سب سے بلند اور معروف ہے۔ اگر آج ہم اپنے سینوں میں آپ ﷺ کی شجاعت بھر لیں تو دنیا کی کوئی طاقت ہمارا مقابلہ نہ کر سکے۔
سخاوت
سخاوت ایک عبادت اور اللہ کی نعمتوں کے شکر کا نام ہے۔رسول اللہ ﷺنے سخاوت کی اعلیٰ ترین مثال قائم کی ہے۔ آپ ﷺ نے ہر چیز کو اللہ کی راہ میں لٹا دیا۔قیادت سخاوت کے وصف سے آراستہ ہونی چاہیے۔ قیادت کو معلوم ہونا چاہیے کہ مال و اسباب کاباٹنا ہی سخاوت نہیں ہے۔ مال خرچ کرناسخاوت ہے۔ظالم کو معاف کر دیناسخاوت ہے۔ زیادتی کرنے والے سے درگزرکرنا سخاوت ہے۔ قطع تعلق کرنے والے سے تعلق جوڑناسخاوت ہے۔مسلمانوں کی اصلاح کرناسخاوت ہے۔ غیرمسلموں کو اسلام کی دعوت دیناسخاوت ہے۔کسی کا عذرقبول کرنا سخاوت ہے۔علم و معرفت اور اپنا تجربہ کسی کو دینا سخاوت ہے۔اپنے حقوق سے دستبردارہونا سخاوت ہے۔کسی کی حوصلہ افزائی کرناسخاوت ہے۔کسی کی عزت افرائی کرنا سخاوت ہے۔ قیادت کوعلم ہونا چاہیے کہ سب سے آسان ترین سخاوت، ایک مسکراہٹ، کسی کی خیریت دریافت کرنے کیلیے ملاقات کرنا،اچھی بات کہنا، دعا دینا، کسی کی تھوڑی بہت مدد کردینا، دوا خرید کر دینا،یہ بھی سخاوت ہے۔
حسن اخلاق
اچھے اخلاق و عمدہ خصائل قیادت کی اعلیٰ خصوصیات ہیں۔حسن اخلاق قیادت و سیادت کو استحکام بخشتے ہیں۔ حسن اخلاق کی بدولت اپنے تو اپنے دشمن، باغی اور سرکش لو گ بھی مطیع بن جاتے ہیں۔بااخلاق قیادت سے مرجھائے دلوں میں امید ،عزم ، حوصلہ اور زندگی کی امنگ پیدا ہوجاتی ہے۔عمدہ اخلاق کے ذریعے انسان لوگوں کے دلوں پر راج کرتا ہے۔نبی اکرم ﷺنے فرمایا:’’ روز قیامت میزان میں سب سے وزنی چیز اچھے اخلاق ہوں گے۔ ‘‘ قائد کے لیے منصب کے حصول سے زیادہ عوام کے دلوں میں جگہ بنانا ضروری ہوتا ہے اورجو دلوں کو فتح کرتا ہے وہی حقیقی فاتح کہلاتا ہے۔
وہ ادائے دلبری ہو کہ نوائے عاشقانہ
جو دلوں کو فتح کرلے وہ ہی فاتح زمانہ
ایفائے عہد
ایفائے عہد کی اجتماعی زندگی میں بہت زیادہ اہمیت ہے۔قائد میں عہدو پیمان کی پاسداری اگر نہ ہو تو عوام کا قیادت پر سے یقین و اطمینان اٹھ جاتا ہے۔ نبی کریمﷺ وعدے کے اتنے پکے تھے کہ کفارمکہ آپ کو صادق و امین کہہ کر پکارتے تھے اور اپنی امانتیں آپ کے پاس رکھتے تھے۔آج قیادت دھوکہ دہی، مکر و فریب ،جھوٹ،بددیانتی ،خیانت جیسے موذی امراض میں مبتلاہے۔ بات بات میں جھوٹ بولنا اور معاملات میں بددیانتی کرنا آج کے قائدین کا وطیرہ بن چکا ہے۔اسلام میں ایفائے عہد کا بڑی سختی کے ساتھ حکم دیا گیا ہے اور وعدہ خلافی و عہد شکنی کی سخت مذمت کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’عہد کو پورا کرو، کیوں کہ قیامت کے دن عہد کے بارے میں انسان جواب دہ ہو گا۔‘‘(بنی اسرائیل) ایفائے عہد کی تکمیل کے بغیر قیادت نہ تو مقبول ہوتی ہے اور نہ ہی پروان چڑھتی ہے۔
حلم و بردباری(جذباتی ذہانت)
بعض لوگ اپنے انتہائی بلند آئی کیو لیول کے باوجود دوسروں کی رہبری سے قاصر رہتے ہیں۔ انتہائی ذہین لوگ بھی تنظیمی و انتظامی امور میں ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ قائد کا اپنے پیروں اور کارکنان کے مثبت اور منفی جذبات کو پہچان کر خود اپنے جذبات پر قابو رکھنا، ایک اچھی اور کامیاب لیڈرشب کی ضمانت ہے۔حلم و بردباری کی تعریف یہ ہے کہ قائد کسی ناگہانی صورتحال میں بھی جذبات کی رو میں نہ بہے۔ناگہانی صور تحال میں اپنے ہوش و حواس پر قابو رکھے ۔
نرم خوئی(رفق)
نرم خوئی قیادت کے لیے بہت ضروری ہے۔اگر قائد کے دل میں نرمی ہوگی تو کارکنان(عوام) کے دل میں بھی اس کے لیے محبت و عزت ہوگی اور معاشرہ فتنے و فساد سے محفوظ رہے گا۔ قیادت (اولوالامر ) کے لیے نرم خوئی(رفق) انتہائی اہم ہے۔
عفو درگزر
زندگی کے سفر میں بعض مرتبہ ناراضگی اوررنجش پیدا ہوسکتی ہے۔ایسے موقعوں پر رسول اللہ ﷺنے آپسی رعایت اور عفو ودرگزر کے ذریعے ہماری بہترین رہنمائی فرمائی ہے۔عفو و درگزر کی وجہ سے زندگی کے معمولات احسن طریقے سے انجام پاتے ہیں اور سماجی تعلقات اور رشتوں کے درمیان توازن اور الفت پیدا ہوتی ہے۔ عفو و درگزر کی صفت قائد کی عظمت کو بلندی عطا کرتی ہے۔
رواداری
سیرت طیبہﷺ کے مطالعہ سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ قائد میں رواداری کا عنصر ہونا بے حد ضروری ہے۔قائد کو چاہیے کہ وہ اپنے ہم عقیدہ ،ہم نظریہ اور ہم مذہب سے ہی نہیں بلکہ غیر مذہب اور دیگر عقائد و نظریات کے حامل لوگوں سے بھی رواداری اور حسن سلوک سے پیش آئے۔
عوامی رابطہ
ایک اعلیٰ قیادت خود کو کبھی بھی دوسروں سے الگ تھلگ نہیں رکھتی ۔اسلام ہمیں لوگوں سے الگ تھلگ رہنے اور لوگوں سے منہ پھیرکر زندگی گزارنے سے منع کرتا ہے۔ قرآن مجید نے سختی کے ساتھ اس امر سے منع کیا ہے۔ {وَ لَا تُصَعِّرْ خَدَّکَ لِلنَّاسِ}’’اورتم لوگوں سے منہ پھیر کر بات نہ کرو‘‘ ۔(سورہ لقمان) قیادت جب اناپرستی کا شکار ہوجاتی ہے تو قائد کا رویہ بھی بالکل اسی طرح ہوجاتا ہے۔قائد کو اس طرح کے افعال سے سختی سے اجتناب کرنا چاہیے۔
معلومات کا ذخیرہ
دنیا میں جتنے بھی کامیاب لیڈر گزرے ہیں ان میں سنجیدگی سے مطالعہ کرنے اور نئی معلومات اکٹھی کرنے کا جذبہ بدرجہ اتم موجود تھا۔ کسی بھی واقعے کی تہہ تک پہنچنے کے لیے قائد کے پاس مفید معلومات کا ہونا ضروری ہے۔ قائد اپنی معلومات کی بنیاد پر جو اچھا یا غلط فیصلہ کر ے گا اس کا براہ راست اثر اس کے پیرو کاروں اور متعلقہ ادارے پر پڑے گا۔
قوت فیصلہ
ایک بااثر قائد مشکل اور کٹھن وقت میں بھی اپنی دانش و بینش کے بل پر اہم فیصلے لینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ بہتر قائد ہمیشہ فیصلہ سازی میں جماعت کے تجربہ کار اہل علم افراد کو نہ صرف شامل رکھتا ہے بلکہ ان تجاویز و آرا پر ان کی حوصلہ افزائی بھی کرتا ہے۔اگر قائد ان امور پر توجہ مرکوز نہیں کرے گا تو اپنے ماتحتوں کے مشوروں اور تجاویز سے وہ محروم ہوجائے گا اور وہ اسے ایک آمر یت پسند قائد کے طور پر دیکھنے لگیں گے۔
تجربہ و مہارت
قیادت کسی چھوٹے گروہ کی بھی ہوسکتی ہی یا پھر ایک بڑی جماعت کی بھی ۔قائد کو جب کوئی قیادت سونپی جائے وہ اس میں مہارت رکھتا ہو یا کم از کم اس کی مبادیات اور اساسیات کا اسے علم ضرور ہو بصورت دیگر وہ اپنے عہدے سے انصاف نہیں کرسکے گا۔قائد کا زندگی کے دیگر شعبہ جات جیسے علم ودانش ،معاشیات، مالیات، سیاسیات، قانون،ثقافت،تعلیم و تربیت ،طب و صحت، فلاح و بہبود وغیرہ سے بھی آگہی رکھنا ضروری ہے ورنہ وہ قیادت کی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے انجام نہیں دے پائے گا۔
مسائل کا حل
قائد کے لیے عوامی (تنظیمی)حالات سے واقفیت ضروری ہوتی ہے تاکہ وہ ان کی فلاح وبہبود کے کام انجام دے سکے۔قائد اپنے کارکنوں اورپیروں سے باخبر رہے ۔ حضرت عمرh رعایا کی خبر گیری کے معاملے میں اتنے حساس تھے کہ اسی لیے آپ نے کہا ’’اگر فرات کے کنارے بھیڑ کا بچہ (بھوک سے)بھی مرگیا تو مجھے ڈر ہے کہ اللہ مجھ سے اس کے متعلق سوال کرے گا۔‘‘(حلیۃ الاولیاء)
دوسروں تک اپنا پیغام پہنچانے کافن
تقریر ہو یا تحریر، قائد کے پاس دوسروں تک موثر طریقے سے اپنا پیغام پہنچانے کا گر ہونا چاہیے۔ اس کے پاس اچھے اور متبادل الفاظ کی فراوانی، جملوں کی روانی، زبان کی شائستگی اور بولنے میں سوز و گداز جیسے عناصر کا لازمی طور پر ذخیرہ ضروری ہے۔قائدین مطالعہ اور اہل علم حضرات کی صحبتوں سے اپنی اس کمی کو دور کرسکتے ہیں۔
لب لباب
آج کے اس پُرفتن در رمیں ایسی صفات کی حامل قیاد ت کا ملنا مشکل تو ضرورہے لیکن نا ممکن نہیں ہے۔آج قیادت بدترین شخصیت پرستی اور آمریت کے دور سے گزر رہی ہے۔قیادت و سیادت آج احساس ذمہ داری اور اپنے فرض منصبی سے عاری ہے۔قیادت عیاری ومکاری کا دوسرا نام بن کر رہ گئی ہے۔قوم کے مال پر قائدین اپنی زندگی شاہانہ ٹھاٹ باٹھ اور کروفر سے بسر کررہے ہیں۔معصوم عوام قیادت کے ظلم وستم سہہ رہے ہیں۔ ایسا نہیں کہ یہ قیاد ت کی عیاری سے واقف نہیں ہیں ۔یہ بالکل واقف ہیں لیکن ان کے پاس جرأت نہیں ہے کیونکہ ان کے پاس علم نہیں ہے ۔اگر علم ہوتو بھی یہ قرآن و سنت کی تعلیمات سے لاعلم ونابلد ہیں۔علم آدمی میں اعتماد پیدا کرتا ہے پھر اعتماد آدمی میں جرأت پیدا کرتا ہے۔شخصی و موروثی قیادت کی موجودگی میں نوجوان نسل کی قائدانہ تعلیم وتربیت کا انتظام کیے بغیر اس منظر نامے کو نہ تو ہم بدل سکتے ہیں اور نہ ہی ترقی ،خوشحالی اور امن و استحکام کی توقع کرسکتے ہیں۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2025