(اسلامی معاشرت) حیا ہی پہچان ہماری - ماجدہ نعیم

7 /

حیا ہی پہچان ہماری

ماجدہ نعیم

 

اسلام معاشرے میں بھلائی پھیلانا چاہتا ہے۔ برائی اور بے حیائی کی روک تھام کرنا چاہتا ہے۔ اس لیے ہمیں اللّٰہ اور اس کے رسول نے زندگی کے ہر شعبے میں حیا اختیار کرنے کا حکم دیا ہے۔بے حیائی کی ترویج کرنا اور سراہنا بھی بے حیائی میں ہی شمار ہوگا۔
ارشاد نبوی ﷺ ہے: ’’بے حیائی جس چیز میں ہوتی ہے اسے عیب دار بنا دیتی ہے اور حیا جس چیز ہوتی ہے، اسے زینت بخشتی ہے۔‘‘(مسنداحمد:9225)
یہ بھی فرمایا: ’’حیا اور ایمان ہمیشہ اکھٹے رہتے ہیں۔ جب ان میں سے کوئی ایک اٹھا لیا جائے تو دوسرا خود بخود اٹھ جاتا ہے۔‘‘ (مشکوۃ)
اگر ہم اپنےایمان کو عزیز رکھتے ہیں تو ضرور ہم اپنے اندر موجود حیا کی حفاظت کریں گے۔ کتاب الٰہی ہمیں سکھاتی ہے کہ نامحرم سے کیسا معاملہ کرنا چاہیے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’اے نبیؐ: ’’مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، یہ اُن کےلیےزیادہ پاکیزہ طریقہ ہے، جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ اُس سےباخبر رہتا ہے۔‘‘ (النور:30)
قرآن میں نظر کی حفاظت کے فوراً بعد شرمگاہ کی حفاظت کا حکم دیا گیا گویا پاکدامنی کی پہلی شرط نظر کی حفاظت ہے۔ ہمیں قرآن نے نامحرموں سے غیر ضروری گفتگو کرنے سے بھی منع کیا ہے لیکن اگر مجبوراً بات کرنی پڑے تو اس کے بھی آداب بتائے گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’اگر تم اللہ سے ڈرنے والی ہو تو دبی زبان سے بات نہ کیا کرو کہ دل کی خرابی کا مُبتلا کوئی شخص لالچ میں پڑ جائے، بلکہ صاف سیدھی بات کرو۔ ‘‘( الاحزاب:32)
اس سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ اسلام میں غیر محرموں سے چھپی آشنائی کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ مسلمانوں کو حیا کا مظہر ہونا چاہیے۔ مسلمانوں کے اخلاق و کردار ، گفتگو، اٹھنےبیٹھنے، اوڑھنے، غرض ہر چیز میں حیا نظر آنی چاہیے۔ اس لیے کیونکہ ارشاد نبوی ہے۔ ہر دین کا کوئی امتیازی وصف(صفت) ہوتا ہے اور اسلام کا امتیازی وصف حیا ہے۔
اب اگر اسلام کا امتیازی وصف مسلمانوں میں ہی نہیں پایا جائے گا، تو پھر کس میں پایا جائے گا؟ اور میں اپنی پیاری بہنوں سے کہتی ہوں کہ ہر ایرےغیرےکو یہ حق نہیں ہے کہ وہ آپ کی خوبصورتی دیکھے۔ آپ کی خوبصورتی اور زینت صرف خاوند کے لیے ہے۔ یوں ہرکسی کے سامنے اپنی خوبصورتی کا اظہار کر کےآپ اپنی خوبصورتی کو بے وقعت کر رہی ہیں۔ اور یوں آپ کے چہرے کی معصومیت آہستہ آہستہ ختم ہو جائے گی۔ نامحرموں کے سامنے زینت کے اظہارکی ممانعت کے حوالےسے اور پردے کے متعلق اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ارشاد فرمایا: ’’اور (مومن عورتیں) اپنا بناوٴ سنگھار نہ ظاہر کریں مگر اِن لوگوں کے سامنے۔ شوہر، باپ، سسر، اپنےبیٹے، شوہروں کے بیٹے، بھائی، بھتیجے، بھانجے، اپنےمیل جول کی عورتیں، اپنے مملوک، وہ زیرِدست مرد جو کسی اور قسم کی غرض نہ رکھتے ہوں، اور وہ بچےجو عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے ابھی واقف نہ ہوئےہوں۔‘‘ ( النور:31)
اس آیت سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ عورتیں خاوند کے علاوہ کسی اور کے لیے میک اپ نہیں کر سکتیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’تمہاری بدترین عوتیں وہ ہیں جو (نامحرموں کے سامنے) زیب و زینت اختیار کرنے والی اور تکبر کرنےوالی ہوں ،یہی عورتیں منافق ہیں۔‘‘(سلسلہ صحیحہ)
اس سلسلے میں کچھ والدین بھی قصوروار ہوتے ہیں کیونکہ وہ اپنے بچوں کو بچہ سمجھ کر انہیں ڈھیل دیے جاتے ہیں۔ مذکورہ بالا آیت میں جو بچے عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے ابھی واقف نہ ہوئے ہوں۔یہ تعریف زیادہ سے زیادہ دس بارہ سال کے لڑکوں پر صادق آ سکتی ہے۔ اس سےزیادہ عمر کے لڑکے اگرچہ نابالغ ہوں، مگر ان میں صنفی احساسات بیدار ہونے شروع جو جاتےہیں اس لیےہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے بچوں کو کم عمری سے ہی حیاکی تعلیم دیں۔ حیادار، ساتر لباس پہنائیں۔ حیادار گفتگو کرنا سکھائیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:ـ’’ اے ایمان والو، اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو آگ سے بچاؤ۔‘‘ ( التحریم:6)
قرآن میں تمام پیغمبروں اور خصوصاً حضرت یوسف ؑ کی حیاکی مثال ہمیں ملتی ہے۔ حضرت یوسفؑ نے مشکل ترین مرحلے پر بھی اپنی حیاکا دامن تھامے رکھا اور خواتین مصر کے جالوں سے بچنے کے لیے زندان میں جانے کو ترجیح دی۔ ایسا کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ حضرت یوسف ؑ کے بلند اور مضبوط پاکیزہ اخلاق کا علم مصر کے ہر خاص و عام کو ہوگیا۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں جنّتی عورتوں کی سب سےنمایاں صفت حیابتائی ہے، اب اگر ہم جنت کے حصول میں سنجیدہ ہیں، تو کیا ہم اپنےاندر یہ صفت پیدا کرنے کی کوشش نہیں کریں گے؟ دراصل حیا کو اختیار کرنے سے ہی انسان ایمان کی حلاوت کو محسوس کر پاتا ہے۔ حیا انسان کے وقار میں اضافہ کرتی ہے اور انسان کو سکون بخشتی ہے۔ حیاانفرادی اور قومی اخلاق کی پاسبان ہے۔ تو پھر کیا حیاسراپا خیر نہیں ہے؟ ہے، کیوں نہیں۔
اس لیےآئیےسب مل کر یہ کام کرتے ہیں۔ بےحیائی کو روکنے اور حیاکو فروغ دینےکا کام۔ حیا ہماری پہچان ہے جو کھو چکی ہے۔ آئیےاس پہچان کو دوبارہ اپنے نام کریں۔
یہ کام ہے صبح و شام کرنا، حیا کے کلچر کو عام کرنا
قلم سے یہ انتظام کرنا، حیا کے کلچر کو عام کرنا