(زمانہ گواہ ہے) الیکشن 2024ء کے نتائج اور اسٹیبلشمنٹ کا کردار - محمد رفیق چودھری

7 /

پورا نظام سیکولر ہے ، دینی جماعتوں کے کچھ نمائندے اگر اسمبلی میں آبھی

گئے تو وہ کچھ نہیں کر سکتے لہٰذا انقلاب تو تب آئے گا جب فرسودہ باطل

نظام کو سہارا دینے والی قوتوں کو بھی ختم کیا جائے۔ ایوب بیگ مرزا

جوبھی کمزور سی حکومت بنے گی وہ عوام پر مزید بوجھ بنے گی اور

عوام میں شدید مایوسی اور ردعمل پیدا ہوگا ۔ دینی جماعتوں کو سوچنا چاہیے

کہ وہ ان حالات میں کیا رول ادا کر سکتی ہیں :ڈاکٹر فرید احمد پراچہ

الیکشن 2024ء کے نتائج اور اسٹیبلشمنٹ کا کردار کے موضوع پر

حالات حاضرہ کے منفرد پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں معروف دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کا اظہار خیال

میز بان :آصف حمید

مرتب : محمد رفیق چودھری

 

سوال: الیکشن 2024ء کے بعد امیر جماعت اسلامی سراج الحق صاحب نے استعفیٰ دے دیا ہے ۔ اس کی کیوں ضرورت پیش آئی جبکہ پتہ تو تھا کہ بہت زیادہ نشستیں حاصل نہیں ہو پائیں گی ؟
ڈاکٹر فرید احمد پراچہ: ہمارے لیے بھی یہ اچانک خبر تھی۔ اس طرح کی کوئی توقع بھی نہیں تھی کیونکہ اس سے پہلے مرکزی شوریٰ کی مشاورت ہوئی جس میں الیکشن کا تجزیہ بھی ہوااور اس میں بڑے مثبت پہلو سامنے آئے کہ پہلی دفعہ جماعت اسلامی نے کسی اتحادی جماعت کے بغیر اپنے جھنڈے ، اپنے نشان کے ساتھ انتخابات میں حصہ لیا ۔ ہر فرد نے یکسو ہو کر بھرپور محنت کی چاہے وہ امیر جماعت ہوں یا عام کارکن ہو ۔ ہم اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ہمارا ووٹ بینک بڑھ گیا ، دگنا ہو گیا۔ اگر متناسب نمائندگی کا نظام ہوتا تو اس ووٹ بینک سے ہمیں قومی اسمبلی کے اندر 11 سیٹیں ملتیں۔یہ بھی بڑی اچھی کارکردگی تھی ۔ لیکن اس کے بعد انہوں نے خود کسی مرحلے پر فیصلہ کرلیا ۔ اگرچہ یہ بات اپنی جگہ تھی کہ دستوری لحاظ سے پانچ سال کا عرصہ پورا ہورہا تھااور نئے انتخاب کا پراسس شروع ہو گیا ہے۔ شوریٰ کے اجلاس میں مشاورت کے بعد تین نام نئے امیر کے لیے تجویز کیے گئے تھے جن میں خود سراج الحق صاحب ، لیاقت بلوچ صاحب اور حافظ نعیم الرحمٰن صاحب شامل ہیں ۔ بظاہر ان کے استعفیٰ دینے کی کوئی وجہ نہیں تھی ۔ اس حوالے سے17 فروری کو ہماری شوریٰ کا اجلاس رکھا گیا۔ بہت زیادہ امکان یہی ہے کہ شوریٰ ان کے استعفیٰ کو قبول نہیں کرے گی ۔
سوال:حالیہ الیکشن کو آپ کس نگاہ سے دیکھتے ہیں ؟ان کو کیا کہیں گے، الیکشن، سلیکشن یانوٹیفکیشن؟
ڈاکٹر فرید احمد پراچہ:کتنی شرم کی بات ہے کہ انڈیاجیسے ملک میں جہاں بہت سےداخلی تضادات ہیں ان کے الیکشن پر سوالات نہیں اُٹھتے ، وہ دنیا سے منوا لیتے ہیں ۔ یہاں بھی ہم نے بڑی محنت کی کہ الیکشن کمیشن کو اس سطح پر لایا جائے کہ اسے مکمل طور پر آزاد ہو نا چاہیے لیکن جس طرح سے یہ الیکشن ہوا اس سے الیکشن کمیشن پر کئی سوال اُٹھ رہے ہیں ۔ سب سے پہلے تو ووٹر لسٹوں میں بہت گڑ بڑ کی گئی ، ووٹرز کے نام ہی لسٹوں سے غائب کر دیے گئے اور دوسرے حلقوں میں پھینک دیے گئے ۔ پھر شہری علاقوں کے پولنگ سٹیشن دیہی علاقوں میں اور دیہی علاقوں کے پولنگ اسٹیشن شہری علاقوں میں منتقل کر دیے گئے ۔ میرا اپنا پولنگ سٹیشن تبدیل کردیاگیا ۔ یعنی لوگوں کو ووٹ ڈالنے سے روکنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی ۔ لیکن اس کے باوجود لوگ ووٹ ڈالنے گئے تو پھر ان کے ووٹ پر ڈاکہ ڈالنے کی نئی کہانی شروع ہوگئی ۔ رات کو نتائج کچھ اور تھےاگلی صبح کچھ اور تھے ۔ نواز شریف دونوں سیٹیں ہار چکے تھے لیکن اگلے دن ایک سیٹ پر ان کی جیت کا اعلان کر دیا گیا ۔ سب سے بڑی اور منظم دھاندلی کراچی میں ہوئی جہاں یہ طے کر لیا گیا تھا کہ نہ تو وہاں PTIکے ووٹرز کو آنے دیا جائے گا اور نہ جماعت اسلامی کے ۔ وہ MQM جس کو بلدیاتی الیکشن لڑنے کی جرأت نہیں ہوئی ، جس کا ووٹ بینک ہی کراچی سے ختم ہو گیا تھا ، کوئی اس کا نام تک لینا گوارا نہیں کرتا تھا کیونکہ کراچی کی تباہی کا ذمہ دار لوگ MQMکو سمجھتے ہیں، اس کو راتوں رات کئی سیٹیں عطا کر دی گئیں ۔ فارم 45 کے رزلٹ بدلے گئے ۔ حلقہ 104میں جماعت اسلامی کے امیدوار کے 29 ہزار ووٹ تھے اور MQMکے امیدوار کے صرف 3 ہزار ووٹ تھے لیکن فارم 47 میںجماعت اسلامی کے امیدوار کے23 ہزار ووٹ لکھے گئے اور MQMکے امیدوار کے30 ہزار ووٹ لکھ کر اس کو جتوایا گیا ۔ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ الیکشن نہیں تھا بلکہ کھلم کھلا سلیکشن تھی۔ اسی لیے حافظ نعیم الرحمٰن نے اپنی سیٹ واپس کر دی کہ خراج کی جو گدا ہو وہ قیصری کیا ہے۔آپ اگر سمجھتے ہیں ہم بھی اس لوٹ مار کے اندر حصہ لیں گے تو ہم میں اور تم میں فرق کیا رہ جائے گا ۔ کراچی میں ہماری جیتی ہوئی 6 سیٹیں MQM کو جعلی طور پر دی گئیں ۔ ہم کہتے ہیں فارم 45 کے مطابق گنتی کرلیں ۔ الیکشن کمیشن نے ٹریبیونلر کیوں بنائے خود الیکشن کمیشن یہ کام کرے۔
سوال:آپ اس الیکشن کو کیا نام دیں گے ؟
ڈاکٹر فرید احمد پراچہ: ہم یہ تو نہیں کہتے کہ یہ مکمل دھاندلی شدہ ہے اس لیے کہ بہرحال پی ٹی آئی جیتی ہے ۔ وہ پی ٹی آئی کو جتانے کے لیے تو نہیں بنا تھا لیکن یہ کہ انجینیئرڈ الیکشن تھا جس میں پہلے سے طے شدہ تھا کہ کس کو کس حد تک جانے دینا ہے ۔ لیکن جب رزلٹ کنٹرول سے باہر ہونا شروع ہوئے تو انہیں کنٹرول کرنے کے لیے سارا کچھ کیا گیا ۔
سوال: جیسا کہ کہا جارہا ہے کہ ایک بڑی پارٹی کے ووٹرز کے لیے طرح طرح کی رکاوٹیں اور مشکلات تھیں ، یہاں تک کہ ووٹر لسٹوں سے ان کے نام ہی کسی اور جگہ شفٹ کر دیے گئے تھے ،اس کے باوجود لوگ جس طرح سے نکلے ہیں اور ووٹ ڈالے ہیں ، اس سے کیا لگتا ہے کہ لوگوں نے اپنا غصہ کس کے خلاف نکالا ہے ؟ 
ایوب بیگ مرزا:پہلے تو میں امیر جماعت سراج الحق صاحب کے استعفیٰ کے بارے میںعرض کروں گا۔ میں ایک معاملے میں جماعت اسلامی کو ہمیشہ سے خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ یہ وہ واحد جماعت ہے جس کے اپنے اندر جمہوریت ہے ۔ باقی پارٹیوں میں موروثیت بھی چل رہی ہے ، کہیں انٹرپارٹی الیکشن نہیں ہوپاتے ۔ لیکن جماعت اسلامی نے واقعتاً یہ ثابت کیا ہے کہ اگر جمہوریت میں حصہ لینا ہے تو پہلے جماعت کے اندر جمہوریت ہونی چاہیے ۔ یہی وجہ ہے کہ امیر جماعت نے استعفیٰ دیا۔ جہاں تک آپ کے سوال کا تعلق ہے تو میں یہ کہتا ہوں کہ الیکشن تو انسانوں کے درمیان ہوتے ہیں ۔ ایک ریفرنڈم ہوتا ہے جو کسی نکتے پر ہوتا ہے ۔ آپ ریفرنڈم کروا لیجئے کہ 8 فروری کو جو کچھ ہوا ہے کیا اس کو الیکشن کہا جائے ؟ اگر 25 فیصد لوگ بھی کہہ دیں کہ ہاں یہ الیکشن تھا تو میں مان لوں گا کہ 100 فیصد نے کہہ دیا۔
سوال:کیا کبھی پاکستان کے الیکشن پس پردہ قوتوں کی مداخلت کے بغیر ہو سکیں گے ؟
ایوب بیگ مرزا:یہ تو حقیقت ہے کہ ہمارے تمام الیکشنز میں پس پردہ قوتیں مدخل ہوتی ہیں ۔ یہ کام پہلے بڑے ڈھکے چھپے انداز میں ہوتا تھاکہ الیکٹ ایبلز کو ایک پارٹی سے دوسری پارٹی میں شفٹ کر دیا ، حلقہ بندیوں میں دخل اندازی کرلی ،لیکن اس طرح نہیں ہوتا تھا جو اس بار کھلم کھلا ہوا ہے کہ یہ ہمارا آرڈر ہے کہ فلاں جیتے گا اور فلاں  ہارے گا ۔ ایسی مثالیں سامنے آئی ہیں کہ 80 ہزار ووٹ سے جیتنے والا ہرا دیا گیا اور جس کی ضمانت ضبط ہو رہی تھی اُسے جتا دیا گیا ۔ یہ صورتحال پہلے کبھی نہیں تھی۔ اصل میں میں سمجھتا ہوں کہ طاقتور حلقوں نے خواہ مخواہ اپنے لیے ایک مسئلہ بنا لیا ہوا ہے۔ انہوں نے پوری کوشش کی کہ لوگ کم سے کم ووٹ ڈالیں مگر اتنا ہی زیادہ لوگوں نے ووٹ ڈالے ۔
سوال: آپ کیا سمجھتے ہیں کہ سپریم کورٹ نے جو فیصلہ دیا تھا کہ پی ٹی آئی کا انتخابی نشان لے لیا جائے اور بطور پارٹی وہ موجود نہ رہے کیا یہ سارا کچھ اسی میکنگ اور بریکنگ کا حصہ ہے؟
ایوب بیگ مرزا:ہمارا قانون اور ہمارا آئین یہ کہتا ہےکہ جو فیصلہ ہو جائے وہ پبلک پراپرٹی ہوتی ہے ، اس پر کھل کر رائے کا اظہار کیا جا سکتاہے ۔ لہٰذا میں اپنے اس حق کو استعمال کرتے ہوئے کہوں گا کہ اس کیس کا زیر سماعت آنا ہی غلط تھا جس میں ایک پارٹی کو انتخابی نشان سے محروم کیا گیا ۔ دنیا میں الیکشن کمیشن بنتے ہیں لوگوں کو الیکشن کے حوالے سے ترغیب دینے کے لیے ، عدالتیں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو موقع دیتی ہیں کہ وہ الیکشن میں حصہ لیں ۔ اگر کوئی فوجداری جرم ہوا ہو تو اس پر سخت سے سخت رویہ اختیار کرتی ہیں تاکہ آئندہ ایسا نہ ہو لیکن جہاں شہری حقوق کا معاملہ ہو وہاں عدالتیں قانون میں لچک دکھا کر زیادہ سے زیادہ عوام کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کرتی ہیں ۔ الیکشن کمیشن کا تو کام تھا لوگوں کو الیکشن کی طرف لاتا لیکن یہاں اگر سچ پوچھا جائے تو اصل فساد کی جڑ سپریم کورٹ کا وہ فیصلہ تھا جس میںایک پارٹی کا انتخابی نشان واپس لیا گیا ۔
ڈاکٹر فرید احمد پراچہ: الیکشن ایکٹ وغیرہ کے تحت پارٹی الیکشن کروانے ضروری ہیں۔پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی الیکشن اسی طرح کروا دیے تھے جس طرح دوسری پارٹیوں نے کروائے ۔ اگر پی ٹی آئی کے انٹراپارٹی الیکشن پر اعتراض ہے تو پھر دوسری پارٹیوں کے الیکشن پر بھی اعتراض ہونا چاہیے تھا کہ جن کے اندر خاندانی بادشاہتیں  ہیں ۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ اگر بنیادی حقوق کے تحت فیصلہ کرتی تو بڑی آسانی سے یہ فیصلہ کر سکتی تھی کہ ٹھیک ہے پارٹی نے غلطی کی لیکن یہ عوام کا حق ہے کہ وہ جس پارٹی کو ووٹ دینا چاہیں دے سکتے ہیں ۔ آپ انتخابی نشان واپس لینے کی بجائے اس پارٹی کو سزا کے طور پر جرمانہ کر سکتے تھے کہ آپ بروقت الیکشن نہیں کروا سکے لیکن اب آپ کو اجازت دیتے ہیں کہ الیکشن کے بعد کروا کے جمع کروائیں ۔لیکن کورٹ نے عوام کو اپنی مرضی کی پارٹی کو ووٹ دینے سے محروم رکھا ۔ ہر جگہ انتخابی نشان مختلف تھے بلکہ ایک ہی حلقہ میں قومی اور صوبائی انتخابی نشان مختلف تھے ۔ پھر یہ کہ مضحکہ خیز نشانات دیے گئے ۔ یہ ساری چیزیں جانبداری کی نشاندہی کرتی ہیں ۔
ایوب بیگ مرزا:پی ٹی آئی نے دو دفعہ انٹرا پارٹی الیکشن کروائے ہیں اور بروقت کروائے ہیں لیکن الیکشن کمیشن نے ان کو بھی مسترد کر دیا ۔ پھر حکم دیا 20 دن کے اندر کراؤ، وہ بھی کروائےاس کے باوجود کہ جہاں کہیں وہ اکٹھے ہوتے تھے وہاں چھاپا پڑ جاتا تھا۔
سوال:1971 ء کے واقعات جب ہم پڑھتے ہیں تو سوچتے ہیں کہ ہماری مقتدر قوتوں کو کیوں نظر نہیں آرہا تھا کہ حالات کس طرف جارہے ہیں ، اس کے باوجود وہ قوتیں ظلم و جبر میں آگے سے آگے بڑھتی چلی گئیں ۔ اب بھی ایسا ہی محسوس ہو رہا ہے کہ عوامی رائے کو جبر کے تحت دبانے کی کوشش کی جارہی ہے اور ظلم بڑھتا چلا جارہا ہے ، ان حالات میں کہیں ایسا تو نہیں ہوگا کہ عوامی غم و غصہ مقتدر قوتوں کے خلاف لاوابن کر اُبھرے ؟
ایوب بیگ مرزا:1971ء میں چین نے یحییٰ خان کو مشورہ دیا تھا کہ آپ بنگال کا مسئلہ پُرامن طور پر حل کرنے کی کوشش کریں اور ظلم نہ کریں ۔ یحییٰ خان نے اسی طاقت کے نشے میں رعونت سے جواب دیا:
" I thought you were friend."
یہ طاقت کا نشہ اندھا کر دیتا ہے اور سامنے دکھائی دینے والی چیز بھی دکھائی نہیں دیتی ۔ میں یہ نہیں کہتا کہ یحییٰ غدار تھا لیکن یہ نشہ انسان کو اس راستے پر لے جاتا ہے ۔ موجودہ صورت حال بھی اس سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے ۔
سوال: آپ کیا سمجھتے ہیں کہ جو عوامی رائے کو جبراً دبانے کی کوششیں الیکشن میں یا اس سے قبل کی گئیں اس کے بعد عوام کے دلوں میں ریاست ، ملک اور مقتدر حلقوں کے حوالے سے کیا جذبات پیدا ہوں گے ؟
ڈاکٹر فرید احمد پراچہ:1971ء  میں جو سانحہ پیش آیا اس کے متعلق اسٹیبلشمنٹ کا نقطہ نظر یہ ہے کہ چونکہ اس وقت الیکشن شفاف کروائے گئے تھے اس لیے یہ سانحہ پیش آیا ۔ اسٹیبلشمنٹ کے مطابق اگر کنٹرولڈ الیکشن ہوتے تو ملک نہ ٹوٹتا ۔ حالانکہ ملک اس وجہ سے نہیں ٹوٹا ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ وہ الیکشن بھی غیر جانبدارانہ اور شفاف نہیں تھے بلکہ مشرقی پاکستان میں بالکل یکطرفہ چل رہا تھا ، جماعت اسلامی کو جلسہ نہیں کرنے دیا گیا تھا ۔ مولانا مودودیؒ جلسہ گاہ تک پہنچ نہیں سکے تھے ، وہاں افراد پر فائرنگ کی گئی ۔ کئی لوگ شہید کیے گئے ۔ وہاں ظلم کی انتہا تھی لیکن فوجی حکومت نے امن قائم کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی ۔ لیکن جب عوامی لیگ جیت گئی تو پھر جماعت اسلامی کا موقف بھی یہی تھا کہ اس کو حکومت بنانے دی جائے ۔ لیکن ادھر بھٹو ضد پر اڑ گئے اورعوامی لیگ کو حکومت نہ بنانے دی ۔ اس سے نتیجہ یہ نکالنا چاہیے کہ فوج کو کسی صورت سیاست میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے ۔ جہاں تک آپ کے سوال کا تعلق ہے تو یہ ٹیسٹ کر لینا چاہیے کہ وہ قوم جو اپنی فوج اور اپنے شہیدوں پر جان قربان کرتی تھی ، جماعت اسلامی نے مل کر قربانیاں دی ہیں ، مشرقی پاکستان میں بھی اور کشمیر میں بھی لیکن اب آپ ٹیسٹ کرلیں کہ کتنا احترام رہ گیا ہے ۔ سیاسی عمل میں مداخلت کی وجہ سے جو دوریاں پیدا ہو رہی ہیں ان کو ٹھیک کرنا چاہیے ۔ یہ صرف ایکس سروس مین سوسائٹی کی پریس کانفرنسوں سے ٹھیک نہیں ہوگا بلکہ اس کے لیے پہلے اس الیکشن کے نتائج کو ٹھیک کرنا ہوگا ۔ خود اسٹیبلشمنٹ کو چاہیے کہ وہ الیکشن کمیشن اور ٹربیونلز وغیرہ کو یہ کہیں کہ حقائق کے مطابق رزلٹ دیں ۔اس کے علاوہ کوئی رزلٹ نہ ہو۔
سوال:اسٹیبلشمنٹ کا کردار کس حد تک ہونا چاہیے اور کہاں پر جا کر اس کو رک جانا چاہیے اور پھر عوام کے حوالے کرنا چاہیے؟
ایوب بیگ مرزا: انتخابات کے معاملات سے تو اسٹیبلشمنٹ کا سرے سے کوئی تعلق ہی نہیں ہونا چاہیے۔ جو حکومت منتخب ہو اس کو پالیسی کے حوالے سے اپنی ایڈوائس دے سکتی ہے ۔ آئین میں تو یہی چیز ہے کہ آرمی چیف ڈیفنس سیکرٹری ( 22گریڈ کے افسر) کے ماتحت ہوتاہے ۔ لیکن عملی طور پر یہاں کیا ہورہا ہے وہ سب کے سامنے ہے ۔ ساری دنیا میں یہ اصول ہے کہ ڈیفنس ڈیپارٹمنٹس اپنی گورنمنٹ کو مشورے دیتے ہیں ، یہ گورنمنٹ کی مرضی ہے کہ وہ مانے یا رد کرے ۔ میں آپ کو مثال دیتا ہوں ۔ جب راجیو گاندھی پاکستان آیا تھا اوراس نے سیاچین کے بارے میں پاکستان سے ایک معاہدہ کرلیا ۔ ڈرافٹ تیار تھا اس نے کہا میں دہلی جاکر سائن کروں گا ۔ دہلی میں فوج کا مشورہ مان کر اس نے معاہدے کو مسترد کر دیا ۔ پاکستانی تو اپنی فوج کو سر پر بٹھاتے رہے ہیں لیکن افسوس ہے کہ اب ہمارے نوجوانوں کو کیا سکھایا جارہا ہے ؟ یہی کہ اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے بدسے بدترین حربے اور ہتھکنڈے بھی جائز ہیں ؟ یہاں تک کہ جائز و ناجائز بھی نہ دیکھو؟
سوال: حالیہ الیکشن میں ایسا محسوس ہوا ہے کہ لوگوں  نے مجموعی طور پر مذہبی سیاسی جماعتوں کو پس پشت ڈال دیا ہے جبکہ دوسری طرف پورا ملک اخلاقی اور دینی لحاظ سے بدترین پسپائی کا شکار ہے ۔ اس کی کیا وجہ ہے ؟
ڈاکٹر فرید احمد پراچہ: یہ ٹھیک ہے کہ دینی سیاسی جماعتوں کی خامیاں ہوں گی ،وہ متحد نہیں ہوئے ، الگ الگ الیکشن لڑنے کی وجہ سے ان کا ووٹ تقسیم ہو گیا یا وہ اپنی مہم نہیں چلا سکے لیکن اس کا یہ نتیجہ نہیں نکالا جا سکتا کہ عوام نےدینی سیاست کو مسترد کر دیا ۔ جن سیاسی پارٹیوں نے پاپولر ووٹ لیا ہے انہوں نے بھی ریاست مدینہ جیسے نعرے لگائے ہیں لیکن ان کی قانون سازیاں خلاف شریعت بھی تھیں ۔
سوال: وہ جماعت جس کا آپ ذکر کر رہے ہیں، اس کے جلسوں میں ناچ گانا، سارا کچھ ہوتاہے ، ان کو یوتھ نے اور پڑھے لکھے طبقے نے ووٹ دیا ہے ۔ جب میں پولنگ اسٹیشن پر گیا تو میں نے دیکھا کہ اس جماعت کے کیمپ میں زیادہ رش تھا جبکہ دینی جماعتوں کے کیمپوں میں کوئی رش نہیں تھا ۔ پھر اخلاقی اور دینی لحاظ سے ہمارا معاشرہ پسپائی اختیار کر رہا ہے ، پورا نظام سیکولر ہے لہٰذا جماعتیں بھی وہی منتخب ہوں گی جو سیکولر ہیں ؟
ڈاکٹر فرید احمد پراچہ:اب واقعتاً اس بات کی ضرورت ہے کہ اس پر سنجیدگی سے غور کیا جائے اور لوگوں کو ووٹ کی شرعی حیثیت کے بارے میں بتایا جائے ۔ وہ اس کو ایک امانت سمجھ کر ، گواہی سمجھ کر دیں ، لوگوں کو پتہ ہو کہ کل قیامت کے دن اس بارے میں پوچھا بھی جائے گا ۔ یہ دینی جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کی تربیت کریں ۔ آپ کے سوال سے کئی سوالات ذہن میں اُبھرتے ہیں ۔ ایک طریقہ تو یہ ہے کہ ہم پسپائی اختیار کر لیں اور میدان چھوڑ دیں کہ بس اب سیکو لر قوتیں ہی نظام کو چلائیں گی یا پھر یہ کہ ہم اپنی خامیوں اور کمزوریوں پر نظر ڈالیں اور دیکھیں کہ ہم کہاں کہاں اپنا کردار ادا نہیں کر سکتے اور جہاں کر سکتے ہیں وہاں مثبت پہلو کو سامنے رکھ کر جدوجہد کی جائے ۔ دینی ووٹ کو تقسیم ہونے سے روکا جائے ۔ یہ اتحاد کے بغیر بھی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے ذریعے روکا جا سکتا ہے ۔
ایوب بیگ مرزا: میری نظر میں عوام کی صحیح تعلیم و تربیت ہو ہی نہیں سکی کہ جمہوریت کیا ہوتی ہے اور اسلام میں سیاست کی کیا اہمیت ہے۔ حالت یہ ہے کہ اکثر پڑھے لکھے لوگ بھی یہ کہہ دیتے ہیں کہ فلاں نے سڑکیں بنائیں ، پل بنائے اس لیے ہم ان کو ووٹ دیتے ہیں ۔ یعنی انہیں پتا ہی نہیں کہ اسمبلیاں سڑکیں اور پل بنانے کے لیے نہیں ہوتیں بلکہ قانون سازی کے لیے ہوتی ہیں ۔ اسی طرح اکثر پڑھے لکھے لوگ بھی یہ کہہ دیتے ہیں کہ مذہب کا سیاست سے کیا تعلق ہے ۔ حالانکہ اسلام ایک مکمل دین ہے اس میں سیاست ، معیشت ، معاشرت سب چیزیں آتی ہیں ۔ لوگوں کی اس لحاظ سے تعلیم و تربیت نہیں ہو سکی جس کی وجہ سے دینی سیاسی جماعتوں کو ووٹ نہیں ملتا ۔ 200 سال تو ہم نے انگریز کی غلامی میں گزارے ہیں جس دوران نفاذ اسلام کا تصور ہی ذہنوں سے نکال دیا گیااور اسلام کومحض عبادات ، رسومات اور معاملات تک محدود کر دیا گیا ۔ جماعت اسلامی نے خدمت خلق کے حوالے سے کتنا کام کیا لیکن ان کو بھی ووٹ نہیں ملتے کیونکہ لوگوں کا تصور یہی بن چکا ہے کہ سیاست دین سے الگ ہے۔
سوال:موجودہ الیکشن کے بعد دینی جماعتوں کے لیے یہ ضروری نہیں ہوگیا کہ وہ اپنے طریقہ کار میں تبدیلی لے کر آئیں ؟
ایوب بیگ مرزا: بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمدؒ نے اس حوالے سے جماعت اسلامی کو یہ پیشکش کی تھی کہ ہم دونوں جماعتیں مل کر اعلان کردیتے ہیں کہ ہم 25سال الیکشن نہیں لڑیں گےاور ان 25 سالوں میںہم لوگوں کو اسلامی نظام سمجھائیں گے۔ لوگوں کی تعلیم وتربیت کریں گے ۔ تنظیم اسلامی نے کبھی الیکشن کو حرام یامکروہ نہیں کہااوریہ بھی نہیں کہاکہ ہم کبھی بھی الیکشن میں نہیں  آئیں گے ۔ بلکہ ڈاکٹر صاحبؒ تو یہ بھی کہا کرتے تھے کہ اگر یہ بات یقینی ہو کہ کوئی اسلامی جماعت الیکشن سویپ کر سکتی ہے تو کوئی حرج نہیں ہے وہ الیکشن میں حصہ لے لیکن اس صورت میں بھی مسئلہ یہ پیدا ہوتا ہے باقی نظام سارا کا سارا اگر سیکولر ہے تو وہ دینی حکومت کو چلنے نہیں دے گا ۔ جیسا کہ مصر میں ہوا ۔ پاکستان میں بھی بہت اچھے کردار کے دینی رہنما اسمبلیوں میں پہنچے مگر وہ کچھ نہیں کرسکے کیونکہ اسٹیبلشمنٹ سیکولر ہے آپ کو کچھ نہ کرنے دے تو آپ کیا کریں گے ؟ عدلیہ نئے نئے نکات نکال کر نظریہ ضرورت کے تحت فیصلے دے گی تو آپ کیا کریں گے ؟  بیوروکریسی سیکولر ہے ، آپ کیا کریں گے ۔ ایک تھانیدار قتل کا کیس ایسا بنا دیتا ہے کہ جج کو مجبوراً قاتل کو رہا کرنا پڑتاہے تو آپ کیا کریں گے ۔ آپ نے تو صرف اسمبلی میں دینی لوگ بھیجے ہیں لہٰذا انقلاب تو تب آئے گا جب پورے فرسودہ باطل نظام کو سہارا دینے والی قوتوں کو بھی ختم کیا جائے۔
سوال: ڈاکٹر صاحب کی 25 سال والی جو پروپوزل تھی کیا اب اس پر کونسیڈریشن ہو سکتی ہے؟
ڈاکٹر فرید احمد پراچہ:یہ ایک بڑا سنجیدہ موضوع ہے۔ اس پر کئی کئی مرتبہ سوچنے کی ضرورت ہے۔ شاید اس مختصر پروگرام میں میں اپنا نقطہ نظر نہ بیان کر سکوں ۔ اس میں پھر سوال اُٹھیں گے کہ 25 سال دینی جماعتیں اگر سسٹم سے باہر رہتی ہیں تو ان پچیس سالوں میں عالمی قوتوں نے بھی اپنا کام کرنا ہے ، سیکولر قوتوں نے بھی ، سوشل میڈیا ، الیکٹرانک میڈیا اور نظام تعلیم نے بھی کردار ادا کرنا ہے ۔ آپ پارلیمنٹ سے باہر ہوئے تو آپ صرف احتجاج کر سکتے ہیں یا پھر علمی باتیں کر سکتے ہیں ۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ دینی سیاسی جماعتیں بالکل کچھ نہیں کر سکیں ۔ 1949ء میں قرارداد مقاصد انہی کی وجہ سے پاس ہوئی ہے ، پاکستان کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان رکھا گیا ہے ، خلاف شریعت کوئی قانون سازی نہیں ہو سکتی یہ قانون پاس ہوا ہے۔ قادیانیوں کو اقلیت قرار دیا گیا ہے ، یہ سارے کام دینی سیاسی قوتوں کی بدولت ہی ہوئے ہیں ۔ گویا کچا پکا نظام موجود ہے ، اس کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے ، اُس طرح کا انقلاب وہاں آتاہے جہاں  بادشاہتیں  ہوتی ہیں ۔ پھر یہ کہ 2002ء میں دینی جماعتوں  کے 68 نمائندے اسمبلیوں میں موجود تھے ۔
سوال:جو موجود تھے وہ کسی پردہ غیبی کی تائید کے بغیر موجود نہیں تھے؟
ڈاکٹر فرید احمد پراچہ:کوئی پردہ غیبی نہیں تھا۔ دو چیزیںہوئیں ۔ ایک تو جب افغانستان پر امریکہ حملہ آور ہوا تو دینی جماعتیں اس کے خلاف نکلیں ، جلوس نکالے ، ریلیاں نکالیں جبکہ دوسری طرف سیکولر جماعتیں  ایسی روش پر تھیں جیسے آج غزہ کے معاملے میں خاموش ہیں ۔ کے پی کے اور بلوچستان کے عوام نے اس وجہ سے دینی جماعتوں کو ووٹ دیے ۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ دینی جماعتوں کا ووٹ تقسیم نہیں ہوا ۔ لہٰذا میں یہ کہتا ہوں کہ اتنی بھی مایوسی نہیں ہے کہ دینی جماعتوں کو ووٹ نہیں ملتے ۔ البتہ اپنی خامیوں کو دیکھ کر آگے چلنے کی ضرورت ہے ۔
سوال: اب جو حکومت بننے جا رہی ہے وہ کس قسم کی ہوگی اور اس کو کیا چیلنجزدر پیش ہوں گے؟
ایوب بیگ مرزا:پہلے تو میرا خیال تھا کہ پیپلز پارٹی اور نون لیگ مل کر ہر لحاظ سے مخلوط حکومت بنا لیں گےلیکن اب صورتحال مختلف ہے ۔ پیپلز پارٹی یہ سمجھتی ہے کہ اگر ہم حکومت میں شامل ہوتے ہیں تو جو ہوتا ہوا نظر آرہا ہے اس کا سارا ملبہ ہم پر بھی پڑے گا لیکن اگر ن لیگ کو سپورٹ نہیں کرتے توکارڈ ان کے ہاتھ سے نکل جائے گا ۔ لہٰذا PPPنے فیصلہ کیا کہ ہم حکومت تو ن لیگ کی کھڑی کر دیں گے لیکن یہ کہ ہم حکومت میں شامل نہ ہوں گے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ اگر مستقبل میں پی ٹی آئی اور PPPاپوزیشن میں متحد ہو گئیں تو حکومت لڑکھڑاتی رہے گی اور اس سے اتنا بگاڑ پیدا ہوگا کہ یہ اپنی بنیادوں پر کلہاڑا چلانے والی بات ہے ۔ پھر یہ کہ ہم نے تقریباً ساڑھے 24 ارب ڈالر کا قرضہ ادا کرنا ہے ،نئے قرضے لینے پڑیں گے اور بیرونی قوتیں ہمارے ساتھ جو کھیل کھیلیں گی کہتے ہوئے ڈر لگتا ہے ۔ کیا کچھ ہم بیچ چکے ہیں اور کیا کچھ بیچنا پڑے گا ۔ اللہ ہماری حفاظت کرے ۔
ڈاکٹر فرید احمد پراچہ: جو ایک کمزور سی حکومت مفاد پرستوں کی اور پروٹوکول لینے والوں کی بنے گی۔ یہ مزید کرپشن کے ایجنڈوں کے ساتھ آنے والی حکومت ہے ۔ یہ ملک کو آگے لے جانے کی صلاحیت سے محروم ہو گی، جہاں پہلے ہی قرضوں کا اتنا بوجھ ہو وہاں یہ حکومت مزید بوجھ بنے گی ۔ صرف 90 ہزار گاڑیاں مرکز میں ہیں جن کے پٹرول کا خرچہ بھی عوام بھرتے ہیں ، دنیا میں کہیں بھی اس طرح نہیں ہوتا ۔ اس سے اور زیادہ مایوسی پھیلے گی اور شدید ردعمل پیدا ہوگا ۔