(منبرو محراب) موجودہ سیاسی صورتحال پر 15 نکاتی تبصرہ - ابو ابراہیم

7 /

موجودہ سیاسی صورتحال پر 15 نکاتی تبصرہ


مسجدجامع القرآن، قرآن اکیڈمی، لاہورمیںامیر تنظیم اسلامی شجاع الدین شیخ حفظ اللہ کے 16 فروری2024ء کے خطابِ جمعہ کی تلخیص

 

خطبہ مسنونہ اور تلاوت آیات کے بعد
اس وقت جو بھی ملکی صورتحال ہے اور جہاں ہم پہنچے ہوئے ہیں اس کے تناظر میںگزشتہ کئی خطبات جمعہ میں گفتگو ہو چکی ہے ۔ محترم ڈاکٹر اسرار احمد ؒ کا بھی برسوں کا ایک تجزیہ رہا ہے اور تنظیم اسلامی کی پالیسی بھی رہی ہے کہ ان حالات کی اصل وجوہات کو بیان کیا جائے۔ یہ بڑا پیارا ملک ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں نزول قران کے مہینےکی ستائیسویں شب کو عطافرمایا ۔ اس کے قیام کے مقاصد بڑے عالی شان تھے اور اس کا ایک عظیم مشن تھا ۔ مگر بدقسمتی سے آج ہم برما کے مسلمانوں کو بھول گئے ہیں، کشمیر کے مسلمانوں کے بارے میں تو شاید لگتا ہے کہ سودا ہو چکا اور فلسطین کے مسلمانوں کے بارے میں شاید ہمارے پاس وقت نہیں رہا۔ کہاں اس امت کو اس پورے عالم کے لیے کھڑا کیا گیا اور کہاں آج 25 کروڑ ایک گرداب میں پھنسے ہوئے ہیں۔اللہ تعالیٰ اس مملکت اور ہمارے حال پر رحم فرمائے۔اسی تناظر میں آج 15 نکات پر مشتمل گزارشات پیش کرنا مقصود ہیں ۔
(1) مملکت اسلامی ہو
سب سے پہلی بات اس مملکت خداداد کا نام ہم نے اسلامی جمہوریہ پاکستان رکھا ہے۔ یہ ملک ہم نے اسلام کے نام پر لیا۔ ہم الٹے لٹک چکے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی ہمارے مسئلے حل نہیں ہورہے ۔ اسلام کا سافٹ امیج ، روشن خیالی اور پتا نہیں کیا کیا ڈھونگ ہم نے رچا ئے طاغوت کو خوش کرنے کے لیے لیکن حالات دن بدن بگڑتے چلے گئے ۔ سو باتوں کی ایک بات کہ یہ مملکت ہم نے اسلام کے نام پر حاصل کی، باقی دنیا میں کسی نے نسل کی بنیاد پر ملک بنایا ، کسی نے جغرافیہ کی بنیاد پر ، کسی نے زبان کی بنیاد پر ، کسی نے تاریخ کی بنیاد پر لیکن پاکستان اسلام کے نام پر بنا اور اس کی بقاء ، سلامتی اور استحکام بھی صرف اور صرف اسلام کے نفاذ میں ہے ۔
(2)مملکت جمہوری ہو
جب تک اس مملکت میں اسلام نہیں آ جاتا تب تک نظام تو بہرحال چلانا ہے اور نظام کو چلانے کے اعتبار سے ہماری رائے یہ ہے کہ آمریت کے مقابلے میں جمہوری طرزحکومت بہتر ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ جمہوریت کا بھی ہم نے وہ حشر کر دیا ہے کہ اس کا بھی کوئی منہ متھا نہ چھوڑا لیکن اس کے باوجود ہم کہتے ہیں کہ جمہوریت میں  کم ازکم عوام اپنے حقوق کے لیے آواز تو اٹھا سکتے ہیں ، اپنی رائے کا اظہار تو کر سکتے ہیں ۔ ہم دین کے داعی ہیں ، نفاذ اسلام کی جدوجہد کرنا چاہتے ہیں ، دعوت و تبلیغ کا کام کرنے والے ہیں ،امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرنا چاہتے ہیں ، ہمیں جمہوریت میں زیادہ مواقع میسر ہوں گے ۔البتہ ہم ایسی جمہوریت کی قطعاً حمایت نہیں کرتے جس میںعوام کی حاکمیت اعلیٰ کا تصور ہو۔ ہمارے آئین میںچونکہ لکھا ہوا ہے کہ اس ملک میں حاکمیت اعلیٰ صرف اللہ تعالیٰ کی ہوگی اس لیے ہم نظام کو چلانے کے اعتبار سے یہاں جمہوریت کی حمایت کرتے ہیں ۔ جس طرح ایک انسان کو زندہ رہنے کے لیے ہوا ، پانی اور غدا کی ضرورت ہوتی ہے لیکن اس کی روح کے لیے اسلام ضروری ہے ۔ اسی طرح پاکستان کی بقاء اور سلامتی کے لیے اسلام ضروری ہے کیونکہ یہ اسلام کے نام پر بنا ہے اور اسلام کی بدولت ہی باقی رہ سکتاہے لیکن جب تک اسلام نہیں آجاتا تب تک اس کا نظام چلانے کے لیے جمہوریت بہتر ہے ۔
(3)ریاستی جبر نہ ہو
ریاستی جبر سے اگر دبانے کی کوششیں کی جائیں گی تو نفرتوں کو بڑھانے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا چاہے یہ ریاستی جبر کسی علاقے کے لوگوں کے ساتھ ہو ، کسی پارٹی کے کارکنوں کے ساتھ ہو یا کسی سیاسی لیڈر کے خلاف ہو اور نفرتوں کا بڑھنا اس مملکت کے لیے قطعاً سود مند ثابت نہیں ہوگا ۔ اب یہ خطرات ہمارے سروں پر منڈلا رہے ہیں ، سوشل میڈیا ، ٹاک شوز میں جوکچھ کہا جارہا ہے اس میں کتنا سچ اور کتنا جھوٹ ہے ، یہ الگ بات ہے لیکن منبر پر بیٹھ کر ہم نے دینی پیراڈائم میں ہی بات کرنا ہوتی ہے ۔ مسلم شریف میں اللہ کے رسول علیہ السلام کی حدیث بھی ہے:
(( الدین النصیحۃ))دین نصیحت و خیر خواہی کا نام ہے ۔
یہ خیر خواہی کے ساتھ مشورے دینا ہماری دینی ذمہ داری بنتی ہے ۔ اس پلیٹ فارم سے ہم یہی کہیں گے کہ ریاستی جبر کے ذریعے لوگوں کی آواز کو ، ان کی رائے کو دبانے کی کوشش ریاست کے حق میں مفید ثابت نہیں ہوگی ۔
(4)ریاستی ادارے ذمہ داری کامظاہرہ کریں
ریاستی اداروں کو چاہیے کہ وہ آئین اور قانون کے دائرے میں اپنی ذمہ داریاں ادا کریں ۔ چاہے اسٹیبلشمنٹ کے افراد ہوں، افواج کے لوگ ہوں، ججز ہوںوہ آئین اور قانون کی پاسداری کریں ۔ صورتحال خراب اس وقت ہوتی ہے جبکہ ادارے اپنی آئینی حدود کو پامال کرکے وہ کام کرتے ہیں جو ان کی ذمہ داری میں شامل نہیں ہوتا ۔ پھر ملک میں انتشار پیدا ہوتا ہے ۔ اس وقت جو ملک کی صورتحال ہے یہ اسی وجہ سے ہے کہ ادارے اپنی آئینی حدود کو پامال کر رہے ہیں ۔
(5) عوامی رائے کی اہمیت
عوامی رائے کی بہرحال ایک اہمیت ہے ۔اگرچہ مادر پدر آزادی کے ہم بھی قائل نہیں ہیں کہ اگر 25کروڑ  میں سے 14 کروڑ 50 لاکھ کہہ دیںکہ شراب حلال ہے تو وہ حلال ہو جائے گی ۔ البتہ جائز حدود کے اندر عوامی رائے کا احترام کیا جائے ۔ یکسر عوامی مینڈیٹ کو سائیڈ لائن کر دیا جائے تو یہ چیز بھی ریاست کے حق میں مفید نہیں ہوگی کیونکہ آج لوگوں میں شعور آچکا ہے ، اگر آپ جبر کے ذریعے عوام کی جائز رائے کو دبانے کی کوشش کریں گے تو یہ الٹا ملک کے لیے خطرناک ہو گا ۔
(6)اداروں اور عوام میں ٹکرائو نہ ہو
ریاستی اداروں اور عوام کے درمیان ٹکراؤ بربادی کی علامت ہے ۔ چاہے اس ٹکراؤ کی جانب پیش قدمی کرنے والے عوام ہی کیوں نہ ہوں یا کسی سیاسی جماعت کے کارکن ہی کیوں نہ ہوں ۔ چاہے جبر کے ذریعے لوگوں کو اس ٹکراؤ تک لانے میں ریاستی اداروں کا ہی کردار کیوں نہ ہو ، یہ چیز بھی مملکت کے لیے انتہائی نقصان دہ ثابت ہوگی ۔ جب ایسی صورتحال پیدا ہوتی ہے تو پھر بیرونی مداخلت اس ٹکراؤ کو خانہ جنگی کی طرف لے جاتی ہے ۔ 1971ء میں بھی صورتحال اسی وجہ سے خراب ہوئی تھی اور ملک دو ٹکڑے ہوگیا تھا۔ اللہ تعالیٰ ہمارے مقتدر طبقات کو ، ریاست چلانے والوں کو اور سیاستدانوں کو بھی ہوش کے ناخن لینے کی توفیق عطا فرمائے۔
(7)نفرتوں کا خاتمہ ضروری ہے
ملکی سلامتی کے لیے نفرتوں کا خاتمہ ضروری ہے۔آج کل جوڑ توڑ چل رہا ہے۔ایک دوسرے کو گالیاں دینے والے، قتل کی دھمکیاں دینے والے اور ٹاک شوز کو میدان جنگ بنانے والے آج ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ رہے ہیں ۔ پھر وہ کہتے ہیں قوم کے وسیع تر مفاد میں مفاہمت ہو جائے کیا بُرا ہے ۔ ہم بھی یہی کہتے ہیں کہ قومی مفاد کے لیے اپنی مفاد پرستی کو چھوڑ دو ۔ جب اپنا مفاد ہوتاہے تو جاکر بڑے گیٹ کے سامنے اقتدار کی بھیک مانگتے ہو ۔ جب مفاد کی ہوس جاگتی ہے تو کل کے دشمنوں کو بھی گلے لگاتے ہو ، قوم کو انتشارمیں ڈالنے کے بعد اب تمہیں وسیع ترقومی مفاد یا د آگیا ۔ یہی کام تم پہلے کیوں  نہیں کرتے ۔واقعی ملک و ملت اور قوم اور ریاست کا مفاد تمہیں اتنا عزیز ہے تو مفاد پرستی کو چھوڑ کیوں نہیں دیتے ۔ مسلم شریف میں حدیث ہے ۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’منافق کی چار نشانیاں ہیں : جب بات کرے تو جھوٹ  بولے ، جب وعدہ کرے تو اس کے خلاف کرے ، جب امانت رکھوائی جائے تو اس میں خیانت کرے اور جب لڑائی جھگڑا ہو جائے تو گالم گلوچ کرے ۔‘‘
محترم ڈاکٹر اسراراحمدؒ فرماتے تھے کہ آج دین سے فرار کی روش کی وجہ سے ہم پر نفاق مسلط کر دیا گیا ہے اور یہ ہمارا قومی مزاج بن گیا ہے ۔ اگر واقعی ہمیں قومی مفاد عزیز ہے تو پھر ہمیں چاہیے کہ جھوٹ چھوڑ دیں ، وعدہ خلافی چھوڑ دیں ، خیانت کرنا چھوڑ دیں ، یہ گالم گلوچ چھوڑ دیں ۔ یہ صوبائی ، نسلی ، لسانی نفرتیں اور تعصبات چھوڑ دیں ۔
(8)ٹو (2)پارٹی سسٹم ہونا چاہیے
استاد محترم ڈاکٹر اسرار احمدؒ فرماتے تھے کہ یہ چوں چوں کا مربع نہیں ہونا چاہیے کہ کسی پارٹی کے پاس دو سیٹیں  ہیں ، کسی کےپاس دس ہیں ، کسی کے پاس پندرہ ہیں ، یعنی سادہ اکثریت کسی کے پاس بھی نہیں ہے ، ایک ایک سیٹ کےپیچھے قومی مفاد داؤ پر لگ جاتاہے۔ اس طرح پھر جمہوریت مستحکم نہیں رہتی ، خرید وفروخت،ہارس ٹریڈنگ ، تخت گرانے اور بچانے کا کھیل شروع ہو جاتاہے ۔ بجائے اس کے صرف دو پارٹیاں ہونی چاہئیں جس طرح امریکہ میں ہیں ۔ ان کے درمیان ہی مقابلہ ہو اور جو اکثریت حاصل کرے اس کو حکومت دی جائے ۔ اگر ایسا ہوگا تو نظام بخوبی چلتا رہے گا ۔
(9)سیاستدان ڈلیور کریں
بجائے اس کے کہ سیاستدان اقتدار کے حصول کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی طرف دیکھیں ، ڈلیور کر کے دکھائیں ، عوام کی خدمت کریں ، عوام کے مسائل حل کریں تو عوام خود انہیں منتخب کریں گے ۔ اس وقت عوام مہنگائی کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں ، ہر چیز کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں ، غریب ، مزدور کے لیے دو وقت کی روٹی مہیا کرنا مشکل ہو گیا ۔ بجلی ، گیس کے بل ادا کریں تو گھر میں فاقوں کی نوبت آجاتی ہے ۔ سیاستدان اگر اسٹیبشلمنٹ کی طرف دیکھنے کی بجائے عوام کی طرف دیکھیں ، عوام کے مسائل حل کرنے کی کوشش کریں تو ملک کے حالات بھی شاید سدھر جائیں اور عوام اور حکمرانوں کے درمیان خلابھی کم ہو جائے اور کوئی ان سے کرسی بھی نہ چھین سکے ۔
(10)دینی جماعتوں کا المیہ
جیسےتیسے انتخابات ہوئے دینی جماعتوں کو قوم نے بالکل مسترد کر دیا۔یہ بہت بڑا المیہ ہے۔ نکاح مولوی سے پڑھواتے ہیں ، فتویٰ لینا ہو تو مولوی سے لیتے ہیں ، نماز جنازہ پڑھنی ہوتو مولوی کو بلاتے ہیں ، لیکن جب ووٹ  دینے کی باری آتی ہے تو بے چارے مولوی کو کوئی پوچھتا ہی نہیں ۔ دینی سیاسی جماعتوں کو بھی سوچنا چاہیے کہ ایسا کیوں ہو گیا ؟ کیا ان دینی جماعتوں کی طرف سے دعوت ، تربیت ، ذہن سازی میں کمی رہ گئی ہے ، عوام پر جو محنت ہونی چاہیے تھی کیا اس میں کمی رہ گئی ہے ۔ اس پر بھی سوچنا چاہیے لیکن کچھ وجوہات اور بھی ہیں ان پر بھی غور کرنا چاہیے ۔ جب ایک حلقہ میں چار پانچ دینی جماعتیں مدمقابل ہوں گی تو دینی حلقوں کا ووٹ بینک تقسیم ہو جائے گا اور سیکولر جیت جائیں گے ۔ پھر جب دینی جماعتیں آپس میں مدمقابل ہوں گی تو وہ ایک دوسرے کی مخالفت بھی کریں گی ، اس طرح بھی ان کا ووٹ بینک کم ہوگا اور فائدہ سیکولر جماعتوں کو ہوگا ۔ دینی سیاسی جماعتوں کو ان پہلوؤں کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے ۔
(11) انتخابی سیاست کے منہج پر نظر ثانی کریں ۔
ابھی الیکشن کی گرما گرمی ہے ، ذرا ماحول جب معمول پر آجائے تو دینی سیاسی جماعتوں کو بیٹھ کر کھلے دل کے ساتھ اور پوری فکر اور توجہ سے کے ساتھ سوچنا چاہیے کہ کیا واقعی انتخابی راستہ ان کے لیے سود مند ہے ؟ ڈاکٹر اسراراحمدؒ نے اسی وجہ سے جماعت اسلامی سے علیحدگی اختیار کی تھی کیونکہ انہیں بخوبی اندازہ ہو گیا تھا کہ انتخابی راستے سے پاکستان میں اسلام کا نفاذ ممکن نہیں ۔ یعنی اس راستے سے انقلاب نہیں آسکتا ۔ کیا کسی دینی سیاسی جماعت کا فرد الیکشن مہم کے دوران کھڑا ہو کر عوام میں یہ کہے گا کہ جھوٹ مت بولا کرو، سود مت کھایا کرو، بیٹیوں کو بہنوں کو وراثت میں حصہ دیا کرو، اللہ نے پانچ نمازیں فرض کی ہیں وقت پر ادا کیا کرو، ملاوٹ مت کیا کرو ؟ یہ باتیں وہاں کوئی نہیں کرتا ، اس لیے کہ اس انتخابی سیاست کا میکنزم ہی کچھ اور ہے ۔ آج ایک بڑی دینی سیاسی جماعت کی شوریٰ کے اجلاس کا یہ نکتہ سامنے آیا ہے کہ اس پارلیمنٹ میں بیٹھ کر کچھ نہیں ہونے والا ، ہمیں میدان میں آنا پڑے گا ۔ ڈاکٹر اسرار احمدؒ یہی نکتہ سمجھاتے سمجھاتے دنیا سے چلے گئے انتخابی سیاست سے کوئی تبدیلی یا انقلاب نہیں آسکتا ۔انقلاب لانا ہے تو منہج انقلاب نبوی کو مدنظر رکھ کر آگےگراس روٹ لیول سے دعوت کا کام سٹارٹ کرنا پڑے گا ، وہاں سے انقلابی جدوجہد شروع کرنا پڑے گی ۔ 2024ء میں آکر دینی سیاسی جماعتوں کو یہ بات سمجھ میں آنے لگی ہے کیونکہ 76 سال کا تجربہ ان کے سامنے ہے ۔ ہم تو یہی کہیں گے کہ یہ اللہ تعالیٰ  کی جانب سے ایک موقع ہے ، اس انتخابی راستے کو ترک کرکے آپ منہج انقلاب نبوی کو اختیار کرلیجئے ۔
(12)عوام کے جذبات کومثبت رخ پر ڈھالا جائے
عوام کا بہت بڑا طبقہ اس وقت شدید جذبات میں ہے ،لوگوں سڑکوں پر بھی نکل رہے ہیں ۔ اگر یہ جذبات خالص سیاسی جدوجہد کے طور پر سامنے آئے ہیں توبھی غلط نہیں ہیں۔ ڈاکٹر اسرار احمدؒ بھی فرماتے تھے کہ عوام کے بہاؤ کو الٹنے کی کوشش کریں گے تو آپ خود اُلٹ جائیں گے ۔ لہٰذا بہتر ہے کہ ان کے جذبات اور اس بہاؤ کو مثبت طور پر صحیح رخ پر ڈھالنے کی کوشش کریں۔صحیح رُخ کیا ہے؟ ہم کہتے ہیں یقیناً ظلم کے خاتمے کے لیے کھڑا ہونا چاہیے ۔ یہ آپ کااور میرا دینی فریضہ ہے۔ قران پاک ہم سے تقاضا کرتا ہے:
{کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ}(النساء:135) ’’کھڑے ہوجائو پوری قوت کے ساتھ عدل کو قائم کرنے کے لیے۔‘‘
اسی طرح رسول اللہ ﷺ سے کہلوایا گیا:
{وَاُمِرْتُ لِاَعْدِلَ بَیْنَکُمْ ط} (الشوریٰ:15) ’’اور (آپؐ کہہ دیجیے کہ) مجھے حکم ہوا کہ مَیں تمہارے درمیان عدل قائم کروں۔‘‘
اللہ رب العالمین العادل ،ذات المقسط ہے ۔ اس کے عطا کردہ نظام میں ہی اصل فلا ح ہے اور اس کے ادا کردہ دین کے نفاذ سے ہی واقعتاً عدل میسر آ سکتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ دینی طبقات کو اب چاہیے کہ وہ عوام کے جذبات کو اس رُخ پر ڈھالنے کی کوشش کریں ۔
(13) ایمان پرمحنت کرنے کی ضرورت
میرے بھائیو، بزرگو!جوتان ٹوٹتی ہے ایمان کی محنت پر آکرٹوٹتی ہے۔ ڈاکٹر اسراراحمدؒ سورۃ العصر کے درس میں فرماتے تھے کہ سارے دینی تقاضے اس سورت کے ذیل میں آجاتے ہیں لیکن اصل امتحان آخری دو شرائط میں ہے : {وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ ۵وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ(3)} (العصر) ’’ اور انہوں نے ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کی اور انہوں نے باہم ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کی۔‘‘
اگر صبر کے مراحل کا معاملہ دکھائی نہیں دے رہا تو کہیں حق کے بیان میں کمی ہے اورحق کا بیان اگر نہیں ہو رہا تو اعمال صالحہ میں کمی ہے ۔ اگر اعمال صالحہ نہیں ہورہے تو ایمان میں کمی ہے ۔ لہٰذا آج شدت سے اس بات کی ضرورت ہے کہ حقیقی ایمان کو اپنے دلوں میں پیدا کرنے کی جدوجہد کی جائے ۔ حقیقی ایمان دلوں میں قرآن کے ذریعے پیدا ہوگا جس کو آج ہم نے فراموش کر دیا ہے :
{وَاِذَا تُلِیَتْ عَلَیْہِمْ اٰیٰتُہٗ زَادَتْہُمْ اِیْمَانًا } (الانفال:2)’’ اورجب انہیں اُس کی آیات پڑھ کر سنائی جاتی ہیں توان کے ایمان میں اضافہ ہو جاتا ہے۔‘‘
آج یہ ساری کرپشن ،ہارس ٹریڈنگ ، بگاڑ، نفرتیں، حرام خوری ، حق تلفیاں ، ظلم و جبر کا ماحول ہمارے معاشرے کا حصہ بن چکا ہے ۔ یہ قانوناً مسلمان ہیں کافر تو نہیں ہیں  معاذ اللہ لیکن مسئلہ کیا ہے؟ زبان پر اسلام کا دعوی ہے لیکن دل میں یقین نہیں ہے ۔ لوگ کلام پاک پر قسم اٹھا اٹھا کر وعدے کر جاتے ہیں پھر مکر جاتے ہیں۔ خوف خدا نہیں، مرنے کے بعداللہ کے سامنے جوابدہی کا احساس نہیں۔ سو بات کی ایک بات کہ ایمان حقیقی نہیں ہے جو اصلاً قران کریم کے ذریعے میسر آتا ہے ۔ اس ایمان کا تقاضا سچی توبہ ہے ۔ یہ توبہ انفرادی سطح پر بھی درکار ہے اور اجتماعی سطح پر بھی کیونکہ ہمارے کچھ جرائم اجتماعی سطح کےہیں ۔ یہ ملک ہم نے لیا اسلام کے نام پر اور 77 سال ہو گئے ، اللہ کے دین سے بغاوت اور وعدہ خلافی کرتے ہوئے ۔ اجتماعی توبہ یہ ہوگی کہ ہم اللہ کے دین کو بالفعل قائم کریں ۔
(14)منہج انقلاب نبوی ﷺکو اپنائیں ۔
محترم ڈاکٹر اسرار احمدؒ نے منہج انقلاب نبوی کے موضوع پر 1980ء کی دہائی میں11 خطبات جمعہ دیےجو کتابی شکل میں اور آڈیو ویڈیوزکی شکل میں  موجود ہیں ۔ پھر زندگی کے آخری سالوں میں انہوں نے رسول انقلاب ﷺ کا طریق انقلاب کے عنوان سے ایک خطاب ارشاد فرمایاجس میں مکی دور کے چار مراحل بیان کیے:1۔ قرآن کے ذریعے دعوت ۔2۔ دعوت قبول کرنے والوں کو منظم کرکے انقلابی جماعت تیار کرنا ۔ 3۔ انقلابی جماعت کی تربیت کرنا ، ان کو اللہ والا بنانااور 4۔ جب تک باطل سے ٹکرانے کی استطاعت نہیں صبر کے مراحل سے گزرنا ۔
مدنی دور کےدو مراحل ہیں : 1 ۔ اقدام جس میں  قتال کا حکم بھی آیا ۔ 2۔ تصادم ۔ بدر سے لے کر فتح مکہ تک چھ برس کے عرصے میں قتال اور تصادم کے نتیجے میں  حق غالب ہوگیا ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :{جَآئَ الْحَقُّ وَزَہَقَ الْبَاطِلُ ط}(بنی اسرائیل:81) ’’حق آگیا اور باطل بھاگ گیا۔‘‘
البتہ پاکستان میں چونکہ مدمقابل بھی مسلمان ہیں اس لیے یہاں قتال کا معاملہ موزوں نہیں ۔ ڈاکٹر صاحبؒ فرماتے تھے انقلابی جدوجہدمیں اپنے حق کا مطالبہ لے کر کھڑا ہونا ، باطل نظام کو بدلنا ہمارا حق ہے لیکن یہ حق اپنی حکومت کے لیے نہیں بلکہ اللہ کی حاکمیت کے قیام کے لیے ہے ۔ اس کے لیے منظم جماعت کا ہونا ضروری ہے جس میں جان دینے کی بات کی جائے گی جان لینے کی بات نہیں کی جائے گی ۔ ہم دینی سیاسی جماعتوں کو بھی یہی دعوت دیتے ہیں کہ وہ انتخابات کا راستہ چھوڑ کر منہج انقلاب نبوی کو اختیار کرلیں ۔ اللہ نے بھی یہی فرمایا ہے :{لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ}(الاحزاب:21) ’’(اے مسلمانو!) تمہارے لیے اللہ کے رسول ؐمیں ایک بہترین نمونہ ہے ‘‘
اگر آپ اسلامی انقلاب لانا چاہتے ہیں تو وہ بھی اُسوہ حسنہ کی روشنی میں لا ئیں ، اسی میں بہتری ہے ۔
(15)اسلامی نظام قائم کیاجائے
آخری بات یہ ہےکہ یہ مملکت ہم نے لی تھی دنیا کے سامنے اسلام کا نمونہ پیش کر نے کے لیے۔ ہمیں تو بہت دور جانا تھالیکن خود میں ہی اُلجھ کر رہ گئے ہیں ۔ پڑوس میں کشمیر ہے لیکن اس کی بات ہی نہیں کرتے ، برما کے مسلمانوں کا درد ہمیں محسوس نہیں ہوتا ۔ الیکشن کی گہما گہمی میں ہمیں فلسطین بھی یاد نہیں رہا جبکہ ظالم اسرائیل مسلسل بڑھتا چلا جارہا ہے ۔ اطلاعات کے مطابق 30 ہزار سے زائد شہادتیں اور 90 ہزار سے زیادہ زخمی ہیں۔ یو این او کہہ رہا ہے کہ غزہ کے اندر 10 لاکھ افراد بھوک سے دوچار ہیں ۔رفح کے بارڈر پر 13 لاکھ کے قریب فلسطینی ہیں جن کو اسرائیل فلسطین سے نکالنے کی کوشش کر رہا ہے جبکہ دوسری طرف مسلمان خاموش ہیں ۔ عرب حکمران مودی کو بلا کر مندروں کااپنے ہاں افتتاح کروا رہے ہیں ۔
خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
پاکستان نے اس امت کے لیے کھڑا ہونا تھا کیونکہ ہم نے اسلام کا دعوی کیا تھااور آج ہم 77 برس کے بعدکہاں کھڑے ہیں ؟ ملک توڑنے کی باتیں ، نفرتیں ، تعصبات ، علیحدگی کی باتیں ہورہی ہیں ۔ میں نے سورۃ الفتح کی آخری آیت کا ایک حصہ ایک خاص وجہ سے تلاوت کیا تھا ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : {مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ ط وَالَّذِیْنَ مَعَہٓٗ اَشِدَّآئُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآئُ بَیْنَہُمْ }(الفتح:28) ’’محمد (ﷺ) اللہ کے رسول ہیں۔ اور جو ان کے ساتھ ہیں‘ وہ کافروں پر بہت بھاری اور آپس میں بہت رحم دل ہیں‘‘
شدید کا ایک معنی ہے سخت جان ہے ۔ایمان والوں کو تم دبا نہیں سکتے ، مٹا نہیں سکتے ، خرید نہیں سکتے ۔ پھریہ بھی نقطہ مفسرین نے بیان فرمایا کہ اللہ نے فطری جذبات رکھے ہیں۔ غصہ بھی مطلوب ہے مگر صحیح جگہ پر۔غصہ دین دشمنوں  کے لیے ، سرکشوں اور باغیوں کے لیے رکھیں لیکن اپنے اہل ایمان بھائیوں کے لیے دل میں رحم ہونا چاہیے ۔ اگربڑا مقصد سامنے نہ ہوتو چھوٹے چھوٹے مفادات کے لیے آپس میں لڑائیاں جھگڑے ہوں گے ۔ نفرتیں اورتعصبات جنم لیں گے ۔ لہٰذا بہتری اسی میں ہے کہ جس مقصد کے لیے یہ ملک بنایا گیا اس کے حصول کے لیے مل کر جدوجہد کریں اورپاکستان کو حقیقی معنوں میں اسلامی فلاحی ریاست بنائیں تاکہ اس میں استحکام بھی آئے اور امن و امان بھی ہو ، ملک ترقی بھی کرے ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت عطافرمائے ۔ آمین یا رب العالمین!