اداریہ
ایوب بیگ مرزا
غلطی نہیں، غلطی پر اصرار تباہی کا باعث بنتا ہے!
انسانی تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ غلطی نہیں، بلکہ غلطی کا تسلسل اور اُس پر اصرار درحقیقت فرد اور معاشرہ کی تباہی اور بربادی کا باعث بنتا ہے۔ اکثر اوقات یہ ضد اور انا کا مسئلہ بن جاتا ہے جس سے بڑی بڑی ریاستیں اور مملکتیں بھی زمین بوس ہو جاتی ہیں۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے 14 اگست 1947 ءکو سرکاری ملازمین سے خطاب میںمسلح افواج پر سویلین بالادستی کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ مت بھولیں کہ مسلح افواج عوام کی خادم ہیں اور آپ قومی پالیسی نہیں بناتے۔ یہ ہم عام شہری ہیں جو ان مسائل کا فیصلہ کرتے ہیں اور یہ آپ کا فرض ہے کہ آپ ان کاموں کو انجام دیں جو آپ کو سونپے گئے ہیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے25مارچ1948ءکو چٹا کانگ میں بنگالی افسروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا آپ کو اپنا فرض منصبی خادموں کی طرح انجام دینا ہے، آپ کو اِس سیاسی جماعت یا اُس سیاسی جماعت سے کوئی سروکار نہیں۔ یہ آپ کا کام نہیں یہ سیاست دانوں کا کام ہے کہ و ہ موجودہ آئین یا آئندہ آئین جو بالآخر تشکیل پائے گا، کے تحت اپنے مؤقف کے لئے لڑیں۔ آپ سرکاری ملازم ہیں۔ جس جماعت کو اکثریت حاصل ہوگی وہ حکومت بنائے گی اور آپ کا فرض ہے کہ آپ وقتی طور پر اس حکومت کی خدمت ملازمین کی طرح کریں، سیاست دانوں کی طرح نہیں۔ یہ آپ کیسے کریں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کا مسئلہ 1951ء میں وزیراعظم لیاقت علی خان کی شہادت کے فوراً بعد شروع ہوگیا تھا۔ ہم اپنے قارئین کو متعدد مرتبہ یہ بتا چکے ہیں کہ اکتوبر 1958ء میں ایوب خان کے مارشل لاء تک گیا رہ سالوں میں سات وزیراعظم آئے جب ایوب خان نے مارشل لاء لگایا تو اگرچہ عوامی سطح پر تو پُرزور طریقے سے ’’جی آیاں نوں‘‘ کہا گیا، لیکن دانائے قوم نے اِس خطرے کا اظہار کیا تھا کہ اونٹ نے چالاکی سے بدو کے خیمہ میں اپنے پاؤں داخل کر دیئے ہیں۔ ایوب خان کے مارشل لاء پر جہاں عوام ضروریات زندگی کے فوری طور پر سستے ہونے پر خوشی کا اظہار کر رہے تھے وہاں حسین شہید سہروردی جیسے اعلیٰ پایہ کے وکیل جو فلسفہ سیاست پر اتھارٹی بھی تھے اور عملی طور پر انتہائی کامیاب سیاست دان بھی تھے۔ موصوف تقسیم ہند کے وقت متحدہ بنگال کے وزیر اعلیٰ تھے۔ یاد رہے بنگال 1947ء میں پاکستان اور بھارت کے درمیان تقسیم ہوگیا تھا۔ اُنہوں نے ایوب خان کے اِس مارشل لاء کی شدت سے مخالفت کی تھی لہٰذا گرفتار کر لیے گئے۔ اُنہوں نے فوجی عدالت میں اپنا کیس خود پلیڈ کیا اور ایسے تاریخی دلائل دیئے جنہیں قانون کی کتابوں کا حصہ بننا چاہیے تھا تاکہ آج کے طالب علم جان سکتے کہ مارشل لاء اور غیر نمائندہ حکومتیں قومی سلامتی کے لیے ہلاکت خیز کیوں ثابت ہوتی ہیں اور سویلین بالادستی سیاسی استحکام، معاشی ترقی، امن و امان اور بحیثیت مجموعی قومی ترقی کے لیے کیوں ناگزیر ہے۔ یہاں یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ ایوب خان کے مارشل لاء میں تو یہ سب کچھ ہوگیا تھا یعنی سیاسی استحکام بھی آیا تھا، معاشی ترقی بھی بے مثل ہوئی تھی اور امن و امان بھی قائم تھا۔ تو اُس کا جواب یہ ہے کہ اُس دور میں جبری سیاسی استحکام نے ایسی گھٹن پیدا کی جس سے مارشل لاء کے خلاف ایسی زوردار عوامی تحریک چلی جو سب کچھ بہا کر لے گئی اور جبری سیاسی استحکام اور معاشی ترقی کو تلپٹ کر دیا۔ اِس عوامی تحریک نے ایوب خان کو مستعفی ہونے پر مجبور کر دیا۔ ضرورت تو اِس امر کی تھی کہ اِس خوفناک انجام سے سبق سیکھا جاتا اور اُس وقت کے آئین کے مطابق قومی اسمبلی کے سپیکر کو اقتدار منتقل کر دیا جاتا جو انتخابات کروا کر عوامی نمائندوں کو اقتدار منتقل کر دیتے لیکن اب ایک اور غلطی کا ارتکاب کیا گیا۔ ایوب خان نے اپنے ہی آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اقتدار فوج کے سربراہ یحییٰ خان کے حوالے کر دیا۔ یحییٰ خان کو چونکہ ایک عوامی تحریک کے نتیجہ میں اقتدار ملا تھا۔ اِس عوامی تحریک کی چھاپ اور عوام کا جوش و خروش ابھی چونکہ باقی تھا لہٰذا یحییٰ خان انتخابات کے انعقاد پر تو مجبور ہوگیا، لیکن انتخابات کے بعد منتقلی اقتدار کے وقت اس کی نیت میں فتور آگیا۔ جس نے سارا معاملہ چوپٹ کر دیا۔ بہرحال یہ طے شدہ بات ہے کہ اگر آئین کے مطابق سپیکر قومی اسمبلی کی سرپرستی میں بنائی ہوئی عبوری حکومت انتخابات کرواتی تو معاملات خوش اسلوبی سے طے ہو جاتے، لیکن ایسا نہ ہو سکا۔
مشرقی پاکستان چونکہ پہلے ہی ایک فوجی آمر کے خلاف اپنی نفرت کا اظہار کر چکا تھا جب یحییٰ خان نے بھی عوامی نمائندوں کو اقتدار منتقل کرنے میں لیت و لعل سے کام لینا شروع کیا اور عوامی مزاحمت پر قوت کا استعمال کیا تو ہمیں 16 دسمبر 1971ء جیسا دن دیکھنا پڑا۔ جب جرنیل نیازی نے پلٹن میدان میں جگجیت سنگھ اروڑا کے سامنے ہتھیار ڈالے۔ تاریخِ اسلام میں اتنی بڑی اسلامی فوج نے پہلی بار ہتھیار پھینکے تھے اور یہ نتیجہ تھا اپنی اُس غلطی پر اصرار کا جو 1958ء میں ایوب خان نے کی تھی۔ 1977ء میں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کی انتخابی دھاندلی کے خلاف عوامی تحریک چلی۔ سیاسی مخالفین نے مذاکرات کے ذریعے مسئلہ حل کرنے کی کوشش کی۔ کوثر نیازی مرحوم کی کتابـ’’ اور لائن کٹ گئی‘‘ کے مطابق فریقین دوبارہ انتخابات پر متفق ہوگئے تھے۔ جزیات ابھی طے ہونا تھیں۔ ذوالفقار علی بھٹو معاملات کے طے پا جانے پر غیر ملکی دورے پر چلے گئے۔ اُن کی واپسی پر دوبارہ مذاکرات کا آغاز ہوا ہی تھا کہ پھر ایک غلطی کا ارتکاب ہوا۔ 5جولائی 1977ء کو جمہوریت کی بساط لپیٹ دی گئی جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء لگا دیا۔ اُنہوں نے ٹیلی ویژن پر قوم سے وعدہ کیا کہ وہ 90 دن میں انتخابات کروا کر اقتدار عوامی نمائندوں کو منتقل کر دیں گے۔ اِن 90 دنوں کو گزرتے گزرتے گیارہ (11)سال لگ گئے۔ یوں تو جنرل ضیاء الحق نے بھی قومی سطح پر کئی اچھے کام کیے، لیکن غیر جماعتی انتخابات کا ملک میں تجربہ کرکے پاکستان میں جماعتی نظم سے آزاد ہو کر انتخابات کو دھن، دولت، دھونس اور برادری سسٹم کی بنیاد فراہم کر دی۔ کلاشنکوف کلچر بھی رواج پاگیا۔ پھر یہ کہ غیر جماعتی انتخابات کے نتیجہ میں جو جماعتی حکومت قائم ہوئی اُس کو جنرل صاحب نے 29مئی 1988ء کو رخصت کر دیا۔ ابھی وہ اور غیر جماعتی انتخابات کروا کر خود کو مضبوط کرنا چاہتے تھے، لیکن اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا وہ ایک جہاز کے حادثہ میں جاں بحق ہوگئے۔ اُنہوں نے اقتدار کے دوران اسلام کے نام کو خوب استعمال کیا، ہو سکتا ہے اُن کی نیت اچھی ہو لیکن پاکستان تو اسلامی نظام کی طرف ایک قدم نہ بڑھ سکا بلکہ اِس حوالے سے کئی تنازعات کھڑے ہوگئے۔
12اکتوبر 1999ء کوملکی سرحدوں کے محافظوں نے اپنی غلطی پھر دہرائی اور جواز یہ پیش کیا کہ عوامی وزیراعظم نواز شریف نے آرمی چیف کو برطرف کر دیا۔ حالانکہ یہ فیصلہ غلط تھا یا صحیح آرمی چیف کو بہرحال تسلیم کرنا چاہیے تھا۔ یہ ڈسپلن کا تقاضا تھا۔ وزیراعظم کو آرمی چیف تبدیل کرنے کا قانونی حق تھا جو اُس نے استعمال کیا۔ لیکن بغاوت کرکے غلط مثال قائم کی گئی اور باغیانہ روش اختیار کرکے غلطی پھر دہرائی گئی۔
اپریل 2022ء میں وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد منظور ہوئی اور وہ وزارتِ عظمیٰ سے فارغ ہوگئے۔ ہمیں اِس بحث میں جانے کی ضرورت نہیں کہ اِس میں فوج نے کیا کردار ادا کیا تھا کیونکہ یہ اظہر من الشمس ہے۔ لیکن یہ خبریں بڑی تفصیل سے آنے لگیں کہ اُن پر کاٹے کا نشان لگا دیا گیا کہ وہ کبھی اقتدار میں نہیں آسکیں گے۔ پھر 9 مئی 2023ء کا عذر تراش کر اُن سے اور اُن کی جماعت سے کیا کچھ کیا گیا۔ یہ بھی ہم تفصیل سے لکھ چکے ہیں اور پاکستان کا ہر شہری اِس بات کو جان چکا ہے۔ ہر غیر اخلاقی اور غیر قانونی حربہ اختیار کیا جا چکا ہے اور کیا جا رہا ہے کہ کسی طرح مقتدر حلقوں کی نظر میں ناپسندیدہ شخص اقتدار میں نہ آئے۔ لیکن عوام نے حیرت انگیز طریقے سے اِن تمام حربوں کو رد کر کے تمام سیاسی اور عسکری حلقوں کو آگاہ کر دیا ہے کہ وہ کس جماعت کو اور کس فرد کو برسر اقتدار دیکھنا چاہتے ہیں اگر ایک بار پھر یہ غلطی دہرائی گئی کہ عوام کی خواہش جو ووٹوں کی صورت میں دنیا کے سامنے آئی ہے، اگر اُسے رد کر دیا جاتا ہے تو انجام مختلف نہیں ہوگا۔ آخر میں ہم فیصلہ ساز حلقوں کی خدمت میں گزارش کریں گے کہ یہ 1958ء نہیں بلکہ 2024ء ہے۔ دنیا بہت بدل چکی ہے۔ پاکستانیوں کا سیاسی شعور ناقابل یقین حد تک پختہ ہو چکا ہے۔ عوام اور عسکری اداروں میں ذہنی ہم آہنگی ناگزیر ہے۔ فوج عوام میں سے ہے لہٰذا عوام فوج سے ٹوٹ کر محبت کرتی ہے لیکن اُس کی یہ شدید خواہش ہے کہ فوج بھی عوامی خواہشات کا احترام کرے اور صحیح معنوں میں ووٹ کو عزت دے۔ جبکہ عوام کی خواہش کو ٹھکرانے سے ناقابلِ عبور خلیج پیدا ہو جائے گی جو ملکی سلامتی کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہوگی۔ سانحہ 1971ء صرف اِس لیے رونما ہوا تھا کہ فوج کی پشت پر عوام نہیں تھے۔
tanzeemdigitallibrary.com © 2025