(الہدیٰ) حضرت موسیٰ ؑ کی والدہ کو الہام - ادارہ

7 /

الہدیٰ

حضرت موسیٰ ؑ کی والدہ کو الہام

 

آیت 7{وَاَوْحَیْنَآ اِلٰٓی اُمِّ مُوْسٰٓی اَنْ اَرْضِعِیْہِ ج } ’’اور ہم نے وحی کر دی موسیٰ ؑ کی والدہ کو کہ تم اسے دودھ پلاتی رہو۔‘‘
{فَاِذَا خِفْتِ عَلَیْہِ فَاَلْقِیْہِ فِی الْیَمِّ وَلَا تَخَافِیْ وَلَا تَحْزَنِیْ ج } ’’اور جب تمہیں اس کے بارے میں اندیشہ ہو تو اسے دریا میں ڈال دینا اور نہ خوف کھانا اور نہ رنجیدہ ہونا۔‘‘
کہ جب تمہیں معلوم ہو کہ حکومتی کارندے تلاشی کے لیے آ رہے ہیں اور پکڑے جانے کا امکان ہے تو بلاخوف و خطر بچے کو دریائے نیل میں ڈال دینا۔
{اِنَّا رَآدُّوْہُ اِلَیْکِ وَجَاعِلُوْہُ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ(7)} ’’ہم اسے لوٹانے والے ہیں تمہاری طرف اور اسے بنانے والے ہیں رسولوں میں سے۔‘‘
آیت 8{فَالْتَقَطَہٗٓ اٰلُ فِرْعَوْنَ} ’’تو اُسے اٹھا لیا فرعون کے گھر والوں نے‘‘
’’لُقطہ‘‘ کے معنی ایسی چیز کے ہیں جو کہیں گری پڑی ہو اور کوئی اسے اٹھا لے۔ فقہ کی کتابوں میں ’’لُقطہ‘‘ کے بارے میں تفصیلی احکام ومسائل ملتے ہیں۔
{لِیَکُوْنَ لَہُمْ عَدُوًّا وَّحَزَنًاط} ’’تا کہ وہ بن جائے ان کے لیے دشمن اور پریشانی (کا باعث)۔‘‘
اس کا یہ مطلب نہیں کہ بچے کو دریا سے نکالتے ہوئے ان کا یہ مقصد تھا یا انہیں معلوم تھا کہ ایسے ہو گا ‘بلکہ مراد یہ ہے کہ بالآخر اس کا جو نتیجہ نکلا وہ یہی تھا کہ وہ بچہ اُن کے لیے تکلیف اور پریشانی کا باعث بن گیا۔
{اِنَّ فِرْعَوْنَ وَہَامٰنَ وَجُنُوْدَہُمَا کَانُوْا خٰطِئِیْنَ(8)} ’’یقیناً فرعون‘ہامان اور ان کے سب لشکر (اپنی تدبیر میں) خطاکار تھے۔‘‘

درس حدیث

لقطہ( گری پڑی چیز) کے احکامعَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ ؓ ، أَنّ رَسُولَ اللہِ ﷺ سُئِلَ عَنِ اللُّقَطَةِ؟ فَقَالَ:((عَرِّفْهَا سَنَةً، فَإِنِ اعْتُرِفَتْ فَأَدِّهَا فَإِنْ لَمْ تُعْرَفْ فَاعْرِفْ عِفَاصَهَا وَوِعَاءَهَا ثُمَّ كُلْهَا فَإِنْ جَاءَ صَاحِبُهَا فَأَدِّهَا إِلَيْهِ))(صحیح مسلم)
زید بن خالد جہنی ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے لقطہٰ کے متعلق پوچھا گیا، تو آپ ﷺنے فرمایا: ’’سال بھر اس کے مالک کا پتہ کرتے رہو، اگر کوئی اس کی (پہچان) کر لے تو اسے دے دو، ورنہ اس کی تھیلی اور اس کا بندھن یاد رکھو، پھر اس کو اپنے کھانے میں استعمال کر لو، اگر اس کا مالک آ جائے تو اسے ادا کر دو۔‘‘