الہدیٰ
حضرت نوح ؑ کی دعوت …
یہاں سے سورت کے دوسرے حصّے کا آغاز ہو رہا ہے ۔یہ حصّہ تین رکوعوں پر مشتمل ہے۔ سورت کے اِس حصّے میں اہل ایمان سے خطاب کے دوران انہیں دس اہم ہدایات بھی دی گئی ہیں جو غلبہ ٔدین کی جدّوجُہد کرنے اور اس راستے میں مصائب و مشکلات برداشت کرنے والے مجاہدین کے لیے رہتی دنیا تک گویا مشعل ِراہ کا درجہ رکھتی ہیں۔
آیت 14{وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰی قَوْمِہٖ فَلَبِثَ فِیْہِمْ اَلْفَ سَنَۃٍ اِلَّا خَمْسِیْنَ عَامًاط} ’’اور ہم نے بھیجا تھا نوح ؑ کو اُس کی قوم کی طرف ‘تو وہ رہا اُن کے مابین پچاس برس کم ایک ہزار برس۔‘‘
حضرت نوح ؑ کا ذکر قرآن مجید میں متعدد بار آ چکا ہے لیکن یہ بات اور کہیں نہیں کہی گئی کہ انہوں نے ساڑھے نو سو سال کا طویل عرصہ اپنی قوم کے ساتھ گزارا۔ بین السطور میں یہاں جو پیغام دیا جا رہا ہے وہ یہ ہے کہ اے مسلمانو!تم لوگ چند برس میں ہی گھبرا گئے ہو۔ ذرا ہمارے بندے نوح ؑ کی صدیوں پر محیط جاں گسل جدّوجُہد کا تصوّر کرو اور پھر اُن کے صبر و استقامت کا اندازہ کرو! چنانچہ تم لوگوں کو اِس راستے میں مزید امتحانات کے لیے بھی تیار رہنا چاہیے: ؎
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں !
(اقبال)
{فَاَخَذَہُمُ الطُّوْفَانُ وَہُمْ ظٰلِمُوْنَ(14)} ’’تو اُن کو آ پکڑا طوفان نے اور وہ ظالم تھے۔‘‘
آیت 15 {فَاَنْجَیْنٰہُ وَاَصْحٰبَ السَّفِیْنَۃِ وَجَعَلْنٰہَآ اٰیَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ(15)} ’’تو ہم نے بچا لیا اُس (نوح ؑ) کو اور کشتی والوں کو‘ اور اسے بنا دیا ہم نے تمام جہان والوں کے لیے ایک نشانی۔‘‘
درس حدیث
صدقہ ٔ فطر کی اہمیت و فضیلت
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ؓ قَالَ:(( فَرَضَ رَسُوْلُ ﷲِ ﷺ زَکَاةَ الْفِطْرِ طُهْرَةً لِلصَّائِمِ مِنَ اللَّغْوِ وَالرَّفَثِ وَطُعْمَةً لِلْمَسَاکِیْنِ. مَنْ أَدَّاهَا قَبْلَ الصَّلَاةِ فَهِيَ زَکَاةٌ مَقْبُوْلَةٌ وَمَنْ أَدَّاهَا بَعْدَ الصَّلَاةِ فَهِيَ صَدَقَةٌ مِنَ الصَّدَقَاتِ)) (رواہ ابو داود ابن ماجہ)
حضرت عبد اللہ ابن عباس ؓ نے فرمایا :’’ رسول اللہﷺ نے صدقہ فطر کو فرض قرار دیا جو روزہ داروں کی لغویات اور بیہودہ باتوں سے پاکی ہے اور غریبوں کی پرورش کے لیے ہے۔ جس نے نماز عید سے پہلے فطرانہ ادا کیا تو یہ مقبول صدقہ فطر ہے اور جس نے نماز عید کے بعد ادا کیا تو یہ صدقہ فطر نہیں بلکہ عام صدقہ شمار ہو گا۔‘‘