اداریہ
رضاء الحق
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی ﷺ
پاکستان کی سیاسی تاریخ کا جائزہ لیں تو اس سے بہتر تبصرہ شاید نہ کیا جا سکے کہ سنتا جا اور شرماتا جا! حقیقت یہ ہے کہ اسلام کے نام پر قائم ہونے والی مملکتِ خداداد پاکستان کے شاید پہلے تقریباً 4 سال یعنی 1947ء تا 1951ء کسی درجہ بہتر گزرے۔ اگلے 74 سال درحقیقت دجل و فریب کی داستان ہیں۔ قرارداد مقاصد 1949ء میں منظور کر لی گئی اور ملک صحیح پٹڑی پر چڑھ گیا۔ قصّہ کچھ یوں ہے کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح 1948ء میں وفات پا چکے تھے۔ تحریکِ پاکستان کی اہم شخصیت مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ نے قانون ساز اسمبلی میں حکمران مسلم لیگ کو دھمکی دی کہ اگر تم لوگوں نے یہ قرارداد منظور نہ کی تو میں اسمبلی سے باہر جا کر پکار پکار کر بتاؤں گا کہ مسلم لیگ نے ہم سب سے دھوکہ کیا ہے۔ مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ ان چند مذہبی رہنماؤں میں سے تھے جنہوں نے علمائے ہند کی اکثریت سے اختلاف کر کے تحریکِ پاکستان اور مسلم لیگ کی حمایت کی تھی۔ بہرحال قراردادِ مقاصد کے منظور ہو جانے کے بعد ملک میں موجود سیکولر، لبرل طبقہ مختلف مسالک کا حوالہ دے کر یہ طعنہ دینے لگا کہ ملک میں کس کا اسلام نافذ کرو گے۔ اس پر تمام مکاتب فکر اور مسالک کے 31 جید علماء نے 22 نکات کی صورت میں پاکستان کو ایک حقیقی اسلامی فلاحی ریاست بنانے کا فارمولا پیش کر دیا جس سے سیکولر، لبرل طبقے کی زبان بندی بھی ہو گئی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس بنیاد پر ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ و قیام کے لیے تن من دھن لگا دیا جاتا لیکن سول و ملٹری بیوروکریسی اور سیاست دانوں کے دل مغرب سے مرعوب ہو کر نام نہاد 'سیکولر ، لبرل آزادی کی طرف کھینچے چلے جا رہے تھے۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ لیاقت علی خان کی وزارت عظمیٰ تک ملک صحیح پٹڑی پر چلتا رہا۔ اپنے دورۂ امریکہ کے دوران انہوں نے صہیونیوں کی اس پیشکش کہ اسرائیل کو تسلیم کر لو، پاکستان میں دودھ اور شہد کی نہریں جاری کر دیں گے اور اس قدر دولت ملے گی کہ دوبارہ کسی سے کچھ مانگنے کی ضرورت نہیں رہے گی کو ٹھکراتے ہوئے یہ ایمان افروز جواب دیا:" Gentlemen! Our Souls are not for Sale"
بات کو بہتر انداز میں سمجھنے کے لیے اس وقت پاکستان کے معاشی حالات کا جائزہ لینا ناگزیر ہے۔ قیامِ پاکستان کے وقت معاشی وسائل نہ ہونے کے برابر تھے۔ بھارت نے تقسیم کے وقت وسائل کے حوالے سے طے شدہ حصّہ پاکستان کو دینے سے انکار کر دیا تھا۔ پھر نئی مملکت قائم کرنے کے بعد انتظامی مسائل بھی بے تحاشہ تھے۔ البتہ اس وقت ریاستی سطح پر بگاڑ اس قدر نہیں تھا کہ وہ ہماری پہچان بن جاتا۔ بہرحال لیاقت علی خان کو ایک سازش کے تحت شہید کر دیا گیا اور اصل قاتل کا پتہ نہ چل سکا! سانحات پر مٹی پاؤ اور قالین کے نیچے چھپا دو کا لائحہ عمل شروع دن سے ہی اس مملکت کی جڑوں میں بیٹھ چکا تھا اور مستقبل میں پیش آنے والے سانحات سے ہمارے اس گمان کو تقویت ملتی ہے۔ 1971ء میں سقوطِ مشرقی پاکستان کی تحقیقات کے لیے حمود الرحمٰن کمیشن قائم کیا گیا لیکن اس کی رپورٹ منظر عام پر نہ لانے دی گئی۔ یہ تو بعد ازاں جب رپورٹ بھارت سے لیک ہوئی تو دنیا کو دیکھنے اور پڑھنے کا موقع ملا۔ اُس وقت سے لے کر آج تک ملک کو نظریۂ ضرورت، کرپشن، سودی معیشت ، اقرباء پروری وغیرہ جیسے ناسوروں نے کھوکھلا کر کے رکھ دیا ہے۔ بھارت نے بٹوارے کے فوراً بعد اپنے ہاں جاگیرداری نظام کا خاتمہ کر دیا تھا، لیکن پاکستان میں جاگیرداروں، سرمایہ داروں، سول و ملٹری بیوروکریسی، عدالتی بیوروکریسی - الغرض اشرافیہ نے ملک میں اپنی اجارہ داری قائم کر لی اور مملکت کے فیصلوں اور پالیسی سازی کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔
23 مارچ یومِ پاکستان کے طور پر زور و شور سے منایا جاتا ہے۔ اس دن کے حوالے سے اصل سوال تو یہ ہے کہ یومِ پاکستان اگر 23 مارچ ہے تو پھر 14 اگست کیا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ 23 مارچ کو ہم اس لیے یومِ پاکستان قرار دیتے ہیں کہ 1940 ءمیں اس دن منٹو پارک میں منعقدہ مسلم لیگ کے تین روزہ اجلاس میں قرارداد لاہور منظور ہوئی۔ اس وقت تک مسلم لیگ نے پاکستان کا نام بھی نہیں لیا تھا بلکہ صحیح طرح الفاظ میں پاکستان کا متحدہ ہندوستان سے علیحدہ ایک ملک کے طور پر قائم کیا جانا بھی اس قرارداد میں موجود نہ تھا۔ قراردادِ لاہور کے عنوان سے پیش کی گئی اس قرارداد میں متحدہ ہند میں رہتے ہوئے ہی مسلمانوں کے لیے آزاد ریاست یا ریاستوں کا مطالبہ تھا۔ (Independent State or States) بہرحال اس میں دو رائے نہیں کہ قراردادِ پاکستان ہی آزادی کی بنیاد ثابت ہوئی اور ہم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ 1940ء سے 1947ء کے درمیان 7سال کے قلیل عرصہ میں مسلم لیگ نے قائد اعظم محمد علی جناح کے زیرِ قیادت متحدہ ہندوستان کے طول و عرض میں پاکستان کے قیام کے لیے خوب محنت کی۔ جس کا نتیجہ 1946ء کے انتخابات میں سامنے آیا جب مسلم لیگ نے متحدہ ہندوستان کے مسلم اکثریتی علاقوں میں تمام مسلم نشستوں کو سویپ کر لیا۔ ان میں وہ صوبے بھی شامل تھے جو کسی صورت مستقبل کے پاکستان کا حصّہ نہ بن سکتے تھے لیکن اُن صوبوں کے مسلم عوام نے بھی مسلم لیگ کے حق میں ووٹ دے کر حجت قائم کر دی کہ اگرچہ ہم جانتے ہیں کہ ہم پاکستان کا حصّہ تو نہیں بن سکیں گے لیکن ہمارے ووٹ کو استعمال کرو اور ایک علیحدہ خطۂ زمین حاصل کر کے اُس میں اسلام قائم کرو۔ ان7 سالوں میں قیامِ پاکستان کے حوالے سے کئی نعرے سامنےآئے جن میں ’’پاکستان کا مطلب کیا: لا الٰہ الا اللہ‘‘ اور ’’مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ‘‘ سر فہرست تھے۔ پاکستان کے سیکولر، لبرل طبقہ کا کہنا ہے کہ ’’پاکستان کا مطلب کیا: لا الٰہ الا اللہ‘‘ کا نعرہ تو چند چھوکروں نے لگایا تھا۔ یہ بات اگر درست بھی ہو توخاص اہمیت کی حامل نہیں کیونکہ عوامی سطح پر اسے بھرپور پذیرائی حاصل ہوئی۔ پھر یہ کہ اگر عوام نے اس نعرہ کو متعارف کرایا تو یہ ایک ناقابلِ تردید ثبوت ہے کہ پاکستان کے عوام نئی مملکت میں اسلام کو بحیثیت دین نافذ و قائم کرنا چاہتے تھے۔
تاریخ اس بات پر بھی شاہد ہے کہ قیامِ پاکستان کے بعد 1948ء سے لے کے 1955ء تک 23 مارچ کا دن منانے کے حوالے سے حکومتِ پاکستان بالکل خاموش رہی۔ حکومتی ریکارڈ کے مطابق مذکورہ 8 سالوں میں نہ تو یہ دن منایا گیا، نہ قومی تعطیل ہوئی، نہ کوئی جشن ہوا اور نہ کوئی پریڈ وغیرہ ہوئی؛ یہ سوال ہم قارئین کے لیے چھوڑتے ہیں کہ آخر ایسا کیوں ہوا؟
23 مارچ 1956ء کو اس وقت کے وزیراعظم چودھری محمد علی نے ملک کو پہلا آئین دیا۔ پاکستان تخت برطانیہ کی ماتحتی سے اعلانیہ طور پر الگ ہو گیا اور اس دن کو یومِ جمہوریہ قرار دیا گیا۔ لہٰذا 1957ء اور 1958ء میں 23مارچ کو بطور یومِ جمہوریہ پاکستان ہی منایا گیا۔ قومی تعطیل اور تمام مروجہ تقریبات منعقد ہوئیں۔ لیکن اکتوبر 1958ء میں جنرل ایوب خان نے ملک بھر میں مارشل لاء لگا دیا اور 1956ء کے آئین کو منسوخ کر دیا۔ گویا بھاری بھرکم خاکی بوٹوں نے جمہوریت اور آئین کو مسل دیا۔ 1959ء میں جب 23 مارچ کی آمد آمد تھی تو فوجی حکمرانوں کے سامنے یہ مسئلہ پیدا ہوا کہ یومِ جمہوریہ کس طرح منائیں؟ کیونکہ مارشل لاء اور جمہوریت ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ 1956ء کے آئین کو تو ڈکٹیٹر نے مسل کر رکھ دیا تھا اور اسے کفن پہنا کر دفنا دیا گیا تھا۔ اس موقع پر سول بیوروکریسی جو گزشتہ 78 سالوں سے اپنی ذہانت اور عیاری سے حکومتوں کے مشکل مسائل کا حل چٹکی بجاتے پیش کر دیتی ہے، اُس نے مارشل لاء حکومت کو تسلی دی کہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ ایوب خان کے مارشل لاء کی خوش قسمتی (حکمرانوں کی خوش قسمتی اکثر عوام کی بدقسمتی ثابت ہوتی ہے) کہ23 مارچ کو یومِ جمہوریہ کی بجائے یومِ پاکستان سے بدل دیا گیا۔ حیرت اور افسوس کا مقام ہے کہ اس نوخیز جمہوریت کو زندہ درگور کرنے پر ملک میں جمہوریت کے چیمپئن افراد اور اداروں کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔ اس کی ایک بنیادی وجہ یہ تھی کہ گزشتہ 78 برس کے دوران پاکستان میں صفِ اول کا کوئی لیڈر بھی ایسا نہیں گزرا جو عوام کی پیداوار ہو۔ سب نے مبینہ گیٹ نمبر 4 کا سہارا لیا۔
یہ بات تو اظہر من الشمس ہے کہ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد پاکستان کو کوئی مخلص جمہوری لیڈر نہیں ملا۔ اقتدار اور قوت کے نشے میں حکومت کے مزے لینا اُن کا طُرۂ امتیاز بن گیا۔ دوسری طرف پہلے سول بیوروکریسی اور پھر 1958ء سے لے کر آج تک ملٹری بیوروکریسی، جسے ہم پیار سے اسٹیبلشمنٹ بھی کہہ جاتے ہیں، وہ ملک کے سیاہ و سفید کے مالک بنے رہے اور آج بھی معاملہ کچھ ایسا ہی ہے (ہائبرڈ نظام!)۔ چاہے سیاسی قیادتیں ہوں یا سول، عسکری و عدالتی بیوروکریسی، یعنی ملکی اشرافیہ نے اسلام کی بجائے لبرل ازم اور سیکولرازم کی طرف ہی قدم بڑھایا۔ بدقسمتی سے دینی و مذہبی جماعتوں نے بھی نفاذِ اسلام کے حوالے سے محض نعروں اور اجتماعات کے انعقاد پر اکتفا کر لیا۔ الا ماشاء اللہ۔ اشرافیہ کی تمام تر کاوشیں اور صلاحیتیں اصلاً دنیا کمانے میں صرف ہونے لگیں۔ آج صورتحال یہ ہے کہ پاکستان، جسے اسرائیل کے پہلے وزیراعظم بن گوریان نے اپنا اصل حریف قرار دیا تھا، اسلامی نظام کے قیام کے حوالے سے کوسوں دور ہے۔ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کسی بھی دوسرے ملک کی طرح ایک نیشن سٹیٹ کی حیثیت رکھتا ہے۔
عالمی پس منظر میں دیکھا جائے تو اسرائیل کا اصل ہدف پاکستان کا ایٹمی پروگرام، میزائل ٹیکنالوجی اور تربیت یافتہ فوج ہیں۔ دوسری طرف ہمارا ازلی دشمن بھارت موقع کی تاک میں ہے کہ کس طرح پاکستان کو شدید ترین نقصان پہنچایا جا سکے۔ ہم امریکہ کی کنیز آئی ایم ایف کے اسیر ہو کر رہ گئے ہیں اور اب یہ عالمی استعماری ادارہ ہر سطح پر ہمیں ڈکٹیشن دے رہا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ اپنا اصل کام یعنی ملک کے جغرافیائی باڈرز کے دفاع کو چھوڑ کر سیاست اور پلاٹوں کے خرید و فروخت میں مشغول ہے۔ سپریم کورٹ کے شریعت ایپلیٹ بینچ کی حالت یہ ہے کہ سودی معیشت اور ٹرانس جینڈر جیسے قبیح قوانین کے خاتمے کے لیے فیڈرل شریعت کورٹ کے معرکۃ الارا فیصلہ کے خلاف دائر اپیلیں سننے کے لیے تیار نہیں۔ حکمرانوں کی بات کریں تو کرپشن اور فضول خرچی کا دور دورہ ہے۔ آج کی اپوزیشن جب حکومت میں تھی تو ملک کی اسلامی اساس کو قائم و نافذ کرنے میں بری طرح ناکام رہی اور اس نے بھی محض ’اسلامک ٹچ‘ پر اکتفا کیا۔ رہی سہی کسر بے لگام سوشل میڈیا نے پوری کر دی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اسلام اور پاکستان لازم و ملزوم ہیں۔ ملک کو درپیش بظاہر لا ینحل سیاسی، معاشی، معاشرتی، اخلاقی، بین الاقوامی تعلقات و اس سے متعلق معاملات اور تعلیم اور صحت کے مسائل کی بنیادی وجہ اسلام نہیں بلکہ اسلام سے اعراض اور دوری ہے۔ اب وزیراعظم اور آرمی چیف کی سعودی عرب کے ولی عہد کے طلب کرنے پر حاضری ایک نئے مسئلہ کا پیش خیمہ دکھائی دیتی ہے۔ واللہ اعلم! بہرحال اشرافیہ مغرب کو خوش کرنے کے لیے ملک کے اثاثہ جات تک کو کوڑیوں کے بھاؤ بیچنے کے لیے تیار دکھائی دیتی ہے۔ پھر یہ کہ دہشت گردی کا عفریت ہماری جڑوں کو کھوکھلا کر رہا ہے۔ دشمن کا تو کام ہی یہ ہے کہ وہ ہماری کوتاہیوں کو اپنے مفاد میں استعمال کرے اور اگر وہ ایسا نہ کرے تو انتہائی نالائق ہوگا۔ ہمیں تو اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے۔ اگرچہ دہشت گردوں کے پشت پناہ مشرقی اور مغربی دونوں سرحدوں کے پار موجود ہیں لیکن ان کی بیخ کنی اور ان میں سے بعض گروہوں کے ساتھ سنجیدہ مذاکرات کی نیت دکھائی نہیں دیتی۔ بہرحال مستقبل انتہائی مخدوش دکھائی دے رہا ہے۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم آخرت کی فلاح جو کہ حقیقی فلاح ہے، اس کو پانے کے لیے نظریۂ پاکستان کو عملی تعبیر دیں اور آخرت کا خسارہ جو کہ حقیقی خسارہ ہے، اس سے بچنے کے لیے صراط مستقیم پر گامزن ہو جائیں۔ یہ کام آسان نہیں لیکن ناگزیر ہے، جس کے لیے ملک کے تمام سٹیک ہولڈرز کو پُر خلوص اور کمر توڑ محنت کرنا ہوگی۔ دنیا چاہے لبرل، سیکولر آرڈر کے حق میں کتنے ہی دلفریب دلائل پیش کرے، حقیقت یہ ہے کہ اسلام کے نام پر قائم ہونے والے ملک میں ان کی کوئی جگہ نہیں۔ بقول اقبال :
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر،
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمیﷺلہٰذا ملک میں اللہ کے دین کو نافذ اور قائم کیے بغیر اللہ کی رضا حاصل نہیں ہو سکتی اور نہ ہی دنیاوی طور پر دیرپا خوشحالی آ سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ حکمرانوں، مقتدر طبقات، اشرافیہ کے دیگر اجزاء ترکیبی اور عوام سب کو اس حقیقت کو سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ تب ہی 23 مارچ کی اصل روح کو پہچاننا اور اس پر عمل پیرا ہونا ممکن ہوگا۔
یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات!
tanzeemdigitallibrary.com © 2025