قحط الرجالعامرہ احسان
امتحان بہت بڑا ہے۔ فلسطین میں جنگ بندی ہوئی تھی تو سکھ کا سانس لیا۔ ضمیر پر لدامنوں بوجھ کچھ سرکا! مگر تا بہ کہ؟ ٹرمپ کے آتے ہی دنیا سے سکون واطمینان، دانائی، فراست، انسانیت کی ہر رمق رخصت ہوئی۔ سرمایہ دارانہ نظام اپنی بدترین ہیئت میں دنیا بد صورت بنا چکا۔ ہم مسلمان! رمضان کا ماہِ مبارک جس میں گیا گزرا ایمان بھی کچھ تازگی پاتا ہے۔ مسلمان کبھی اتنے مسلح نہ تھے۔ دولت سے لدے نہ تھے جتنے آج ہیں۔ مگر!
سبب کچھ اور ہے، تو جس کو خود سمجھتاہے،
زوال بندۂ مومن کا بے زری سے نہیں
غزہ کے گرد اردن، مصر، سعودی عرب، امارات، قطر، ایٹمی پاکستان۔ سبھی کی فوجیں، ہوائی بحری جنگی جہاز، لدے میزائل سبھی کچھ تو ہے۔ جہاز نمائشی طور پر گھن گرج سے دل دہلا تے گزرتے ہیں، مگر دشمنانِ اسلام، دشمنانِ انسانیت کے خلاف ایک پٹاخہ بھی نہیں! بدترین دشمنِ دین ٹرمپ کے ساتھ اربوں کھربوں کی سرمایہ کاری ہے۔ امارات نے حال ہی میں فرانس سے ایک بڑا جی ڈبلیو ڈیٹا سینیٹر کیمپس بنا کر دینے کا معاہدہ کیا ہے۔ غزہ میں چند قدم پر سحر و افطار کا لقمہ میسر نہیں۔ باوجودیکہ عالمی سطح پر صرف معاشی نہیں سیاسی حیثیت بھی ان بڑے مسلم ممالک کی امریکہ اسرائیل دوستی کی بنا پر بہت مضبوط ہے۔ مگر منظر یہ ہے کہ صرف 18 دن جنگ بندی کے بعد وہی خونیں مناظر امتحان بنے کھڑے تھے۔ پکار نے والا غزہ سے اے امت ِمحمد صلی اللہ علیہ وسلم ! کہہ کہہ کر آوازیں لگا رہا ہے۔ ’تم کہاں ہو۔ ہمارے سحر و افطار (اول تو میسر نہیں!) خون میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ ہماری روٹی کا ہر لقمہ خون میں تر بتر ہے۔ منبروں پر بیٹھنے والے، پہلی صف میں جگہ پانے والے، امت کے علماء، افتاء والے سب کہاں ہیں؟ تم غزہ پر مظالم بارے بات تک نہیں کرتے؟ بھوک، محاصرہ، تشدد، بمباری اور امت ِمحمدؐ سورہی ہے؟‘
بلجیم میں کافروں نے غزہ کے غم میں، تازہ حملوں پر فٹ بال میچ منسوخ کروا دیا۔ ہم کرکٹ کھیل رہے ہیں! گو را صحافی کریس ہیجیز(Pulitzer انعام یافتہ)، انعام جیت کر شرمساری سے کہتا ہے: ہم! اے غزہ کے بچو! تمھارے آگے شکست کھا گئے ہیں۔ روتے ہوئے کہتا ہے۔ یہ اذیت ناک احساسِ جرم ہے جو ہمیں لاحق ہے۔ ہم کما حقہ ٗکوشش نہ کر پائے۔ ہم، بہت سے رپورٹر رفح بارڈر پر جائیں گے، غزہ کی سرحد پر احتجاج کے لیے ۔ ہم لکھیں گے، فلم بنائیں گے، ہم تمھاری کہانی بار بار سنائیں گے۔ یہ بھی بہت ناکافی ہے۔ مگر شاید ہمیں حق مل جائے تم سے معافی مانگنے، معذرت کرنے کا! (کم از کم درد سے یہ کراہ تو رہے ہیں! ہم اخوتی، دینی رشتہ داروں کی نسبت! جو چپکے منہ موڑے بیٹھے ہیں۔)
دنیا میں کتنا جھوٹ ہے! عورت کا دن، ماں کا، باپ کا، بچوں کا دن، تعلیم کا دن! مجبور و مقہور بچہ یونیورسٹی کے ملبے سے پھٹی کتابیں اکٹھی کر رہا ہے کہ جلا کر کچھ پتے ابال کر کھانے پینے کا سامان کر سکے۔ ماں کا دن؟ بچی کہتی ہے، میرا سب سے بڑا خوف یہ ہے کہ گھر ہو نہ ہو، میری ماں مجھ سے نہ چھن جائے۔ اور نتین یاہو، ٹرمپ، مسک غزہ کی مائوں سے بچے، بچوں سے مائیں چھیننے، گھر خاندان بھسم کر دینے کے درپے ہیں۔ ڈیڑھ سال میں دوبارہ، جنگ بندی توڑ کر CNN کے مطابق رات بھر میں بے شمار مقامات پر وحشیانہ بمباری کر کے 400 سے زائد شہید کر دیئے ایک ہی ہلے میں۔ اس میں 170 بچے تھے۔(اب تک 00 8سے زیادہ شہادتیں ہو چکی ہیں۔) اسرائیلی فوج کا حکم تھا کہ سب نکل جاؤ۔ یہ نوجوان ہچکیاں لیتے بتا رہا ہے رو رو کر۔ یہ چھوٹی سی مردہ بچی سڑک پر پڑی تھی۔ میں نے اُسے ڈبے میں ڈالا، سائیکل کے پیچھے رکھ کر لے آیا۔ دیوانہ وار پکار رہا ہے: عرب کہاں ہیں؟ مسلمان کہاں ہیں؟ میں نہیں جانتا یہ بچی جو بمباری سے مری پڑی تھی، کون ہے۔ یہ کیسی جنگ ہے؟ دنیا کہاں ہے؟ مسلمان کب اٹھیں گے؟ مگر! مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے!
امریکہ کی عطا، تازہ بم جو مہلک ترین ہے، خان یونس میں گرا، اس کی قوت سے علاقہ بھر میں زلزلہ برپا ہوگیا، زمین پھٹ گئی۔امریکہ نے پورے مشرقِ وسطیٰ کو آگ میں جھونکا۔ غزہ، یمن، لبنان، شام۔ اسرائیل چہار جانب چاند ماری کر رہا ہے۔ امریکہ سر پرست ہے اور باقی کوئی روکنے والا نہیں۔ انسانی حقوق کے نام پر سینکڑوں ہزاروں ادارے، اربوں کے اخراجات، اصول قاعدے وضع کرتے کا نفرنسیںبپا کرتے، سوٹ بوٹ پہن، خوشبوئیں بکھیرتے یک جاہوتے ہیں۔ یہ سب مل کر اگران مٹھی بھر بے نتھے بیلوں کو نکیل نہیں ڈال سکتے، غیر قانونی، تارکین وطن کہہ کر جس طرح ہتھکڑیاں، زنجیریں باندھتے، جہازوں میں لادتے ہو، مکرو فریب کی اس چال بازی پر انھیںبھی جکڑو باند ھو۔ یہ لاکھوں لاحاصل لکھے قانونی صفحے غزہ والوں کو دے دو۔وہ جلا کر کچھ دال دلیہ تو پکا لیں۔ اگر تم وہ بھی فراہم کر سکو!
یہ مراکش کا ڈاکٹر آیا ہے۔ روتا ہے کہ میں تو بچوں کا علاج، آپریشن کرنے آیا تھا مگر ہر طرف لاشیں ہیں! اب تو خود اسرائیل میں شدید رد عمل ہے۔ تل ابیب میں ایک لاکھ لوگ (اسرائیلی)، اپنے جھنڈے اٹھائے نتین یاہو کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ ’نہ ختم ہونے والی جنگ اس نے مول لے لی ہے۔ اسے صرف اپنی حکومت بچانے کی فکر ہے۔ یرغمالیوں کی نہیں۔‘ غزہ کے ننھے بچوں کی تصویریں انھوں نے اٹھا رکھی ہیں۔ ایک بڑی تعداد اس کے گھر کے باہر مظاہرے کو جارہی ہے۔ امریکہ میں ٹرمپ اور اسرائیل میں نتین یا ہونا پسندیدہ ہو چکے۔ اللہ کی طرف سے اظہارِ ناپسندیدگی خوفناک طوفانوں کی صورت میں بہت بڑے علاقے پر چھایا ہوا ہے۔ گھر کچرا ہو چکے ، لاشیں بکھری پڑی ہیں۔ درخت پھٹے پڑے ہیں۔ فطرت کی چنگھاڑان پر سے ہو گزری ہے۔ جو کرنے پر قادر ہوں اور نہ کریں، شاید برطانیہ اس زد میں آیا اور نہایت غیرمتوقع طور پر یورپ کے سب بڑے ہیتھرو ایئرپورٹ پر بجلی چلی گئی، آگ غیر اعلانیہ ہی بھڑک اٹھی۔ 48 لاکھ پائونڈ کا نقصان دیکھتے ہی دیکھتے ہوگیا! سائنس، ٹیکنالوجی سب جواب دے گئی۔ اسرائیلی فوجی کیمپ پر خونخوار بلی نما جانورLynx جا کر حملے کرتے رہے۔ ان کے فوجیوں پر غصہ نکالا، سینگوں جیسے کھڑے کان، تیز دانت، غصیلی بلا صورت تیز پنجوں سے حملہ آور، سپاہی گرا پڑا ہے سہما ہوا اور یہ غزہ کے معصوموں کا بدلا چکانے کو تلا کھڑا ہے۔ سبحان اللہ!
امریکہ میں بالخصوص مسلمانوں، طلبہ کی شامت ہے۔ اصل جرم غزہ کی ہمنوائی ہے جس پر سبھی کو عدم تحفظ میں مبتلا کر رکھا ہے۔ اگر آپ حقیقی انسانی رد عمل اسرائیلی وحشت پر دیکھنا چاہیں تو وہ اٹلی کی ممبر پارلیمان ستیفا نیا اسکاری کا ہے۔ نہایت جذباتی، دردمندانہ تقریر میں دنیا کو جھنجوڑا ہے اس ظلم پر جو اسرائیل کے ہاتھوں جاری وساری ہے۔اپنی تقریر میں کہتی ہے: ’پہلامنظر جو صبح سویرے میں نے دیکھا، وہ ایک دو سالہ بچے کی لاش تھی اسرائیلی بمباری کے ہاتھوں! میرے ساتھ میری 8 سالہ بچی لیٹی تھی اور یہ منظر میرے لیے شدید اذیت ناک تھا۔ جو یہ بچے اور ان کے والدین جھیل رہے ہیں وہ ایک بھیانک خواب ہے۔ یہ دہشت گرد ریاست مسلسل بمباری کرتی رہی اپنی کرسی بچانے کو۔ انسانیت کے خلاف یہ جنگی جرم ہے۔ (عام شہری ہیں۔) اس نے اندر کھانا پانی جانے نہ دیا۔ اب اس میں ایک اور پاگل آدمی شامل ہو گیا ہے جو کہتا ہے کہ وہ غزہ کے ساحل پر، لاشوں، ملبے اور خون پر ’ری وی ایرا‘ پکنک، سیاحت کا مرکز بنائے گا۔کیا ہم پاگل ہو گئے ہیں؟… اپنے اندر حوصلہ پیدا کر و سچ کہنے کا… ہم نے سبھی کچھ کھو دیا ہے۔ سارے حقوق،انصاف، فہم و فراست، ضمیر اور سب سے بڑھ کر ہم نے انسانیت کھو دی ہے! (مسلسل تالیاں بجتی رہیں۔)
ٹرمپ کی جنگجو یا نہ پالیسی نے اسے سخت متنازعہ بنا دیا ہے۔ جن 50 لاکھ لاطینی امریکی مہاجرین کو بائیڈن نے اجازت دی تھی، ان سب کو ٹرمپ نکال رہا ہے۔گرین لینڈ پر امریکی قبضہ جمانے پر بضد ہے۔ کینیڈا کے وسائل پر نظریں جمائے ٹرمپ نے الحاق کا شوشہ چھوڑ دیا تھا، اسے امریکہ میں ضم کرنے کو۔ اس پر شدید اضطراب کینڈا میں ہے۔ قبل از وقت انتخابات کاوہاں پلان ہے جس میں ایسی مضبوط حکومت بنے جو ٹرمپ کے غاصبانہ رویوں سے بخوبی نمٹ سکے! کینیڈا سے امریکہ جانے والوں کا تناسب یک لخت 5 لاکھ گر گیا ہے! یوں ٹرمپ تکبر کے نشے میں چور، دنیا اور امریکہ کے لیے کوئی نیک شگون نہیں!