ڈاکٹر اسرار احمدؒ نے شیخ الہندؒ کا وہ خواب پورا کر دکھایا جو اُنہوں
نے عوامی دروس ِ قرآن کے حوالے سے دیکھا تھا : خورشید انجم
ہماری اشرافیہ ، سول اور ملٹری بیوروکریسی کے مفادات مغربی
نظام سے وابستہ ہیں اس لیے یہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ یہاں
اسلام کا نظام نافذ ہو : رضاء الحق
23مارچ 1940ء کو قرارداد پاکستان کے ساتھ ساتھ فلسطین کے
حق میں بھی ایک قرارداد پاس ہوئی تھی : سید فیضان حسن
’’رمضان ، قرآن ، پاکستان اور فلسطین ‘‘
پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں معروف تجزیہ نگاروں اور دانشوروں کا اظہار خیال
میز بان : آصف حمید
سوال: رمضان ،قرآن اور پاکستان کا آپس میں جو تعلق ہے اس کو تھوڑا سا واضح فرما دیں ؟
خورشیدانجم: رمضان، قرآن اور پاکستان کہنے کو تو تین الفاظ ہیں لیکن ان تین الفاظ کے اندر بھی ایک مماثلت پائی جاتی ہے۔ جس طرح یہ آپس میںکم و بیش ہم وزن الفاظ ہیں، اسی طرح یہ اپنے مفہوم کے اعتبار سے بھی قریب ہیں ۔ جہاں تک رمضان اور قرآن کا تعلق ہے وہ تو قرآن مجید نے خود بیان کر دیا:
{شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ} (البقرہ:185)’’رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا‘‘ رمضان کی فضیلت کی وجہ قرآن ہی ہے ۔ قرآن کے ساتھ جس چیز کی نسبت ہو جائے اس کی فضیلت بدرجہا بڑھ جاتی ہے ۔ سال کے بارہ مہینوں کی طرح رمضان بھی ایک مہینہ ہے لیکن چونکہ اس میں قرآن نازل ہوا اس لیے یہ مہینوں کا سردار ہوگیا ۔ اس طرح جس رات میں یہ نازل ہوا اس رات کی فضیلت بڑھ گئی ۔ جیسا کہ فرمایا :
{لَـیْلَۃُ الْقَدْرِلا خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَہْرٍ(3)}(القدر) ’’لیلۃ القدر ہزار مہینوں سے بہترہے۔‘‘
اسی طرح جو فرشتہ قرآن کو لے کر آیا (جبرائیل امینؑ) وہ سید الملائکہ ہیں۔ جس ہستی کے قلب مبارک پر یہ نازل ہوا وہ سید المرسلینﷺ ہیں ،تمام انبیاء کرامؑ کے سردار۔ اسی طرح جو اُمت اس پر ایمان لائی اُس کو اللہ تعالیٰ نے خیر اُمت کا خطاب دیا ہے:
{کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ}(آل عمران:110) ’’تم وہ بہترین اُمت ہو جسے لوگوں کے لیے برپا کیا گیا ہے‘‘
پھرجس بستی میں اس کا بیشتر حصّہ نازل ہوا ہے اُسے اُم القُریٰ کہا گیا ہے۔ بہرحال رمضان اور قرآن کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ اس تعلق کی تفصیل یہ ہے کہ دن میں انسان روزہ رکھ کر اپنے حیوانی اور سفلی جذبات پر قابو پائے ، تقویٰ حاصل کرے اور رات کو قرآن کے ساتھ اپنی راتیں گزارے ، پھر قرآن کو سیکھے ، سمجھے اور اپنی زندگی کا لائحہ عمل بنائے ۔ ویسے تو اللہ تعالیٰ کی ساری نعمتیں عظیم ہیں جن پر اللہ کا شکر ادا کرنے کا حق ادا کیا ہی نہیں جا سکتا لیکن ان میں سب سے بڑی نعمت قرآن ہے ۔ جیسا کہ فرمایا :
{ہُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الْہُدٰی وَالْفُرْقَانِ ج} ’’لوگوں کے لیے ہدایت بنا کر اور ہدایت اور حق و باطل کے درمیان امتیاز کی روشن دلیلوں کے ساتھ۔‘‘
اب جس قدر نعمت بڑی ہوگی اس کا شکر اداکرنے کا تقاضا بھی بڑا ہوگا ۔ لہٰذا قرآن جیسی نعمت پر شکر کا تقاضا ہے کہ ہم اسے اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں نافذ کریں۔ پاکستان کا قیام بھی خدائی تدابیر میں سے ایک تھا ۔ ہندوؤں اور انگریزوں کی مخالفت کے باوجود اگر پاکستان بن گیا تو یہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک معجزہ ہے ۔ اسی طرح قرآن کا نزول لیلۃ القدر میں ہوا اور پاکستان بھی رمضان کی 27ویں شب کو وجود میں آیا۔ غالب گمان یہی ہے کہ27وین شب ہی لیلۃ القدر ہے۔ پھر بانیانِ پاکستان نے قیامِ پاکستان کا جو مقصد بتایا ہے وہ قرآن کے نظام کا نفاذ ہےجیسا کہ علامہ اور قائداعظم اقبال کے ارشادات سے واضح ہے ۔ پھر تاریخ انسانی میں سب سے بڑی ہجرت پاکستان کے لیے کی گئی اور اتنی بڑی قربانیاں صرف اس لیے دی گئیں کہ ایک ایسا خطہ حاصل کیا جائے جہاں اسلام کا نظام نافذ ہو ۔ تحریکِ پاکستان محض اتفاقیہ نہیں تھی بلکہ اس کے پیچھے احیائے اسلام کی طویل تاریخ اور جدوجہد ہے ۔ جتنے بھی مجددِ دین امت کی تاریخ میں گزرے ہیں ان کی عملی میراث ہندوستان میں بھی پہنچی ہے اور پھر مجدد الف ثانی ؒ یہاں پیدا ہوئے جنہوں نے فتنہ اکبری کے خلاف جدوجہد کی۔ پھر احیاء اسلام کی یہ تحریک آگے بڑھی اور اسلام کے نفاذ کے لیے ایک علیحدہ خطۂ زمین کا مطالبہ کیا گیا ۔قراردادِ مقاصد کا پاس ہونا بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی تھی ۔ اس کے بعد 31 علماء کے 22 نکات بھی اس ضمن میں ایک اہم پیش رفت تھی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو ایٹمی قوت بنایا اور یہ ساری چیزیں ظاہر کرتی ہیں کہ قدرت کو اس خطۂ ارضی سے کوئی اہم کام لینا مقصود ہے ۔ قرآن اور پاکستان کے تعلق کے حوالے سے یہ بات بھی مدنظر رہے کہ قرآن کی دعوت کا جتنا کام اُردو زبان میں ہوا ہے اُتنا شاید عہد حاضر میں کسی اور زبان میں نہیں ہوا ۔ خاص طور پر شیخ الہندؒ نے جو خواب دیکھا تھا کہ قرآن کے دروس عوامی سطح پر ہوں تو بانی تنظیم اسلامی محترم ڈاکٹر اسرار احمدؒ نے وہ خواب پورا کر کے دکھایا ہے ۔
سوال:یقیناً پاکستان کسی خاص مقصد کے لیے بنا تھا لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ وہ مقصد ابھی تک حاصل نہیں ہوا۔ 1947 ء سے لے کر 2025 ءتک ہم نے اس ملک میں پارلیمانی جمہوری نظام بھی دیکھ لیا ، صدارتی جمہوری نظام بھی دیکھ لیا ۔ آمریت کو بھی کئی بار دیکھ لیا اور ہائبرڈ نظام بھی دیکھ لیا ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یا تو ہماری نیتوں میں فتور ہے کہ ہم ابھی تک وہ مقصد حاصل کرنے میں ناکام ہیں جس کے لیے پاکستان بنا تھا یا کچھ طاقتیں ایسی ہیں جو چاہتی ہیں کہ پاکستان میں اسلام کا نظام آنے ہی نہ دیا جائے ۔ جب اتنے نظام ہم نے دیکھ لیے ہیں تو کیوں نہ حکومت و مقتدر طبقات اپنے دل میں تھوڑی نرمی پیدا کریں کہ اسلام کا نظام بھی نافذ کرکے دیکھ لیا جائے ؟
رضاء الحق:اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان خاص مشیت الہٰی کے تحت معرض وجود میں آیا اورتحریک پاکستان کے قائدین کا ویژن بھی بڑا واضح تھا کہ یہاں اسلام کو نافذ کیا جائے گا اور دور ملوکیت میں اسلام کے چہرے پر جو بدنما دھبے لگ گئے تھے انہیں صاف کرکے اسلام کا اصل روشن چہرہ دنیا کے سامنے پیش کیا جائے گا ۔ قائداعظم سے پوچھا گیا کہ پاکستان کا آئین کیا ہو گا تو انہوں نے فرمایا کہ پاکستان کا آئین 13 سو سال پہلے سے قرآن کی صورت میں موجود ہے ۔ بانی پاکستان نے قیام پاکستان کے بعد پہلا ادارہ ڈیپارٹمنٹ آف ریلیجس ریکنسٹرکشن کے نام سے قائم کیا جس کا مقصد نصاب تعلیم سمیت تمام شعبوں میں اسلامائزیشن تھا ۔ اس کا سربراہ انہوں نے علامہ محمد اسد کو بنایا تھا جو یہودیت چھوڑ کر مسلمان ہوئے تھے۔ لیکن قائداعظم کی رحلت کے بعد اس ادارے کو بند کر دیا گیا اور علامہ محمد اسد کو پہلے اقوام متحدہ میں سفیر بنا کر بھیجا گیا ، بعدازاں انہیں عہدے سے ہی فارغ کر دیا اور اس ادارے کی عمارت کو آگ لگا کر وہ سارا کام تباہ کر دیا گیا جو علامہ محمد اسد نے کیا تھا ۔ ان کے خلاف یہ سب کرنے والا ظفراللہ خان قادیانی تھا جس کے بارے میں ثبوت موجود ہیں ۔ بہرحال بانیان پاکستان کے دنیا سے جانے کے بعد بدقسمتی سے پاکستان پر وہ سیاسی اشرافیہ اور سول و ملٹری بیوروکریسی قابض ہوگئی جن کوانگریزوں نے تربیت دے کر پروان چڑھایا تھا ۔ ان بھورے انگریزوں کی محافل میں اسی انداز سے شراب اور شباب کا دور چلتا تھا جس طرح انگریزی دور میں چلتا تھا۔ شہاب نامہ میں لکھا ہے کہ آزادی کے کچھ عرصہ بعد کشمیر کے بارڈر پر جنرل یحییٰ خان رمضان میں سرعام بیٹھ کر شراب پی رہا تھا اور وہی یحییٰ خان مارشل لاء کے دور میں پاکستان کا صدر بن گیا ۔ پھر یہ کہ آزادی کے بعد انڈیا میں جاگیردارانہ نظام ختم کر دیا گیا جبکہ پاکستان میں اسے ختم نہیں کیا گیا ۔ بدقسمتی سے آزادی کے بعد ہم پر ایسے لوگ مسلط ہوگئے جنہوں نے اسلام کی بجائے مغربیت اور سیکولرازم کو سپورٹ کیا ۔ چونکہ اس اشرافیہ اور سول و ملٹری بیوروکریسی کے مفادات مغربی نظام کے ساتھ وابستہ ہیں اس لیے یہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ یہاں اسلام کا نظام نافذ ہو ۔وہ تو یہی چاہیں گے کہ مال و دولت ، کرسی و اقتدار اور طاقت ان کے ہاتھ میں رہے ۔ وہ جانتے ہیںکہ اسلام اگر اپنی روح کے مطابق نافذ ہو جائے تو پھر خلیفہ وقت سے بھی جواب طلب کیا جاتاہے کہ یہ جو لباس آپ نے پہنا ہوا ہے یہ کہاں سے آیا ؟ جبکہ ہمارے ہاں مخصوص طبقہ کے لوگ ہی نظام پر مسلط رہنا چاہتے ہیں، چاہے کسی بھی پارٹی کی حکومت ہو ۔ اس نظام کو بدلنے کا طریقہ ایک ہی ہے جو منہج انقلاب نبوی ﷺکی روشنی میں واضح ہے کہ دعوت کے ذریعے لوگوں کے دلوں کو اسلام کی جانب راغب کیا جائے، قرآن کی تعلیم عام کی جائے اور ان تربیت یافتہ لوگوں پر مشتمل ایک منظم جماعت تشکیل دے کر نفاذِ اسلام کے لیے تحریک چلائی جائے ، اس تحریک میں شامل افراد نفاذ اسلام کی جدوجہد میں اپنی جان دینے کے لیے بھی تیار ہوں ۔
سوال:پاکستان میں نفاذ اسلام کا معاملہ آگے کیوں نہ بڑھ سکا ؟ کیا عوام نہیں چاہتے تھے ، دینی جماعتوں نے اپنا کردار ادا نہیں کیا یا ابھی وقت نہیں آیا ؟
خورشیدانجم: اصل میں قصور وار تو ہم سب ہیں۔ کسی ایک پر جرم ڈال کر ہم کسی دوسرے گروہ کوبری الزمہ ذمہ قرار نہیں دے سکتے لیکن ظاہر ہے جس کی ذمہ داری جتنی زیادہ ہےاسی قدر وہ زیادہ قصوروار ہے ۔ سب سے پہلی اور بڑی ذمہ داری تو حکمرانوں کی بنتی ہےلیکن حکمرانوں کی تاریخ ایک المیہ ہے ۔ پہلے 4 سال تو گاڑی پٹری پر چلی ، قرارداد مقاصد پاس ہوئی ، لیکن پھر کیسے کیسے گورنر جنرل رہے جو بات بھی نہیں کر سکتے تھے اور ملک کے معاملات کون چلاتا تھا سب کو پتا ہے۔ اس کے بعد مارشل لاء آجاتاہے اور اس کے ملبے سے ایک اور مارشل برآمد ہوگیا ۔ اس کے بعد سیاستدانوں نے ٹریک ہی تبدیل کر لیا ۔ بیرسٹر فاروق حسن بہت نامور وکیل تھے، وہ انڈیا گئے تو ان سے پوچھا گیا کہ آخر آپ نے پاکستان کس لیے حاصل کیا ، کونسی ایسی چیز تھی جو ہندوستان میں نہیں تھی ۔وہ کہتے ہیںکہ میرے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا۔ پہلی چیز تو یہ ہے کہ مقصد واضح ہونا چاہیے ۔ دینی جماعتوں میں سے بعض پہلے قیام پاکستان کی مخالف رہیں پھر جب جماعت اسلامی نے الیکشن میں حصہ لینا شروع کیا تو جمعیت علمائے اسلام اور دیگر دینی جماعتیں بھی اس دوڑ میں شامل ہوگئیں۔جب یہ جماعتیں ایک دوسرے کے مقابلے میں انتخابات میں کھڑی ہوگئیں تو ان کا ووٹ بینک تقسیم ہو گیا اور سیکولر طبقہ بازی لے گیا ۔ آپس میں مدمقابل آنے کا نقصان یہ بھی ہوا کہ ایک دوسرے کےخلاف فتاویٰ آنے شروع ہوئے اور عام مسلمان ان سے متنفر ہوتا گیا اور ان کا ووٹ بینک کم ہوتا گیا ۔ عوام کا تعلق بھی اسلام کے ساتھ ایسا نہیں ہے جیسا ہونا چاہیے ۔ پھر یہ کہ عوام کو دین کی طرف لانے کے لیے جس محنت کی ضرورت تھی وہ بھی دینی جماعتوں کے پلیٹ فارمز سے نہیں ہوئی ۔ زیادہ تر دعوت مسلکی بنیادوں پر ہوتی رہی ۔ اکثر دینی جماعتوں نے اسلام کو صرف آخرت کے حوالے سے پیش کیا ہے حالانکہ دین تو دنیوی مسائل کا بھی حل دیتا ہے۔ قرآن صرف مذہبی عقائد کی کتاب نہیں ہے بلکہ اسلام کا سیاسی ، معاشی اور معاشرتی پہلو بھی پیش کرتاہے۔ یہ ایک زندہ کتاب ہے جبکہ ہم نے اسے مردوں کے لیے وقف کر دیا۔ بہرحال اس کی ذمہ داری دینی طبقے پر بھی عائد ہوتی ہے ۔
رضاء الحق: پاکستان اتنا ہی اسلامی ہے جتنا ہم مسلمان ہیں ۔ دوسری طرف مذہبی جماعتوں نے بھی کوئی اچھا تاثر نہیں چھوڑا ۔ کبھی ایک پارٹی کے ساتھ اتحاد کبھی دوسری کے ساتھ ، بار بار موقف بدلنا اور سیکولرز کے ساتھ گٹھ جوڑ کرنا وہ چیزیں تھیں جن کی وجہ سے انہوں نے عوام میں اپنا اعتماد کھو دیا ۔ریاستی سطح پر 1971ء کے سانحہ سے بھی ہم نے سبق نہیں سیکھا اور بار بار وہی غلطیاں دہرائے جارہے ہیں ۔
خورشیدانجم:عوام کو اسلامی نظام کی طرف راغب کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ان کو دین کے جامع تصور سے آگاہ کیا جائے ، دینی ذمہ داریاں بتائی جائیں، نفاذ دین کی جدوجہد کی اہمیت اور ضرورت سمجھائی جائے ، انہیں بتایا جائے کہ نفاذ دین کی جدوجہد اُخروی نجات کے لیے بھی ضروری ہے اور اس کے دنیوی فوائد بھی ہیں ۔ ان خطوط پر عوام کو دعوت نہیں دی گئی ۔
رضاء الحق: علماء کرام کے پاس خطاب جمعہ کا پلیٹ فورم موجود ہے ۔ بغیر کسی خرچ اور کوشش کے عوام کے جم غفیر تک آپ کی رسائی ہر جمعہ کو ہو جاتی ہے ۔علماء اس موقع سے فائدہ اُٹھائیں اور عوام کو نفاذ دین کی ضرورت اور اہمیت بتائیں بجائے اس کے کہ وہاں فرقہ وارانہ باتیں ہوں ۔
خورشیدانجم:اُمید پر دنیا قائم ہےلیکن خالی اُمید سے بات نہیں بنے گی۔یقیناً میڈیا بہت بڑا ذریعہ ہے لیکن اس سے خرابی زیادہ آئی ہے ۔ جب تک ہم دعوت کے کام کو بڑھائیں گے نہیں اور دعوت کا ہر ہر اندازنہیں اپنائیں گے تب تک نفاذ اسلام کی منزل حاصل نہیں ہوسکتی۔ اللہ کے رسول ﷺنے دعوت کا ہر انداز اختیار کیا ۔ لوگ فاران کی چوٹیوں پر کھڑے ہوکر واصباحا کا نعرہ لگاتے تھےتو آپ ﷺنے بھی لگایا ، البتہ آپ ﷺ نے اس میں منکر کو شامل نہیں کیا ۔ آپ ﷺعکاز کے میلے میں جاکر لوگوں کو دعوت دیتے تھے جہاں ہر علاقے سے تجارتی قافلے آتے تھے ۔ اسی طرح آپ ﷺ ایک ایک فرد کے پاس جاکر بھی اس کو دعوت دیتے تھے ۔ آج بھی دعوت کے جتنے جائز ذرائع اور طریقے موجود ہیں ان سب کو اختیار کیا جانا چاہیے ۔
سوال:23 مارچ 1940 ء کو جب قرارداد پاکستان پاس ہوئی تھی تو اس کے ساتھ ہی فلسطین کی آزادی کے حق میں بھی ایک قرارداد پاس ہوئی تھی۔ گویا پاکستان اور فلسطین کا شروع سے قرب ہے۔قائداعظم کے بیانات بھی فلسطین کے حق میںاور صہیونی ریاست کے قیام کے خلاف تھے ۔ پاکستان اور فلسطین کا آپس میں کیا رشتہ ہے ، اس بارے میں کچھ بتائیں ؟
سید فیضان حسن:1940ء میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میںچار قراردادیں پاس ہوئی تھیں ۔ ان میں قرارداد لاہور ( جسے ہندو میڈیا نے قرارداد پاکستان قرار دیا ) کے بعد دوسرے نمبر پر عبدالرحمان صدیقی نے فلسطین ریزولوشن پیش کی تھی جس کو پیش کرنے کا اعلان قائداعظم نے کیا تھا ۔ عبدالرحمان صدیقی نے 1939ء میںمسئلہ فلسطین پر بلائی گئی قائرہ کانفرنس میںمسلم لیگ کی نمائندگی کی تھی ۔ اسرائیل کے قیام کے بعد قائداعظم کو خط لکھا گیا کہ آپ اسرائیل کو تسلیم کرلیں ۔ اس کا جواب قائداعظم نے اسرائیل کو نہیں دیا بلکہ امریکہ کے صدر ٹرومین کو لکھا کہ آپ فلسطین میں ایک نئی جنگ چھیڑ کر عربوں اور یہودیوں دونوں کے ساتھ ظلم کر رہے ہیں ۔ یہ خط اس وقت کے پاکستانی سفیر اصفہانی صاحب نے خود جاکر امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کو پیش کیا تھا جس کی ویب سائٹ پر یہ خط آج بھی موجود ہے ۔ علامہ اقبال کا جب انتقال ہوا تھا تو عین اس وقت بھی قائداعظم فلسطین کے حوالے سے ایک کانفرنس کی صدارت کر رہے تھے جس کو پھر انہوں نے تعزیتی اجلاس میں تبدیل کر دیا۔ اسی طرح لیاقت علی خان جب امریکہ کے دور ے پر گئے تھے تو ان کو یہودیوں کی طرف سے کہا گیا کہ آپ اسرائیل کو تسلیم کرلیں تو ہم آپ کو بہت زیادہ مال و دولت دیں گے ۔ انہوں نے تاریخی جملہ کہا تھاکہ : برخوردار ! ہماری روح برائے فروخت نہیں ہے۔ مسلم لیگ نے 1940ء سے لے کر 1947ء تک فلسطین ڈے بھی منایا اور فلسطین فنڈ بھی قائم کیا ۔یہ پاکستان کی ابتدا میں فلسطین پالیسی تھی لیکن آج کبھی ہمارے وفود اسرائیل جارہے ہیں ، کبھی کوئی خاتون اسمبلی میں کھڑی ہو کر اسرائیل کو تسلیم کرنے کی بات کرتی ہیں۔ جب ہمارے حکمران کہتے ہیں کہ ہم نے قائداعظم کا پاکستان بنانا ہے تو انہیں قائداعظم کی پالیسی کو بھی اپنا نا چاہیے اور بانیان پاکستان کے فلسطین کے حوالے سے موقف کو نصاب کا حصہ بنانا چاہیے ۔
سوال: کچھ سالوں سے اسرائیل رمضان کے آخری عشرہ میں فلسطینیوں پر بہت زیادہ مظالم ڈھا رہا ہے ، اس مرتبہ بھی اس نے ایسا ہی کیا ہے اور اس کے لیے اس نے جنگ بندی کا معاہدہ بھی توڑ دیا جس کا کریڈٹ ڈونلڈ ٹرمپ لے رہا تھا ۔ اس کے بعد 900 کے قریب فلسطینیوں کو شہید کر دیا ہے ۔ یہ بتائیے کہ اسرائیل آخر چاہتا کیا ہے اور اس کے اہداف کیا ہیں ؟
رضاء الحق:اسرائیل سے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے کہ تم ایسا کیوں کر رہے ہو ۔ وہ نہ تو اقوام متحدہ کی مانتا ہےا ور نہ ہی امریکہ کے سامنے جوابدہ ہے ۔ 19 جنوری سے نافذ العمل جنگ بندی کا معاہدہ توڑتے ہوئے اس نے مسلسل فلسطینیوں کا قتل عام کیا ہے ۔ اس کے علاوہ غزہ میں خوراک پہنچانے کے حوالے سے جو معاہدہ تھا اُس میں بھی رکاوٹیں ڈال رہا ہے۔ وہاں جو ہیوی مشینری درکار تھی، اس کو بھی نہیں جانے دے رہا ، پانی اور بجلی بھی بند کر رہا ہے۔ جب وہ غیر یہودیوں کو جنٹائل اور گوئم سمجھتے ہیں تو پھر ان کے نزدیک معاہدوں کی کیا اہمیت ہے ۔ امریکہ میں ٹرمپ یہودی لابی کی مدد سے ہی آیا ہے ۔ اس کےپہلے دور کے کارناموں کے خلاف کیس کھلے ہوئے تھے ، FBIبھی اس کی تحقیق کر رہی تھی لیکن پھر اچانک یہ ساری چیزیں بند ہوگئیں اور وہ صدر بن گیا ۔ اب ایک نیا ٹرینڈ بن گیا ہے کہ پاکستانی نژاد لوگ اسرائیل جاکر ملاقاتیں کرتے اور اخبارات اور چینلز کو انٹرویو دیتے ہیں ۔ یہ سلسلہ پرویز مشرف کے دور سے ہی شروع ہو گیا تھا ۔ ان کی ذہن سازی اس طرح کی گئی ہے کہ ان کو اسرائیل کے مسلمانوں پر مظالم نظر نہیں آتے۔ حالانکہ اسرائیل کے عزائم واضح ہیں ۔ وہ چاہتا ہے کہ فلسطین رہے اور نہ ہی مسلمان رہیں اور وہ سارے علاقے پر قابض ہوجائے ۔ اب عرب ممالک تھوڑی سی مزاحمت کر رہے ہیں ، شاید اس لیے کہ وہ 21 لاکھ فلسطینیوں کو اپنے ہاں پناہ دینے سے ڈرتے ہیں کہ ان کی اپنی ڈیموگرافی تبدیل نہ ہو جائے لیکن ٹرمپ ابھی بھی کہہ رہا ہے کہ غزہ کو خالی کیا جائے ، وہ چاہتا ہے کہ عرب اسرائیل کی ہر بات مانیں ۔
سوال:اسرائیل کے عزائم سے واضح ہے کہ وہ فلسطینی مسلمانوں کا مکمل طور پر خاتمہ چاہتا ہے ، اس نے حماس کی لیڈرشپ کو بھی شہید کر دیا اور فلسطینی عورتوں اور بچوں کو بھی شہید کیے جارہا ہے ۔ کیا اسرائیل اپنے مقصد میں کامیاب ہو سکے گااور کیا اُمت اسی طرح خاموش تماشائی بن کر دیکھتی رہے گی ؟
خورشید انجم: اک شعرذہن میں آرہا ہے ؎
گر اِک چراغِ حقیقت کو گُل کیا تم نے
تو موجِ دود سے صدآفتاب اُبھریں گے
یہ کسی صورت ممکن نہیں ہے کہ اسرائیل فلسطینی مسلمانوں کو مکمل طور پر ختم کردے ۔ فلسطینی مسلمان جہاد کرتے رہیں گے ۔ دوسری طرف اُمت کی حیثیت اس بلی سے بھی گئی گزری ہے جس نے اسرائیلی فوجیوں پر حملہ کیا ہے جبکہ مسلم بالخصوص عرب حکمران تومسلمانوں اور اسرائیل کے درمیان دیوار بن کر کھڑے ہیں ۔ اللہ کے رسول ﷺ کی ایک حدیث میں عربوں کے لیے ’’ویل للعرب‘‘ کے الفاظ بھی آئے ہیں ۔ اُردن کے بادشاہ نے ٹرمپ کے ساتھ ملاقات میں جو کچھ ظاہر کیا ہے، اس پر پوری دنیا میں تبصرے ہوئے ہیں ۔ بہرحال حق و باطل کی جنگ تو ازل سے جاری ہے ۔ اللہ تعالیٰ کاارشادہے :
{بَلْ نَقْذِفُ بِالْحَقِّ عَلَی الْبَاطِلِ فَیَدْمَغُہٗ فَاِذَا ہُوَ زَاہِقٌ ط}(الانبیاء :18) ’’بلکہ ہم حق کو دے مارتے ہیں باطل پرتو وہ اس کا بھیجا نکال دیتا ہے ‘تو جبھی وہ نابود ہوجاتا ہے۔‘‘
جنگوں کا سلسلہ مزید آگے بڑھے گا ، یہ فلسطین تک محدود نہیں رہے گا اگرچہ عرب کے احادیث کے مطابق اس جنگ کا مرکز شام اور فلسطین ہی رہیں گے ۔ احادیث میں یہ بھی ہے کہ ایک بادشاہ کی وفات کے بعد انتشار پھیل جائے گااور خانہ جنگی بڑھے گی۔یہاں تک کہ امام مہدی تشریف لائیں گے اور وہ مسلمانوں کی قیادت کریں گے۔ خراسان سے جاکر مجاہدین کے قافلے ان کے ساتھ مل جائیں گے اور یہودیوں کے خلاف جہاد کریں گے ۔ اس کا مطلب ہے کہ سرحدیں بے معنی ہو جائیں گی۔ ہمارے حکمرانوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ وہ سوچیں کہ انور سادات، شاہ ایران، اشرف غنی اور حامد کرزئی کے ساتھ کیا ہوا ؟ انہیں ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرکے پھینک دیا گیا۔
میزبان: بحیثیت مسلمان، بحیثیت پاکستانی اور بحیثیت اُمتی ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم فلسطینیوں کے حق میں آواز اُٹھائیں ، ان کے لیے دعائیں بھی کریں اور ان کے لیے امداد بھی بھیجیں ۔ آخرت میں ہم سب نے اللہ کے سامنے پیش ہونا ہے ۔ حکمران ، وزیر ، مشیر ہوں یا عوام سب نے اللہ کو جواب دینا ہے ۔ آج ہم اپنے گھروں میں بیٹھے سکون کی زندگی جی رہے ہیں ، عید کے موقع پر نئے نئے لباس بھی زیب تن کرتے ہیں ، خوشیاں مناتے ہیں لیکن اہلِ غزہ کے پاس نہ گھر بچا ہے ، نہ کھانا اور پانی اور نہ ہی ادویات ہیں ۔ ہم پر لازم ہے کہ اپنے اُن مسلمان بھائیوں کی مشکلات کو بھی اپنے ذہن میں رکھیں اور ان کی بھرپور مدد کریں ۔