امیر تنظیم اسلامی کا خطابِ عید
مسجد جامع القرآن، قرآن اکیڈمی ڈیفنس، کراچی میں امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ حفظ اللہ کے31مارچ 2025ء کے خطاب عید کی تلخیص
خطبہ ٔمسنونہ اور تلاوتِ آیاتِ قرآنی کے بعد!
اللہ تعالیٰ کی توفیق اور فضل و کرم سے ایمان کی حالت میں رمضان المبارک ہمیں میسر آیا اور اللہ ہی نے اپنے فضل سے آج عید الفطر ہمیں عطا فرمائی ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ کا کروڑوں شکر ادا کرتے ہیں ۔
{رَبَّـنَا تَقَبَّلْ مِنَّاط اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ(127)} (البقرہ :127) ’’اے ہمارے ربّ! ہم سے یہ خدمت قبول فرما لے۔ یقینا تو سب کچھ سننے والا جاننے والا ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ ہماری محنتوں کو قبول فرمائے جو اسی کے فضل سے ممکن ہوئیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
{ لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ } ’’ اگر تم شکر کرو گے تومیں تمہیں اور زیادہ دوں گا‘‘
رمضان میں جس قدر عبادت کی توفیق اللہ نے عطا فرمائی اس پربھی ہم اللہ کا شکر ادا کریں تو اللہ تعالیٰ ہمیں مزید نعمتیں عطافرمائے گا ۔
صدقۂ فطر
ایک اہم بات جس کی طرف توجہ رہنی چاہیے وہ صدقۂ فطر کا ادا کرنا ہے ۔اللہ کے رسول علیہ السلام نے اس کو صاحبِ نصاب لوگوں پر لازم قرار دیا۔ صدقہ فطر کے دو فوائد اللہ کے رسول ﷺ نے بیان فرمائے ۔ایک یہ ہے کہ رمضان میں روزہ کے دوران جوبھی کوتاہیاں انسان سے ہوتی ہیں صدقہ فطر کی وجہ سے اللہ تعالیٰ معاف فرما دیتا ہے ۔ دوسرا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ غریب اور محتاج کو بھی عید کی خوشی میں شریک ہونے کا موقع مل جاتاہے ۔ کوشش کرنی چاہیے کہ عید سے پہلے ادا کریں تاکہ ضرورت مند عید کی تیاری کر سکیں ۔جن کو اللہ نے زیادہ عطا فرمایا وہ بہتر صدقہ فطر ادا کریں۔ اگر ہم نے عید کے لیے اپنی شاپنگ اور اپنے بچوں کی شاپنگ بہت اچھے سے کی ہے اور اپنے گھر میں عید کا اہتمام بڑے اچھے انداز سے کیا ہے تو اللہ کے وہ بندے جو مالی اعتبار سے کمزور ہیں ان کو بھی عید کی خوشی میں شریک ہونے کا ایسا موقع دیا جائے کہ ان کے گھر میں بھی خوشی آسکے۔اللہ تعالیٰ مجھے اور آپ کو توفیق عطا فرمائے۔
رمضان کے تقاضے
رمضان چلا گیا ہے لیکن اللہ تعالیٰ موجود ہے ، اللہ کی بندگی کے تقاضے موجود ہیں ۔ مقصد یہ ہے کہ رمضان چلا گیا لیکن اسلام نہ چلاجائے ، مسجدیں ویران نہ ہو جائیں ، تلاوت ِ قرآن بند نہ ہو جائے ۔ چاند رات کو ہی امتحان ہو جاتاہے ، عید کے روز فجر کی نماز کے وقت اور عید کے تین دنوں میں بہت کچھ سامنے آجاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ناشکری سے بچائے اور نمازوںکو باجماعت ، وقت پر ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ پہلا سوال قیامت کے دن نماز کے بارے میں ہوگا ۔ حدیث میں ہے کہ جس کی نماز درست ہے اس کے باقی معاملات بھی درست ہوں گے اور جس کی نماز میں کمی کوتاہی ہوگی اس کے باقی معاملات بھی خراب ہوں گے۔ سورۃ المدثر میں ذکر ہے کہ جنت والے جہنم والوں سے پوچھیں گے کہ تمہیں کیا چیز جہنم میں لے آئی ۔ جواب میں وہ کہیں گے :
{قَالُوْا لَمْ نَکُ مِنَ الْمُصَلِّیْنَ(43)}(المدثر) ’’وہ کہیں گے کہ ہم نماز پڑھنے والوں میں سے نہیںتھے۔‘‘
رمضان میں ہم نے فرض ، سنتیں اور نوافل بھی سینکڑوں کی تعداد میں ادا کیے لیکن رمضان کے بعد اگر فرض نمازوں کی حفاظت بھی نہ کر سکیں تولمحۂ فکریہ ہے ۔ ہم دعائیں مانگتے ہیں لیکن ترجمہ بھی ذہن میں ہونا چاہیے ۔
{رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُقِیْمَ الصَّلٰوۃِ وَمِنْ ذُرِّیَّتِیْ ق} (ابراہیم :40)’’اے میرے پروردگار! مجھے بنا دے نماز قائم کرنے والا اور میری اولاد میں سے بھی‘‘
صرف اپنی فکر نہ کریں بلکہ اپنے گھر والوں کی فکر بھی کریں۔ جس طرح رمضان میں ہم اپنے بچوں کو بھی ساتھ لے کر مسجد میں نماز ادا کرنے آتے تھے ، نماز جمعہ اور عیدین میں لے کر آتے ہیں اسی طرح عام دنوں میں بھی شعور والے بچوں کو باجماعت نماز کے لیے مسجد میں لے کر آئیں ۔ جن کے روزے سفر ، بیماری یادیگر وجوہات کی بناء پر قضا ہوگئے وہ قضا ادا کرلیں ۔ پھر یہ کہ ایک روزہ رمضان کا تھا جو صبح صادق سے لے کر غروبِ آفتاب تک تھا وہ ختم ہو گیا لیکن پوری زندگی کا روزہ چل رہا ہے اور موت تک چلے گا۔ رمضان کے روزے میں اللہ کی فرمانبرداری کے لیےہم حلال چیزیں بھی چھوڑ دیتے ہیں، اسی طرح پوری زندگی کے روزے میں حرام چیزوں کو چھوڑنا ہے ۔ سورۃ البقرہ میں روزے کا مقصد بیان ہوا :
{لَـعَلَّـکُمْ تَتَّقُوْنَ (183)}’’تاکہ تمہارے اندر تقویٰ پیدا ہو جائے۔‘‘
تقویٰ اس احساس کا نام ہے کہ اللہ مجھے دیکھ رہا ہے۔ رمضان کے روزے میں ہم نے کُلی بھی احتیاط سے کی اور پانی حلق سے نہیں اُترنے دیا حالانکہ کوئی نہیں دیکھ رہا تھا۔ مگر ہمیں یقین تھا کہ اللہ دیکھ رہا ہے ۔ اللہ تعالیٰ رمضان کے بعد بھی ہمیں دیکھ رہا ہے ۔ اللہ ہر وقت دیکھ رہا ہے ۔ فرمایا :
{وَہُوَ مَعَکُمْ اَیْنَ مَا کُنْتُمْ ط وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ(4)}(الحدید:4) ’’اور تم جہاں کہیں بھی ہوتے ہو وہ تمہارے ساتھ ہوتا ہے۔ اور جو کچھ تم کررہے ہو اللہ اسے دیکھ رہا ہے۔‘‘
دوسری جگہ فرمایا :
{وَنَحْنُ اَقْرَبُ اِلَـیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ (16)} (ق:16) ’’اور ہم تو اُس سے اُس کی رَگِ جاںسے بھی زیادہ قریب ہیں۔‘‘
پوری زندگی کا روزہ کیا ہے ؟سورۃ آل عمران میں رب فرماتا ہے :
{یٰٓــاَیـُّـہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ وَلاَ تَمُوْتُنَّ اِلاَّ وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ(102)} ’’اے اہل ایمان! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو جتنا کہ اُس کے تقویٰ کا حق ہے‘اور تمہیں ہرگز موت نہ آنے پائے مگر فرمانبرداری کی حالت میں۔‘‘
مسلم کے معنی ہیں فرمانبردار ۔ لہٰذا پوری زندگی کے روزے میں مرتے دم تک ہر لمحہ خود کو حرام ، سود ، رشوت ، بے پردگی، بے حیائی ، ظلم اور ستم ، ناپ تول میں کمی ، چوری ڈاکہ ، ناجائز قبضے ، بیٹیوں کے حقوق غصب کرنےاور ہر قسم کے گناہ سے بچنا ہے، یہاں تک کہ ہم فرمانبرداری کی حالت میں دنیا سے جائیں ۔ اسلام صرف رمضان تک محدود نہیں ہے ،صرف داڑھی ، ٹوپی رکھنے کا نام اسلام نہیں ہے بلکہ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے سامنے مکمل طور پر جھکا دینے کا نام اسلام ہے ۔ آج عجیب لوگ پیدا ہوگئے ہیں جو ہر شعبۂ زندگی میں اللہ کی فرمانبرداری کو ریڈیکل اسلام قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ ریڈیکل تو وہ خود ہیں جو اسلاموفوبیا کا شکار ہو کر ایسے الزامات لگاتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ قرآن میں حکم دیتا ہے:
{یٰٓــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃًص} (البقرہ :208) ’’اے اہل ِایمان! اسلام میں داخل ہو جائو پورے کے پورے۔‘‘
آج ہم عید منا رہے ہیں، اللہ قبول فرمائے مگر ضروری ہے کہ ہم پوری زندگی کا روزہ رکھ کراگلے جہان جائیں اور زندگی کے اس روزہ کی عید تب ہوگی جب اللہ تعالیٰ کا دیدار ہوگا۔ رمضان چلا گیا لیکن رمضان کا تحفہ قرآن پاک ہمارے پاس موجود ہے جو کہ رمضان میں ہی نازل ہوا تھا۔ رمضان کے روزے اسی وجہ سے فرض کیے گئے تاکہ ہم اس عظیم نعمت پر رب کا شکر ادا کر سکیں ۔
{ وَلَـعَلَّـکُمْ تَشْکُرُوْنَ (185)} (البقرہ :185) ’’اور تاکہ تم شکر کر سکو۔‘‘
رمضان میں تراویح میں ہم پورا قرآن سنتے ہیں تاکہ قرآن سے ہمارا تعلق قائم ہو ۔ تعلق تب قائم ہو گا جب ہم قرآن کو سمجھیں گے اور اس پر عمل کریں گے ۔ تنظیم اسلامی کے تحت پاکستان بھر میں ڈیڑھ سو سے زائد مقامات پر دورہ ترجمہ قرآن کی سعادت حاصل ہوئی ۔ رمضان چلا گیا لیکن قرآن سے ہمارا یہ تعلق اب بھی قائم رہنا چاہیے ۔ 14 اپریل سے قرآن اکیڈمیز کے تحت لاہور ، کراچی اور حیدر آباد سمیت بیشتر شہروں میں رجوع الی القرآن کورسز شروع ہو رہے ہیں ۔ یہ 10 ماہ کا کورس ہوتا ہے جس میں قرآن کی زبان کو سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ ہم نے دنیا جہاں کی تعلیم حاصل کرلی ، دنیا کی ہر کتاب سمجھ کر ہم نے پڑھی ،دنیا کا ہر ٹیکسٹ ہم سمجھ کر پڑھتے ہیں۔ اگر جرمنی والوں سے ڈیل کرنی ہوتوجرمن زبان کے ترجمان ہمارے پاس ہوتے ہیں ۔ اللہ پوچھے گا میرے کلام کو سمجھنے کی کوشش کیوں نہ کی۔ اسی طرح تنظیم اسلامی کے زیر اہتمام، قرآن اکیڈمیز کے زیر اہتمام دروس قرآن کے حلقے سارا سال جاری رہتے ہیں ۔ لہٰذا تہیہ کریں کہ ہم رمضان کے بعد بھی قرآن سے جڑیں گے انشاءاللہ ۔اسی طرح ڈاکٹر اسراراحمدؒ فرمایا کرتے تھے کہ رمضان میں نیکی کا ایک ماحول ہوتا ہے ، سب لوگ باجماعت نماز بھی پڑھتے ہیں ، قرآن بھی پڑھتے ہیں، تراویح بھی پڑھتے ہیں ،گناہوں کو چھوڑنے کی بھرپور کوشش بھی کرتے تھے ۔رمضان کے بعد نیکی کا یہ ماحول مومن کو خود بنانا پڑتا ہے ۔ دینی ماحول سے جڑیں گے تو سیکھنا اور عمل کرنا آسان ہو گا، موٹیویشن ملے گی، ترغیب ملے گی، تشویق ملے گی ۔اسی کے لیے ڈاکٹر اسرار احمدؒ نے تنظیم اسلامی قائم کی۔ لوگ کہتے ہیں ڈاکٹر اسرار احمدؒ بڑے اچھے آدمی تھے ،ان کا بہت بڑا علمی کام ہے ، بڑا اچھا مشن تھا وغیرہ۔ اگریہی بات ہے تو ہمیں ان کے کام کو ، اِ ن کے مشن کو آگے بھی بڑھانا چاہیے ۔ ڈاکٹر اسراراحمدؒ کا 78 برس میں انتقال ہوا اور 77 برس کی عمر میں اڑھائی تین گھنٹے بیٹھ کر خطاب کرتے تھے ۔ بڑھاپے میں بھی اللہ کے دین کی دعوت دی ، اقامت دین کی جدوجہد میں مصروف رہے ۔ اسی مشن کے لیے وہ تنظیم اسلامی قائم کرگئے ، اگر اس تنظیم کے ساتھ جڑیں گے تو نیکی کا ماحول ملے گااور دین کی خدمت کا موقع ملے گا۔
تذکیری نوعیت کی باتیں
عید کا موقع ہوتا ہے تو سال بھر کا بے نمازی بھی نماز عید کے لیے آ جاتا ہے ۔ اس موقع پر انہیں دین کا پیغام ملنا چاہیے ۔ موت اٹل حقیقت ہے ۔روزانہ ہم بچوں اور بڑوں کے جنازے دیکھتے ہیں ، کسی وقت بھی کسی کی مہلت ختم ہو سکتی ہے ۔ کیا ہم مرنے کے لیے تیار ہیں ؟ حقوق اللہ اور حقوق العباد کے حوالے سے جوابدہی کے لیے تیار ہیں ؟ اللہ کے دین اور اس کے پیغمبر ﷺکے ساتھ تعلق اس طرح کا ہے جس کا تقاضا ہے ؟ہم میں سے ہر ایک کو تنہائی میں بیٹھ کر سوچنے کی ضرورت ہے ۔ قرآن میں فکرِآخرت کے حوالےسے مسلسل موضوعات آتے ہیں ، قرآن سے جڑیں گے تو آخرت کی تیاری میں آسانی رہے گی ۔
رزق حلال
حرام جس گھر میں جائے گا وہاں نحوست بھی آئے گی ، بگاڑ بھی پیدا ہوگا ۔رزقِ حلال اللہ کا حکم ہے ۔حلال کی توفیق ملے تو کم سے کم پر گزارا کرلیں لیکن حرام کی طرف نہ جائیں ۔ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا : حرام سے پلا ہوا جسم جہنم کا مستحق ہے ،وہ جنت میں داخل نہ ہوگا ۔دنیا میں ہر انسان کو ملنا اُتنا ہی ہے جتنا اس کے مقدر میں لکھ دیا گیا ہے۔ متفق علیہ حدیث ہے کہ بچہ ماں کے پیٹ میں چار ماہ کا ہوتاہے تو اس کا رزق طے کر دیا جاتاہے ۔ اب یہ بندے پر منحصر ہے کہ وہ اس رزق کو حلال ذرائع سے حاصل کرتا ہے یا حرام کے ذریعے ۔
سوشل میڈیا کا استعمال
ہماری نئی نسل جین زی(Gen-z) نسل ہے وہ سوشل میڈیا کو دیکھ کر ہی پروان چڑھی ہے۔ایک سال کے بچے کو ماں سمارٹ فون لگا دیتی ہے اور بچے اب اسی میں پل بڑھ کر جوان ہو رہے ہیں مگر حالت کیا ہوگئی ہے ؟ آج ملک کی انتظامیہ پریشان ہے ،FIA، ریاستی ادارے ، ججز ، حکمران سب کے سب پریشان ہیں، انہیں سمجھ نہیں آرہی کہ جن فتنوں میں نئی نسل مبتلا ہو چکی ہے ان کا سدباب کیسے کیا جائے ، مسئلہ بے حیائی سےبھی آگے بڑھ کر توہینِ مذہب تک جا پہنچا ہے ۔ پب جی گیم کے ٹارگٹ میٹ کرنے کے لیے بچے ماں کو قتل کر رہے ہیں ، بیٹ سے ماں کو پیٹا جارہا ہے ، بھائی کو قتل کر رہے ہیں ، ڈرگز کا استعمال ہو رہا ہے ۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اب تو ایف آئی اے کہہ رہی ہے کہ خداراہ اپنے بچوں کو سنبھالیں، ایسی تعلیم دیں جو انہیں خدا سے دور نہ کرے ، گستاخِ رسول نہ بنا دے ، توہینِ مذہب میں مبتلا نہ کرے۔ آج حکومت پریشان ہے ، کتنے بچوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے ، سزائیں دی جارہی ہیں مگر سلسلہ رُک نہیں رہا ۔ لہٰذا اپنے بچوں کو وقت دیں ، ان کی نگرانی کریں اور انہیں دینی تعلیم وتربیت کے مراحل سے گزاریں جو کہ ان کا حق اور آپ کا فرض ہے ۔ روزِ قیامت اس بارے میں ہم سب کو جوابدہ ہونا ہے ۔
تصور اُمت
آج ہم عید منا رہے ہیں اور غزہ میں مسلمانوں عورتوں اور بچوں کی شہادتیں ہو رہی ہیں ، ان کے گھروں ، مساجد اور ہسپتالوں پر بمباریاں ہورہی ہیں ۔ بحیثیت اُمت ہم پر لازم ہے کہ ہم ان کی مدد کریں ، انہیں اپنی دعاؤں میں بھی یاد رکھیں اور جتنا ہو سکے ان سے مالی تعاون بھی کریں ۔
{اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ} (الحجرات :10) ’’یقیناً تمام اہل ِایمان آپس میں بھائی بھائی ہیں ۔‘‘
سارے مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں ۔اللہ ان کا درد محسوس کرنے کی توفیق دے ۔ وہ جانیں دے دے کر نہیں تھکے ہم صرف زبانی کلامی بیانات دے کر تھک گئے ، ہمارے حکمران صرف مذمت کر دیتے ہیں یا قرارداد پاس کردیتے ہیں ۔ حالانکہ یہ کام تو عوام بھی کر رہے ہیں ، بلکہ عوام نے حکومتوں سے بڑھ کر آواز اُٹھائی ہے ۔ حکومتوں کے پاس طاقت ہے ، اختیار ہے ، سفارتی دباؤ بڑھا سکتے ہیں ، تجارتی بائیکاٹ کر سکتے ہیں ۔ او آئی سی کے چارٹر میں لکھا ہے کہ فلسطینیوں کی اخلاقی ، مالی اور عسکری مدد کرنا ہر مسلم ملک پر لازم ہے ۔اللہ ہمارے حکمرانوں کو غیرت اور آخرت کی جوابدہی کا احساس عطا فرمائے ۔ اہل غزہ شہید ہورہے ہیں مرنا ہم نے بھی ہے ، حکمرانوں نے بھی اس دنیا سے جانا ہے ۔ کیا جواب دیں گے ؟
پاکستان
آج بلوچستان اور خیبر پختوانخواہ خطرے میں ہیں تو اس کے ذمہ دار بھی ہم خود ہیں ۔ مقتدر طبقات کی غلطیاں ہیں جنہوں نے نفرت کے بیج بوئے ہیں ۔ہم نے امریکہ ظالم کا ساتھ دے کر اپنے بھائیوں کو شہید کیا ۔ ان کی نفرتیں ہم نے مول لی ہیں ۔ ہمارا دشمن چاہے امریکہ ہو یا بھارت وہ ہمیں ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرتا ہے۔ مسئلے کا حل یہ ہے کہ ہم اپنی غلطیوں کو مانیں اور اپنے ناراض بلوچ اور پشتون بھائیوں کو گلے سے لگائیں ۔ ہم پنجابی ، پٹھان ، بلوچ ، سندھی ، سرائیکی اور مہاجر بعد میں ہیں پہلے ہم مسلمان ہیں ۔ ہمیں ایک قوم بنانے والا اسلام ہے جس کے نام پرہم نے پاکستان حاصل کیا تھا ۔ دوبارہ بھی ہمیں ایک قوم بننا ہے تو اسلام کی بنیاد پر بن سکتے ہیں۔ سچی توبہ کریں اور سچے مسلمان بن جائیں تو ہمارے سارے مسائل اور اختلافات حل ہو جائیں گے ۔ ہم تمام علماء ، دینی سیاسی جماعتوں ، دیگر سیاسی جماعتوں ، حکمرانوں، سیاستدانوں ، اپوزیشن اور عسکری اداروں کو بھی یہی یاددہانی کروائیں گے کہ جس مقصد کے لیے یہ ملک بنایا گیا تھا اس کی طرف واپس آئیں ۔ ہماری عزت اسلام کے ساتھ وابستہ ہے۔ قرآن میں اللہ فرماتاہے :
{یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰہَ یَنْصُرْکُمْ وَیُثَبِّتْ اَقْدَامَکُمْ(7)} (محمد:7) ’’اے اہل ِایمان! اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو اللہ تمہاری مدد کرے گا اور وہ تمہارے قدموں کو جما دے گا۔‘‘
آج ہمارے مسائل اور مصائب کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ ہم نے اللہ کے ساتھ بے وفائی کی ہے، ہم نے اس کے دین کو دیس نکالا دیا ،ہم نے اس کے دین کو نافذ کرنے کی محنت نہیں کی، اس لیے آج یہ سب کچھ ہم بھگت رہے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سچی توبہ کی توفیق عطافرمائے تاکہ ہم سب آخرت میں سرخرو ہو سکیں ۔ آمین !