اداریہ
رضاء الحق
مبارک عید؟؟؟
اس مرتبہ عید الفطرایک مخمصہ اورگو مگو کی کیفیت میں گزر گئی۔ غزہ کے معصوم بچوں ، عورتوں اور بوڑھوں پر جاری بدترین صہیونی ظلم اور اس پر مسلم ممالک کی بے حسی بلکہ اسرائیل ہی کے پلڑے میں اپنا وزن ڈالنے پر عید کی مبارک باد دی بھی کیسے جا سکتی تھی! رمضان المبارک اور عید الفطر کے موقع پر زمینی حقائق تو یہ تھےکہ مسلم ممالک خصوصاََ عربوں نے غزہ کے مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے وحشیانہ ظلم پر چپ سادھے رکھی۔ یہ وہی عرب ممالک ہیں جو تقریباً ایک ماہ قبل امریکی صدر ٹرمپ کی دھمکی کے بعد بھاگم بھاگ مصر میں اکٹھے ہوئے اور اسرائیلی خواہشات کی عین مطابق غزہ سے مجاہدین کے مکمل صفایا اور ایک کٹھ پتلی حکومت قائم کرنے پر اتفاق کیا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ہمارا فلسطین جن حالات سے دوچار ہے اس پر دل بہت بھاری اور ندامت و شرمساری سے بوجھل ہے ۔ ایسے میں عید کی خوشی کہاں؟ حماس اور اسرائیل کے مابین ہونے والا معاہدہ 19 جنوری 2025ء کو آغاز سے قبل ہی اپنے منطقی انجام کو پہنچ چکا تھا اور کم از کم صہیونی حکومت نے اس کا جنازہ پڑھ کر دفنا بھی دیا تھا۔ یہود کی باطل و تحریف شدہ تعلیمات کے مطابق ان کے سوا باقی تمام انسانیت کیڑوں مکوڑوں سے بھی گئی گزری ہے۔ لہٰذا وہ ان کے خلاف کتنی ہی غیر انسانی حرکتیں کیوں نہ کریں، ان پر ظلم کےپہاڑ ڈھائیں، ان کی نسل کشی اور قتل عام کریں، بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کو نشانہ بنائیں، اُن کے تئیں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے دربار میں کوئی بازپرس نہیں ہوگی۔ اسی باطل نظریہ پر عمل کرتے ہوئےاسرائیل نے اس نام نہاد معاہدے کی دھجیاں اڑا دیں۔ غزہ کے مظلوم و محصور مسلمانوں کو امداد پہنچانے کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کر دیں، 90 فیصد سے زائد تباہ حال گھروں، ہسپتالوں، سکولوں، پناہ گزین کیمپوں اور سرکاری عمارتوں کی تعمیر نو کے لیے بھاری مشینری کو داخلے کی اجازت نہ دی۔ رمضان مبارک کے دوران غزہ کو بجلی اور گیس کی ترسیل کو مکمل طور پر منقطع کر دیا اور غزہ کو فراہم کیے جانے والے پینے کے پانی کی صفائی کا واحد پلانٹ بھی تباہ کر دیا۔ نتن یاہو نے مغربی کنارے میں ناجائز صہیونی آبادکاروں کے لیے مزید بستیاں بنانے کا اعلان کیا جس پر عمل درآمد کا آغاز ہو چکا ہے۔
نام نہاد جنگ بندی کے دوران اسرائیلی درندوں نے روزانہ کی بنیاد پر تاک تاک کر فلسطینی مسلمانوں کو شہید کیا۔ آج جنگی مجرم نتن یا ہو اور اس کی کابینہ کے وزرا ءکھل کر یہ بیان دے رہے ہیں کہ غزہ کے مسلمانوں کی مکمل نسل کشی سے کم پر وہ اکتفاء نہیں کریں گے اور گریٹر اسرائیل بن کر رہے گا۔ اپنے روایتی مکر و فریب اور درندگی کا مظاہرہ کرتےہوئے 18 مارچ2025ءکو صہیونیوں نے غزہ پر میزائلوں کی بوچھاڑ کر دی جس سے کم از کم 634 افراد، جن میں اکثریت بچوں اور عورتوں کی تھی انہیں شہید کر دیا گیا۔ تحریک مزاحمت کے بعض اعلیٰ ذمہ داران کو بھی ٹارگٹ کیا گیا۔ انسانیت کے خلاف اس ہولناک جرم پر جنگ بندی کے معاہدے کے ضامنوں امریکہ اور قطر نے مذمت کا ایک حرف بھی نہ بولا ۔ دیگر عرب و مسلم ممالک کی بے حسی اور بے حمیتی بھی اس سے مختلف نہ تھی۔ متحدہ عرب امارات نے تو اسرائیل نوازی میں تمام حدیں پار کرتے ہوئےان تین افراد کو سزائے موت سنا دی جو قابض صہیونی فوج کے افسر اور صہیونی جاسوسی کی تنظیم ’’حباد‘‘ کے ایلچی، حاخام تسفي کوغان کے قتل میں شریک تھے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ؎ پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے! ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مسلمانوں نے بحیثیت مجموعی ڈھیروں آسائشوں کے ساتھ نفاق کا راستہ اختیار کیا ہوا ہے۔الا ماشاءاللہ۔ اسی دوران پاکستان نژاد افراد پر مشتمل ایک 10 رکنی وفد نے اسرائیل کی یاترا کی۔ وفد میں شامل ایک خاتون نے تواسرائیلی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے یہود کی ’’صفاتِ کاملہ‘‘ اور اسرائیل کی ’’انسان دوستی‘‘ پر درس بھی دیا۔ موصوفہ نے پاکستان کو بھی مشورہ دیا کہ اسرائیل کو تسلیم کر لینا چاہیے۔ نہ جانے وہ کس کی زبان بول رہی تھیں! ؎حِمیّت نام ہے جس کا، گئی تیمور کے گھر سے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ مسلمان اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی جانب سے امت پر تفویض کیے گئے مشن کو پس پشت ڈال کر مصنوعی زندگی گزار رہے ہیں۔ ادھر غزہ کے بچے ہیں، خواتین ہیں، بوڑھے ہیں ،جو ملبے کے ڈھیروں پر بیٹھے اللہ کے ذکر کو قائم کیے ہوئے اور مسجدِ اقصٰی کی حفاظت کا بیڑا اٹھائے ہوئے ہیں۔ اپنے پیارے شہداء کی لاشیں اٹھائے جنت کے راستے پر رواں دواں ہیں۔ نعمتوں کے انبار کے باوجو امت مسلمہ کے حکمرانوں، مقتدر حلقوں اور عوام کی عظیم اکثریت حقیقی ایمان و یقین سے عاری، اپنے رب پر توکل اور بھروسا کرنے، رسول اللہ ﷺ کے احکامات سے چمٹ جانے اور آخرت کی جواب دہی کی فکر سے محروم ہیں۔ جبکہ اہلِ غزہ بھیگی آنکھوں ، خالی شکم، بے سروسامانی کے باوجود اللہ پر توکل، صبر اور عزم مصمم کے باعث مسرور و مطمئن ہیں۔ یہ ایسا تقابل ہے کہ وجود گویا اپنے گناہوں کے پہاڑ تلے دب رہا ہے!مسئلہ فلسطین محض ایک سیاسی مسئلہ ہی نہیں بلکہ یہ انسانوں کو پیش آنے والے بہت سے مسائل کا مجموعہ ہے۔ صبح و شام حقوق انسانی کا واویلا کرنے والی این جی اوز کے سامنے لاکھوں مظلوموں کی آہ و بکاء پر ان کی مخصوص خاموشی ان کی جانبداری کا پردہ چاک کررہی ہے۔ نیو بلکہ جیو ورلڈ آرڈر کا ننگ چھپائے نہیں چھپ رہا۔ ترقی یافتہ ممالک جہاں حیوان و بہائم کے حقوق کی بات ہوتی ہے وہاں پچھلی پون صدی سے ساٹھ لاکھ سے زائد انسانوں کا سوال ہے جن سے ان کا خطۂ زمین بزورقوت چھین لیا گیا ۔ جن کی خیمہ بستیوں میں بھوک ہی بھوک اورافلاس و مرض ہے ۔وہ بے گھر انسان جن کی جھونپڑیوں کومسمار کر کے ان پر یہودیوں نے بلند و بالا عمارتیں کھڑی کرلی ہیں؛ ایک ایسے دعوے کو بنیاد بنا کر جو سراسر جھوٹ ہے۔ ایک ایسا دعویٰ جس کی نہ تاریخی حقیقت ہے، نہ کوئی غیر تحریف شدہ مذہبی شہادت ہے اور نہ ہی بین الاقوامی قوانین میں اس کی گنجائش ہے۔ فلسطین میں صہیونی ریاست درحقیقت مغربی استعمار کی باقی ماندہ بدنما شکل کی صورت میں قائم ہے۔مسلم آبادی والے دوسروں خطوں سے تو استعمار کو نکلنا پڑا، اب اسے ارض رباط سے بھی نکلنا ہے؛ آج نہیں تو کل!ہونا تو یہ چاہیے کہ اس انسانی المیے کو حل کرنے کے لیے پوری انسانیت کھڑی ہوجائے اور دنیا کو ایک بڑی جنگ کی لپیٹ میں آنے سے بچا لے ۔ ابھی اللہ کی ڈھیل موجود ہے۔ بلاشبہ صہیونی آج قوت میں ہیں لیکن یہ تفوق نا قابل تسخیر نہیں ہے۔ یہ عقیدہ اصلاً شکست خوردہ ذہنیت کا عکاس ہے کہ دنیا کے ہر چھوٹے بڑے واقعے کے پیچھے صہیونی ہیں۔ دجالی قوت اللہ تعالیٰ کی قوت پرکبھی غالب نہیں آ سکتی اورنہ ہی وہ کبھی بشریت کی سرحدوں سے آگے نکل سکتی ہے۔یہود بھی اللہ کی پیدا کردہ مخلوق ہی ہیں ،اپنے تئیں پیدا نہیں ہوئے ۔البتہ قوموں کے عروج و زوال کے حوالے سے اللہ کی کچھ سنتیں ہیں۔جیسے دوسری قوموں پر زوال کے دن آئے اسی طرح صہیونی بھی ہمیشہ طاقتور نہیں رہیں گے ۔پاکستان کی بات کریں تو تاریخ کا ہر طالب علم جانتا ہے کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے جس صہیونی ریاست اسرائیل کو مغرب کا ناجائز بچہ قرار دیا تھا، گزشتہ 77سال کے دوران یہ بچہ امریکہ اور یورپ کی پشت پناہی سے اتنا طاقتور ہو چکا ہے کہ گزشتہ 14 ماہ کے دوران اس نے غزہ کے مسلمانوں پر مظالم ڈھانے کی انتہاکر دی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اُس پاکیزہ سرزمین میں ایک بہت بڑا انسانی المیہ جنم لے چکا ہے جس کے تقدس اور برکات وثمرات کی گواہی خود رب کریم نے ایک سے زیادہ مرتبہ اپنی کتاب مبین میں دی ہے۔ اسرائیل نہ صرف غزہ کو صفحۂ ہستی سے مٹانے پر تُلا ہوا ہے بلکہ اُس کا اگلا نشانہ دیگر مسلمان ممالک ہیں۔اپنے گریٹر اسرائیل کے منصوبے کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے صہیونی پوری دنیا کو آگ لگانے پر تُلے ہوئے ہیں۔ امریکی صدر ٹرمپ کو تو ماچس بھی تھما دی گئی ہے۔طاغوتی قوتیں تو ہر حربہ استعمال کر کے مسلمانوں کو شکست دینے کی کوشش کرتی رہیں گی۔ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان ممالک کے حکمرانوں کی توجہ اس امر کی جانب دلائی جائے کہ امریکہ اور دیگر طاغوتی قوتوں سے خائف ہونے کے بجائے تمام تر طاقت اور قوت کے سر چشمہ اللہ تعالیٰ سے ڈریں،انفرادی اور اجتماعی سطح پر توبہ کریں اور غزہ کے مظلوم مسلمانوں کو ظالم اسرائیل سے نجات دلانے کے لیے عملی طور پر میدان میں اتریں۔ وگرنہ دنیا کی ذلت و رسوائی کے علاوہ آخرت میں بھی اللہ کے حضور مجرم ٹھہرائے جائیں گے۔
پاکستان عطیۂ خداوندی ہے۔اس میں اللہ اور رسولﷺ کے عطا کردہ اسلام کے نظامِ عدل اجتماعی کے سوا کوئی اور نظام کارفرما نہیں ہو سکتا۔ پاکستان کا استحکام ہی نہیں، بقا اور سلامتی بھی اسی میں مضمر ہے اورصرف اسی صورت میں ہمارے ایٹمی اثاثہ جات اور میزائیل ٹیکنالوجی بھی محفوظ رہ سکتے ہیں۔ نظریۂ پاکستان کو عملی تعبیر دے کر ہی ہم دنیا میں ذی وقار اور آخرت میں سرخرو ہوں گے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ احادیث کی روشنی میں مستقبل میں حق و باطل کے آخری معرکہ میں خراساں کے خطہ کا انتہائی اہم کردار ہے۔باطل قوتیںتو چاہتی ہیں کہ خراساں کا وہ خطہ جو افغانستان ا ورپاکستان پر مشتمل ہے عملی طور پر تشکیل نہ پاسکے جس کے بارے میں احادیث نبوی ﷺ میں بشارت آئی ہے کہ وہاں سے فوجیں حضرت مہدی ؑ کی نصرت کے لیے جائیں گی اور اُسی خطہ سے چلنے والی فوجیں ایلیاء (یروشلم) میں اسلام کا جھنڈا گاڑ کر پوری دنیا پر دین کو قائم و نافذ کریں گی۔ لہٰذا ہمیں پاکستان کو حقیقی معنوں میں ’اسلامی ایٹمی پاکستان‘ بنانا ہوگا۔ اللہ تعالیٰ مسلمان ممالک کے حکمرانوں اور مقتدر طبقات کو صراطِ مستقیم کی طرف راہنمائی عطا فرمائے اور ہمارا حامی و ناصر ہو۔ آمین!
اٹھو وگرنہ حشر نہیں ہوگا پھر کبھی
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا
tanzeemdigitallibrary.com © 2025