الہدیٰ
اللہ کے رسولﷺ صرف حق کا پیغام پہچانے
کے مکلف ہیں، ہدایت دینے کے نہیں
حضرت ابراہیم dکا یہ ذکر ابھی مزید جاری رہے گا مگر یہاں درمیان میں اچانک ایک طویل جملہ معترضہ آ گیا ہے جس کے تحت خطاب کا رخ پھر سے اس کش مکش کی طرف موڑا جا رہا ہے جو مکّہ میں حضورﷺ اور مشرکین کے درمیان جاری تھی۔
آیت 18 {وَاِنْ تُکَذِّبُوْا فَقَدْ کَذَّبَ اُمَمٌ مِّنْ قَبْلِکُمْ ط} ’’اور اگر تم جھٹلارہے ہو تو (یاد رکھوکہ) تم سے پہلے بہت سی قومیں جھٹلا چکی ہیں۔‘‘
{وَمَا عَلَی الرَّسُوْلِ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ(18)} ’’اور رسولؐ پر کوئی ذِمّہ دار ی نہیں ہے سوائے صاف صاف پہنچا دینے کے۔‘‘
آیت 19 {اَوَلَمْ یَرَوْا کَیْفَ یُبْدِیُٔ اللہُ الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُہٗ ط} ’’کیا انہوں نے دیکھا نہیں کہ کس طرح اللہ پہلی بار پیدا کرتا ہے‘ پھر اُسے دوبارہ پیدا کرے گا!‘‘
{اِنَّ ذٰلِکَ عَلَی اللہِ یَسِیْرٌ(19)} ’’یقیناً یہ اللہ پر بہت آسان ہے۔‘‘
درس حدیث
تقویٰ اور حسن اخلاق
عَنْ اَبِیْ ذَرٍّ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلِ اللہِ ﷺ :(( اِتَّقِ اللّٰہَ حَیْثُمَا کُنْتَ‘ وَاَتْبِعِ السَّیِّئَۃَ الْحَسَنَۃَ تَمْحُھَا‘ وَخَالِقِ النَّاسَ بِخُلُقٍ حَسَنٍ)) (رواہ الترمذی)
سیدنا ابوذر ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:’’تم جہاں کہیں بھی ہو‘ اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں رکھا کرو اور کوئی گناہ سرزد ہو جائے تو اس کےفوراً بعد نیکی کر لیا کرو‘ وہ نیکی اس گناہ کو مٹا ڈالے گی، اور لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آیا کرو۔‘‘
تشریح:اللہ تعالیٰ کی ناراضی سے بچنے کا نام تقویٰ ہے۔ تقویٰ تمام نیکیوں کی بنیاد ہے۔ اِس لیے حکم دیا گیا ہے کہ انسان جہاں کہیں بھی ہو (اور جس حال میں بھی ہو) اللہ کا تقویٰ اختیار کرے کہ اس طرح وہ گناہوں سے بچا رہے گا۔ شیطان کا وار اُس پر اثر نہیں کرے گا۔ اگر کہیں غفلت میں مبتلا ہو کر اُس سے گناہ کا صدور ہو بھی جائے تو فوراً نیکی کا کام کرے‘ اِس لیے کہ نیکیاں بہت سے صغیرہ گناہوں کو مٹا دیتی ہیں۔ (البتہ کبیرہ گناہوں کی معافی کے لیے سچی توبہ کرنا شرطِ لازم ہے، اور اگر معاملہ حقوق العباد میں کوتاہی کا ہے تو جس کا حق مارا، اُس کا ازالہ کرنا بھی لازم ہے۔) دوسرے یہ کہ معاشرتی زندگی میں بندۂ مومن کی بہترین صفت حسن اخلاق ہے‘ سو حکم ہے اعلیٰ اخلاق کو اختیار کیا جائے۔