اداریہ
رضاء الحق
زبانی جمع خرچ نہیں،عملی اقدامات کریں!
وقت بڑی سرعت کے ساتھ گزر رہا ہے اور تازہ حالات و واقعات نے پوری انسانیت کو ایک بھنور میں گھیر رکھا ہے۔ خیال تھا کہ حال ہی میں بھارت کے وقف (ترمیمی) بل جو لوک اور راجیہ سبھا دونوں سے منظور ہونے کے بعد صدر کے دستخطوں کے ساتھ قانون بن چکا ہے، اس کے حوالے سے کچھ گفتگو ہو جائے۔ کس طرح انتہا پسند مودی کا بھارت مسلمانوں کی مذہبی اور ثقافتی خود مختاری اور ورثہ پر حملہ آور ہے۔ کبھی مساجد، کبھی حجاب، کبھی گاؤ ماتا کے نام پر اور اب پھر مساجد و مدارس کو ایک نئے انداز سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق وقف کے پاس تقریباً 9.4لاکھ ایکڑ اراضی ہے، جس پر مودی اپنی نظرِبد گاڑے ہوئے ہے۔ شنید تو یہ بھی ہے کہ اپنے انتخابی نعرہ پر عمل کرتے ہوئے جلد مودی مسلمانوں کے عائلی قوانین پر بھی کاری ضرب لگائے گا۔ اللہ تعالیٰ خیر کا معاملہ کرے۔ مسلمانان ِہند کے لیے علیحدہ خطۂ زمین کا مطالبہ ایک مرتبہ پھر درست ثابت ہوگیا ہے۔ اگر اسرائیل کُھلم کُھلا فلسطینی مسلمانوں کی نسل کُشی کر رہا ہے تو بھارت اُن کے پاؤں تلے سے زمین کھینچ رہا ہے۔ اِن حالات میں بھارت کے مسلمانوں کے لیے اِس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ وہ ہر نوع کا اختلاف ختم کر کے متحد ہوں اور اپنے جداگانہ تشخص کے لیے جدوجہد کا آغاز کریں۔
اپنے ایک سابق اداریہ میں ہم اس خدشے کا اظہار کر چکے ہیں کہ یہودیوں (بشمول صہیونی) جن کی تاریخ دھوکہ دہی، فریب اور وعدہ خلافی سے بھری پڑی ہے وہ کسی صورت حماس کے ساتھ ہونے والے معاہدے کی پاسداری نہیں کریں گے۔ پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔19 جنوری 2025ء کے بعد شاید ہی کوئی ایسا دن گزرا ہو جس میں اسرائیلی درندوں نے غزہ کے معصوم بچوں، عورتوں اور بوڑھوں پر بدترین بمباری نہ کی ہو۔ زوردار دھماکوں کے ساتھ بچوں اور خواتین کے اچھلتے ٹکڑے دور نصب کیے گئے کیمروں تک نےدکھا دیے۔ لیکن اسرائیل سے تقریباً ساڑھے تین ہزار کلومیٹر کے فاصلے پر موجود پاکستان کا مسلمان غصے اور بے چینی سے مٹھیاں بھینچ لینے کے علاوہ کر ہی کیا سکتا ہے؟ اسرائیل کا حماس کے ساتھ نام نہاد جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ کر لینا درحقیقت کچھ وقت کے لیے سانس بحال کرنے اور ایک نئی شدت اور درندگی کے ساتھ غزہ پر حملہ آور ہونے کا بہانہ تھا۔ پھر دنیا کو یہ دکھانا بھی مقصود تھا کہ صہیونی اپنے اہداف کو حاصل کرنے کے لیے کسی حد تک بھی جانے کو تیار ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ 20جنوری 2025ءکو ڈونلڈ ٹرمپ جب امریکی صدر کے طور پر وائٹ ہاؤس میں دوسری مرتبہ براجمان ہوئے تو یہ سب ایک معاہدے کا نتیجہ تھا۔ ٹرمپ جن کے خلاف ٹیکس چوری سے لے کر روسی ایجنٹ ہونے اور ایک طوائف کی خاموشی خریدنے کے عوض رقم دینے (ہش منی) سے لے کر امریکی معیشت کا بیڑا غرق کرنے اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں باقاعدہ نسل پرستی کو فروغ دینے جیسے الزامات تھے۔ وہ عدالتوں میں پیش ہو رہے تھے، اُن کے بارے میں تجزیہ نگاروں کے نزدیک اکثر معاملات میں سزا سے بچنا تقریباً ناممکن تھا۔ ایسے میں صہیونیوں نے اپنا ٹرمپ کارڈ کھیلا، موصوف کو اس دلدل سے نکالا اور اس وعدہ پرانہیں کامیابی دلوائی کہ وہ امریکی صدر بننے کے بعد صرف اسرائیل کے جنگی عزائم کو تقویت دیں گے اور اِس کے علاوہ دنیا کی ہر جنگ بند کرا دیں گے ۔ پاکستان میں الیکشن کی یاد تازہ کر دی! قارئین کو یاد ہوگا کہ اپنے پہلے دورِ حکومت میں صدر ٹرمپ اور وائٹ ہاؤس کو حقیقی طور پر چلانے والے اُن کے یہودی داماد جیرڈ کشنر نے اسرائیل نوازی میں ہر حد پار کر دی تھی۔ ٹرمپ کے اِسی دورِ حکومت میں امریکہ نے اپنا سفارت خانہ نہ صرف تل ابیب سے یروشلم منتقل کیا بلکہ اُس شہرِ مقدس کو ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل کا دارالحکومت بھی تسلیم کر لیا۔ اُسی دورِحکومت میں عرب اور افریقہ کے چند ممالک کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات قائم کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا، جسے کبھی ’’ابراہم اکارڈ‘‘ کا نام دیا گیا اور کبھی ’’ڈیل آف دی سینچری‘‘ کا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ وہ اسرائیل جو عربوں کے نزدیک دشمن نمبر ایک تھا، اس کے سفارت خانے متحدہ عرب امارات، بحرین،عمان، مراکش اور سوڈان میں کھل گئے۔ اِس کے بعد یہودیوں نے اپنی سازش کی اگلی کڑی کا آغاز کیا۔ 7 اکتوبر 2023ءسے تقریباً دو عشرے قبل سعودی ولی عہدنے فاکس نیوز کو ایک تہلکہ خیز انٹرویو دیتے ہوئے انکشاف کیا تھا کہ وہ اپنے امریکی اتحادیوں کی مدد سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ 7 اکتوبر 2023ء کو حماس کے مجاہدین نے نہ صرف اسرائیل کو حیرت انگیز طور پر زک پہنچائی بلکہ سچ پوچھیں تو کئی عرب اور دیگر مسلم ممالک کے خوابوں پر بھی پانی پھیر دیا۔ بہرحال بات صہیونیوں کی دھوکہ دہی سے شروع ہوئی تھی۔اسرائیل نے جنگ بندی کے معاہدے میں طے ہونے والی تقریباً ہر شق کی دھڑلے سے خلاف ورزی کی ہے۔ 19 جنوری 2025ء کے بعد سے اس تحریر کے لکھے جانے تک غزہ پر روزانہ کی بنیاد پر شدید بمباری جاری ہے۔ 18 مارچ 2025ء کو رمضان المبارک کے دوران وحشیانہ صہیونی بمباری سے کم از کم 650 افراد شہید کر دیے گئے۔ پھر عید الفطر کے ایام کے دوران اقوام متحدہ کے زیرِ اہتمام قائم ایک سکول پر بمباری کر کے 80 سے زیادہ افراد جن میں اکثریت بچوں کی تھی اُن کو شہید کر دیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون! اِس سے قبل صدر ٹرمپ کے ساتھ کھڑے ہو کر اپنی تقریر میں نیتن یاہو خود کو انسانی حقوق کا چیمپئن قرار دے چکا تھا۔ جوزف گوئبلز کی یاد تازہ ہوگئی۔ ہم پہلے بھی عرض کر چکے ہیں کہ ٹرمپ کو دوسری بار امریکی صدر بنانے کا واحد مقصد یہ ہے کہ وہ امریکہ کی یہودی لابی ، عیسائی صہیونیوں اور اسرائیل کی ہر خواہش کو پورا کرے گا۔ اگرچہ نیتن یاہو کا حالیہ دورہ امریکہ اس زاویہ سےکسی قدر حیران کن ضرور تھا کہ دونوں سربراہان کی وائٹ ہاؤس میں متوقع پریس کانفرنس کو آخری وقت پر منسوخ کر دیا گیا۔اس کی جگہ اوول آفس میں چنیدہ صحافیوں کے ساتھ سوال و جواب کی نشست ہوئی اور تمام کیمرے ٹرمپ پر مرکوز رہے۔ اس سے قبل امریکہ آنے والا ہر اسرائیلی وزیرِ اعظم وائٹ ہاؤس میں دندناتے ہوئے داخل ہوتا تھا اور وہی سب کی توجہ کا مرکز بنتا تھا۔لیکن اس مرتبہ نیتن یاہو کا چہرہ کچھ بجھا بجھا سا دکھائی دیا۔ شایدیہ غزہ میں اپنےاہداف پورے نہ کر پانے کا اثر تھا۔یہ بھی ممکن ہے کہ ٹرمپ کا ترکیہ کے صدر اردگان کو بہترین دوست قرار دینا، اسرائیل کی بعض مصنوعات پر لگائے گئے امریکی ٹیرف پرلچک نہ دکھانااور نیتن یاہو کی خواہشات کے برعکس ایران پر حملہ نہ کرنے بلکہ براہِ راست بات چیت کرنے کا اعلان نیتن یاہو کی پریشانی کا باعث بنی ہو۔ یہ بات بھی بعید القیاس نہیں کہ دنیا کو ایک ڈراما دکھایا گیا۔ بہرحال ہمارے نزدیک ٹرمپ اتنا بھولا ہے نہ بے وقوف کہ وہ یہودیوں کو ناراض کر لے۔وہ یہ جانتا ہے کہ اُسے صدر بنانے میں امریکی اور عالمی صہیونی لابی نے کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ لہٰذا اگر ٹرمپ کسی بھی طرح اُن کے راستے کی رکاوٹ بنتا ہے تو اُس کا حشر بھی کینیڈی جیسا ہو سکتا ہے۔
یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ روس اور چین دونوں نے ابتدا میں تو غزہ کے مسلمانوں کے لیے آواز بلند کی، لیکن جب یہ دیکھا کہ عرب اور مسلم ممالک کی اکثریت غزہ کے مسلمانوں کے اتنے بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان سے کوئی خاص پریشان نہیں بلکہ اکثر اہم عرب ممالک تو حماس سے ہی ناراض ہیں، تو وہ مستقبل کے ممکنہ منظر نامے کی روشنی میں اپنے مفادات کے تحفظ میں مشغول ہو گئے۔ قرائن نے ثابت کیا ہے کہ روسی صدر ولادمیر پیوٹن نے ڈونلڈ ٹرمپ سے خفیہ معاہدے کے تحت ہی شام کو خیر باد کہا۔ غالب امکان یہ ہے کہ روس کو امریکی صدر نے گارنٹی دی ہو گی کہ یوکرائن کے معاملے میں امریکہ زیلنسکی کی مزید مدد نہیں کرے گا۔ چین کی بات کریں تو وہ اپنی معاشی ترقی کو ناقابل تسخیر بنانے میں مگن ہے لیکن ساتھ ساتھ عسکری سطح پر بھی معمول سے بڑھ کر تیاری کر رہا ہے۔ بحیرۂ جنوبی چین میں مصنوعی جزیروں کا جال بچھا کر بہت بڑا اور انتہائی مؤثر فوجی اڈہ قائم کر چکا ہے۔ افریقہ کے اکثر ممالک میں چین ایک عرصہ سے سرمایہ کاری کر رہا تھا، اب اِن علاقوں میں اپنے فوجی اڈے بھی قائم کر چکا ہے۔ دوسری طرف پاکستان کی سی پیک کے حوالے سے عدم دلچسپی اور امریکہ کی جانب ایک مرتبہ پھر جھکاؤ نے چین کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ پاکستان کی بجائے افغانستان کے ساتھ معاشی و تجارتی تعلقات بہتر بنائے۔ پاکستان کو اِس وقت بدترین سیاسی انتشارو معاشی بحران کا سامنا ہے۔ پھر یہ کہ بلوچستان اور خیبرپختونخوا کو دہشت گردی کے عفریت نے دوبارہ اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل اپنے طویل المدتی منصوبہ یعنی گریٹر اسرائیل کے قیام اور تھرڈ ٹیمپل کی تعمیر سے کبھی رجوع نہیں کرے گا۔ اپنے بعض اہداف کی طرف پیش قدمی کے لیے اسرائیل کئی ممالک کے مابین جنگ کروا چکا ہے۔ ملاحم کا آغاز تو شاید 1990ء میں پہلی عراق جنگ اور اس میں فتح کے بعدجارج ایچ بش (بش سینئر) کی جانب سے نیو ورلڈ آرڈر کے اعلان سے ہی ہو گیا تھا۔ واللہ اعلم!
ایسی صورتِ حال میں اہم ترین سوال تو یہ ہے کہ پاکستان میں بیٹھا ہوا مسلمان غزہ کے مظلوم مسلمانوں کی مدد کیسے کرے؟ بنیادی بات تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس کی صلاحیت وقابلیت اور درپیش حالات کی حد تک ہی مکلف ٹھہرایا ہے۔ پھر یہ کہ صحیح مسلم کی ایک حدیث کے مطابق: ’’تم میں سے جوشخص منکر (غلط کام ) دیکھے، وہ اسے اپنے ہاتھ (قوت) سے بدل دے۔ اگر اس کی طاقت نہ رکھتا ہو تو اپنی زبان (جس میں قلم اور دورِجدیدکے جملہ جائز ذرائع بھی شامل ہیں) سے اس کی نکیر کرے۔ اگر اس کی بھی طاقت نہ رکھتا ہو تو اپنے دل میں (اسے برا جانے اور اسے بدلنے کی مثبت تدبیر سوچے) اور یہ ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے۔ ‘‘ لہٰذا ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ پاکستان اور دیگر مسلم ممالک کے عام شہری کیا کر سکتے ہیں۔ ذاتی اور خاندانی سطح پر تو غزہ کے مسلمانوں کے لیے گِڑگِڑا کر دعائیں مانگیں اور اسرائیل کے نیست و نابود ہونے کے لیے قنوتِ نازلہ کا اہتمام کریں۔ اپنے بچوں کو فلسطین کی تاریخ اور قابض یہودیوں کی سازشوں کے حوالے سے آگاہی دیں تاکہ ان میں جذبۂ جہاد و شوقِ شہادت پیدا ہو۔ جہاں تک ممکن ہو اپنے مظلوم فلسطینی بھائیوں کی مالی امداد کریں۔ علماء کرام اور دینی جماعتیں یک نکاتی ایجنڈا پر آپس میں ربط و ضبط قائم رکھیں اور مستقل مزاجی کے ساتھ علماء کرام و دینی جماعتوں کے مشترکہ اجلاس بلائے جائیں جن میںموجودہ صورتِ حال کے حل کے حوالے سے مشاورت کے بعد عملی اقدامات تجویز کیے جائیں۔ اسلام آباد کے ٹھنڈے ہالوں میں محض ایک کانفرنس میں شعلہ بیانی کرکے یہ سمجھنا کہ ہم نے اپنے حصّہ کا کام پورا کر دیا ہے محض خود فریبی ہوگی اور اِس کا طاغوتی قوتوں پر کچھ اثر نہیں پڑے گا۔ پھر یہ کہ اسرائیلی درندے تو فلسطینی مسلمانوں پر حملے کرکے انہیں شہید کرنے سے تھکے نہیں، لیکن مسلم دنیا کے عوام و حکمران اسرائیل کو فائدہ پہنچانے والی مصنوعات کے بائیکاٹ کو شاید مکمل طور پر بُھلا چکے ہیں۔ مسلم ممالک غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے فوری طور پر اسرائیل کو فائدہ پہنچانے والی کمپنیوں کا سرکاری سطح پر مکمل اور مستقل بائیکاٹ کریںبلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر ایسے ممالک جو اس معاملہ میں خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں ان کی مصنوعات کا بھی حکومتی سطح پر بائیکاٹ کیا جائے۔ زبانی جمع خرچ نہیں، عملی اقدامات کریں! اسرائیل کی ظالمانہ کارروائیوں کا اصل حل تو یہ ہے کہ تمام مسلم ممالک سرکاری سطح پر اُس کا مکمل معاشی بائیکاٹ کریں اور اُس کے خلاف عسکری کارروائی پر اتفاق کریں، جس کا مینڈیٹ اوآئی سی کے چارٹر میں بھی موجود ہے۔ علاوہ ازیں، غزہ اور مقبوضہ فلسطین کے دیگر علاقوں میں قابض صہیونی فوج کے خلاف مزاحمت کرنے والے مجاہدین کی مالی امداد کا اہتمام کریں ، عوام الناس کو بھی کھل کر اس کی ترغیب و تشویق دلائیں۔ تحریکِ مزاحمت تک اِس مالی امداد کوپہنچانے کا فول پروف بندوبست کریں ۔ مسلم ممالک اگر آپس کی رنجشیں بُھلا کر اب بھی اسرائیل کے خلاف عملی طور پر میدان میں نہیں اُترتے تو سقوطِ غزہ کا شدید خطرہ ہے جس کے بعد اسرائیل عربوں اور دیگر مسلم ممالک پر چڑھائی کر دے گا۔وقت اور خصوصا ًآج کل کے حالات نے بلاشک و شبہ یہ ثابت کر دیا ہے کہ موجودہ عالمی نظام یعنی اقوامِ متحدہ اور دیگر عالمی فورمز مکمل طور پر ناکام اور بے اثر ہو چکے ہیں اور اُن سے خیر کی کسی بھی نوع کی توقع رکھنا یا اُن پرانحصار کرنا عبث ہے۔ اسرائیلی درندگی کی روک تھام کے لیے جو بھی کرنا ہے وہ مزید وقت ضائع کیے بغیر خود پاکستان، دیگرمسلم ممالک اور دنیا کے باشعور عوام و آزاد ممالک ہی کو متحد ہو کر کرنا ہو گا۔ لہٰذا مسلم ممالک اقوامِ متحدہ سے ماورااپنے تحفظ کے لیے اقدامات کرنے کے حق کو اجاگر کریں اور اِس نوعیت کی کسی پالیسی کو عملی شکل دیں ۔
حکومتِ پاکستان اور اسٹیبلشمنٹ کو یہ بھی یاد رہنا چاہیے کہ اسرائیل کا انتہائی اہم ہدف پاکستان کے ایٹمی پروگرام اور میزائل ٹیکنالوجی کو نقصان پہنچانا ہے۔ پاکستان کے عوام، دینی و سیاسی جماعتیں اور مقتدر حلقے متحد ہوں اور امریکہ سے خوف زدہ ہونے کی بجائے اللہ تعالیٰ پر بھروسا کریں۔ فلسطینی مسلمانوں کی مدد اور مسجدِ اقصیٰ کے تحفظ کے لیے دینی غیرت کا مظاہرہ کریں۔ اسرائیل کو منہ توڑ جواب دیں تاکہ دنیا اور آخرت دونوں میں بدترین رسوائی سے بچا جا سکے۔ اللہ تعالیٰ مسلم ممالک کے حکمرانوں اور مقتدر حلقوں کوہدایت عطا فرمائے اور اہلِ غزہ کی مشکلات کو آسان کرے۔ آمین!
tanzeemdigitallibrary.com © 2025