(منبرو محراب) حاصلِ رمضان: سچی توبہ - ابو ابراہیم

10 /

حاصلِ رمضان: سچی توبہ

(قرآن و حدیث کی روشنی میں )

 

مسجد جامع القرآن قرآن اکیڈمی لاہور میں امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ حفظ اللہ کے4اپریل 2025ء کے خطاب جمعہ کی تلخیص

مرتب: ابو ابراہیم

خطبۂ مسنونہ اور تلاوتِ آیاتِ قرآنی کے بعد!
اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل و کرم سے رمضان کا مقدس ماہ ہمیں عنایت فرمایا، جس میں ہم نے اللہ کی توفیق سے محنت کی، اللہ تعالیٰ اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے ۔ یہ مشقت بھری عبادت تھی جس سے ہم گزرے ، دن کوروزہ رکھا اور رات کو قیام کیا ، بعض لوگوں نے اعتکاف بھی کیا، صدقات و خیرات کا معاملہ بھی ہوگیا ، کچھ گناہوں سے بچنے کا اہتمام بھی ہو گیا، اتنی ساری محنت کے بعد ہمیں غور کرنا چاہیے کہ رمضان کے بعد آج ہم کہاں کھڑے ہیں ؟
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ہم نےروزے رکھ لیے ، نوافل ادا کرلیے ، قرآن کی تلاوت کرلی ، نمازیں پڑھ لیں ، عید منالی تو بس اسلام کے تقاضے پورے ہوگئے ۔ یہ تصور غلط ہے۔ماہِ رمضان تو اس لیے آیا تھا تاکہ ہم تقویٰ  حاصل کریں ، اللہ کے فرمانبردار بندے بن جائیں ، ہر قسم کے گناہ کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیں ۔ آج یہی ہمارا موضوع ہے کہ رمضان کا حاصل کیا ہے ؟ قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے :
 ’’اور میں تویقیناً بہت ہی معاف فرمانے والا ہوں ہر اُس شخص کے لیے جس نے توبہ کی‘ ایمان لایا‘ نیک اعمال کیے ‘اور پھر سیدھی راہ پر چلتا رہا۔‘‘(طٰہٰ:82)
مفسرین کے مطابق اس سےپچھلی آیت میں مغضوبین کو تنبیہہ تھی کہ حرام کو چھوڑ دو ، گناہوں کو چھوڑ دو ، نافرمانیوں کو چھوڑ دو اور جو حلال رزق اللہ نے عطا کیا ہے اس میں سے کھاؤ پیو ۔ بصورت دیگر تمہارے لیے اللہ کا عذاب ہے ۔ اس کے بعد اس آیت میں مغفورین کا بیان ہے جن کو اللہ تعالیٰ معاف فرمائے گا ۔ بے شک اللہ تعالیٰ  بہت معاف کرنے والا ہے مگر یہ معافی ان لوگوں  کے لیے ہے جو توبہ کریں ، ایمان لائیں ، نیک اعمال کریں اور پھرمرتے دم تک صراط مستقیم پر چلتے رہیں ۔ یہاں توبہ کی چار شرائط بیان ہوئی ہیں ۔ 
پہلی شرط : توبہ و استغفار 
توبہ اور استغفار اکثر کلمات میں ساتھ ساتھ بیان ہوتے ہیں ۔ مثال کے طور پر استغفار کے کلمات میں ہم پڑھتے ہیں :
((‎اَسْتَغْفِرُ اللهَ رَبِّىْ مِنْ کل ذَنبٍ وَّ اَتُوْبُ اِلَيْهِ))‎’’میں اللہ سے اپنے تمام گناہوں کی بخشش مانگتا ہوں جو میرا رب ہے اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔‘‘
((أَسْتَغْفِرُ اللهَ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ)) ’’میں اللہ تعالیٰ سے بخشش طلب کرتا ہوں، جس کے سوا کوئی برحق معبود نہیں، وہ زندہ ہے اور قائم رکھنے والا ہے اور میں اسی سے توبہ کرتا ہوں۔‘‘ 
سورۃ ھود میں ایک سے زائد مرتبہ پیغمبروں کی دعوت کے ذیل میں ذکر آیاہے کہ :
{وَّاَنِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ثُمَّ تُوْبُوْٓا اِلَیْہِ } ’’اور  اپنے رب سے استغفار کرو‘پھر اُس کی جناب میں توبہ کرو۔‘‘
 پیغمبروں کی دعوت کے بنیادی نکات میں استغفار اور توبہ کی دعوت بھی شامل ہے۔ استغفار ماضی کی غلطیوں ، گناہوں پر ندامت کے ساتھ معافی کی درخواست ہے اور توبہ آئندہ گناہوں سے بچنے کا عہد ہے ۔ ایک عام تصور ہے کہ استغفار صرف گناہوں پر کی جاتی ہے ۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے ۔ اللہ کے رسول ﷺہر فرض نماز کے بعد یہ دعا پڑھتے تھے :
 اللہ اکبر استغفر اللہ استغفر اللہ استغفر اللہ 
حضورﷺ تو ویسےہی معصوم ہیں اور آپ ﷺ کی نماز ، رکوع اور سجود کتنے اعلیٰ ہوں گے مگر اس کے باوجود اُمت کی تعلیم کے لیے استغفار کرتے تھے کہ یارب ! تیرے حکم پر رکوع و سجود کیے ، اگر کوئی کمی رہ گئی ہو تو معاف فرمادے ۔ ذرا سوچئے ! مجھے اور آپ کو قدم قدم پر استغفار کی کتنی ضرورت ہے ؟ قدم قدم پر ہم سے کتنی لغزشیں ہو رہی ہوں گی شاید ہمیں معلوم بھی نہ ہو اور شاید ہم بھول جائیں لیکن اللہ کو ہر بات کا علم ہے اور وہ بھولنے والا بھی نہیں ہے ۔ عربی زبان میں مغفر جنگ کے دوران استعمال ہونے والے خود ( ہیلمٹ) کو کہتےہیں جوکہ سر کو ڈھانپ لیتا ہے ۔ اسی طرح جب ہم استغفار کرتے ہیں تو گویا ہم رب سے دعا کرتے ہیں کہ ہمارے گناہوں کو پردے میں رکھ کر معاف فرما دے ۔ 
اب معاملہ یہ ہے کہ رمضان میں نماز جمعہ کے بعد ، نماز تراویح کے بعد ،تکمیل قرآن کے بعد، 27 ویں شب کو دعائیں ہوئیں اور ہم آمین کہتے رہے :
{قَالاَ رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَاسکتۃ وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ(23)} (الاعراف:23) ’’(اس پر) وہ دونوں پکار اُٹھے کہ اے ہمارے رب ہم نے ظلم کیا اپنی جانوں پر‘ اور اگر تونے ہمیں معاف نہ فرمایا اور ہم پر رحم نہ فرمایا تو ہم تباہ ہونے والوں میں سے ہو جائیں گے۔‘‘
{وَقُلْ رَّبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَاَنْتَ خَیْرُ الرّٰحِمِیْنَ(118)} (المومنون :118) ’’اور دعا کیجیے کہ پروردگار! ُتو ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم فرما‘ اور ُتو تمام رحم کرنے والوں میں سب سے بہتر رحم کرنے والا ہے۔‘‘
اسی طرح دیگر کئی مسنون دعائیں ہوئیں اور ہم آمین کہتے رہے لیکن رمضان کے بعد مساجد خالی ہوگئیں، فرض نمازوں میں بھی صفیں خالی ہوگئیں ، قرآن کی تلاوت بند ہوگئی۔الا ماشاء اللہ۔ کیا مطلب ؟ صرف رمضان میں عبادات اور استغفار کرنے سے ہمیںنجات کا سرٹیفیکیٹ مل گیا ؟اللہ کے رسول ﷺ تو ہر نماز کے بعد استغفار کرتے تھے ۔ کیارمضان کے بعد اللہ اللہ نہ رہا جس کے لیے ہم نے روزے رکھے ، تراویح ادا کی ، قرآن کی تلاوت کی ؟ اللہ تعالیٰ تو اب بھی موجود ہے ، اسلام اور قرآن بھی موجود ہے ، اسلام کے تقاضے بھی موجود ہیں ۔ رب کی عبادت کا تقاضا تو مرتے دم تک ہے :
{وَاعْبُدْ رَبَّکَ حَتّٰی یَاْتِیَکَ الْیَقِیْنُ(99)}(الحجر) ’’اور اپنے رب کی بندگی میں لگے رہیں یہاں تک کہ یقینی شے (موت) وقوع پذیر ہو جائے۔‘‘
لیکن ہم نے دیکھا کہ چاند رات کو ہی گویا سب کچھ بدل گیا ، ہوائی فائرنگ، ہلڑ بازی ، کیا کچھ نہیں ہوتا۔ کیا رمضان کے بعد ہم اسلام کے تقاضوں سے آزاد ہو گئے ۔ کلمہ طیبہ لا الٰہ الا اللہ کے تقاضے تو مرتے دم تک ہیں ۔ روزے کا مقصد تو یہ تھا کہ جس طرح ہم نے اللہ کے حکم پر حلال چھوڑدیا اسی طرح ہم اللہ کے حکم پر حرام کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیں ۔ رمضان کے روزے تو ختم ہو گئے مگر پوری زندگی کا روزہ چل رہا ہے ۔ 
استغفار کا اگلا مرحلہ توبہ ہے ۔ یعنی ہم آئندہ کے لیے بھی اللہ کی نافرمانیوں سے اسی طرح بچتے رہیں ۔ توبہ کا اصل مفہوم ہے پلٹ آنا۔اللہ کی طرف رجوع کر لینا ، نافرمانیوں کو چھوڑ کر اللہ کی فرمانبرداری اختیار کرنا ۔ نماز ترک کیے بیٹھے ہو تو اسے دوبارہ شروع کرو، قرآن بند کیے بیٹھے ہو تواسے دوبارہ کھولو اوراسے سمجھنے ، پڑھنے اور عمل کرنے کی کوشش کرو ۔ ماں باپ کا دل دکھائے بیٹھے ہو تو ان سے معافی مانگ لو ، گھر میںاللہ کی نافرمانیاں ہو رہی ہیں تو انہیں روکنے کی کوشش کرو اور اللہ کے دین کو گھر میں نافذ کرنے کی کوشش کرو ، بے پردگی اور بے حیائی کا راستہ روکو ، حجاب اور حیا کو رواج دو ۔ صرف 27ویں شب کو چندآنسو بہادیئے تو سمجھ لیا کہ بخش دیئے گئے ، ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ بخشش کے لیے ضروری ہے کہ آئندہ کے لیے توبہ بھی کرو ۔ 
 توبہ کی بڑی فضیلت ہے مگر شرط یہ ہے کہ توبہ پکی ہو ۔ پارٹ ٹائم توبہ اللہ کو پسند نہیں ۔ اسی طرح پارٹ ٹائم مسلمان بھی اللہ کو نہیں چاہیے کہ ایک ماہ نیکی اور عبادت کا ماحول تھا تو نمازیں بھی پڑھ لیں ،تلاوت بھی کرلی ۔ جب رمضان چلا گیا تو نماز بھی چھوٹ گئی ، حرام اور حلال کی تمیز بھی نہ رہی ۔ اللہ کو فل ٹائم مسلمان قبول ہے ۔ فرمایا :
{یٰٓــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃً ص} (البقرہ :208) ’’اے اہل ِایمان! اسلام میں داخل ہو جائو پورے کے پورے۔‘‘ 
پھر یہ کہ توبہ وہ ہو جو رب کی رضا اور خشیت الٰہی کی وجہ سے کی جائے ۔ اللہ کے رسولﷺ فرماتے ہیں : دوقطرے اللہ کو بہت پسند ہیں : ایک شہید کے خون کا وہ قطرہ جو اللہ کی راہ میں لڑتے ہوئے بہایا گیا ۔ دوسرا وہ آنسو جو اللہ کی خشیت کی وجہ سے آنکھ سے نکل جائے ۔ ایک روایت میں ہے کہ جب انسان کی ایسی کیفیت ہو کہ اللہ کی خشیت کی وجہ سے اُس کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں تو اس کے صغیرہ گناہ ایسے جھڑتے ہیں جیسے خزاں  کے موسم میں درختوں سے پتے جھڑتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ  عبادت کی یہ لذت ہمیں نصیب فرمائے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ یہ نگاہ جب غلط استعمال ہوتی ہے ، بے حیائی اور بدنگاہی کا معاملہ ہوتا ہے تو اس کی وجہ سے عبادت کی لذت ختم ہو جاتی ہے ، ایمان کی مٹھاس چھن جاتی ہے جس کی وجہ سے دعا کا اثر بھی ختم ہو جاتاہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے :
{اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ لا} (البقرہ :186) ’’میں تو ہر پکار نے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں جب بھی (اور جہاں بھی) وہ مجھے پکارے‘‘ 
لیکن اسی آیت میں آگے شرط بھی بتا دی :
{فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَلْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّہُمْ یَرْشُدُوْنَ(186)} ’’پس انہیں چاہیے کہ وہ میرا حکم مانیں‘اور مجھ پر ایمان رکھیں‘تاکہ وہ صحیح راہ پر رہیں۔‘‘ 
دوسری شرط : ایمان 
اس کے دو پہلو ہیں : (1) جو کوئی کفر اور شرک پر ہے تو وہ ایمان لے آئے ۔ اللہ کے رسولﷺ فرماتے ہیں : جو بندہ اسلام قبول کرتاہے اس کے پچھلے سارے گناہ ایسے معاف ہو جاتے ہیں جیسے بچہ پیدائش کے وقت گناہوں سے پاک ہوتاہے ۔ (2) پہلے سے مسلمان ہے لیکن گناہوں کی نحوست سے ایمان کمزور پڑ گیا ہے تو یہ دل میں ایمان کو تازہ کرے ۔ ایمان واپس کیسے آئے گا ؟ اس کے لیے قرآن میں جواب ہے : 
{وَاِذَا تُلِیَتْ عَلَیْہِمْ اٰیٰتُہٗ زَادَتْہُمْ اِیْمَانًا }(الانفال :2)  ’’ اورجب انہیں اُس کی آیات پڑھ کر سنائی جاتی ہیں توان کے ایمان میں اضافہ ہو جاتا ہے۔‘‘
اسی طرح بندہ کائنات میں پھیلی ہوئی قدرت کی نشانیوں پر غور کرے اور کچھ نہیں تو اپنے وجود پر غور کرے ۔ کون ہے جو ایسی شاہکار تخلیق کر سکتاہے ؟اللہ کے رسول ﷺ اور صحابہ کرام؇ کی سیرت کا مطالعہ کرنے سے بھی ایمان بڑھتا ہے ۔
ڈاکٹر اسراراحمدؒ فرماتے تھے کہ رمضان میں نیکی کا ایک ماحول ہوتاہے ، ہر مسلمان کوشش کرتاہے عبادات اور تلاوتِ قرآن میں حصہ لینے کی ۔ ایک آفس میں 20 افراد کام کرتے ہیں تو نماز کے لیے بیس کے بیس اُٹھ جائیں گے لیکن رمضان کے بعد 20 میں سے ایک دو افراد ہی اُٹھ پائیں گے کیونکہ رمضان میں ایک ماحول تھا جو اب نہیں رہا ۔ لہٰذا اللہ کی بندگی کے لیے یہ ماحول ہمیں خود بنانا پڑے گا ۔ روزے کا مقصد اللہ نے بتایا :
{ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ}(البقرہ :183) 
تا کہ تم تقویٰ اختیار کرو ۔
اگر رمضان کا حاصل تقویٰ ہے تو پھر اس کو برقرار رہنا چاہیے ۔ رمضان کے بعد بھی اللہ کی فرمانبرداری اسی طرح قائم رہے ۔ جب آپ دینی اجتماعیت کے ساتھ جڑتے ہیں تو آپ کو نیکی کا ایک ماحول میسر آتاہے اور وہاں  عبادات اور دینی ذمہ داریوں کو ادا کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ 
تیسری شرط : نیک اعمال 
ایمان دل میں ہوگاتو عمل ثبوت پیش کرے گا۔  ماتھے پر نہیں لکھا ہوگا کہ دل میں ایمان ہے۔اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا: ’’مومن وہ ہے جسے دیکھ کر اللہ یاد آئے۔‘‘ یعنی اس کا قول و فعل ، اس کا کردار ، اس کے اعمال گواہی دیں کہ وہ اللہ پر ایمان رکھتا ہے ۔ اس کے شب وروز ، اس کے معمولات ، اس کے معاملات اس کے دین کی گواہی دیں ۔اس لحاظ سے حقیقی اُمتی وہ ہے جسے دیکھ کر رسول اللہ ﷺ یا د آئیں ۔ یعنی اس کے اعمال اور کردار دیکھ کر معلوم ہو کہ وہ واقعی اُمتی ہے ۔ آج ہم اپنا جائزہ لیں۔ بحیثیت مجموعی ہمارے اعمال و کردار کو دیکھ کر لوگوں کو اللہ یاد آتا ہے؟کیا آج ہمیں دیکھ کر لگتا ہے کہ ہم اُمتی ہیں؟ ہماراقول و فعل ، کردار و اعمال ، اُٹھنا بیٹھنا ، گھر بار ، کاروبار ، معاملات رسول اللہ ﷺ کے اُمتی جیسا ہے؟
نیک اعمال میں حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں  شامل ہیں ۔ ایک انفرادی ذمہ داری ہے وہ بھی پوری کرنی ہے۔ ایک اجتماعی ذمہ داری ہے، وہ بھی پوری کرنی ہے۔ اپنی انفرادی زندگی میں بھی اللہ کا بندہ بننا ہے ، اپنے گھربار، کاروبار ، سیاست ، معاشرت ، معیشت ، ریاست سمیت ہرجگہ اللہ کی بندگی کے نظام کو قائم کرنے کی جدوجہد کرنی ہے ۔ 
چوتھی شرط : صراط مستقیم پر قائم رہنا 
توبہ کی آخری شرط یہ ہے کہ بندہ صراط مستقیم پر قائم رہے ۔ اس کی زندگی اسلام کے مطابق ڈھل جائے ۔ اگر 
رمضان کے بعد ہماری زندگی میں واقعی ایسی تبدیلی آئی ہے تو پھر رمضان کا مقصد حاصل ہو گیا ہے ، پھرعید کی خوشیاں حقیقی ہیں ۔ لیکن اگر چاند رات آتے ہی نافرمانیاں  لوٹ آئی ہیں تو گویارمضان سے ہمیں کچھ حاصل نہیں ہوا ۔  حقیقی تبدیلی دل سے آتی ہے ، اس کے بعد کسی بڑے انقلاب کی بات ہو سکتی ہے ۔ اگر اپنا من ہی ایمان سے خالی ہے تو پھر انقلاب کےخالی دعوے ہیں۔ جو ایمان ہمیں بستر سے اُٹھا کر مصلے پر کھڑے نہیں کر رہا وہ باطل نظام کے خلاف کیسے کھڑا کرے گا ؟ 
ملکی صورتحال
آج پاکستان پھر مشکلات کا شکار ہے ۔ بلوچ  عوام کو ہم ناراض کیے بیٹھے ہیں ، پشتون ناراض ہیں ، سندھ والوں کو بھی ناراض کرنے کی پوری کوششیں ہو رہی ہیں ، ہرطرف مصائب بڑھتے چلے جارہے ہیں ۔ یہ مصائب اور مشکلات مزید بڑھتی چلی جائیں گی جب تک کہ ہم اپنی بنیاد کی طرف لوٹ کر نہ آجائیں۔ یہ ملک ہم نے اسلام کی بنیاد پر حاصل کیا تھا اور اسلام کی بنیاد پر ہی بلوچ ، پشتون ، سندھی ، پنجابی ، سرائیکی ، کشمیری مل کر ایک پاکستانی قوم بنے تھے ۔ ہمیں جوڑنے والی چیز اسلام تھا ۔ لیکن ہم نے اسلام کو نافذ نہیں کیا ۔ اس لیے نفرتیں اور تعصبات اُبھر کر سامنے آرہے ہیں ۔ لہٰذا نفرتوں اورتعصبات کو ختم کرنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ ہم انفرادی اور اجتماعی سطح پر سچی توبہ کریں اور اسلام کے راستے پر لوٹ آئیں تو بحیثیت مسلمان ہم ایک قوم بن جائیں گے۔ اسلامی رشتے کے سوا ہمارے پاس کوئی راستہ نہیں ہے۔  ہمارے مقتدر طبقات سے غلطیاں ہوئی ہیں ، ان کا ازالہ اسی طرح ممکن ہے کہ توبہ کریں ، جن پر ظلم ہوا ہے ، جن کے حقوق پامال ہوئے ہیں ان کے ساتھ انصاف کریں اور انہیں گلے سے لگائیں ۔ 
غزہ کی صورتحال 
غزہ میں جنگ بندی کا ایک معاہدہ جنوری میں ہوا تھا لیکن اس وقت بھی ہم نے گزارش کی تھی کہ یہود کی تاریخ سے ثابت ہے کہ انہوں نے کبھی عہد کی پاسداری نہیں کی ۔ انہوں نے رسولوں کے ساتھ بھی غداری کی ، انہیں اذیتیں دیں اور قتل کیا ۔ انہوں نے اللہ کے آخری رسول ﷺ سے بھی عہد شکنی کی اور آپ ﷺ کے خلاف سازشیں کیں ۔ اپنی اسی روش پر قائم رہتے ہوئے اسرائیل نے معاہدے کی خلاف ورزی کی اور رمضان اور عید کے دوران غزہ کے مسلمانوں پر بمباری کرکے 650 سے زائد مسلمانوں کو شہید کردیا ۔ حتیٰ کہ اقوام متحدہ کے تحت چلنے والے سکول کو بھی نہیں بخشا اور بمباری کرکے 80 سے زائدافراد کو شہید کردیا جن میں اکثریت بچوں کی تھی ۔ دوسری طرف مسلم ممالک کی حالت یہ ہے کہ ٹرمپ کی ایک دھمکی پر مصر میں جمع ہو کر حامی بھر لی کہ غزہ پر اسرائیل نواز حکومت قائم ہو نی چاہیے جبکہ اس ظلم کے خلاف ان کی زبان سے ایک لفظ تک نہیں نکلا ۔ 
عام مسلمانوں کا طرزعمل بھی انتہائی مایوس کن ہے۔ شروع کے کچھ دنوں میں مظاہرے بھی ہوئے ، احتجاج ہوا ، اسرائیل نوازکمپنیوں کی مصنوعات کے خلاف بائیکاٹ مہم بھی چلائی گئی لیکن اس کے بعد ہم سب تھک گئے جبکہ غزہ کے معصوم بچے ، عورتیں اور مرد اپنی جانیں دیتے نہیں تھکے ۔ اگر آپ کا پیسہ غزہ کے بچوں کے قتل کے لیے استعمال ہو رہا ہے تو کیا روز محشر آپ سے پوچھا نہیں جائے گا ؟سب سے بڑھ کر ذمہ داری حکمرانوں  اور مقتدر حلقوں کی بنتی ہے ۔ ان کے پاس اختیار ہے ، طاقت ہے وہ اقدام کریں تو اس کا اثر ہوگا لیکن وہ بھی صرف مذمتی بیانات تک محدود ہیں ۔ یہی کام ہم ممبر پر بیٹھ کر کر رہے ہیں تو ہم میں اور حکمرانوں میں فرق کیا رہا ؟اِس سے بڑھ کر ظلم یہ ہے کہ مسلم ممالک سے گزر کر اسرائیل کو امداد ، اسلحہ اور تیل جارہا ہے ۔ رب کو کیا جواب دیں گے ؟
بہرحال حکمرانوں سے تو کوئی توقع نہیں ہے ، عوام خود غیرت ایمانی کا ثبوت دیں ۔ کم ازکم ہم اسرائیل نوازکمپنیوں کی مصنوعات کا بائیکاٹ تو کر سکتے ہیں، مالی تعاون تو کر سکتے ہیں ، دعائیں تو کر سکتے ہیں ۔ اس کے ہم مکلف ہیں اور روزِ قیامت ہم سے اس حوالے سے پوچھا جائےگا۔ اگر ہم یہ بھی نہیں کر رہے تو معاف کیجیے گا پھر اپنے مسلمان ہونے کے دعوے پر ہمیں نظر ثانی کرنی چاہیے ۔اللہ تعالیٰ حکمرانوں اور مقتدر حلقوں سمیت ہم سب کو ہدایت دے ۔ آمین !