مسلم حکمران اپنی کرسی اور اقتدار بچانے کے لیے
باطل قوتوں کے سامنے شرمناک حد تک جھکے
ہوئے ہیں:رضاء الحق
غزہ سد سکندری کی طرح ہے ، اگر یہ بند ٹوٹ گیا تو
اس کے بعد پورا عالم اسلام تباہی کی زد میں آجائے
گا : ڈاکٹر محمد عارف صدیقی
بھارت نے اسرائیل کے نقش قدم پر چلتے ہوئے
وقف( ترمیمی) قانون پاس کیا ہے جس کا نشانہ 30 ہزار
مساجد اور مدارس ہیں : سید فیضان حسن
’’یہود وہنود کی مسلم دشمنی اور عالم اسلام ‘ ‘
پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں معروف تجزیہ نگاروں اور دانشوروں کا اظہار خیال
میز بان : آصف حمید
مرتب : محمد رفیق چودھری
سوال: غزہ میں جاری جنگ کو روکنے کے لیے ایک معاہدہ ہوا تھا لیکن اسرائیل نے اس معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے رمضان المبارک میں اہل غزہ پر بمباری کی اور نہتے مسلمانوں کا خون بہایا ۔موجودہ صورتحال کے تناظر میں بتائیے کہ آج ہم کہاں کھڑے ہیں ؟
رضاء الحق: نبی کریمﷺ کے فرمان کا مفہوم ہے کہ عنقریب دیگر قومیں تم پر ایسے ٹوٹ پڑیںگی جیسے کھانے پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ پوچھا گیا : کیا ہم اس وقت تعداد میں کم ہوں گے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں! بلکہ تم اس وقت بڑی تعداد میں ہوں گے، لیکن تم سمندر کی جھاگ کی مانند ہوںگے، اللہ تعالیٰ تمہارے دشمنوں کے سینوں سے تمہارا رعب نکال دے گا، اور تمہارے دلوں میں’’ وہن‘‘ڈال دے گا۔ پوچھا گیا : وہن کیا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: دنیا کی محبت اور موت کا ڈر ۔‘‘یہ حدیث آج کے حالات پر صد فیصد منطبق ہوتی ہے ۔ مسلمان تعداد میں جتنے زیادہ آج ہیں، پہلے کبھی نہیں تھےمگر ان کا رعب دشمنوں کے دلوں سے اُٹھ گیا ہے۔پہلی جنگ عظیم میں آپ دیکھیں کہ یورپی طاقتوں نے مل کر سلطنت عثمانیہ کے ٹکڑے کردیے ۔ پھر نائن الیون کے بعد 40ممالک کو امریکہ نے دعوت دی اور سب نے مل کر افغانستان میں تباہی برپا کی ، اسی طرح شام اور لیبیا میں بھی کیا گیا ۔2003ء میں کولن پاول نے ایک جھوٹ گھڑ لیا کہ عراق کے پاس خطرناک ہتھیار ہیں جو کہ بعد میں ثابت نہ ہو سکے لیکن اس جھوٹ کی بنیاد پرامریکہ اور برطانیہ نے مل کر عراق کو تباہ کر دیا ۔ غزہ کی جنگ 7 اکتوبر 2023ء کو شروع نہیں ہوئی بلکہ 1917ء میں جب بالفور ڈیکلریشن پاس ہوا تھا اس کے بعد سے ہی فلسطین پر صہیونیوں کا قبضہ شروع ہو گیا تھا ۔ کچھ علاقے انہوں نے دھوکے سے خریدے لیکن زیادہ تر علاقوں پر دہشت گردی کے ذریعے قبضہ کیا اور پھر مسلسل قبضہ کرتے چلے گئے۔ اس کے ساتھ ساتھ فلسطینیوں کی نسل کشی بھی جاری رکھی ہوئی ہے، لیکن دو ارب مسلمان احتجاج اور مذمت کرنے کے سوا کچھ نہیں کر پارہے ۔ ان کی حیثیت سمندر کی سطح پر جھاگ سے زیادہ کچھ نہیں ۔ یہ وہی وہن کی بیماری ہےجس کا ذکر حدیث میں کیا گیا ہے ۔ دنیا کی محبت اور موت سے نفرت اس وقت مسلم ممالک کے حکمرانوں کا سب سے بڑا مسئلہ ہے ۔ وہ اقامت دین کی جدوجہد کو چھوڑ کر بڑی بڑی بلڈنگز اور شہر تعمیر کرنے میں لگے ہوئے ہیں ۔ کرسی و اقتدار کی دوڑ میں باطل قوتوں کے ہاتھوںمیں کٹھ پتلی بنے ہوئے ہیں، یہاں تک کہ کئی عرب اور مسلم ممالک اسرائیل سے تعلقات بڑھانے میں لگے ہوئے ہیں ، بعض تو اسرائیل کو تسلیم بھی کر چکے ہیں ۔ وہ اسلام کے نفاذ کے برعکس ناچ گانے ، بے حیائی اور فحاشی کو پھیلانے کے صہیونی ایجنڈے پر گامزن ہیں ۔ یہ دنیا پرستی اور موت کا خوف انہیں جہاد سے دو ر لے گیا ہے ۔ 7 اکتوبر 2023ء کے بعد کوئی ایک دن بھی ایسا نہیں گزرا جس میں اسرائیل نے غزہ پر بمباری نہ کی ہو اور روزانہ نہتے مسلمانوں کا خون نہ بہایا ہو ۔ 15 جنوری 2025ء کو جنگ بندی کا معاہدہ ہوا تھا جس کے ضامن امریکہ اور قطر تھے اور یہ معاہدہ 19جنوری کو نافذ ہوا تھا لیکن اس سے پہلے ہی اسرائیل نے خلاف ورزی شروع کر دی تھی ۔ اس نے نہ صرف بمباری کی بلکہ غزہ کے مختلف علاقوں پر قبضے کیے ، ادویات اور دیگر امدادی سامان کو جانے سے روکا ۔ انفراسٹرکچر کی تعمیر کے لیے جو مشینری درکار تھی، اس کے داخلے پر پابندی لگا دی ۔ پھر رمضان المبارک کے دوران معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اہل غزہ پر شدید حملہ کیا، جس میں تقریباً 650 مسلمان شہید ہوئے، جن میں زیادہ تر عورتیں اور بچے تھے ۔ پھر عید الفطر کے موقع پر بھی حملہ کرکے مسلمانوں کو شہید کیا ۔ یہاں تک کہ اقوام متحدہ کے زیر اہتمام چلنے والے ایک سکول پر بمباری کرکے 80 افراد کو شہید کیا، جن میں زیادہ تر بچے تھے ۔ بعض اطلاعات کے مطابق50 فیصد غزہ اس وقت اسرائیل کے قبضے میں ہے اور اہل غزہ کو اس نے چاروں طرف سے گھیرے میں لیا ہوا ہے ۔ اس کے باوجود اہل غزہ غیرت ایمانی کا ثبوت دے رہے ہیں ۔ اس قدرشدید بمباری کے باوجود بھی انہوں نے غزہ سے نکلنے کا کوئی ارادہ ظاہر نہیں کیا ۔ اس کی بنیادی وجہ ان کی بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ سے محبت ہے ۔ جبکہ دوسری طرف مسلم ممالک کے حکمران ٹرمپ کی ایک دھمکی پر مصر میں اکٹھے ہوگئے اور حماس کے خاتمے اور غزہ میں اسرائیل نوازحکومت قائم کرنے پر تیار ہوگئے ۔ افسوس ہے کہ مسلم حکمران اپنی کرسی اور اقتدار بچانے کے لیے باطل قوتوں کے سامنے شرمناک حد تک جھکے ہوئے ہیں۔
سوال: نیتن یاہو نے امریکہ کادورہ کیا اور ٹرمپ سے ملاقات کی جہاں اس کا بڑا پرتپاک استقبال کیاگیا ۔ حالانکہ اس نے معاہدہ توڑاہے اور وہ جنگی مجرم بھی ہے ۔ اس پر آپ کیا کہیں گے ؟
ڈاکٹر محمد عارف صدیقی: جرمنی میں جب یہودیوں کا قتل عام ہوا تھا تو یہودی کہتے تھے کہ ہمارے اوپر یہ جھوٹا الزام لگایا جارہا ہے کہ ہم جادو کرتے ہیں اور بچوں کو آگ میں جلاتے ہیں ۔ آج غزہ میں جو کچھ یہودی کر رہے ہیں اس کو دیکھ کر یہ ثابت ہوگیا ہے کہ وہ الزام جھوٹا نہیں تھا ۔ پھر جب ہم صلیبی جنگوں کے بارے میں پڑھتے ہیں تو ذکر ملتا ہے کہ قبلہ اول پر قبضہ کرتے وقت صلیبیوں نے مسلمانوں کا اتنا خون بہایا کہ گھوڑے گھٹنوں تک خون میں ڈوب جاتے تھے ۔ آج غزہ میں مسلمانوں کا قتل عام دیکھ کر یہ بات بھی سچ معلوم ہوتی ہے۔ یہودی اپنی تاریخ کو دہرا رہے ہیں ۔ امریکی صدور کے بارے میں ایک اوپن سیکرٹ ہے کہ ان میں سے ہر ایک فری میسن اور صہیونیوں کا آلہ کار ہوتاہے ۔ ٹرمپ بھی پہلے صدور سے مختلف نہیں نکلا ۔ ٹرمپ کی ٹیم میں زیادہ تر لوگ صہیونی اور صہیونیت نواز ہیں ۔ حلف اُٹھاتے ہوئے بھی ٹرمپ کے قریبی ساتھی ایلون مسک نے نازیوں والا فاشسٹ سلوٹ کیا جو اس بات کا پیغام تھا کہ دنیا اب فاشسٹ گورنمنٹ کے لیے تیار ہو جائے ۔ اس کے بعد اس کے اقدامات بھی اسی طرز کے ہیں ۔ یہود کی تاریخ سے واضح ہے کہ انہوں نے کبھی عہد کی پاسداری نہیں کی ۔ وہ غیر یہودیوں سے عہد کی پاسداری کو ضروری نہیں سمجھتے ۔ ان کی جان اور مال کو اپنے اوپر حلال سمجھتے ہیں کیونکہ وہ دوسروں کو جنٹائل اور گوئم سمجھتے ہیں ۔ حماس نے جو معاہدہ کیا وہ اسلامی اصولوں کے مطابق کیا اور اس کی پاسداری بھی کی لیکن اسرائیل نے جو کیا وہ خلاف توقع نہیں تھا اور اس کے بعد جب وہ ٹرمپ کے پاس پہنچا ہے تو ٹرمپ نے اس سے نہیں کہا کہ تم نے معاہدہ کیوں توڑا جس کا ضامن میں تھا ۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ معاہدہ بھی ایک دھوکہ تھا جس کا مقصد اپنے قیدی رہا کروانا تھا ۔ ہو سکتا ہے بدلے میں اسرائیل نے جو قیدی چھوڑے ان میں اسرائیلی ایجنٹ بھی ہوں یا ان کے ذریعے جاسوسی آلات داخل کیے ہوں جن کے ذریعے سیٹلائٹ یا اے آئی گائیڈڈ حملے کیے جائیں ۔ یہی وجہ سے کہ اس کے بعد حماس کے لوگوں کی زیادہ شہادتیں ہوئی ہیں ۔
دوسری طرف ہمارے حکمران اور مسلم ممالک کیا کر رہے ہیں ؟ پاکستان میں کرکٹ کا تماشا ہوگیا ۔ مصر میں ایک فٹ بال کلب میچ جیت گیا تو اس کے بعد قائرہ میں اس قدر شاندار قسم کا جشن منایا گیا اور آتش بازی کی گئی جیسے کوئی ملک فتح کرلیا ہو ۔ جبکہ ان کے پڑوس میں اہل غزہ خون میںلت پت ہیں ۔ مسلم حکمران کہتے ہیں کہ ہم عالمی معاہدوں کے پابند ہیں۔ اب یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے حکمران اقتدار میں آنے کے لیے ماورائے آئین اقدامات کرتے ہیں ، اپنے ملک کے قانون کو پامال کرتے ہیں تو پوری اُمت کے مفادات کے تحفظ کے لیے عالمی معاہدوں کے خلاف کیوں نہیں جا سکتے؟ پھر یہ کہ معاہدہ تو دو طرفہ ہوتا ہے ۔ اگر اسرائیل معاہدوں کو پاؤں تلے روند رہا ہے تو دوسرا فریق معاہدوں کا پابندکیوں ہے؟
سوال: ٹرمپ کے خلاف امریکہ میں آوازیں کیوں نہیں اُٹھتیں کہ تم ایک ظالم کا ساتھ دے رہے ہو؟
ڈاکٹر محمد عارف صدیقی:اکا دکا آوازیں تواُٹھی ہیں ۔ حالیہ دنوں میں مائیکروسافٹ کمپنی کے خلاف ردعمل آیا ہے کہ تم بھی مسلمانوں کے قتل عام میں ملوث ہو ۔ اسی طرح ایک بندے کو حرم میں پکڑ لیا گیا کہ تم فلسطینی جھنڈا کیوں اُٹھائے ہوئے ہو ۔ اس طرح کے اکا دکا واقعات تو ہر جگہ ہوتے ہیں لیکن جب فاشسٹ حکومت ہو توان آوازوں کو دباد یا جاتاہے ۔ جو آزادی اظہار رائے کے چیمپئن ہیں وہاں آج کوئی شخص اپنی رائے کو آزادی کے ساتھ پیش نہیں کر سکتا ۔
سوال: انڈیا میںوقف ترمیمی قانون پاس کر دیا گیا ہے۔ یہ قانون کیا ہے اور اس کے وہاں کے مسلمانوں پر کیا اثرات پڑیں گے ؟
سید فیضان حسن: بھارت میں بی جے پی حکومت کاشروع سے ہی یہ موقف رہا ہے کہ مسلمانوں کے دواستھان: قبرستان یا پاکستان۔ یہی آر ایس ایس کا ایجنڈا ہے ۔ آر ایس ایس خود تو سیاست میں حصہ نہیں لیتی لیکن اس نے بی جے پی کی صورت میں اپنا سیاسی ونگ رکھا ہوا ہے ۔ اسی ایجنڈے کے تحت 1990ء میں بابری مسجد شہید کی گئی اور اس کے بعد سے ان کا ہدف تھا کہ ہندوستان سے مسلمانوں کا صفایا کرنا ہے ۔ اس سے قبل بی جے پی کشمیر کی خصوصی حیثیت کو آرٹیکل 370 اور 35اے میں ترمیم کرکے ختم کرچکی ہے اور اس کے بعد وہ کشمیر میں ڈیموگرافی تبدیل کر رہا ہے ۔ اس کے بعد NRCکے نام سے شہریت قانون بنایا گیا جس میں مسلمانوں کی شہریت ختم کی گئی ۔ یعنی جو کچھ اسرائیل فلسطین میں کر رہا ہے وہی کچھ بی جے پی ہندوستان میں کر رہی ہے ۔ اب جو وقف ترمیمی قانون پاس کیا ہے، اس کا ٹارگٹ مساجد اور مدارس ہیں ۔ یعنی ساڑھے 9 لاکھ ایکڑ زمین مساجد اور مدارس کے پاس ہے اس پر قبضہ کرنے کا منصوبہ ہے ۔ اس قانون کے مضرا ثرات آنا شروع ہو گئے ہیں ۔ RSSنے کہہ دیا ہے کہ ہم 30 ہزار مساجد گرائیں گے ۔ بہت ساری مساجد پہلے ہی انہوں نے بند کی ہوئی ہیں ۔
رضاء الحق:آج بی جے پی مسلمانوں کے خلاف جو کھلے عام کر رہی ہے وہی کچھ کانگریس نے چھپ چھپا کر کیا۔1974ء میں اندرا گاندھی نے ایک وفد سپین اس لیے بھیجا تھا تاکہ وہ تحقیق کرے کہ وہاں سے مسلمانوں کا خاتمہ کس طرح کیا گیا تھا۔ وہی فارمولا بھارت میں بھی اپنایا جائے ۔ہندوؤں کے عقیدے اور نظریہ میں مسلم دشمنی شامل ہے ۔ یہ چیز قائداعظم اور مسلم لیگ کے دو قومی نظریہ کے تصور کو درست ثابت کرتی ہے۔ وقف( ترمیمی) قانون کے ذریعے وہ مساجد ، مدارس اوردرگاہوں کی زمینوں پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں جن سے مسلمانوں کو سالانہ 14 بلین ڈالر آمدن ہوتی ہے ۔ کشمیر پر پہلے ہی قبضہ کر چکےہیں۔ اس سے قبل وہ شہریت کے قانون میں تبدیلی کرکے بھارت کے مسلمانوں کی شہریت بھی چیلنج کر چکے ہیں ۔ پھر یہ کہ مودی نے اپنی الیکشن مہم کے دوران یہ کہاتھا کہ میں حکومت میں آکر مسلمانوں کے عائلی قوانین میں ترمیم کروں گا ۔ یہ خطرہ بھی سر پر منڈلا رہا ہے ۔
سوال: انڈیا میں مسلمانوں پر جومظالم جاری ہیں ، ان کے خلاف قانون سازی کرکے ان کے پیروں کے نیچے سے زمین کھینچی جارہی ہے، کیامسلمانوں کو اس کے خلاف احتجاج نہیں کرنا چاہیے تھا؟
ڈاکٹر محمد عارف صدیقی:احتجاج تو یہ ہے کہ مظاہرے کرلو ، جلوس نکال لو ، سڑکیں بند کرلو ، بینر لگا لو ، ٹاک شوز میں دل کی بھڑاس نکال لو ۔ یہ کام تو ہم پچھلے 77 سال سے کرتے چلے آرہے ہیں ، کیا اس کا کوئی فائدہ ہوا ؟ کشمیری احتجاج کرتے رہے ، دنیا سے اپنا حق مانگتے رہے لیکن افغانیوں نے کہا ہم نے اپنا حق خود لینا ہے ۔ انہوں نے لے لیا جبکہ کشمیری آج بھی احتجاج کر رہے ہیں۔ جب دنیا پر ظالموں کی حکمرانی ہو تو آپ احتجاج کس سے کریں گے ؟آج آپ کو فلسطین کا جھنڈا اُٹھانے کی اجازت نہیں ہے تو احتجاج سے کیا ہوگا ؟اصل ضرورت عملی اقدامات کی ہے ۔دنیا صرف طاقت کی زبان سمجھتی ہے، جہاں مسلمانوں پر ظلم ہو رہا ہے وہاں ان کے پاس طاقت نہیں ہے لیکن جہاں مسلمانوں کے پاس طاقت ہے وہاں دشمن قوتوں کے مفادات پر کاری ضرب لگائی جائے۔ خواہ وہ معاشی مفادات ہوں، سیاسی مفادات ہوںیا عسکری مفادات ہوں ۔ مثال کے طور پر اسرائیل نواز کمپنیوں کی مصنوعات کا بائیکاٹ کر دیں تو یہ ان کے معاشی مفادات پر کاری ضرب ہوگی کیونکہ ایسا کرکے آپ ان کو جانے والے پیسے کو روک سکتے ہیں۔ انڈیا میں مسلمانوں کا احتجاج نہ ہونے کے برابر ہے ۔وہ ایک طرح سے سرنڈر کر چکے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو دلت اور شودروں سے بھی کمتر درجے پر قبول کر چکے ہیں ۔ ہم جب ایک خاص سطح پرسرنڈر کر لیتے ہیں، بزدلی کو مصلحت اور منافقت کو حکمت کا نام دے کر خود کو دھوکہ دے لیتے ہیں تو شکست لازم ہوتی ہے ۔ پھر یہ کہ غلامی میں آدمی کا ضمیر بدل جاتا ہے ۔جیسا کہ آپ دیکھ لیں پاکستان میں بے شمار لوگوں نے سچ بولنا چھوڑ دیا ہے ۔ بین الاقوامی دباؤ ہو یا حکومتی دباؤ ہو ، معاشرے کا دباؤ ہو یا خاندان کا انسان اپنی گفتگو بدل لیتا ہے کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ میری فیملی میری وجہ سے پریشان ہو۔لہٰذا جب بھی ہم کمپرومائز کرلیتے ہیں تو گویا ہم خود کو پنجرے میں بند کر لیتے ہیں ۔
رضاء الحق: اقبال نے کہا تھا:
ملا کوجو ہے ہند میں سجدے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد
بنیادی طور پر دین کا جو جامع تصور تھا، وہ خلافت کے سقوط کے بعد جان بوجھ کر محو کر دیا گیا ۔ مسلمانوں کی اکثریت یہی سمجھتی ہے کہ نماز ، روزہ ، زکوٰ ۃ اور حج کر لو تو بس اسلام پورا ہوگیا ۔ جبکہ اسلام کے سیاسی ، معاشی اور معاشرتی نظام کو انہوں نے بھلا دیا ہے جس کی وجہ سے ہم سیاسی اور معاشی طور پر اغیار کے غلام بن چکے ہیں جبکہ معاشرتی سطح پر بھی مغربی طرز معاشرت کو اپنایا جارہا ہے ۔
سوال: جو لوگ کہا کرتے تھے کہ پاکستان بنانے کا فیصلے غلط تھا، وہ آج بھارت میں مسلمانوں پر ہونےو الے مظالم پر کیا کہیں گے ؟
رضاء الحق:ہمارے ہاں جو موم بتی مافیا ہے وہ غزہ میں جاری پندرہ ماہ کے ظلم پر کیوں خاموش ہے ، غزہ کے معصوم بچوں کی شہادت پر وہ احتجاج کیوں نہیں کرتے ۔ اصل وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ مغرب سے فنڈ لے کر مغربی ایجنڈے پر ہی کام کرتے ہیں ۔ جہاں تک بھارت کے مسلمانوں کا تعلق ہے تووہ آپس میں ہی تقسیم ہیں ۔ ایک حلقے میں اگر کوئی مسلم امیدوار کھڑا ہے تو اس کے مقابلے میں دیگر کئی مسلم امیدوار کھڑے ہو جاتے ہیں ۔ اس طرح مسلمانوں کا ووٹ تقسیم کرکے ہندو امیدوار جیت جاتے ہیں ۔ اس وقت بی جے پی کی حکومت میں ایک اتحادی جماعت کے 15 مسلمان لوک سبھا کے ممبر ہیں ۔ انہوں نے وقف (ترمیمی) قانون کے خلاف احتجاجی طور پر استعفیٰ دے دیا ہے ۔ بھارتی سپریم کورٹ میں اس قانون پر نظر ثانی کی درخواست بھی دائر کی گئی ہے لیکن آپ کو معلوم ہے کہ بھارت کی عدلیہ بھی RSSکے ایجنڈے کو سہارا دیتی ہے ۔افضل گرو کیس میں بھارتی عدالت نے یہ کہہ کر پھانسی کی سزا دی تھی کہ اگرچہ فیصلہ عدل کے تقاضوں کے مطابق نہیں ہے لیکن عوام کے جذبات کو سامنے رکھتے ہوئے ضروری ہے کہ افضل گروکو پھانسی دی جائے ۔ عوام کے جذبات تو اس وقت مودی اور RSSکے کنٹرول میں ہیں ۔
سوال: وقف ترمیمی قانون پر بھارتی میڈیا کا کیا ردعمل ہے ؟ کیا وہ بھارتی مسلمانوں کے جذبات کی ترجمانی بھی کر رہا ہے یا ہندو انتہا پسندوں کا ترجمان بنا ہوا ہے ؟
سیدفیضان حسن :انڈین میڈیا کوانڈیا میں گودی میڈیا کہا جاتاہے ۔جب سے مودی حکومت میں آیا ہے وہاں پر غیرجانبدارانہ بات کرنے والے لوگ میڈیا سے غائب ہوگئے ہیں ۔ بھارتی مسلمان اس قدر خوفزدہ ہیں کہ وہ کوئی بیان دینے سے بھی گھبراتے ہیں ۔ کچھ مسلمان احتجاج بھی کر رہے ہیں مگر ان کی تعداد بہت تھوڑی ہے ۔ دہلی میں مسلمان بازوؤں پر کالی پٹی باندھ کر جامع مسجد گئے تو ان میں سے 300 لوگوں کے خلاف FIRدرج کر لی گئی اور ہر ایک پر 10 لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا گیا ۔ ٹاک شوز میں ایک مسلمان کے مقابلے میں دس ہندو بول رہے ہوتے ہیں اور مسلمان کو صرف دو تین منٹ بولنے کا موقع ملتا ہے اور درمیان میں میزبان اس کو ٹوکتا رہتا ہے ۔
ڈاکٹر محمد عارف صدیقی:یہی تو فاشسٹ ریاست ہوتی کہ لوگوں نے احتجاج کیا تو ان کے خلاف FIRدرج ہوگئیں ۔ ایسی صورتحال میں میڈیا پر آکر کون سچ بولے گا ؟ صرف وہی لوگ میڈیا پر آکر بات کریں گے جن کے ساتھ پہلے سے طے ہوگا کہ آپ نے کیا بات کرنی ہے ۔
سوال: جب ہلاکو خان بغداد پر حملے کی تیاری کر رہا تھا تو بغداد کے مسلمان آپس کی بے معنی بحثوں میں اُلجھے ہوئے تھے ۔ کیا آج ہمارا حال بھی وہی نہیں ہے ؟
ڈاکٹر محمد عارف صدیقی: بے شک ایک ایسے وقت میں جبکہ غزہ میں مسلمان شہید ہورہے ہیں دوسری طرف یہاں اس پر بحثیں ہورہی ہیں کہ داڑھی کی لمبائی کتنی ہونی چاہیے ، پینٹ پہننا حلال ہے یا حرام ہے ؟ ٹائی لگانا حرام یا حلال ہے ؟ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہاں فرینڈز آف فلسطین کے نام سے تنظیم بھی کام کررہی ہے اور اہل غزہ کے لیے فنڈز بھی جمع ہو رہے ہیں ، ان کے اجتماعات بھی ہوتے ہیں ۔ لہٰذا سب کچھ غلط نہیں ہے ، البتہ اچھاکرنے کی صلاحیت کو بڑھانے کی ضرورت ہے ۔
رضاء الحق:7اکتوبر 2023ء کے بعد کئی مسلم ممالک کے حکمران سر پکڑ کر بیٹھ گئے تھے کہ ہم اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں اتنا آگے بڑھ رہے تھے یہ اچانک کیا ہوگیا۔ اسی طرح مسلم امہ اپنے اپنے مفادات میں الجھی ہوئی ہے ۔ نوجوان نسل سوشل میڈیا کے نشے میں مبتلا ہے ۔
میزبان: اس وقت امنِ عالم چند جنونی قسم کے لوگوں کے ہاتھوں یرغمال بن چکا ہے جن کے پاس طاقت بھی ہے اور اختیار بھی جبکہ دوسری طرف امت مسلمہ ایمان کی طاقت سے بھی محروم ہے ۔ جیسا کہ اقبال نے ابلیس کی مجلس شوریٰ نظم میں کہا تھا ؎
یہ غنیمت ہے کہ خود مومن ہے محرومِ یقیں
اگر امت مسلمہ اجتماعی توبہ کرے ، اپنے ایمان کو تازہ کرے اور اپنے اندر یقین پیدا کرے تو وہن کی بیماری ختم ہو سکتی ہے ۔ جیسا کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا : دلوں کو بھی زنگ لگ جاتا ہے جیسے کہ لوہے کو زنگ لگتا ہے ۔ پوچھا گیا: اس کا کیا علاج ہے؟ فرمایا: ((کثرۃ ذکر الموت وتلاوۃ القرآن))موت کا ذکر کثرت سے کرو اور قرآن سے ہدایت حاصل کر و۔ ہمیں اقوام متحدہ اور غیروں کی طرف دیکھنے کی بجائے خود کو مضبوط کرنا ہوگا۔ اپنے اندر ایمانی طاقت اور غیرتِ دینی پیدا کرنا ہوگی اور اسرائیل نواز کمپنیوں کی مصنوعات( جن سے یہود کو فائدہ پہنچتا ہے) کا مستقل بائیکاٹ کرنا ہوگا ۔ بقول اقبال؎
یہ گھڑی محشر کی ہے، تُو عرصۂ محشر میں ہے
پیش کر غافل، عمل کوئی اگر دفتر میں ہے!
اللہ تعالیٰ پاکستان کی حفاظت فرمائے ۔آمین