(نقطۂ نظر) مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی - ابو موسیٰ

10 /

مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی

ابو موسیٰ

تحریکِ انصاف کی حکومت قریباً تین سال پہلے عوامی حمایت کھو چکی تھی اوربُری طرح لڑکھڑا رہی تھی اِس پر ایک سیاسی مخالف نے بڑا خوب طنز کیا تھا کہ حکومتی ارکان کو ہیلمٹ پہن کر عوام میں نکلنا چاہیے اور یہ صاف نظر آرہا تھا کہ اگر اُس وقت انتخابات کروا دیئے جاتے تو تحریکِ انصاف کے امیدواروں کی اکثریت کی ضمانت ضبط ہو جاتی۔ مخالف جماعتیں مقتدرہ سے ساز باز کرکے تحریک عدم اعتماد سے حکومت سے نجات پانے میں تو کامیاب ہوگئیں لیکن اُنہوں نے فوری طور پر نئے انتخابات کرانے سے انکار کر دیا۔ اکثر سیاسی مبصرین کی رائے ہے کہ یہ مسلم لیگ (ن) پیپلز پارٹی اینڈ کمپنی کی حماقت عظمیٰ تھی۔ اُنہیں فوری طور پر انتخابات کروا دینے چاہیے تھے۔
راقم کی رائے میں یہ ہرگز اُن کی حماقت نہیں تھی بلکہ اُنہوں نے سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ کیا تھا کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ وہ اپنے خلاف کرپشن کے Open & Shut کیسز کو حکومتی دباؤ پر عدلیہ سے ختم کروا لیں اُن کا تیر نشانہ پر لگا اگرچہ ن لیگی لیڈر کے پاس منی ٹریل کا نام و نشان نہ تھا لیکن وہ لندن سے پاکستان آتے ہوئے جہاز ہی میں ’’باعزت‘‘ بری ہوگئے۔ برادرِ خورد منی لانڈرنگ کے بارے میں یہ کہہ کر کہ بچوں سے غلطی ہوگئی تھی۔ اعتراف جرم کر چکے تھے لیکن جس دن اُن پر فردِ جرم عائد ہونا تھی، معجزہ رونما ہوا اور وہ اُس دن وزیراعظم کی کرسی پر فِٹ کر دیئے گئے اور ٹین پرسنٹ سے بڑھ کر hundred percent پر ترقی کرنے والا آصف زرداری صدر پاکستان بنا دیا گیا۔ لہٰذا کرپشن میں لدا پھدا یہ ٹولا حکومت بنا کر دودھ سے دُھل گیا۔ یہ اِس لیے کیا گیا کہ کل کا کیا اعتبار ہے مقتدرہ کسی وقت رخ پھیر لے تو کرپشن کے انبار اور پہاڑ کھڑے کرکے جو یورپ، امریکہ وغیرہ کے بنکوں کو ’’مالی استحکام‘‘ بخشا گیا تھا، اُس کا انجام کیا ہوتا؟ لہٰذا اِن مفادات کے حوالے سے یہ اُن کا صحیح ترین فیصلہ تھا۔ پھر اُنہیں الہام تو نہیں ہونا تھا کہ عوامی سطح پر بازی یوں پلٹ جائے گی کہ اب وہ عوام میں ہیلمٹ پہن کر جائیں گے تو بھی سر نہ بچا سکیں گے۔ وہ تحریک انصا ف اور اس کا با نی عمرا ن خان جس کے بارے میں را قم سمیت اکثر ممبران کی را ئے یہ بن گئی تھی کہ وہ اب شاید پا کستا ن کی سیا ست میں Relevent ہی نہ رہے اور کبھی انتخا بی سیا ست میں حصہ نہ لے سکے ۔ اس کی سیا ست زمین میں دفن ہو جا ئے گی لیکن حیرت انگیز طریقے سے وہ یوں بلندیوں کی طرف محوِ پروا ز ہو ئی کہ دیکھتے دیکھتے بڑے بڑوں کی ٹوپی زمین پر آگرتی ہے ۔ اور کو ئی جٹ پگڑی سنبھال نہیں پا رہا، بہرحال اِس خطرے کو محسوس کرتے ہوئے کہ عرش سے فرش پر نہ آگریں۔ آئین کی ایسے مٹی پلید کی گئی کہ ہر چند کہیں کہ ہے پر نہیں ہے ۔ کسی صورت مقتدرہ کی گو د میں بیٹھی حکومت انتخا با ت کروا نے پر تیا ر نہ تھی یہا ں تک کہ وہ کا م جو کسی بنا نا رپبلک میں بھی نہیں ہو ا تھا یعنی سپریم کورٹ کو شٹ اپ کہہ دیا گیا ۔ بے چارہ منہ ہی دیکھتا رہ گیا۔ اُن دنوں میں سپریم کورٹ میں وکیل کم اور وردی زیا دہ نظرآ تی تھی۔ کس کی مجال تھی کہ مصنوعی حکومت کے خلاف کچھ کہہ سکے۔ بہرحال اپنی طرف سے پورا بندوبست کرکے 8فروری 2024ء کو انتخابات کے انعقاد کا اعلان کر دیا گیا اور ایک ایسا جج جس کے نام کے ساتھ بھی اگرچہ قاضی تھا لیکن وہ عدل و انصاف پر انتہائی بدنما دھبہ ثابت ہوا اب نظریہ ضرورت کے حوالے سے کوئی جسٹس منیر کا نام نہیں لیتا۔ قاضی نے تحریک انصاف کو انتخابی نشان سے محروم کرکے عدلیہ کو زمین بوس کر دیا اور بعدازاں جب عدالت میں اپنے ہی ساتھیوں نے اِس حوالے سے کڑے ہاتھوں لیا تو اِس نام کے قاضی نے سارا ملبہ الیکشن کمیشن پر ڈال دیا کہ اُس کے احکامات کو اِس محکمہ نے غلط مطلب پہنایا ہے۔
بہرحال ذی شعور اور محب وطن پاکستانیوں کی بہت بڑی اکثریت اب یہ تسلیم کرتی ہے کہ تحریکِ انصاف کو انتخابی نشان سے محروم کرکے پاکستان کی بنیادوں پر ایسا میزائل مارا گیا کہ پاکستان اب تک سنبھل نہیں پا رہا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان ماضی میں یہ فیصلہ دے چکا ہے کہ کسی جماعت سے انتخابی نشان نہیں چھینا جا سکتا۔ درحقیقت انتخابی نشان سادہ لوح عوام کا انتخابات کے اہم ترین پروسیجر میں حصّہ لینے یعنی ووٹ کاسٹ کرنے کا آئینی اور قانونی طریقہ ہے۔ لہٰذا یہ محض اُس جماعت کی حق تلفی نہیں بلکہ عوام کو اظہارِ حق رائے دہی کے اہم ترین جز سے محروم کرنا ہے۔ بہرحال صورتِ حال یہ ہے کہ قاضی صاحب نہ صرف پاکستان آنے سے خوفزدہ ہیں بلکہ بیرونِ ملک بھی محفوظ زندگی گزارنے کے لیے اُنہیں اپنی شکل تبدیل کروانی پڑ رہی ہے۔ ’’ہائے اُس زود پشیماں کا پشیماں ہونا!‘‘ قاضی صاحب کے اِس فیصلے کی وجہ سے تحریکِ انصاف ایک جماعت کی حیثیت سے الیکشن میں حصّہ نہ لے سکی اور جماعت سے تعلق رکھنے والے جتنے امیدوار تھے اتنے ہی تعداد میں اُنہیں انتخابی نشان ملے کسی کو بینگن اور کسی کو جوتا وغیرہ وغیرہ یہ سب کچھ تو پری پول رگنگ کہلائے گا۔ لیکن پھر 8 فروری کو ایک نئی تاریخ رقم ہوئی۔ لوگ ڈھونڈتے اور پوچھتے پھرتے تھے کہ عمران خان کے امیدوار کا اِس حلقہ میں کون سا انتخابی نشان ہے اور اُس روز عوام نے چُن چُن کر نشانہ بازی کی۔ شام تک نتائج میں یہ آزاد امیدوار قریباً دوتہائی اکثریت سے جیت چکے تھے۔ بڑے میاں صاحب مایوس ہو کر وکڑی سپیچ ہاتھوں میں لیے واپس جا چکے تھے۔ فارم45 ہاتھوں میں لیے یہ آزاد اراکین جشن منا رہے تھے۔ مسلم لیگ کے سربراہ کو اپنے لاہور کے حلقہ سے ایک کینسر زدہ بوڑھی عورت کے ہاتھوں ناقابل یقین حد تک بڑی شکست کا سامنا تھا کہ راتوں رات فارم 47 چھا گیا۔ یہ دھاندلی نہیں تھی کیونکہ پاکستان کے انتخابات میں دھاندلی تو اگرچہ جزولاینفک ہے۔ 5 سے 10 فیصد تک کا ریکارڈ ہے لیکن الیکشن کمیشن نے 2024ء کے انتخابات راتوں رات اپنے آفس میں دوبارہ کروائے اور فارم 47 کی صورت میں پبلک کر دیئے جس میں ایسی فاش غلطیاں بھی تھیں کہ بعض حلقہ جات میں صد فی صد ووٹ پڑے دکھائے گئے۔ اور پھر بڑے میاں صاحب کو کہا گیا کہ آپ واپس آجائیں اور ایک روز پہلے کی ’’باسی‘‘ وکڑی سپیچ کو تروتازہ کرکے پڑھنے کا کہا گیا لیکن بڑے میاں صاحب کے ’’ضمیر‘‘ نے تھوڑی سی انگڑائی لی۔ اُنہوں نے خود وزیراعظم بننے سے انکار کر دیا۔ ویسے بھی مقتدرہ کو شہباز شریف جیسا تراشا ہوا ہیرا چاہیے تھا جو اُنہیں مل گیا اور وہ اُس دن سے لے کر آج تک مالکوں کی مداح سرائی میں شب و روز گِن گِن کر دن گزار رہے ہیں، اللہ بھلا کرے۔
حقیقت یہ ہے کہ اگرچہ راقم کے لیے صحافی کا لفظ بڑا ہے اور نہ ہی کبھی باقاعدہ صحافی ہونے کا دعویٰ کیا ہے لیکن لگ بھگ پینتیس (35) برس سے سیاسی قلم کاری کر رہا ہوں جو جریدے اور بعض اوقات کچھ اخبارات میں بھی شائع ہوئے۔ میری تحریر میں نہ کبھی اتنی شدت آئی نہ ایسا طرزِتحریر سامنے آیا جو اِس تحریر میں ہے جو راقم کو خود پسند نہیں لیکن کیا کروں، ایسا ظلم بھی تو میرے پاکستان میں کبھی نہ ہوا تھا۔ یہ جیسے سب کا پاکستان ہے اِسی طرح میرا بھی ہے۔ لیکن جب دیکھتا ہوں کہ صرف ایک شخص کی دشمنی میں پاکستان کو کہاں پہنچا دیا گیا ہے کہ ’’نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن‘‘ خوف یہ ہے کہ کسی وقت آسمان سے پاکستان کے بارے میں کوئی فیصلہ نہ آجائے خدانخواستہ خدانخواستہ۔
حالت یہ کر دی گئی ہے کہ اگرچہ بلوچستان زمینی اور جغرافیائی لحاظ سے تو پاکستان سے اب تک جُڑا ہوا ہے لیکن کیا وہاں مرکز کی رتی بھر رٹ ہے۔ خیبرپختونخوا کی حکومت کو مرکز دشمن کی حکومت سمجھتا ہے اور اُس سے دشمن والا سلوک کر رہا ہے۔ اُس کے جائز فنڈز دبا کر بیٹھا ہوا ہے اور وہاں کی عوام میں سخت بے چینی ہے پہلے تو لوڈ شیڈنگ بھی انتہا درجہ کی تھی، وہ وہاں کی حکومت نے جنگ و جدل سے کم کروائی ہے۔ پنجاب کو ایسی خاتون کے حوالے کر دیا گیا جس کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ وہ محترمہ فارم 47 کی بدولت پنجاب اسمبلی کی رکن بن گئیں تھیں اور اب کارکردگی کے اربوں کے اشتہاروں نے مقبولیت کے حوالے سے بالکل ہی لٹیا ڈبو دی ہے۔ پنجاب کے لوگوں کی آنکھوں میں غصہ اور انتقام کے شعلے بھڑک رہے ہیں لیکن اُنہیں ڈنڈے سے، وہ بھی عام ڈنڈے سے نہیں بلکہ ایسے آہنی ڈنڈے سے جس پر خاکی کوّر چڑھا ہوا ہے، بُری طرح دبا کر رکھا گیا۔ ویسے بھی کون نہیں جانتا کہ اہل پنجاب ہمیشہ خاموش اور پسِ پردہ کام دکھاتے ہیں۔ جیسے اُنہوں نے 8 فروری کے الیکشن میں دکھایا ۔
سندھ کے شہروں میں پی پی پی کے خلاف شدید نفرت پائی جاتی ہے۔ البتہ اندرون سندھ کے دیہی علاقوں میں وڈیرہ راج ہے جن کا تعلق پی پی پی سے ہے، وہاں عوام کو نہ پہلے کبھی آزادی نصیب ہوئی تھی اور نہ آج ہے۔ اِس پس منظر میں خاکی آہنی چادر تان کر مرکزی اور صوبائی حکومتیں چل رہی ہیں۔
بیرونی سرمایہ کاری جتنی کم اِس وقت ہے، پاکستان کی تاریخ میں کبھی نہ تھی۔ بیرونی سرمایہ کاری کے بڑے بڑے اعلانات ہوتے ہیں لیکن عملی طور پر صفر ہے۔ پہلی حکومتیں بھی اگرچہ اپنی طاقت کے مطابق میڈیا کا گلہ دباتی تھیں، لیکن آج میڈیا پر مکمل قبضہ ہے۔ جس سے سوشل میڈیا پر افواہیں پھیل رہی ہیں۔ کنٹرولڈ میڈیا سے مضحکہ خیز دعوے کیے جاتے ہیں مرکز اور صوبوں میں اخباری اشتہارات دینے کا مقابلہ ہے اورایسے دعوے کیے جاتے ہیں کہ کسی باشعور آدمی کے لیے ہنسی ضبط کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
بجلی کا یونٹ ساڑھے7 روپے کم دیا گیا، اِس پر اربوں کے اشتہار دیے جا رہے ہیں۔ یہ نہیں بتاتے کہ تحریکِ انصاف کی حکومت ختم کر کے گزشتہ 3 سال میں لگ بھگ 45 روپے فی یونٹ بڑھایا بھی ہماری ہی حکومت نے تھا۔ وہ GDP جو تین سال پہلے 6.2 تھا آج بمشکل 2.5 فیصد تک پہنچا ہے۔ سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے اِس غریب قوم کا 37 ارب روپیہ لگا دیا گیا لیکن وہ ضائع ہوگیا۔ سوشل میڈیا کنٹرول نہ ہوسکا۔ عمران خان کی مقبولیت کم کرنے کے لیے ہر حربہ اختیار کیا گیا، چادر اور چاردیواری کے تقدس کا تصور ختم کر دیا گیا عورتوں کو سڑکوں پر گھسیٹا گیا، کارکنوں کے کاروبار تباہ کر دیئے گئے اُن کے گھر بل ڈوز کر دیئے گئے لیکن ’’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘‘ حقیقت یہ ہے کہ عمران خان جب تک جیل میں اُس کی مقبولیت کم نہیں ہو سکتی بہرحال ’’کہاں تک سنو گے کہاں تک سناؤں‘‘ میرے پاکستان کو برباد کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا گیا۔ اِس کی تفصیل لکھوں تو ایک ضخیم کتاب وجود ہیں آجائے گی۔
خارجی سطح پر باقی حقائق چھوڑ دیں کہ کیسے چین سے دوری اختیار کی جا رہی ہے اور امریکہ کے مفادات کا کس حد تک تحفظ ہو رہا ہے۔ دیگ سے صرف ایک چاول کا دانہ چیک کرتے ہیں۔ امریکہ کو خوش کرنے کے لیے یوکرائن سے اُس وقت گندم درآمد کی گئی جب گندم کے اپنے گودام بھرے پڑے تھے اور اپنے کسان کو تباہ و برباد کر دیا، جس کے نتائج نجانے کب تک بھگتنے پڑیں گے۔ اب ہم اِس امریکہ زدہ حکومت سے توقع کر رہے ہیں کہ غزہ کے فلسطینیوں کے لیے کچھ کرے۔ تو پھر راقم کیا عرض کرے، سادگی ہے، خوش فہمی ہے اور شاید اصل حالات سے مکمل لاعلمی ہے۔ حال میں جو گیارہ پاکستانی اسرائیل کی زیارت کرنے لیے گئے تھے اِن میں سے ایک خاتون نے جس طرح اسرائیل کی مداح سرائی کی ہے اِس سے سرکاری سطح پر لا تعلقی کا اظہار نہیں کیا گیا۔ بھٹو کے دور کی عرب اسرائیل جنگ کا کیا حوالہ دیں جب پاکستان سے جنگ میں حصّہ لینے کے لیے پائلٹ گئے تھے اور اُنہوں نے صد فی صد نتائج دیئے تھے ماشاء اللہ ماشاءاللہ۔ عمران مخالف صحافی حامد میر شاہد ہیں کہ جنرل باجوہ وزیراعظم عمران خان پر شدید دبائو ڈالتے رہے کہ اسرائیل کو تسلیم کر لو لیکن وہ نہ مانا، عمران کو نکالنے کی ایک وجہ یہ بھی بنی۔ یہاں تو شروع شروع میں اِس حوالے سے جلسوں اور احتجاج کو بڑے سائنٹیفک طریقے سے روکنے کی کوشش کی گئی بعدازاں عوام کے تیور دیکھ کر خاموشی اختیار کر لی گئی ہے اور مجبواً ایک آدھ سفارتی سطح پر فلسطینیوں کے حق میں حکومتی بیان بھی آجاتا ہے جس پر امریکہ کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ البتہ یہ بھی حقیقت ہے کہ عرب مسلمان ریاستیں تو اِس سے بھی گئی گزری ہیں اور غزہ پر اسرائیل کے مکمل کنٹرول کے انتظار میں ہیں۔ یہاں یہ سوال ہے کہ بھٹو نے ایسی جرأت کا مظاہرہ کیسے کر لیا تھا اور موجودہ حکومت حماس کا نام لینے کی بھی جرأت کیوں نہیں کرتی۔ جواب بڑا واضح اور سیدھا سا ہے کہ بھٹو کی پشت پر عوام تھی، آج کی حکومت اپنی پشت پر نگاہ ڈالنے کی جرأت نہیں کر سکتی کیونکہ پاکستانی عوام کی آنکھوں میں تو خون اُترا ہوا ہے۔جس امریکہ کی چھائوں میں ہماری حکومت پرورش پا رہی ہے اُس کے لے پالک اسرائیل کی مخالفت کیسے مول لی جا سکتی ہے۔