صد لحم پارئہ انسان
عامرہ احسان
رمضان المبارک اور عیدالفطر گویا پلک جھپکتے میں آئے اور گزر گئے۔ اللہ تعالیٰ اپنی شانِ کریمی کے مطابق ہماری مغفرت، رحمت و برکت محفوظ رکھے، ہمارے کمزور لرزاں و ترساں ایمان کی حالت پر رحم فرمائے (آمین) ہماری خوشیاں اور غم امت سے جڑے، سانجھے ہیں! دل کا ایک حصہ وقفِ غزہ رہتا ہے، ہم چاہیں بھی تو نظر چرا نہیں سکتے۔ نگاہ بھر کر دیکھ لیں تو سوائے درد کی ٹیسوں اور ان غموںکا لا دوَّا ہونا بے قرار کرتا ہے! غزہ کی عید بھی حسبِ سابق تھی۔ بے رحم بموں کی برسات، بے دخلی کے حکم، حسن البناء نے کہا تھا : ’’حقیقی عید وہی ہے جب تمہاری زمینیں آزاد ہوں گی۔ قرآن کی حاکمیت ہو گی۔ لہٰذا عید پر اپنے خوبصورت ماضی کو یاد رکھا کرو۔ (عید آزاداں شکوہِ ملک و دیں… عید محکوماں ہجومِ مومنین۔ ہماری عیدیں تو ہجوم کی عکاس ہیں!) میرے بچو! تم سب اپنی ذمہ دری کو سمجھو۔ اس راستے میں محنت کرو۔ ممکن ہے تمہیں قربانی دینی پڑے۔ گھبرانا مت! اللہ عزوجل تمہارے ساتھ ہیں وہ تمہیں ضائع نہ ہونے دیں گے! ان شاء اللہ۔‘ ‘
یہ سبق اہلِ غزہ کا پکا ہے۔ 18مارچ سے اسرائیل نے اچانک بلا تعطل بمباری شروع کر دی یکطرفہ جنگ بندی توڑ کر۔ انھوں نے برستے بموں میں ٹوٹی مساجد کے پہلو میں تراویح ادا کیں۔ عید کی تیاری بھی مقدور بھر کی تاکہ بچے نئے کپڑے جیسے اور جتنے میسر ہوں پہن کر عید منائیں۔ اور انھوں نے منائی! یوں کہ باپ کی مٹھی میں دبے عیدی کے نوٹ رہ گئے اور شہادت نے پورے خاندان کو آن لیا! کھانے کا لقمہ بچے کے کھلے منہ میں اٹکا رہ گیا اور گولی خون میں نہلا گئی۔ دونئے ننھے جوتوں کے جوڑے جو والدین نے سنبھال رکھے تھے عید کے لیے، ننھے اجسادِ خاکی کے کفنوں کے ساتھ رکھے دیکھے گئے ۔ ہردن سے بڑھ کر ہلاکت خیزی امریکی بموں اور اسرائیلی ہیلی کاپٹروں سے برستی گولیوں نے بروزِ عید دیں۔ ہم نے تو اپنی عید کو غمگین کرنا گوارا نہ کیا، قبرستان کی سی خاموشی یا ڈکاروں بھری تکبیرات، بے روح۔
ایک گوری رو رو کر سوجی آنکھوں کے ساتھ سوال کر رہی تھی۔ سچے ، تلخ سوال!’اگر کوئی ملک، برطانیہ پر ایسٹر یا کرسمس پر بمباری کرتا؟ اگر کوئی جنوبی انگلینڈ، پر بمباری کرتا لگاتار کئی مہینے تک یا فرانس میں بمباری سے اکٹھے 22مار دیتا۔ کیا خیال ہے دنیا کیا ردعمل دیتی؟ مگر … فلسطین میں قتلِ عام جاری ہے۔ اگر ایسا سفید فام قوم کے ساتھ ہوتا ؟…یہ ہو ہی نہیں سکتا۔ ناممکن ہے۔ ایسا کوئی ہونے نہ دے گا! اس کے باوجود برطانیہ، امریکہ ، اسرائیل کو فنڈ کر رہے ہیں۔ ہم یہ ظاہر کر رہے ہیں گویا یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں! ہم کس دنیا میں رہ رہے ہیں؟‘ نہایت بے حس دنیا میں! شاید ہم بھی مصنوعی ذہانت، روبوٹ ہوچکے۔ دل و دماغ پتھرا چکے۔ دھڑکنا بھول گئے۔ احساسات شل ہو گئے۔ جبالیہ میں کلینک میں بارہا بے دخل ہونے والوں، پناہ گزینوں پر بمباری ہوئی۔ ایک نوجوان کے ہاتھ میں کیا ہے۔ ننھا سا بچہ۔ صرف دھڑ ہے۔ سر کے بغیر۔ نوجوان دیوانہ وار بازو اونچا کیے ، اس پر یہ دھڑکنیں روک دینے والا منظر دکھا کر کہے جا رہا ہے ۔’حسبنا اللہ و نعم الوکیل‘ اس حال میں بھی! ہمارے لیے اللہ کافی ہے! اللہ مولنا ولا مولٰی لھم…اللہ ہمارا ولی ، دوست، مددگار ہے! اور ان کا کوئی مولیٰ نہیں۔‘ اتنا عزم کیونکر؟ کیونکہ اس نے غزوئہ احد کے خونچکاں منظر میں، نبیٔ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو زخمی حالت میں سیدنا عمرؓسے کافروں کو یہ کہلواتے دیکھ رکھا ہے۔ اور یہ بھی کہ ’ہمارے شہداء (مقتولین) جنت میں ہیں اور تمہارے مقتول جہنم میں۔ وہ قرآن اور سیرتِ نبوی ؐ پر تربیت میں ڈھلے ہیں۔ جانتے ہیں کہ احد و خندق کے بعد ہر دن فتوحات لا یا، یہاں تک کہ 3براعظموں پر مسلم حکمرانی چھا گئی، خلافتِ عثمانیہ کے زوال تک۔ اسی لیے ان کے جذبے سرد نہیں پڑتے۔ ہم نے اعمال پیش کیے، انھوں نے جانیں۔ اپنی ، اپنے پیاروں کی۔ ہم نے اموال پیش کیے انھوں نے اپنا خون … ہم نے تلاوتِ قرآن کی، اُنھوں نے عمل کرکے دکھایا۔ خصوصاً ان 485 آیاتِ جہاد پر جس سے ہم نظریں چراتے ہیں۔ دیر البلاح میں مسجد الضار کے سامنے کا ہولناک منظر۔ انسانی خون سڑک پر یوں پانی کی طرح بہتا کبھی نہ دیکھا تھا۔ صلیبی جنگوں کے سے ناقابل یقین مناظر جب قدس میں مسلمانوں کا خون گھوڑوں کے گھٹنوں تک بہہ رہا تھا۔ یہ صلیبی جنگ ہے۔ یقین نہ آئے تو امریکی وزیرِ دفاع پیٹ ہیگستھ کو دیکھ لیں۔ (فرق صرف یہ ہے کہ اب یہودی عیسائی مل کر مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیل رہے ہیں ،مسلم دنیا خاموش ہے۔ اس ہولی میںٹرمپ کے ہندو وزیر کبیر بھی ہمراہ ہیں!)
تفصیل یہ ہے کہ پیٹ نے اپنی تصاویر سرکاری سوشل میڈیا اکائونٹ پر دی ہیں۔ جولائی 2024ء میںبھی انسٹاگرام پر پوسٹ کر چکا ہے۔ چار تصاویر جن میں بازو کے کہنی سے اوپر کے عضلات پر ’ٹیٹو‘(tatoo)کے ذریعے عربی میں ’کافر‘ کندہ ہے۔ یہ حدیث میں مذکور دجال کے حلیے کو متعارف کرواتا ہے۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا(راوی حضرت انس ؓ) ’… دجال کی دونوں آنکھوں کے درمیان (پیشانی پر) ’کافر‘ لکھا ہوگا‘۔ (بخاری)یہ وزیرِدفاع کی اپنے ’مسیح الدجال‘ سے وارفتگی کا اظہار ہے! اس تصویر پر تو اہل مغرب بھی شدید معترض ہوئے کہ یہ اسلاموفوبیا ہے۔ مسلمانوں کو ناراض کرنے والا۔ اس تناظر میں نئی امریکی حکومت کے آنے پر فلسطینیوں پر جنگ بندی معاہدہ توڑ کر بے تحاشا خون ریزی اور مسلم دنیا کی خاموشی دیکھیے! (’گارڈین‘ نے اس ’ٹیٹو‘ پر تفصیل سے لکھا ہے۔) ’کافر‘ کا یہ ہتھیار انتہا پسند سفید فام (فار رائٹ) اسلامو فوبی استعمال کرتے ہیں، مسلمانوں کی تضحیک و تذلیل اور انھیں چڑانے کے لیے۔ ایک فار رائٹ گروہ ’پرائوڈ بوائز‘ کے سابقہ لیڈر ، جو بگز کا بھی ایسا ہی ٹیٹو بنا ہے۔ یہ ان کے صلیبی جنگجو ہونے کا رجحان واضح کرتا ہے۔ جو فار رائٹ میں بڑھ رہا ہے۔ دوسرا ٹیٹو جو وزیر دفاع نے بنا رکھا ہے وہ لاطینی میں لکھا صلیبی جنگوں کا نعرہ ہے۔’Deus Vult‘۔ جبکہ ایک تصویر میں سینے پر ’یروشلم صلیب‘ کندہ ہے، جسے صلیبی جنگجوئوں کی خصوصی صلیب کہا جاتا ہے کیونکہ وہ عیسائی صلیبی جنگوں میں مقبول رہی۔ اس وقت یہ ’ٹیٹو‘ سامنے آنے پر وزیرِدفاع پر تنقید میں اضافہ ہوا ہے۔ کانگریس میں پہلے ہی وہ متنازعہ ہو چکے تھے اور کئی ایک نے ان سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا ہے۔ نیٹ پر یہ فوری ردِعمل کا باعث بنا۔ یہ بھی لکھا ہے کہ ’’یہ نادانی ہوگی کہ اتنے تسلسل سے بالکل واضح شدت پسند عیسائی قومیت کا واشگاف اظہار، نظر انداز کیا جائے جبکہ یہ شخص دنیا کے طاقتور ترین مقام پر بٹھایا گیا ہو۔ (اس کی تعیناتی پر بھی اعتراضات ہوتے رہے) پیٹ ایک صلیبی جنگ کی راہ پر ہے، اپنے سوچے سمجھے ملکی اور بین الاقوامی دشمنوں کے خلاف۔‘‘
دجال کے قدموں کی چاپ سنی جا سکتی ہے! اللہ کا اختیار و مشیت ہے کب اور کیسے! پچھلے اسرائیلی سفاکی کے ریکارڈ ٹوٹ چکے۔ ہم اللہ کی مدد کو پکارتے ہیں۔ 23مارچ کو 15امدادی کارکن ایمبولینسوں میں زخمیوں کی مدد کے لیے پہنچنے سے پہلے ہی لاپتہ ہو گئے گاڑیوں سمیت۔ اسرائیل نے فلسطینیوں پر بمباری کے بعد انھیں نشانہ بنایا۔ تلاش جاری رہی۔ہفتے بعد رفح میں اجتماعی قبر سے زندگی بچانے والوں کی ہلال احمر کی یونیفارم پہنیں لاشیں مل گئیں۔ یہ بھی جنگی جرم ہے۔ مگر نہ صرف دنیا دیکھ رہی ہے بلکہ یورپی یونین، عالمی عدالت ِ انصاف کی جاری کردہ گرفتاری وارنٹ کے باوجود نیتن یاہو کو کھلی چھٹی دے رہے ہیں یورپ میں آمدورفت کی۔ ہنگری کے وزیراعظم کا اسے دعوت دینا شرمناک ہے۔ تمام قوانین ، ضابطے، آئین، اخلاقیات، انسانیت کی دعوے داری کے پرخچے اڑ گئے۔حتیٰ کہ اب غزہ میں جاری نسل کشی پرعلماء کی عالمی تنظیم ’’لجنۃ الاجتھادوالفتویٰ بالاتحادالعالمی لعلماء المسلمین‘‘ نے فلسطینی مسلمانوں،ہمسایہ ممالک مصر،اردن،لبنان، اور اس کے بعد تمام عرب اور اسلامی ممالک پر جہاد کی فرضیت کا فتویٰ جاری کر دیا ہے۔
غزہ میں نکبہ۱۹۴۸ء سے بڑھ کربدترین مظالم کا ارتکاب ان کے خاتمے کے عزم کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔امریکہ کی ایماء پر گریٹراسرائیل کی تکمیل کامنصوبہ غزہ، لبنان اور شام میں جاری ہے۔غزہ سے خبریں میڈیا پر گھٹی ’ دبی‘ ٹویٹ پر سنگین ترین حقا ئق کی صورت سامنے ہیں۔ہر فرد یہی پوسٹ کر رہا ہے کہ پوری دنیا نے انہیں تنہا چھوڑ دیا ہے۔فاقے اور ہر طرف چھائی ہوئی موت، امت کے خلاف بھاری فردِجرم عائد کرتی ہے۔ہر مسلمان کے دامن پر فلسطینی خون کے چھینٹے ہیں! اللہ امت کو بیداری نصیب کرے اور ہمارے حال پر رحم فرما ئے!(آمین)
یہ شائیلاک کی اولاد کا کرشمہ ہے
قدم قدم پر ہیں صد لحم پارئہ انسان