(الہدیٰ) حضرت ابراہیم ؑ کی قوم کی سرکشی اور قدرت کا کرشمہ - ادارہ

10 /
الہدیٰ 
 
حضرت ابراہیم ؑ کی قوم کی سرکشی اور قدرت کا کرشمہ
 
آیت 24 {فَمَا کَانَ جَوَابَ قَوْمِہٖٓ اِلَّآ اَنْ قَالُوا اقْتُلُوْہُ اَوْ حَرِّقُوْہُ} ’’تو کوئی جواب نہیں تھا اُس (ابراہیم ؑ) کی قوم کا سوائے اس کے کہ انہوں نے کہا: اسے قتل کر دو یا اس کو جلا دو!‘‘
{فَاَنْجٰىہُ اللہُ مِنَ النَّارِط اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ(24)} ’’تو اللہ نے اُسے نجات دی آگ سے۔ یقیناً اس میں نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو ایمان رکھتے ہیں۔‘‘
آیت 25 {وَقَالَ اِنَّمَا اتَّخَذْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللہِ اَوْثَانًالا مَّوَدَّۃَ بَیْنِکُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَاج } ’’اور ابراہیم ؑنے کہا کہ تم لوگوں نے اللہ کے سوا جو بت بنا رکھے ہیں یہ تو بس دنیا کی زندگی میں تمہاری آپس کی محبّت کی وجہ سے ہے۔‘‘
یہ بہت اہم بات ہے جو حضرت ابراہیم ؑ نے اپنی قوم سے کہی تھی کہ میں تمہیں متنبہ کر چکا ہوں کہ تم لوگ جن بتوں کو پوجتے ہو ان کی حقیقت کچھ نہیں ہے اور ان کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے۔ لیکن اس سب کچھ کے باوجود بھی تم لوگ اگر بتوں کے ساتھ چمٹے ہوئے ہواور گمراہی کا راستہ چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہو ‘تو اس کی اصل وجہ اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ تم لوگ آپس کے تعلقات ‘ آپس کی دوستیاں اور رشتہ داریاں نبھا رہے ہو۔
چنانچہ آیت زیر مطالعہ کے حوالے سے ہر دور کے مخلص مسلمان کا فرض ہے کہ وہ حق شناسی کے سلسلے میں خود کو ہر قسم کی عصبیت سے بالاتر رکھ کر پوری دیانت داری سے جائزہ لیتا رہے کہ اس کے دور میں اللہ نے دین کی سربلندی کا کام کس کے حوالے کیا ہے اور وہ کون سی جماعت یا شخصیت ہے جو درست انداز میں اس راہ میں جدّوجُہد کر رہی ہے۔ پھر جب وہ اس سلسلے میں کسی واضح اور ٹھوس نتیجے پر پہنچ جائے تو اس پر لازم ہے کہ وہ اپنے تعلقات و مفادات    کو بالائے طاق رکھ کر اس شخصیت یا اس جماعت کا ساتھ دے جس کی جدّوجُہد کا رخ اس کی سمجھ اور معلومات کے مطابق درست ہو۔
{ثُمَّ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یَکْفُرُ بَعْضُکُمْ بِبَعْضٍ وَّیَلْعَنُ بَعْضُکُمْ بَعْضًاز} ’’پھر قیامت کے دن تم ایک دوسرے کا انکار کرو گے اور ایک دوسرے پر لعنت بھیجو گے‘‘
{وَّمَاْوٰىکُمُ النَّارُ وَمَا لَکُمْ مِّنْ نّٰصِرِیْنَ(25)} ’’اور تم سب کا ٹھکانا آگ ہو گی اور (اُس دن وہاں) تمہارا کوئی مدد گار نہیں ہوگا۔‘‘
تمہاری یہ دوستیاںاور گٹھ جوڑ بس دنیا تک ہی محدود ہیں ۔ کل قیامت کے دن تمہارے یہ دوست اور رشتہ دار تمہیں پہچاننے سے بھی انکار کر دیں گے۔ اپنے انجام کو دیکھتے ہوئے تم لوگ آپس میں ایک دوسرے کو اس کا ذِمّہ دار ٹھہرائو گے اور باہم ایک دوسرے پر لعنتیں بھیجو گے۔ اس مشکل گھڑی میں تمہارا کوئی پُرسانِ حال نہ ہو گا۔ 
 
درس حدیث
 
دوستی اوردشمنی کا معیار
 
عَنْ اَبِیْ ذَرٍّ ؓ  قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہﷺ :(( اَفْضَلُ الْاَعْمَالِ اَلْحُبُّ فِی اللہِ وَالْبُغْضُ فِی اللہِ ))(رواہ ابوداؤد)
سید نا ابوذر ؓ  بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’اللہ کی رضا کی خاطر محبت کرنا اور اللہ کی رضا کی خاطر بغض رکھنا اعمال میں سب سے افضل عمل ہے۔‘‘