اداریہ
رضاء الحق
سود کی نحوست! (2)
وفاقی شرعی عدالت کے 28 اپریل 2022ء کے فیصلہ کے فوراً بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومتِ وقت اور ریاست کے تمام معاشی ادارے فوری طور پر اس فیصلہ پر مِن و عَن مرحلہ وار عمل درآمد شروع کر دیتے تاکہ آئین ِپاکستان کی دفعہ 38-F کے علاوہ دفعات 2-Aاور 227 پر بھی حقیقی معنوں میں عمل درآمد کیا جاتا۔ اس بات کو یقینی بنایا جاتا کہ سودی نظام کے فوری اور مکمل خاتمے کی طرف بڑھا جائے تاکہ معیشت کے حوالے سے قرآن و سنت سے متصادم قوانین اور طرزِ عمل کا خاتمہ کیا جاتا اور مملکتِ خداداد پاکستان کے معاشی نظام کو مکمل طور پر شریعت کے مطابق ڈھالنے کی طرف پیش قدمی شروع کی جاتی۔ لیکن انتہائی افسوس اور دکھ کا مقام ہے کہ اِس فیصلے کو بعض بینکوں اور بعض افراد نے سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا۔ اِسی دوران حکومت اور سٹیٹ بینک کے بعض اعلیٰ عہدیداران نے ایسے بیانات دئیے جس سے واضح ہوگیا ہے کہ حکومت ِپاکستان اور ملک کے معاشی ادارے ملکی معیشت کو سود کی لعنت سے پاک کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے ۔ حکومت نے فیڈرل شریعت کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد اور سودی نظام کے خاتمے کے حوالے سے جائزہ لینے کے لیے ایک ٹاسک فورس بھی تشکیل دی ۔ ٹاسک فورس میں دیگر سٹیک ہولڈرز کے علاوہ بعض علماء کرام کو بھی شامل کیا گیاجس کی ہماری معلومات کے مطابق دوسری میٹنگ ہی نہ ہو سکی!
پاکستان سے سود کی نحوست کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے، اللہ اور اُس کے رسول ﷺ سے جاری مستقل جنگ کے خاتمے اور ملکی معیشت کو اسلامی اصولوں کے مطابق استوار کرنے کے لیے ہمارے نزدیک درج ذیل اقدامات انتہائی اہم ہیں۔ اِن میں بعض اقدامات انفرادی سطح پر کرنے کے ہیں اور زیادہ تر اقدامات حکومت و ریاست کی ذمہ داری ہیں۔
ہر مسلمان اپنا جائزہ لے اور اگر خدانخواستہ کسی سودی معاملے میں ملوث ہے تو فی الفور اس سے لاتعلقی اختیار کرتے ہوئے اللہ کی جناب میں توبہ کرے اور اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہر دم اپنے پیش نظر رکھے ’’پس جس کو اس کے رب کی طرف سے (سود چھوڑنے کی) یہ نصیحت پہنچی اور وہ باز آگیا تو اس کے لیے ہے جو پہلے لے چکا اور اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے اور جو کوئی (سود چھوڑنے کا یہ حکم سن لینے کے بعد) دوبارہ سود لے گا وہی لوگ دوزخی ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے‘‘۔ (سورۃ البقرۃ:275)
پھر یہ کہ ہر مسلمان کا فرض بنتا ہے کہ وہ خود اللہ کی مکمل بندگی کے ساتھ ساتھ پاکستان میں اقامت ِدین یعنی نظامِ خلافت کے قیام کے لیےبھی جدوجہد کرے۔ کیونکہ سودی نظام کا مکمل خاتمہ اور اسلام کے نظامِ ِزکو ٰۃ، عشر، صدقات وانفاق فی سبیل اللہ کا نفاذ اس کے بغیر ممکن نہیں۔ سود ہی وہ شیطانی چرخہ ہے جس پر سرمایہ دارانہ نظام کےسارے تاروپود کو بُنا گیا ہے۔ سیاسی حوالے سے دیکھا جائے تو بڑی تعداد میں ایسے ممالک موجود ہیں جو ’’جمہوریت‘‘ کے علاوہ کسی طرزِ حکومت کو اپنائے ہوئے ہیں۔ دوسری جنگِ عظیم کے خاتمے کے بعد سے لے کر اگلے تقریباً 45 سال تک سوویت یونین میں کمیونسٹ نظامِ حکومت چلایا گیا اور اگرچہ کارل مارکس کی کتاب ’’داس کیپیٹل‘‘ میں سرمایہ دارانہ نظام کی دیگر تباہ کاریوں کے ساتھ سود کی شناعت پر بھی سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے اور اصولی طور پر کمیونسٹ نظامِ معیشت میں سود کی گنجائش نہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ 18 ویں صدی کے بعد سود کے بغیرکسی بھی نظام کو چلنے ہی نہیں دیا گیا۔ ہر مسلمان کا فرض ہے کہ سودی لین دین کی ہر ہر سطح پر مذمت کرے اور اس کے خلاف کم از کم نہی عن المنکر باللسان ضرور کرے اور عوامی سطح پر سودی نظام کے خلاف بیداری کا ماحول پیدا کرنے کی ہر فرد اپنی استطاعت کے مطابق کوشش کرے۔
وفاقی شرعی عدالت کے 28 اپریل 2022ء کے فیصلے کے مطابق 5 سال کے اندر اندر حکومت کو سودی نظام ختم کرنے کے لیے قانون سازی کرنی ہے۔ شر کی علمبردار قوتیں یقیناً اس فیصلے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کریں گی بلکہ کر رہی ہیں۔ ہمارا کام یہ ہے کہ ہم سودی نظام کے خلاف اپنی کوششیں جاری رکھیں اور باطل کی کوششوں کو کامیاب نہ ہونے دیں۔ اِس حوالے سے تمام دینی جماعتیں سود کے معاملے پر متحد ہو کر تحریک برپا کریں۔ حکومتی اتحاد میں شامل مذہبی رجحان رکھنے والی جماعتوں کو سودی نظام کے خاتمہ کے لیے حکومت پر دباؤ ڈالنا چاہیے۔ حکومت اور سٹیٹ بینک، دیگر اداروں / افراد کو سود کے حوالے سے دائر اپیلیں واپس لینے پر مجبور کریں۔ سپریم کورٹ کے شریعت ایپلٹ بینچ کا فرضِ منصبی ہے کہ وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف دائر تمام اپیلوں کوجلد از جلد نمٹائے۔
فروری 2025 ءکے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کا اندرونی و بیرونی کل واجب الادا قرض تقریباً ساڑھے 75 کھرب روپے کے برابر ہے حیرت کی بات یہ ہے کہ اندرونی قرض کی مد میں تقریباً 51.3کھرب روپے واجب الادا ہیں جبکہ بیرونی قرض تقریباً 23.5کھرب روپے ہے۔ یاد رہے کہ اس رقم میں اصل زر بمعہ سود شامل ہیں اور سود کی ادائیگی مجموعی طور پر اصل زر سے کہیں زیادہ ہے۔ حکومتی ذرائع کے مطابق موجودہ مالی سال کے پہلے نو ماہ کے دوران پاکستان نے اندرونی قرضے پر تقریباً 4807 ارب روپے سود کی مد میں ادا کیے۔جہاں تک اندرونی قرض کی بات ہے تو اس پر واجب الادا سود کو تو وفاقی اور صوبائی حکومتیں بیک جنبش قلم ختم کر سکتی ہیں جو ملکی معیشت کے لیے یقیناً بہت بڑا ریلیف ہوگا۔ البتہ اندرونی قرض میں بھی کچھ معاملات پیچیدہ ہیں جنہیں بات چیت کے ذریعے قرض برائے حصص کے اصول پر تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان نے مالی سال 25-2024ء میں تقریباً چار ارب ڈالر سود بیرونی قرضے پر ادا کرنا ہے۔ اس گھمبیرصورتحال سے نکلنے کے لیے ریاست کو کچھ Out of the boxحل تلاش کرنے ہوں گے۔ اس کی ایک نظیر پریسلر ترمیم کے تحت امریکہ کا رقم وصول کرنے کے باوجود پاکستان کو ایف 16 طیارے نہ دینا ہے۔ 1980ء کی دہائی کے آغاز میں امریکہ نے پاکستان کو 28 ایف 16 طیارے بیچنے کا معاہدہ کیا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جنگ لڑی جا رہی تھی۔ البتہ فروری 1989ء میں جب سوویت یونین کو افغانستان میں شکست ہو گئی اور سوویت یونین خود شکست و ریخت کا شکار ہو گیا تو 1990ء میں پریسلر ترمیم (جو امریکی سینٹ نے 1985ء میں پاس کی تھی)کو نافذ کر دیا گیا اور اس کا سہارا لیتے ہوئے امریکی حکومت نے پاکستان کے ساتھ ایف 16 طیارے بیچنے کا معاہدہ منسوخ کر دیا۔ نہ صرف یہ بلکہ جنگی طیاروں کی خرید کے لیے پاکستان نے جو رقم امریکہ کو ادا کر رکھی تھی اُسے بھی واپس کرنے سے انکار کر دیا اور طیارے امریکی سرزمین پر کھڑے رہنے کے اخراجات بھی پاکستان سےکٹوتی کی صورت میں وصول کیے ۔ پھر بقیہ رقم جو امریکہ کی طرف واجب الادا تھی اس کے بدلے پاکستان کو جلی ہوئی گندم فراہم کر دی اور اعلان کر دیا کہ معاہدہ پایۂ تکمیل کو پہنچ چکا ہے۔ایسی ہی نظیر کو پاکستان بھی یہ موقف اپنا کر استعمال کر سکتا ہے کہ کیونکہ وفاقی شرعی عدالت جو شرعی معاملات کے حوالے سے ملک کا اعلیٰ ترین عدالتی فورم ہے اس نے ربا (ہر نوع کے سود)کو حرام قرار دیا ہے لہٰذا پاکستان واجب الادا اصل زر تو ادا کرے گا لیکن ربا یعنی سود کو عدالتی حکم کے مطابق ادا کرنے سے قاصر ہے۔ اصل زر موافق معاشی حالات کے مطابق ادا کر دیا جائے گا۔ اس حوالے سے پارلیمنٹ میں قرارداد بھی منظور کی جائے اور پھر اس پر حکومت ،اپوزیشن، عدلیہ، سول و عسکری بیوروکریسی اور عوام ڈٹ جائیں۔
علاوہ ازیں ایک لائحہ عمل جسے 1917ء میں بالشیوک انقلاب کے بعد روس سے لے کر 1980ء کی دہائی میں ارجنٹائن، برازیل ، میکسیکو اور چلی، اورپھر2009ء کے یورپی اقتصادی بحران کے باعث یونان، سپین اور پرتگال سب کامیابی سے اختیار کر چکے ہیں وہ sovereign debt default ہے، جس کی بنیاد ناجائز (illegitimate) اور بدبودار(odious) قرض ہے۔قارئین کو شاید حیرت ہوکہ اس معاملہ پر بین الاقوامی کیس لاء انتہائی مضبوط ہے اور اس سلسلے میں معاونت فراہم کرنے والے ادارے بھی موجود ہیں۔ ان تمام ممالک نے واجب الادا قرض اس بنیاد پر ادا کرنے سے انکار کر دیا تھا کہ آئی ایم ایف اور اس جیسے دیگر عالمی مالیاتی ادارے اور ان کی گارنٹی پر سودی قرضہ دینے والے ممالک اور نجی بینک جانتے تھے کہ قرض کا پیسہ وصول کرنے والے اسے ملکی ترقی کی بجائے ذاتی مفادات اور جائیدادیں بنانے میں صرف کریں گے لیکن اس کے باوجود ان ممالک کو سودی قرض دے دیا گیا۔ہم مکرر عرض کرتے ہیں کہ بین الاقوامی کیس لاء میں اس کی کئی نظیریں موجود ہیں اور اس نوعیت کے مقدمات میں معاونت فراہم کرنے کے لیے بین الاقوامی سطح پر کئی لیگل فورمز اور لاء فرمز موجود ہیں۔البتہ اس میں ایک بڑا مسئلہ جو سامنے آئے گا وہ یہ ہے کہ ماضی میں قرضہ حاصل کرنے والی شخصیات آج بھی کسی نہ کسی حیثیت میں حکومت کا حصہ ہیں۔
پھر یہ کہ کم از کم پاکستان جیسے سٹریٹجک اہمیت کے حامل ملک ( اسلامی نظریہ کی بنیاد پر قائم ہونا ،ایٹمی طاقت بننا اور شاندار میزائل ٹیکنالوجی حاصل کرنا، پیشہ ورانہ مہارت کی حاملpotentially بہترین فوج) کی حد تک اندرونی و بیرونی قرضہ اور اس پر واجب الادا سود سے جان چھڑانے کی جو بھی کوشش کی جائے گی، اندرونی اور بیرونی دونوں سطحوں پر سخت رد عمل اور نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا جس کے لیے عوام سمیت ملک کے تمام سٹیک ہولڈرز کو تیار رہنا ہوگا۔ بہرحال حالات کیسے بھی نامساعد نظر آئیں، بحیثیت مسلمان ہم پر لازم ہے کہ اللہ اور رسولﷺ سے جاری اس جنگ کو ختم کریں تاکہ ملک میں اللہ تعالیٰ کی رحمتیں نازل ہوں اور ہماری دنیا کے ساتھ آخرت بھی سنور جائے۔
ہماری مسلمانانِ پاکستان سے استدعا ہے کہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کی محبت کی خاطر اپنی انفرادی زندگی میں ہر طرح کے سود سے مکمل اجتناب کریں اور اجتماعی زندگی میں اس نا فرمانی اور ظلم کے خلاف مل جل کر آواز اٹھانے اور اسے ختم کر کے حق اور عدل پر مبنی اسلام کے عادلانہ نظام کو قائم کرنے کی اس کوشش میں ہمارا بھرپور ساتھ دیں۔ حکمرانوں اور مقتدر حلقوں کے لیے بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ انہیں بھی ہدایت دے۔ وہ بھی اپنی آخرت سنوارنے کی سعی کریں۔ وفاقی شرعی عدالت کےسود کے خلاف فیصلہ کے فی الفور اور مکمل نفاذکی راہ میں کوئی رکاوٹ نہ بنے ۔اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے جنگ کو ختم کریں ۔انفرادی اور اجتماعی سطح پر اللہ کی مانیں تاکہ اس کی مدد شامل حال ہو۔
پاکستان دشمنوں میں گھرا ہوا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل اور ہمارے خطے میں بھارت ،امریکہ کے ساتھ مل کر جو گریٹ گیم کھیلنا چاہتے ہیں، اس کی راہ میں پاکستان ایک ایسا کانٹا ہے جسے دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے ۔مقبوضہ کشمیر میں حالیہ بھارتی ڈرامہ اور ردعمل اسی سازش کا ایک حصہ ہے۔ دشمن انتہائی عیار ہے اور ہمارے تمام بڑے نادانی میں ملکی مفاد کو زک پہنچا رہے ہیں۔ دانا وہی ہوتا ہے جو دشمن کے وار سے پہلے اس کا ادراک بھی رکھے اور اس سے نبرد آزما ہونے کا منصوبہ بھی تیار ہو۔اللہ ہم سب کا اور ملک و ملت کا حامی و ناصر ہو۔ آمین!
tanzeemdigitallibrary.com © 2025