(منبرو محراب) اہلِ غزہ کی پکاراورکرنے کے 13 کام - ابو ابراہیم

10 /

اہلِ غزہ کی پکار


اورکرنے کے 13 کام


مسجد جامع القرآن قرآن اکیڈمی لاہور میں امیر تنظیم اسلامی محترم شجاع الدین شیخ حفظ اللہ کے18اپریل 2025ء کے خطاب جمعہ کی تلخیص

 

خطبہ ٔمسنونہ اور تلاوتِ آیاتِ قرآنی کے بعد!
10 اپریل کو اسلام آباد میں قومی فلسطین کانفرنس منعقد ہوئی جس میں ملک بھر سے معروف دینی شخصیات، علمائے کرام اور دینی جماعتوں کے قائدین نے شرکت کی۔ تنظیم اسلامی کی جانب سے مجھے بھی شرکت کرنے اور گزارشات پیش کرنے کا موقع ملا ۔ اس کانفرنس کے بعد ایک مشترکہ اعلامیہ یا ڈیکلریشن جاری کیا گیا اورمتفقہ طور پر یہ تقاضا بھی کیا گیا کہ خطبات جمعہ میں اس کا ذکر کیا جائے ۔اس حوالے سے تنظیم اسلامی کی سطح پربھی ہم نے مشاورت کے ساتھ ایک 13 نکاتی لائحہ عمل تجویز کیا ہے جس کا مختصر تذکرہ قومی فلسطین کانفرنس میں بھی ہم نے کیا تھا ، انہی 13 نکات کو یہاں بھی تھوڑی تفصیل کے ساتھ بیان کرنا مقصود ہے ۔  ان شاء اللہ!
1۔دعائوں کااہتمام
ہم سب اپنے فلسطینی بھائیوں کے لیے دعاؤں کا اہتمام کریں ۔ خصوصاً مساجد میں نماز کے بعد فلسطینی مسلم بھائیوں ، بہنوںاور بچوں کے لیے دعائیں مانگی جائیں اور قنوتِ نازلہ کا اہتمام کیا جائے ۔ بعض لوگ دعاؤں کا بھی مذاق اڑا رہے ہیںاور کہتے ہیں کہ دعاؤں سے کیا ہوتا ہے؟حالانکہ امام الانبیاء ﷺسے بڑھ کرکون انقلابی اور امیر المجاہدین ہو سکتاہے لیکن آپ ﷺ نے دوران جہاد اقدامات بھی کیے ہیں لیکن دعائیں بھی مانگی ہیں اور اُمت کو دعائیں سکھائی بھی ہیں ۔ نمازوں میں قنوتِ نازلہ کا اہتمام بھی کیا ہے ۔ آج اُمت کے بعض لوگ اگر دعاؤں کا مذاق اُڑائیں تو یہ لمحۂ فکریہ ہے ۔ بہرحال ہر  ایک کی آزمائش ہے کہ وہ کیا طرزعمل اختیار کرتاہے۔ روزمحشر اُسے ا ِس کا حساب بھی دینا ہوگا ۔ دعابھی مسلمان کے عمل کا حصہ ہے ۔ تنظیم اسلامی اور قرآن اکیڈمیز کے  زیر اہتمام مساجد میں ہم بھرپور کوشش کر رہے ہیں کہ قنوتِ نازلہ اور دعاؤں کا اہتمام کیا جائے ۔ دیگر دینی جماعتوں اور علماء کرام کو بھی اس جانب توجہ دلانی چاہیے ۔ 
2۔ اسرائیل کے ناپاک عزائم سے آگاہی
اسرائیل کے عزائم اور اُن کی وجہ سے اُمت ِمسلمہ اور پاکستان کو درپیش خطرات سے عوام الناس کو آگاہی دی جائے ۔ علماء کرام خطباتِ جمعہ میں اس کو موضوع بنائیں۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اس مسئلہ کو اُجاگرکیا جائے ۔ بانی تنظیم اسلامی محترم ڈاکٹراسرار احمدؒ نے برسوں پہلے اس حوالے سے آگاہی دی تھی ۔ اس حوالے سے اُن کے خطابات ریکارڈ کا حصہ بھی ہیں ۔ انہوں نے بار بار تذکرہ کیا کہ صہیونیوں کے عزائم کیا ہیں ، یہ صرف فلسطین کے مسلمانوں کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ پوری اُمت کا مسئلہ ہے کیونکہ صہیونیوں کے عزائم میں صرف فلسطین پر قبضہ کرنا شامل نہیں ہے بلکہ وہ شام ، عراق ، اردن ، لبنان ، مصر   کے ڈیلٹا اور مدینہ منورہ سمیت سعودی عرب کے شمالی علاقوں پر بھی قبضہ کرنا چاہتے ہیں ۔ ان کے جھنڈے میں شامل دو لائنز اِس بات کی عکاس ہیں کہ وہ نیل سے لے کر فرات تک سارے خطے پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں ۔ اس لیے وہ پورے مشرق وسطیٰ کا نقشہ تبدیل کرکے گریٹر اسرائیل قائم کرنا چاہتے ہیں ۔ اس کے لیے وہ ایک بڑی جنگ چاہتے ہیں جسے بائبل میں آرمیگاڈان اور احادیث میں ملحمۃ العظمیٰ کہا گیا ہے ۔ اسی طرح مسجد اقصیٰ اور قبۃ الصخرۃ جہاں سے رسول ﷺ کا معراج کا آسمانی سفر شروع ہوا تھا کو منہدم کرکے تھرڈ ٹیمپل تعمیر کرنا بھی اُن کے عزائم میں شامل ہے ۔ ان کا تصور ہے کہ تھرڈٹمپل میں تخت داؤدی رکھا جائے اور اُس پر اُن کے مسایاح کی تاج پوشی کی جائے جسے احادیث میں دجال اکبر کہا گیا ہے ۔      ڈاکٹر اسراراحمدؒ نے ان چیزوں کو بار بار بیان کیا ہے اور تنظیم اسلامی کے تحت شائع ہونے والے رسائل و جرائد میں ہم صہیونی عزائم کو مسلسل بے نقاب کرتے رہتے ہیں ۔ پھر خطباتِ جمعہ اور پریس ریلیز میں بھی ان باتوں کو شامل کرتے ہیں تاکہ عوام کو اسرائیل کے عزائم سے آگاہی حاصل ہو ۔ 
3۔جہاد کافتویٰ
ہم نے گزارش کی تھی کہ تمام مکاتب فکر کے علماء کی جانب سے جہاد کا فتویٰ جاری ہونا چاہیے۔ اللہ کا شکر ہے کہ اسلام آباد میں منعقدہ فلسطین کانفرنس کے اختتام پر  مفتی منیب الرحمٰن صاحب نے تمام دینی جماعتوں اور علماء کی جانب سے ایک متفقہ اعلامیہ جاری کیا جس میں جہاد کا فتویٰ بھی شامل تھا ۔ ہم نے گزارش کی ہے کہ عالمی سطح پر بھی اسی طرح کا ایک فتویٰ حاصل کرنے کی کوشش کی جائے ۔ بعض عناصر اس فتویٰ کی بھی تحقیر کر رہے تھے جن کی سوشل میڈیا پر عوام اور دینی جماعتوں نے اچھی خبر لی ہے ۔ ایسے لوگ صرف اپنی قبروقیامت گندی کر رہے ہیں ، ان کی ایسی حرکتوں سے اللہ کے منصوبوں پر کوئی اثر نہیں ہوگا اور بالآخر فتح حق کو حاصل ہو گی ۔ یہ امتحان صرف اہلِ غزہ کا نہیں ہے بلکہ ہم سب کا ہے کہ ہم حق اور باطل کے اس معرکہ میں کہاں کھڑے ہیں ۔ مفتی منیب الرحمٰن صاحب نے جو اعلامیہ پیش کیا اس میں عوام ، اداروں اور حکومت کی سطح پر کرنے والے کاموں پر زور دیا گیا ہے ۔ تنظیم اسلامی نے اس اعلامیہ کو انگریزی زبان میں بھی ترجمہ کرکے شائع کیا ہے ۔ اسی طرح دیگر     دینی جماعتوں کو بھی اس کا انگریزی اور عربی زبان میں ترجمہ کرکے دنیا میں پھیلانا چاہیے ۔ اُمت مسلمہ کو اسرائیل کے خلاف جانی ، مالی ، معاشی اور عسکری سطح پر جہاد کرنے کی ضرورت ہے ۔ ایک جہاد بمعنی قتال ہے جو کہ افواج اور حکومتیں کر سکتی ہیں ۔ عوام مالی جہاد بھی کر سکتے ہیں ، اسرائیل کا معاشی بائیکاٹ کرکے معاشی جہاد میں بھی حصہ لے سکتے ہیں ۔ اسرائیلی مظالم کے خلاف آواز اُٹھا کر فلسطینیوں کی اخلاقی مدد بھی کر سکتے ہیں ۔ ہر سطح پر جدوجہد جہاد میں شامل ہوگی ۔ 
4۔پاکستان کاکردار
 ہم نے گزارش کی ہے کہ تمام دینی جماعتوں کے قائدین اور علماء ایک مشترکہ وفد کی صورت میں صدر پاکستان ، وزیراعظم ، مقتدر حلقوں ، سینٹ کے چیئرمین اور قومی و صوبائی اسمبلی کے سپیکرحضرات سے ملاقات کرکے اُن کے سامنے غزہ کے مسئلے کی سنگینی کو واضح کریں اور عالم اسلام پر اس کے ممکنہ اثرات سے آگاہ فرمائیں ۔ حکومتیں گرانے اور بنانے کے لیے تو ہماری مذہبی سیاسی جماعتیں کئی کئی روز اسلام آباد میں دھرنے دیتی ہیں ، احتجاج کرتی ہیں ۔ اسی طرح سیاسی جماعتوں کے لوگ بھی لانگ مارچ اور دھرنے دیتے ہیں ۔ ہم سب مسلمان ہیں ۔ کیاپوری اُمت کے متفقہ مسئلہ پر ہمیں کوئی دھرنا ، احتجاج ، مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے ؟اس بات کے حوالے سے مذہبی سیاسی جماعتوں  کے قائدین بھی سوچیں ، دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنما بھی سوچیں ۔ ہم نے سب مرنا ہے اور اللہ کے سامنے جوابدہ ہونا ہے ۔ تمام مذہبی اور دینی جماعتیں متحد ہو کر آواز اٹھائیں  اور عوام کو بھی اپنے ساتھ ملائیں تو حکومت کو دباؤ میں لا کر اہلِ غزہ کے حق میں اپنا مطالبہ منوا سکتی ہیں ۔ 
اِسی طرح حکومت پاکستان دوسرے ممالک کی حکومتوں سے بات کر سکتی ہے ، ہمارے مقتدر طبقات دوسرے ممالک کے متقدر طبقات سے رابطہ کرکے بات کو آگے بڑھا سکتےہیں ۔ حکومتوں اور متقدر طبقات کا کام صرف مذمتی بیانات دینا نہیں ہے ۔ یہ کام تو مسجد کا امام بھی کر سکتا ہے ۔ہم خطبات جمعہ میں بھی بات کرتے ہیں ، پریس ریلیز بھی جاری کرتے ہیں ، ہم نے مسلم اور غیر مسلم ممالک کے سفارت خانوں کو خطوط لکھے ہیں اورآئندہ بھی لکھیں  گے ۔ ان شاءاللہ ۔ لیکن جورابطہ حکمرانوں کا ہوتا ہے وہ عوام کا نہیںہوتا ۔ جو کام حکومت یا مقتدر حلقے کر سکتے ہیں وہ مسجد کا امام نہیں کر سکتا ہے ۔ آپ کے پاس اختیار ہے ، طاقت ہے ، وسائل اور ذرائع ہیں ۔ دیگر معاملات اور مسائل کے حل کے لیے ہمارے حکمران دوسرے ممالک کے دورے کرتےہیں ، مذاکرات اور معاہدے کرتے ہیں ۔ کیا غیرتِ دینی کا بھی کوئی تقاضا ہے یا نہیں ؟ کیا بحیثیت اُمتی بھی ہماری کچھ ذمہ داریاں ہیں یا نہیں ؟ میرے دل کی آواز ہے، بیت اللہ کے پاس بیٹھ کر حرمِ اقصیٰ کی حفاظت کا وعدہ کرلو ، وہاں سے پوری دنیا میں ایک پیغام جائے گا کہ اُمت ابھی بانجھ نہیں ہوئی ۔ 
یہ مسئلہ صرف اہلِ غزہ کا نہیں ہے بلکہ پاکستان کا بھی ہے کیونکہ پاکستان کو بھی اس حوالے سے خطرات درپیش ہیں ۔ نیتن یا ہو کہتا ہے کہ مجھے خوشی ہوگی کہ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت ختم ہوجائے ۔ نریندر مودی بھی یہی کہتا ہے ۔ ہمارا ازلی دشمن بھارت اور اسرائیل آپس میں مل بیٹھے ہیں ۔ یہ مملکت اللہ کا انعام ہے ۔اس کو محفوظ رکھنا ، یہاں دینی جذبات کی آبیاری کرنا اُمت کے مفاد میں ہے ۔ ہماری فوج کے ماٹو میں ایمان، تقویٰ اور جہاد   فی سبیل اللہ شامل ہے ۔ پھر احادیث میں ذکر ہے کہ  خراسان سے امام مہدی کی نصرت کے لیے لشکر چلیں گےاور یروشلم میں جاکر جھنڈے گاڑیں گے ۔پھر حضرت عیسیٰd   کا نزول ہوگا اور وہ دجال کو قتل کریں گے ۔ پھر اللہ کی زمین پر اللہ کا دین غالب ہوگا ۔ اس حوالے سے ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنا چاہیے اور پاکستانی قوم کو اس حوالے سے بیدار بھی کرنا چاہیے ۔ 
5۔اسرائیل نواز کمپنیوں کی مصنوعات کا بائیکاٹ 
ایسی کمپنیوں کی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے جو بالواسطہ یہ بلاواسطہ اسرائیل کو سپورٹ کرتی ہیں اور جو دکاندار ایسی اشیاء رکھتے ہوں ان سے خریداری سے اجتناب اور دینی غیرت کے تقاضے کی طرف ان کو متوجہ کیا جائے۔ اس حوالے سے عوامی سطح پر جذبہ موجود ہے اور کچھ کام بھی ہورہا ہے ۔ تاہم ہم گزارش کرتے ہیں کہ توڑ پھوڑ نہ کی جائے اور ایسا کوئی اقدام نہ کیا جائے جس سے مسلمانوں کو نقصان پہنچے اور دشمن کا بیانیہ مضبوط ہو ۔ ایک بات یہ بھی آئی ہے کہ اگر دکاندار ایسی مصنوعات نہیں ہٹاتے تو پوری دکان کا بائیکاٹ کیاجائے۔ اتنی غیرت تو ہم دکھاسکتے ہیں ۔وہ رقم جو ہمارے مظلوم مسلمان بھائیوں ، بہنوں اور بچوں کا خون بہانے کے لیے استعمال ہوتی ہے اگر کچھ لوگ اسرائیل نواز کمپنیوں کی مصنوعات فروخت کرکے اسرائیل کو فراہم کر رہے ہیں تو ہمیں ان کا بائیکاٹ کرنا چاہیے ۔ 
6۔حکومتی سطح پر اسرائیل نواز کمپنیوں کامعاشی بائیکاٹ
حکومت پاکستان پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ اسرائیلی سہولت کار کمپنیوں کی مصنوعات کا معاشی بائیکاٹ کرے۔ عوام میںاِس حوالے سے جذبہ موجود ہے۔ بعض  یونیورسٹیز کے ذمہ داران کے بارے میں معلوم ہوا کہ انہوں نے طے کیا کہ ان کے اداروں میں اسرائیل نواز کمپنیوں کی مصنوعات نہیںرکھی جائیں گی ، بعض بار کونسلز میں بھی اس کا اعلان ہوا ہے۔ کیا حکمران اور حکومتی ادارے ایسا نہیں کر سکتے؟ہم نے گزارش کی ہے کہ ایسی مصنوعات کی درآمد بند کی جائے ، اسرائیل کو سپورٹ کرنے والی کمپنیوں کے کاروباربند کیے جائیں اور ان کے لائسنس منسوخ کیے جائیں ۔ اس کا بڑا اثر ہوگا ۔   ایک مرتبہ ڈنمارک میں گستاخانہ خاکےشائع کیے گئے،   سعودی عرب نے ڈنمارک کی ڈیری پروڈکٹس پر پابندی لگا دی ۔ چند دن بعد ہی ڈنمارک کے وزیر نے آکر معافی مانگی اور آئندہ ایسی گستاخیاں نہ کرنے کا وعدہ کیا ۔ دوارب مسلمان پوری دنیا میں ہیں ۔ اگر یہ سب مل کر اسرائیل نواز مصنوعات کا بائیکاٹ کریں تو اسرائیل کو دن میں تارے نظر آجائیں گے ۔
7 ۔اسرائیل نواز کمپنیوں کی مصنوعات کا متبادل 
پاکستانی سرمایہ کاروں کو راغب کیا جائے کہ وہ ایسی مصنوعات کی متبادل مارکیٹ میں لانے کے لیے سرمایہ کاری کریں۔ اس میں حکومت کو بھی کردار ادا کرنا چاہیے ۔ البتہ یہ نہ ہو کہ اس موقع سے فائدہ اُٹھا کر کمائی کا ذریعہ بنا لیا جائے اور 100 روپے کی چیز کو 400 میں فروخت کیا جائے ۔ یہ لوگوں کے ایمان سے ناجائز فائدہ اُٹھانے کے مترادف ہوگا ۔ ماضی میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کا کچھ بزنس ہماری لوکل بزنس کمیونٹی نے خریدا بھی ہے۔ جن کے پاس پیسہ ہےوہ اب بھی خرید کر لوکلائز کرسکتے ہیں۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ عوام کو وہ کوالٹی بھی مل جائے گی اور پیسہ بھی ادھر ہی رہے گا ، غیروں کے ہاتھ میں نہیں جائے گا ۔ اس حوالے سے ہمارے چیمبرز کو غیرت ایمانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اہم رول ادا کرنا چاہیے ۔ 
8۔مسلم ممالک کے سفیروں سے مطالبہ
ہم نے گزارش کی ہے کہ دینی جماعتوں کے قائدین اور علماء ایک مشترکہ وفد تیار کریں جو مسلم ممالک کے سفراء سے ملاقاتیں کرکے ان کے سامنے چار باتیں مختصراًرکھیں :
1۔ اُمتی ہونے کی حیثیت سے اور اسلامی بھائی چارہ کے رشتے کی بنیاد پر مظلوم مسلمان چاہیے وہ کشمیر کے ہوں ، برما ،سنکیانگ یا فلسطین کے ہوں اُن کی مدد اور داد رسی کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے ۔اس ذمہ داری کو پورا کرنے کے حوالے سے اپنی حکومتوں کو احساس دلانا وقت کی ضرورت ہے ۔ 
2۔ تمام مسلم ممالک اقوام متحدہ کا دہرا اور منافقانہ معیار اُجاگر کریںاور اس سے علیحدگی اختیار کرنے کا اعلان کریں ۔ کیا فائدہ ایسی اقوام متحدہ کا جو ہمارے مسلمان بھائیوں کا تحفظ نہ کرسکے اور جو صرف امریکہ کی لونڈی اور اسرائیلی مفادات کی محافظ ہو ۔اس بات کی ضرورت اور اہمیت کو اجاگر کیا جائے کہ 57 مسلم ممالک خود متحد ہو کر ایک عالمی فورم قائم کریںیا OICکو فعال بنائیں ۔  کامیابی یا ناکامی اللہ کے اختیار میں ہے ، ہم صرف کوشش کرنے کے مکلف ہیں ۔ مسلم ممالک کے سفراء سے ملاقاتیں کرکے دینی جماعتوں کا وفد یہ کوشش کر سکتاہے اور کرنی چاہیے ۔
3۔ 34 مسلم ممالک کی مشترکہ فوج جس کے سربراہ ہمارے سابق آرمی چیف ہیں ، اس فوج کو OICکے تحت فعال کیا جائے کیونکہ OICکے چارٹر میں مسجد اقصیٰ کی حفاظت کے لیے فلسطینیوں کی عسکری مدد کرنا بھی شامل ہے۔ OICکے چارٹر میں طے ہے کہ فلسطینیوں کی اپنی آزاد ریاست ہوگی ۔ 
4۔  مسلم ممالک کو باہم مل کر آپس میں مشترکہ اقتصادی ،  دفاعی اور اقدامی معاہدہ کرنا چاہیے جس میں پاکستان ایک بڑا رول ادا کر سکتا ہے۔ اللہ نے اس خطے کو اہمیت دی ہے اور نوازا بھی ہے۔مسلم ممالک اندرونی طور پرکافی حد تک خود کفیل ہیں ۔ اگر یہ آپس میں مل کر آگے بڑھیں گے تو  مغربی استعمار کی معاشی جکڑبندی کابآسانی مقابلہ کر سکتے ہیں کیونکہ ہماری اکثر ضروریات آپس میں معاہدے کرکے پوری ہو سکتی ہیں ۔ اگر مغربی استعمار کی غلامی اور  جکڑ بندی سے بچنا ہے اور اُمت کو مسلسل نقصان میں جانے سے روکنا ہے تو آپس میں اتحاد کی طرف ہمیںبڑھنا پڑے گا۔
9۔بنی اسرائیل کی تاریخ سے آگاہی 
علماء اور دینی جماعتیں بنی اسرائیل کی تاریخ ، عہدشکنیوں ، اسرائیلی عزائم اور مسلم دشمنی کے حوالے سے اُمت مسلمہ کے نوجوانواں اور بچوں کو آگاہی فراہم کریں ۔ تنظیم اسلامی کے زیر اہتمام انجینئر نوید احمدؒ نے مسجد اقصیٰ کی تاریخ پر ایک بہت عمدہ ڈاکومنٹ تیار کیا تھا جس کو ہم شیئر بھی کرتے رہتے ہیں ۔ اسی طرح کچھ رفقائے تنظیم نے بڑی محنت سے ایک پریزنٹیشن بھی تیار کی ہے جو ہمارے مراکز اور مکتبہ جات سے بآسانی مل جائے گی ۔ اس میں سکولز ، کالجز اور یونیورسٹیز کے طلبہ و طالبات کے لیے بہت عمدہ رہنمائی موجود ہے ۔ رفیق تنظیم ڈاکٹر انوار علی نے اس کو پریزنٹ بھی کیا ہے جس کی ویڈیو بھی موجود ہے ۔ دیگر دینی جماعتوں اور علماء کو بھی اسی طرح نوجوان نسل کی رہنمائی کے لیےاہتمام کرنا چاہیے ۔ 
10۔شوق شہادت اور جذبۂ جہاد 
طلبہ میںشوق شہادت اور جذبۂ جہاد پیدا کرنے کے لیے تعلیمی اداروں کے مالکان اور سربراہان کو راغب کیا جائے اور وہاں ایسے پروگرامز کیے جائیںجن سے طلبہ میں  شوق شہادت اور جذبۂ جہاد پیدا ہو ۔ اس کے لیےمنبر کو بھی استعمال کیا جائے لیکن خاص طور کروڑوں بچے ہمارے سکولز ، کالجز اور یونیورسٹیز میں پڑھتے ہیں ان کے لیے بھی اہتمام کیا جائے۔
11۔مالی امداد کی اپیل 
غزہ کے مسلمانوں اور تحریک مزاحمت کی مالی مدد کے لیے اپیل کی جائے ۔ صرف عوام ہی نہیں بلکہ حکمران بھی اس سلسلہ میں آگے بڑھ کر کردار ادا کریں ۔ اگر وہ حماس کے نمائندے ڈاکٹر خالد قدومی کو ریاستی سطح پر دعوت دے کر سینٹ میں بلا سکتے ہیں تو تحریک مزاحمت کی مدد کے لیے مالی امداد کی اپیل کیوں نہیں کر سکتے ۔ 
12۔پر امن، منظم مظاہرے 
فلسطین کے مسلمانوں پراسرائیلی مظالم کی انتہا ہو چکی ہے ۔ اس ظلم و ستم کے خلاف ہمیں بڑے پیمانے پر پر امن اور منظم مظاہروں کا اہتمام کرنا چاہیے تاکہ دنیا کو بھی معلوم ہو کہ مسلمان متحد ہیں اور ایک دوسرے کا درد محسوس کرتے ہیں۔ یہ بات فلسطین اور غزہ کے مسلمانوں کی ہمت کو بڑھانے کا باعث بھی بنے گی۔ہم خواتین کو مظاہروں میں لانے کے قائل نہیں ہیں تاہم تنظیم اسلامی کے رفقاء سے ہم نے اپیل کی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو بھی مظاہرے میں شامل کریں۔اس سے ایک تو ہمارے بچوں میں اُمت کا جذبہ پیدا ہوگا ، دوسرا دنیا کو بھی ایک اچھا پیغام جائے گا ۔  
13:غلبۂ دین کی جدوجہد 
بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسراراحمدؒ فرمایا کرتے تھے کہ اللہ نے ہر بیماری کا علاج پہلے پیدا فرمایا ہے، بیماری بعد میں پیدا ہوتی ہے ۔ پاکستان 14 اگست 1947ء کو بنا جبکہ اسرائیل مئی 1948ء میں ۔ اسرائیل بیماری ہے اور پاکستان علاج ہے ۔ پاکستان کو مضبوط کرنا ہمارا فرض ہے اور پاکستان تب ہی مضبوط ہوگا جب ہم یہاں اسلام کے نفاذ کی جدوجہد کریں گے ۔ کیونکہ یہ ملک بنا بھی اسلام کے نام پر ہے اور اس کا استحکام بھی اسلام سے وابستہ ہے ۔ اسلام کے ساتھ بے وفائی کرکے ہم نے یہاں تعصبات اور نفرتوں کے بیج بو دیئے ہیں ۔ لہٰذا اب ہمیں سچی اجتماعی توبہ کرنا ہوگی اور دوبارہ اسی مقصد کے لیے جدوجہد کرنا ہوگی جس کے لیے یہ ملک حاصل کیا تھا ۔ تب ہی اللہ کی مدد آئے گی ۔ اللہ فرماتاہے :
{یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰہَ یَنْصُرْکُمْ وَیُثَبِّتْ اَقْدَامَکُمْ(7)}’’اے اہل ِایمان! اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو اللہ تمہاری مدد کرے گا اور وہ تمہارے قدموں کو جما دے گا۔‘‘(محمد:7)
اگر ہم یہاں اللہ کے دین کو نافذ کریں گے تو یہ خطہ خراسان بنے گا اور یہاں سے کالے جھنڈوں والے لشکر جاکر امام مہدیؒ کی فوج میں شامل ہوں گے اوریہود کے بڑے لیڈر دجال کے خلاف قتال کریں گے ۔ مستقبل کے اس منظر نامے کو سامنے رکھ کر تیاری کریں ۔ اگر باطل کے غلبہ کے لیے سارا عالم کفر متحد ہو سکتاہے تو ہم دین کے رشتے کی بنیاد پر اکٹھے کیوں نہیں ہو سکتے ۔ 
یہ ہماری چند گزارشات ہیں ۔اللہ تعالیٰ ہمیں غیرت دینی عطا فرمائے اور ہم میں سے ہر بھائی کو اپنا کردار ادا کرنے کی توفیق عطافرمائے۔ آمین !