(زمانہ گواہ ہے) ’’مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ڈراما : پاکستان نشانہ‘ ‘ - محمد رفیق چودھری

10 /

بھارت پاکستان کے خلاف آزادکشمیر میں جنگ چھیڑتا ہے

تو یہ جنگ دو ممالک تک ہی محدود نہیں رہے گی

بلکہ عالمی جنگ میں بدل جائے گی : رضاء الحق

پہلگام واقعہ بھارت کا فالس فلیگ ہے جو اس نے

پاکستان اور تحریک آزادی کشمیر کو بدنام کرنے

کے لیے کیا ہے : توصیف احمد خان

’’مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ڈراما : پاکستان نشانہ‘ ‘

پروگرام ’’ زمانہ گواہ ہے ‘‘ میں معروف تجزیہ نگاروں اور دانشوروں کا اظہار خیال

میز بان : آصف حمید

مرتب : محمد رفیق چودھری

سوال:مقبوضہ کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں 30 سیاحوں کے قتل کا واقعہ پیش آیا ۔ کیا یہ ہمیشہ کی طرح انڈیا کا کوئی فالس فلیگ ڈراما ہے یا بھارتی ظلم و ستم کا ردعمل ہے ؟
توصیف احمد خان:جنگ میں کچھ حکمت عملیاں  ہوتی ہیں جیسا کہ دہشت مچانے کے لیے اس طرح  کے واقعات کیے جاتے ہیں ، میڈیا ایسے واقعات کو کوریج دیتاہے اور دنیا میں ایک پیغام جاتاہے کہ یہاں  کچھ مسئلہ ہے ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ معصوم شہریوں کا قتل کہیں بھی ہو ، کوئی بھی کرے وہ غلط ہے ۔ اگر بلوچستان میں معصوم شہریوں کا قتل ہو رہا ہے ، بسیں روک کر ، جعفر ایکسپریس اغوا کرکے اور شناختی کارڈ چیک کرکے لوگوں کو کا قتل کیا جاتاہے تواس کے پیچھے بھی بھارت کا ہاتھ واضح ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ بھارت کی اگر آپ تاریخ دیکھیں تو اس واقعہ کے فالس فلیگ ہونے کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کیونکہ بھارت مقبوضہ کشمیر کے حریت پسندوں کو دہشت گرد ثابت کرنے کے لیے اس طرح کے ہتھکنڈے پہلے بھی آزماتا رہا ہے۔ پاکستان کو بدنام کرنےکے لیے سمجھوتہ ایکسپریس جیسے فالس فلیگ واقعات بھی ہوئے جس پر آج تک بھارت نے کوئی تحقیقات نہیں کروائیں کیونکہ اس میں بھارتی ادارے خود ملوث تھے ۔ حالیہ دنوں میں جب امریکی نائب صدر بھارت کے دورے پر ہیں تو اس طرح کا فالس فلیگ ڈراماکرکے پاکستان کے خلاف گریٹ گیم کو آگے بڑھانا بھی ایک مقصد ہوسکتا ہے کیونکہ پاکستان کا کشمیر کے حوالے سے اپنا ایک موقف ہے ۔ پھر یہ کہ جو کچھ اسرائیل فلسطین میں کر رہا ہے وہی کچھ بھارت مقبوضہ کشمیر میں کرنا چاہتاہے ۔ اگر پاکستان فلسطین کے حوالے سے اپنا موقف تبدیل کرتاہے تو اسے کشمیر کے معاملے میں بھی کرنا پڑے گا ۔ خبریںیہ بھی ہیں کہ جہاں یہ واقعہ ہوا، وہاں کچھ یہودی بھی موجود تھے ۔ وہاں کچھ فوجی اہلکاروں کی بھی اموات ہوئی ہیں، اسی وجہ سے وہ مقتول شہریوں کے نام نہیں دے رہے ۔ وہ دہشت گردوں کی تصویریں تو دکھاتے ہیں لیکن ابھی تک نہ وہ گرفتار ہوئے اور نہ ہی ان کا کچھ پتا چلا ہے ۔ اس سے یہ واضح ہوتاہے کہ یہ فالس فلیگ واقعہ ہے ۔ تیسرا پہلو یہ بھی ہے کہ عالمی طاقتیں فنڈنگ کرکے بھی ایسے واقعات کرواتی ہیں ۔ جیسا کہ چاہ بہار بندرگاہ میں بھارت اور ایران کی دلچسپی ہے تو اس کے اثرات بلوچستان میں دکھائی دیتے ہیں ، کلبھوشن ایران کے راستے بلوچستان میں داخل ہوتا ہوا پکڑا گیا۔ اسی طرح قطر میں8بھارتی انجینیئرزاسرائیل کے لیے جاسوسی کرتے ہوئے پکڑے گئے ، جنہیں رہا کروانے کے لیے خود مودی گیا لیکن ایک ابھی تک قید ہے ۔ اسرائیل نے بھارت کے ساتھ مل کر دو مرتبہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر حملے کی کوشش کی ۔ کیا بلوچستان میں اس کا ہاتھ نہیں ہوگا ؟ اسی طرح  افغانستان کے ساتھ تو انڈیا کا بارڈر بھی نہیں لگتا مگر وہاں  دہشت گردوں کی فنڈنگ کرکے پاکستان میں دہشت گردی کروائی جاتی رہی ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ ہماری غلطیوں  نے انہیں موقع فراہم کیا ہے ۔ جہاں بھی ہم سے غلطی ہوگی تو دشمن ضرور فائدہ اُٹھائے گا ۔
سوال:بھارت میںپہلے ہی مسلمانوں کا عرصہ حیات تنگ کیا جا رہا ہے۔ پہلگام جیسے واقعات کابھارت کے مسلمانوں پر کیا اثر پڑے گا ؟
رضاء الحق:بھارتی مسلمانوں کے ساتھ ناروا سلوک صرف بی جے پی کی حکومت کے دوران نہیں ہے بلکہ کافی عرصہ سے انہیں دوسرے درجے کے شہری کے طور پر دیکھا جاتاہے ۔ یہ محض ایک دھوکہ تھا کہ کبھی مسلم سائنسدان کو صدر بنا دیا لیکن حقیقت میں بھارت کبھی سیکولر ریاست تھا ہی نہیں ۔قیام پاکستان کے فوراً بعد ہی کانگریس کی حکومت نے پاکستان کو اُس کے حصے کے اثاثہ جات دینے میں بہت تاخیر کی ۔ لاکھوں مسلم مہاجرین کا اُس دور میں  قتل عام ہوا ۔ 1971ء میں جب مشرقی پاکستان الگ ہوگیا تو اندرا گاندھی نے کہا تھا کہ ہم نے مسلمانوں سے ایک ہزارسالہ حکومت کا بدلہ لے لیا ہے ۔ اس نے یہ بھی کہا تھا کہ ہم نے دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے ۔ اسی دور میں اندرا گاندھی نے سپین میں ایک سٹڈی مشن بھیجا تھا کہ وہ معلوم کرے کہ سپین سے مسلمانوں کا خاتمہ کس طرح کیا گیا تھا تاکہ وہی فارمولا مقبوضہ کشمیر اور بھارتی مسلمانوں کے خلاف بھی اپنایا جائے ۔ یہ چیزیں ثابت کرتی ہیں کہ ہندو لیڈروں کی ذہنیت میں مسلم دشمنی شامل ہے چاہے ان کا تعلق کسی بھی پارٹی سے ہو ۔ بی جے پی نے تو بھارت کا سیکولر نقاب اُتار دیا ہے ۔ وہ آر ایس ایس کا ہی سیاسی ونگ ہےاور RSSکے بارے میں سب جانتے ہیں کہ اس کی بنیاد 1925ء میں ہٹلر کے فاشسٹ نظریات سے متاثر ہو کر رکھی گئی تھی ۔ مودی خود بھی RSSکا ممبر ہے اور تمام ہندو انتہا پسند اس کے ساتھ ہیں ۔ امریکہ اور اسرائیل سمیت مسلم دشمن قوتیں بھی مودی کی پشت پر ہیں ۔ ان کے ساتھ عسکری اور اقتصادی معاہدے بھی ہیں۔ اس لیے مودی کھل کر مسلم دشمنی پر اُتر آیا ہے ۔ امریکی نائب صدر جو بھارت کے دورے پر آیا اس کے اسرائیل کے ساتھ بہت گہرے تعلقات ہیں اور وہ کشمیر کے مسئلہ پر بھارت کا بڑا حامی ہے ۔
سوال:پہلگام واقعہ کے بعد بھارتی ہندو انتہا پسند تو ایک طرف، ماڈریٹ ہندوبھی پاکستان پر انگلی اُٹھا رہے ہیں اور بعض تو کہہ رہے ہیں کہ بھارت کو پاکستان پر حملہ کر دینا چاہیے ۔ آپ کیا سمجھتےہیں کہ اس واقعہ کے خطہ کے مسلمانوں خصوصاً پاکستان پر کیا اثرات مرتبہ ہوں گے ؟
توصیف احمد خان:کچھ عرصہ سے بھارتی میڈیا نے جو ذہن سازی کی ہے اس کا نتیجہ ہے کہ ماڈریٹ بھارتی بھی انتہا پسند ہندوؤں کی زبان بولنے لگا ہے ۔ پہلگام واقعہ کے فوراً بعد بھارتیوں نے پاکستان پر الزام لگانا شروع کردیا تھا ۔ حالانکہ ابھی تک تحقیقات بھی نہیں ہوئیں ۔ ہندوؤں نے آج تک پاکستان کو دل سے تسلیم کیا ہی نہیں ، وہ سمجھتے ہیں کہ یہ بھارت کو کاٹ کر بنایا گیاہے اور قیام پاکستان کے وقت سے ہی ان کی کوشش رہی کہ پاکستان ختم ہو کر دوبارہ بھارت میں ضم ہو جائے۔ اسی وجہ سے انہوں نے پاکستان کا حصہ بھی آسانی سے نہیں دیا تھا اور پھر 1971ء میں ہماری غلطیوں سے فائدہ اُٹھا کر انہوں نے پاکستان کو توڑدیا ۔ پہلگام واقعہ کے بعد بھی وہ پاکستان اور مسلمانوں کو نشانہ بنائیں گے ۔ انہیں ایک بہانہ مل گیا ہے جس کی بنیاد پر وہ بھارتی اور کشمیر ی مسلمانوں کا قتل عام کریں گے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ مودی کو اس بار الیکشن میں اتنی کامیابی نہیں ملی جتنی پہلے ملتی رہی ہے ۔ حتیٰ کہ وہ ایودھیا والی سیٹ بھی ہار گیا جہاں  اُس نے بابری مسجد گرا کر اور رام مندر تعمیر کرکے ہندوؤں  کا ووٹ جیتا تھا ۔لہٰذا ہندوؤں کے دل دوبارہ جیتنے کے لیے بھی اس طرح کے ہتھکنڈے استعمال کیے جاسکتے ہیں ۔ پہلگام واقعہ کے بعد وہ ہندوؤں کو بتائیں گے کہ شناختی کارڈ چیک کرکے ہندوؤں کا قتل کیا گیا ہے ۔ اس کے تحریک آزادی کشمیر پر بھی منفی اثرات پڑیں گے اور کشمیر کی ڈیموگرافی تبدیل کرنے کے لیےبھی اس واقعہ کو استعمال کریں گے ۔
سوال:بھارتی اور کشمیری مسلمان بھارتی مظالم پر کب تک خاموش رہیں گے ؟
توصیف احمد خان:بھارت جس انتہا پسندی کی طرف جارہا ہے بالآخر یہی اتنہا پسندی 30 سے 40 سال کے بعد بھارت کی ساری ترقی کو کھا جائے گی۔ RSS کے خلاف بھارتی عوام میں ردعمل پیدا ہوگا کیونکہ کسی ایک طبقہ کی اجارہ داری اور اس کے مظالم کو ہمیشہ قبول نہیں کیا جائے گا ۔ اس کے اثرات گزشتہ انتخابات میں بھی سامنے آچکے ہیں کہ پہلے کی نسبت بی جے پی کو کم سیٹیں ملی ہیں ۔ پہلگام واقعہ کے بعد مودی حکومت کے اجلاس جاری ہیں ۔ اگرچہ میرے علم کے مطابق امریکہ ابھی تک محتاط ہے لیکن اسرائیل کا دباؤ اگر امریکہ پر بڑھا تو واشنگٹن سے دہلی کو جنگ کا سگنل بھی مل سکتاہے اور ہو سکتا ہے بھارت آزاد کشمیر پر حملہ کرے ۔ لیکن بھارت پہلے امریکہ سے گارنٹی لے گا پھر آزاد کشمیر پر حملہ کرے گا ۔ بھارتی میڈیا اس وقت بھارتی حکومت کی ہی زبان بول رہا ہے اور طبل جنگ بجا رہا ہے ۔ یہاں تک کہ بالی وڈ کے اداکار بھی بھارتی حکومت کے بیانیہ کو بڑھاوادیتے ہوئے مسلمانوں  اور پاکستان کو سزا دینے کی بات کررہے ہیں ۔ میرا خیال ہے کہ وہ کسی بڑی گیم کا ارادہ رکھتے ہیں۔ مودی اپنے آپ کو بھارتی تاریخ میں ایک بڑے لیڈر کے طور پر زندہ رکھنا چاہتا ہے ۔ میں اس سے کوئی اچھی توقع نہیں رکھ سکتا ۔
سوال: اسرائیل نے بھی AI ویڈیو جاری کر دی ہے کہ مسجد اقصیٰ ٹوٹے گی اور تھرڈ ٹیمپل بنے گا۔پاکستان ہمیشہ سے اسرائیل کی نگاہوں میں کھٹکتا رہا ہے کیونکہ یہاں کے مسلمان فلسطینیوں اور مسجد اقصیٰ کے حق میں آواز اُٹھا رہے ہیں ۔بڑے بڑے جلسے کر رہے ہیں اور جہاد کے فتوے بھی جاری ہو رہے ہیں ، پھر یہ کہ پاکستان واحد اسلامی ایٹمی قوت بھی ہے ۔کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ پاکستان کو بلوچستان میں ، افغان بارڈر سے ٹی ٹی پی کے ذریعے مصروف رکھ کر اندرونی طور پر کمزور اسی وجہ سے کیا جارہا ہے تاکہ وقت آنے پر اس کے خلاف انتہائی اقدام کیا جاسکے ؟
رضاء الحق: جب ہیلری کلنٹن امریکن سیکرٹری آف سٹیٹ تھی تو اس وقت ا س نے کہا تھا کہ :Pakistan is too big a state to fail.جس سے مراد یہ تھی کہ اگر پاکستان کے حصے بخرے ہوگئے تو ان جہادیوں اور ملاؤں کو کون سنبھالے گا ۔ یہ تو ہمسایہ ملک کےخلاف لڑ بھڑ جائیں گے ۔ امریکہ ، اسرائیل اور انڈیا تینوں اتحادی ہیں اورپاکستان کو کمزور کرنا ان کا مشترکہ خواب ہے ۔ اگر انڈیا پاکستان کے خلاف آزاد کشمیر میں جنگ چھیڑتا ہے تو یہ صرف ان دو ممالک تک ہی محدود نہیں رہے گی بلکہ اس میں چائنہ بھی ملوث ہوگاکیونکہ اس کا پہلے سے ہی لداخ کے معاملے پر تنازعہ بھارت کے ساتھ چل رہا ہے۔ اسی طرح نیپال ، بنگلہ دیش ، سری لنکا ،مالدیپ اور بھوٹان بھی بھارت سے خوش نہیں ہیں ۔ ان ممالک میں چین کے مفادات ہیں ۔ اقبال نے کہا تھا کہ ع
فرنگ کی رگ ِجاں پنجۂ یہود میں ہےاسرائیل نے شروع سے ہی اپنے اہداف متعین کیے ہوئے ہیں ۔ 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ میں بھی امریکہ کی مدد سے عرب ممالک کو شکست دی اور اس کے بعد پیرس میں جشن منانے کے دوران اسرائیلی وزیر اعظم بن گوریان نے کہا تھا کہ عرب ممالک سے ہمیں کوئی خطرہ نہیں ہے بلکہ ہمارا نظریاتی دشمن پاکستان ہے کیونکہ پاکستان واحد ملک ہے جو اسلام کی بنیاد پر بنا ہے ۔ کچھ عرصہ قبل نتن یاہو نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ میری خواہش ہے کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثے چھین لیے جائیں۔ممکن ہے اس وقت وہ جنگ کی طرف نہ جائیں  لیکن ان کی سب سے بڑی کوشش یہی ہوگی کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثے ختم کیے جائیں ۔ فلسطین میں اسرائیل مسلمانوں کی نسل کشی کے 9 ویں مرحلے میںد اخل ہو چکا ہے ۔ بھارت کشمیر میں ابھی اس مرحلے پر نہیں پہنچا۔ لیکن غزہ میں اگر مزاحمت ابھی بھی جاری ہے تو مقبوضہ کشمیر میں بھارت کو کئی گنا زیادہ مزاحمت کا سامنا ہو سکتاہے ۔
سوال:جس طرح کے پاکستان کے اندرونی حالات ہیں کہ سیاسی اور معاشی عدم استحکام اپنے عروج پر ہے ، لسانی ، نسلی اور صوبائی تعصبات بھی عروج پر ہیں ، نہروں کے مسئلہ پر بھی تمام پارٹیاں مقتدر حلقوں کے خلاف ہیں ۔ ان حالات میں کیا پاکستان کسی بیرونی ایڈونچر کا متحمل ہو سکتاہے ؟
توصیف احمد خان:بیرونی ایڈونچر اسی وقت کیا جاتاہے جب کوئی ملک اندرونی طور پر اس کا متحمل نہ رہے۔BLA، TTPاور دیگر فساد سارا اور ان کی فنڈنگ اسی وجہ سے کی گئی تاکہ پاکستان اندرونی طور پر کمزور ہو جائے اور کسی بیرونی ایڈونچر کا متحمل نہ رہے ۔ اسرائیل کی لیکوڈ پارٹی نے بھی کہا تھا کہ ہم کسی ایٹمی اسلامی ملک کو برداشت نہیں کریں گے۔ میرے ایک پاکستانی صحافی دوست نیویارک ٹائمز کے ایٹوریل بورڈ میں تھے ۔ وہاں نتن یاہو نے دورہ کیا اور سوال جواب کا سیشن ہوا ۔ ایک بندے نے پوچھا کہ آپ لاؤڈاینڈ کلیئر بتائیں کہ اسرائیل کو کس ملک سے واضح طور پر خطرہ محسوس ہوتاہے ۔ اس نے میرے پاکستانی صحافی دوست کا نام لے کرکہا کہ اس کے ملک سے اور ایران سے ۔ میرے دوست نے اُٹھ کر سوال پوچھا کہ پاکستان کا اسرائیل کے ساتھ بارڈر ملتا ہے اور نہ ہی کوئی جھگڑا ہے ، اس کے باوجود آپ سے ہمارا نیوکلیر سٹیٹس کیوں نہیں دیکھا جارہا ۔ اُس نے جواب دیا کہ ہمیں ڈر ہے کہ آپ کا نیوکلیئر ہتھیار شدت پسندوں کے ہاتھ آسکتا ہے ۔اس وقت ہمیں کارروائی کرنی پڑے گی ۔ یہی بہانہ دنیا کی سب سے بڑی امریکن ایمبیسی اسلام آباد میں بنانے کے وقت بھی موجود تھا۔ یہ انہی دنوں کی بات ہے۔ اب گریٹ گیم شروع ہو گئی ہے اور اس میں یہ بھی شامل ہے کہ پاکستان کا نیوکلیئر سٹیٹس چھین لیا جائے ۔ پہلگام واقعہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہو سکتی ہے ۔ اس سے قبل پاکستان میں جو لسانی ، علاقائی ، سیاسی اور فرقہ وارانہ انتشار پیدا کیا گیا وہ بغیر فنڈنگ کے پیدا نہیں ہوا ۔ ہم نے اپنی غلطیوں سے دشمنوں کو موقع فراہم کیا ہے ۔ کچھ عرصہ قبل ہی امریکہ نے ہمارے میزائل پروگرام پر پابندیاں عائد کی ہیں تو بلا وجہ نہیں تھیں۔ حالانکہ اسرائیل ہمارے کسی میزائل کی رینج میں نہیںہے ۔ زیادہ سے زیادہ 3 ہزار کلومیٹر کی رینج کا میزائل پاکستان کے پاس ہے ، اس کے حوالے سے بھی ہماری آرمی نے کلیئر کر دیا تھا کہ چونکہ انڈیا نے جنوب میں جاکر اپنے اڈے بنائے ہیں اس لیے ہم نے انڈیا کو جواب دینا تھا ورنہ شارٹ رینج میزائل پروگرام کافی تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اسرائیل کے لیے شاید ہم نےرینج میں کچھ کمی بھی کی ہے ۔ ہماری ان غلطیوں کی وجہ سے ہمیں معافی نہیں ملے گی۔ انڈیا اور پاکستان دونوں کے لیے بہتر یہی ہے کہ کسی گریٹ گیم کا حصہ نہ بنیں ۔ ہمسایہ کبھی بدلا نہیں جاسکتا ۔ دونوں ممالک ایک حقیقت ہیں ، انہیں ایک دوسرے کو تسلیم کرنا چاہیے اور مل بیٹھ کر مسائل کا حل تلاش کرنا چاہیے ۔
رضاء الحق: یہ خواہش تو بہت اچھی ہے لیکن ایسا ہونے والا نہیں ہے کیونکہ دونوں ممالک میں جارحانہ ذہنیت کے لوگ موجود ہیں۔ پاکستان ایک سکیورٹی سٹیٹ ہے کیونکہ ہمیں دشمنوں کا سامنا تھا ۔1947ء میں  اقوام متحدہ میں افغانستان نے سب سے آخر میں پاکستان کو تسلیم کیا تھا۔ ملاعمر کے دور حکومت کے سوا افغانستان بھی پاکستان کا دشمن ہی رہا ہے ۔
سوال:یوکرین کی مثال ہمارے سامنے ہے جس کے پاس 4 ہزار ایٹمی وار ہیڈز تھے ۔ امریکہ ، برطانیہ اور روس نے یوکرین کو گارنٹی دی تھی کہ اگر وہ ایٹمی اثاثے روس کے حوالے کر دے تو وہ تینوں اس کی حفاظت کریں گے مگر آج اسی یوکرین کو روس نے روند دیا ہے ۔ اب پاکستان کے دشمن بھی چاہتے ہیںکہ پاکستان کے ایٹمی دانت نکال دیئے جائیں ۔ کیا ہماری اشرافیہ کو یوکرین کی تاریخ سے سبق نہیں سیکھنا چاہیے ؟
رضاء الحق:پاکستان نے اپنا نیوکلیئر پروگرام اپنے دفاع کے لیے بنایا ہے اور اسے دفاع کے لیے ہی استعمال کیا جائے گا ۔ یہاں تک کہ بحیرہ عرب میں ہمارے کچھ ایٹمی اثاثے موجود ہیں تو وہ بھی ہم نے دفاعی نقطہ نظر سے رکھے ہوئے ہیں کہ اگر انڈیا پہل کرکے پاکستان پر ایٹمی حملہ کرتاہے تو پاکستان جواب دینے کے قابل ہو سکے ۔ اس کے علاوہ پاکستان کے پاس ایک اور بہت بڑا اور زبردست ڈیٹرنٹس موجود ہے جس کو ہم نے ابھی تک استعمال نہیں کیا ۔ وہ کلمہ شہادت کی طاقت ہے جس نے ہمیں ایک قوم بنایا تھا ۔ حتیٰ کہ تحریک پاکستان میں بھی اصل کامیابی ہمیں اسی بنیاد پر ملی تھی ۔ ورنہ اس سے قبل 1937ء میں مسلم لیگ کو شکست ہو چکی تھی ۔ اس کے بعد جب’’ پاکستان کا مطلب کیا : لاالٰہ الا اللہ ‘‘، ’’مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ‘‘جیسے نعرے لگے تو پھر 1946ء کے انتخابات میں مسلم لیگ کو فتح حاصل ہوئی ہے اور پاکستان بنا ۔ اس کے بعد قرارداد مقاصد بھی پاس کرلی گئی ۔ 31 علماء  کے 22 نکات بھی پیش ہوگئے جن کے مطابق تمام مکاتب فکرکے جید علماء اسلام کے نفاذ کے فارمولے پر متفق ہوگئے لیکن اس کے بعد اندرونی اور بیرونی سازشیں شروع ہوگئیں جس کی وجہ سے ملک پٹڑی سے اُتر گیا ۔ جسٹس منیر نے کہا کہ یہ نعرہ کبھی لگا ہی نہیں کہ’’ پاکستان کا مطلب کیا : لاالٰہ الا اللہ‘‘۔ اس نے قائداعظم کی تقریر کا غلط حوالہ دے کر پاکستان کو سیکولر سٹیٹ باور کرانے کی کوشش کی ۔ حالانکہ سلینہ کریم نے اس کے جواب میں باقاعدہ کتاب لکھی اور ثبوتوں کے ساتھ ثابت کیا کہ جسٹس منیر کا دعویٰ جھوٹا ہے ۔ پھر بیرونی سازش کے طور پر ہمارے ایک جنرل کووزیر دفاع بنا دیا گیا۔اس کے بعد ملک پٹڑی سے اُتر گیا ۔ پھر مارشل لاء پر مارشل لاء لگتے رہے ۔ 1973ء میں آئین بنا لیکن پھر مارشل لاء لگ گیا ۔ اس کے بعد نوازشریف اور زرداری خاندان سیاست پر مسلط ہوگئے اور عمران خان بھی حکومت میں آئے لیکن ایک ہی طرز کی ہائبرڈ حکومتیں بنتی رہیں ۔ درمیان میں مشرف کی صورت میں ایک اور مارشل لاء لگا جس نے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ۔ اس کا نتیجہ ہے کہ آج ہم یہاں تک پہنچ چکے ہیں ۔ اگر ہم شروع سے ہی ملک کو درست سمت میں لے کر چلتے تو آج یہ حالات نہ ہوتے ۔ لیکن ہماری اشرافیہ کے ذاتی مفادات اور اقتدار کی حرص نے ہمارے قومی مفاد کو ہمیشہ شکست دی ، اشرافیہ نے جائیدادیں اور جاگیریں بنائیں لیکن ملک کنگال ہوگیا ۔ اپنی انہی غلطیوں کی وجہ سے آج ہمارا ملک دشمنوں کے لیے نرم چارا بن گیا ہے ۔ اصل حل اب بھی وہی ہے کہ ہم اپنی اصل کی طرف لوٹ آئیں اور جس نظریہ کی بنیاد پر ملک حاصل کیا تھا، اس کو عملی جامہ پہنائیں تو ملک نہ صرف استحکام حاصل کرے گا بلکہ ہم بحیثیت مسلمان ایک قوم بن کر دشمنوں کا مقابلہ بھی کر سکیں گے ۔ ان شاء اللہ