(نقطۂ نظر) اے اللہ! ہم پررحم فرما - ابو موسیٰ

10 /

اے اللہ! ہم پررحم فرما

ابو موسیٰ

پاکستان پیپلز پارتی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو سے لاکھ اختلاف کے باوجود یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ اُنہوں نے پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کے لیے اپنی جان قربان کرنے سے بھی گریز نہ کیا۔ لیکن یہ بھی ذہن میں رہنا چاہیے کہ اسے عالمی سامراج کہیںیا وہ نادیدہ قوتیں جو دنیا کو کنٹرول کرتی ہیں اور جن کے بارے میں یہ کہہ دینا کوئی غلط نہیں ہوگا کہ وہ امریکہ سمیت دنیا کے اکثر ممالک کے بارے میں حتمی اور آخری فیصلہ کرتے ہیں کہ کس ملک کی حکمرانی کس کو دی جائے۔ اِن نادیدہ قوتوں کے سامنے ذوالفقار علی بھٹو کا یہ جرم بھی تھا کہ اُس نے 1973ء کی عرب اسرائیل جنگ میں PAF کے پائلٹ بھیجے جنہوں نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کر کے اسرائیلی جنگی طیاروں کو ڈھیر کیا۔ علاوہ ازیں بھٹو نے پاکستان میں مسلمان سربراہانِ مملکت کا اکٹھ کیا۔ بھٹو کے اِس انجام کے بعد پاکستان کی تاریخ میں امریکہ سے گستاخانہ رویے کا ایک ہی واقعہ نظر آتا ہے جس کا ذکر بعد میں کیا جائے گا۔ البتہ جنرل ضیاء الحق کو بھی کریڈٹ جاتا ہے کہ اُس نے افغانستان میں امریکہ اور سویت یونین کے آمنے سامنے آجانے کا بھرپور فائدہ اُٹھایا اور ایٹمی حوالے سے ریڈلائن عبور کر لی بلکہ کولڈ ٹیسٹ بھی کر لیا۔ یہ امریکہ نے آنکھوں دیکھی مکھی نگلی کیونکہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں امریکہ کے لیے ممکن نہ تھا کہ اپنے بدترین حریف سوویت یونین کو شکست و ریخت سے دوچار کرکے supreme power بن سکتا۔
لہٰذا دنیا Bi-polar نہ رہی بلکہ Uni-polar ہوگئی گویا امریکہ عالمی حکمران بن گیا جس پر جارج بش اوّل نے new world order کے قیام کا اعلان کیا اور واضح طور پر کہا کہ اب دنیا میں امریکہ کی مرضی کے خلاف کچھ نہیں کیا جا سکے گا۔ عالمی تاریخ کو اِس نہج تک پہنچانے میں جہاں امریکی قوت کا استعمال ہوا وہاں نادیدہ قوتوں کی سازشوں نے بھی انتہائی اہم رول ادا کیا۔ یہ نادیدہ قوتیں ہی دراصل اسرائیل کی محافظ اور سرپرست ہیں۔ صاف اور سیدھی بات یہ ہے کہ نادیدہ قوتیں درحقیقت صہیونیوں کا مجتمع ہونا ہی ہے لیکن قدرت کا قانون لاگو ہوا :
{مَکَرُوْا وَمَکَرَ اللہُ طوَاللہُ خَیْرُ الْمٰکِرِیْنَ B} امریکی قوت کے کھیل اور صہیونی سازشیوں کے بیچ میں سے پاکستان ایٹمی صلاحیت حاصل کر گیا۔ ایسا ہرگز نہیں ہے کہ پاکستان کے ایٹمی قوت بن جانے کے حوالے سے نادیدہ قوتیں بے خبر تھیں بلکہ وقتی مفاد کے لیے خود سوچ سمجھ کر آنکھیں بند کی گئیں۔ یقیناً اِن نادیدہ قوتوں نے فیصلہ کیا ہوگا کہ وقت آنے پر اِس ایٹمی قوت سے بھی نمٹ لیں گے۔ ہم سے بچ کر کون کہا جا سکتا ہے؟
قصہ کوتاہ نواز شریف کے دور میں پاکستان نے ایٹمی دھماکے کر لیے اور اب پاکستان اعلانیہ طور پر بھی ایٹمی قوت کا حامل ملک بن گیا۔ مختلف مواقع پر اسرائیل نے کبھی بھارت سے مل کر اور کبھی اپنے تئیں پاکستان کی ایٹمی تنصیبات کو تباہ کرنے کی کوشش کی لیکن بفضل تعالیٰ یہ نادیدہ قوتیں اِس حوالے سے ناکام رہیں بلکہ اُن کی اِن مذموم حرکات کی وجہ سے پاکستان نے اپنے ایٹمی اثاثہ جات کو ملک بھر میں اس طرح پھیلا لیا کہ کسی ایک حملے میں اُنہیں ناکارہ بنانا ممکن نہ رہا۔ لہٰذا دشمنوں نے دوسرا راستہ اختیار کیا جس پر پہلے بھی کام جاری تھا اُسے تیز تر کر دیا وہ یہ کہ پاکستان کے کرپٹ حکمرانوں کے ذریعے پاکستان کی معیشت کو تباہ و برباد کر دیا جائے۔ یہاں سیاسی عدم استحکام پیدا کیا جائے اور پھر IMF اور ورلڈ بنک جیسے اپنے بنائے ہوئے اداروں کے ذریعے یہاں ایسے فیصلے کرائے جائیں جس سے ملک بھاری قرضوں کی دلدل میں پھنس جائے اور سیاسی ابتری پھیل جائے تاکہ جو بھی اِس ملک کا حکمران ہو وہ نادیدہ قوتوں کے احکامات کے آگے سر جھکانے پر مجبور ہو۔
اب آئیے اُس اسرائیل کے حوالے سے پاکستان کی پالیسی کیا ہے اور کیا ہو سکتی ہے جس نے غزہ میں فلسطینیوں سے وہ سلوک کیا ہے کہ راقم اِس اسرائیل کے لیے کیا الفاظ استعمال کرے جو بھی الفاظ استعمال ہوں مثلاً ظالم، وحشی، درندہ صفت، انسانیت دشمن، انسانیت پر بدنما داغ، انسانی تاریخ کو خون سے سرخ کر دینے والا، عورتوں اور بچوں کا بے رحم قاتل یہ سب کچھ کہہ اور لکھ کر بھی نہ قلم مطمئن ہوتا ہے نہ زبان، نہ ضمیر کہ مذمت کا حق ادا ہوگیا۔ اپنی بے بسی اور مسلمان حکمرانوں کی بے غیرتی پر اپنے ہونٹ کاٹنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ غزہ میں اسرائیل کے اِس قتل عام کے حوالے سے اپنے پاکستان کی پالیسی پہلے دن سے ہی انتہائی قابل مذمت، انتہائی قابل مذمت ہے اور وہ وقت یاد کرکے دل خون کے آنسو روتا ہے جب ذوالفقار علی بھٹو نے 1973ء کی عرب اسرائیل جنگ میں عملی اقدام کیے تھے۔ اب تو وہ وقت بھی ایک سنہرا دور محسوس ہوتا ہے جب ایک سابقہ وزیراعظم جو، اب قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہا ہے اُس نے اقوامِ متحدہ میں کھڑے ہو کر تمام تر نتائج سے بے پرواہ ہو کر کہا تھا کہ ہولوکاسٹ تمہارے لیے اہم ہوگا، ہمارے لیے ہمارے پیارے نبی، اللہ کے رسول محمدﷺ عظیم ترین ہیں، وہ ہی ہمارے دلوں میں بستے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اُن کی عزت و حرمت دنیا کی ہر شے سے بلند و بالا اور افضل ہے۔ اُن کی کسی نوعیت کی توہین بھی ہمارے لیے قابلِ برداشت نہیں۔ اِس تقریر کے بعد راقم نے سابق وزیراعظم عمران خان کے روبرو یہ کہہ دیا تھا کہ آپ کی اقوامِ متحدہ میں اِس تقریر کے فوراً بعد ہی نادیدہ قوتوں نے آپ کے خلاف FIR کاٹ دی تھی کیونکہ صرف صہیونیوں ہی کے لیے نہیں بلکہ تمام غیر مسلم قوتوں کے لیے نبی اکرم ﷺ کی عالمی ادارے میں یوں تحسین و تعریف کرنا غیر مسلم قوتیں کبھی برداشت نہ کریں گی پھر جو ہوا وہ تاریخ ہے۔ یہ آخری جملہ تحریر ہونے سے پہلے راقم کو اطلاع ملی کہ مقبوضہ کشمیر میں سیاحوں پر حملہ ہوا ہے جس سے کم از کم 27 سیاح ہلاک ہوگئے ہیں جن میں دو غیر ملکی بھی شامل تھے۔ پھر کیا تھا بھارتی میڈیا نے وقت ضائع کیے بغیر طوفان اٹھا دیا کہ پاکستان نے ایک بار پھر ہمارے ملک میں دہشت گردی کا ارتکاب کیا ہے۔ لہٰذا راقم نے بھی اپنے قلم کا رخ موڑ لیا ہے اور بقیہ عرض داشت اِسی حوالہ سے ہوگی کہ یہ نوبت کیوں آئی بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں ایک فالس فلیگ کے لیے اِس وقت کا انتخاب کیوں کیا؟
آغاز ہی میں عرض کر دوں کہ اسرائیل اور امریکہ نے فوری طور پر کوئی وقت ضائع کیے بغیر اِس حوالے سے بھارت کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔ پہلی گزارش یہ ہے کہ اِسے واقعہ کہیں یا سانحہ راقم کو پاکستان میں گزشتہ تین سال سے ہونے والے واقعات اور حالات کو آگے بڑھاتے ہوئے یہ فالس فلیگ فائنل، حتمی اور فیصلہ کن واردات معلوم ہوتی ہے گویا امریکہ اور اسرائیل نے پاکستان کی سلامتی کے خلاف عملی کارروائی کرنے کے لیے بھارت کو جواز فراہم کیا ہے۔ آخر راتوں رات بلاتوقف اسرائیل اور امریکہ کا بھارت کے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان چہ معنی دارد۔
حقیقت یہ ہے کہ جب پاکستان کی معیشت فراٹے بھر رہی تھی اور 6.2 GDP تک جا پہنچا تھا ملک میں کوئی بڑی سیاسی ہلچل بھی نہ تھی تو یکدم آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کے ذریعے حکومتی اتحادیوں سے رابطہ کرکے اور اُنہیں ڈرا دھمکا کر حکومت کا ساتھ چھوڑنے پر مجبور کیا گیا اور ایک ایسی حکومت مسلط کر دی گئی جس نے تمام تر سفارتی ذرائع اور آداب کو بالائے طاق رکھ کر اپنا منہ اُس امریکہ کی طرف کر لیا جسے عمران خان نے افغانستان کے خلاف اڈے دینے کے حوالے سے Absolutely Not کہہ کر شٹ اپ کال دی تھی۔ یہ مسلط کردہ حکومت دنوں میں عوامی حمایت کھو بیٹھی اور عوام کی اکثریت قیدی نمبر 804 کے حق میں ملک شگاف نعرے لگانے لگی۔ پھر مہنگائی نے دوآتشہ کا کام کیا اور عوام میں حکومت کی مخالفت نفرت میں تبدیل ہوگئی۔ یہاں تک کہ حکومت کے سرپرست مسلم لیگ (ن) کے سربراہ اِس پوزیشن میں نہ رہے کہ ایک چھوٹا موٹا عوامی اجتماع بھی کر سکیں اور PTI کا معاملہ یہ ہے کہ ہر دوسرے دن عمران خان کے بغیر بھی جلسہ کے لیے مینارِ پاکستان کی اجازت مانگتی نظر آئی، جس کا جواب حکومت کی طرف سے لاٹھیاں برسانے اور آنسو گیس پھینکے حتیٰ کہ گولیاں چلانے کی صورت میں سامنے آتا ہے۔
دوسری طرف معیشت کی حالت دن بدن پتلی ہوتی چلی گئی حتیٰ کہ GDP زمین بوس ہوگیا۔ اب تین سال میں بمشکل 2.5 فیصد شرح نمو بتائی جا رہی ہے۔ بیرونی سرمایہ کاری نہ ہونے کی وجہ سے مستقبل میں بھی مزید بہتری کی صورت نظر نہیں آتی۔ سب سے بڑا ظلم یہ ہوا کہ عوام نے فوج کو موجودہ حکومت کی پشت پناہ قرار دے دیا جس سے عوام اور فوج ایک دوسرے کے سامنے آگئے۔ PTI کے سوشل میڈیا نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور اُس نے اپنی ہی فوج کو دشمن بنا کر حملے شروع کر دئیے جس سے مزید بگاڑ پیدا ہوا۔ لہٰذا فوج اور عوام کی اکثریت ایک دوسرے سے کوسوں دور ہوگئے۔
راقم نے جو اننت ناگ کے مشہور سیاحتی مقام پر رونما ہونے والے سانحہ کو دشمنوں کی طرف سے حتمی اور فیصلہ کن واردات قرار دیا ہے۔ اُس کا پس منظر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کا ایٹمی طاقت کا حامل ہونا اگر ایک طرف گریٹر اسرائیل کے راستے کی رکاوٹ ہو سکتا ہے تو دوسری طرف بھارت جس نے 77 سال سے پاکستان کے قیام کو دل سے قبول ہی نہیں کیا اور گاہے بگاہے اکھنڈ بھارت کے نعرے لگتے رہتے ہیں۔ اُس بھارت کے مذموم عزائم کے راستے میں رکاوٹ ہے اور باقی دنیا بھی کسی اسلامی ملک کا ایٹمی صلاحیت کا حامل ہونا برداشت نہیں کر سکتی۔ لہٰذا راقم کی رائے میںمقبوضہ کشمیر میں کیے جانے والے اِس فالس فلیگ میں پس ِ پردہ درحقیقت وہی نادیدہ قوتیں ہیں جو اِس مبینہ دہشت گردی کو جواز بنا کر پاکستان کے خلاف ایک عالمی محاذ قائم کریں گی۔
تین سال قبل جب یہ خطرناک سازشی کھیل شروع کیا گیا تھا اور صوبہ KP اور پٹھانوں کو کارنر کرنا شروع کیا گیا تھا تو راقم نے عرض کی تھی کہ اللہ نہ کرے لیکن 1971ء کی تاریخ دہرائی جاتی نظر آ رہی ہے۔ 1971ء میں بھارت کی خفیہ ایجنسیوں نے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے بھارت کا ایک جہاز اغوا کرکے پاکستان لایا گیا تھا اغواکاروں نے کشمیری مجاہد ہونے کا جھوٹا دعویٰ کیا تھا اور بھٹو جیسا ذہین سیاست دان بھی اُن کے دام میں آگیا تھا اور مجاہدین کے حق میں بیان دے دیا تھا لیکن بھارت نے جہاز کے اغوا کا بہانہ بنا کر مغربی اور مشرقی پاکستان کے درمیان ہوائی راستہ بند کر دیا تھا تاکہ جب بھارت مکتی باہنی کے کاندھوں پر سوار ہو کر مشرقی پاکستان پر حملہ کرے تو مغربی پاکستان سے مشرقی پاکستان پہنچنے کا براہِ راست فضائی رابطہ نہ ہو سکے۔ پھر ایسا ہی ہوا اور بھارت اپنے مذموم اور مکروہ عزائم کی تکمیل میں کامیاب ہوگیا۔ بہلگام میں ہونے والی دہشت گردی کے بعد بھارت نے پاکستان کے خلاف جو اقدام کیے ہیں، اُن میں انتہائی خطرناک اور اہم ترین سندھ طاس معاہدے کی یکطرفہ معطلی ہے جو اُس پاکستان کے لیے موت کا پیغام ہے جو پہلے ہی پانی کی بوندبوند کو ترس رہا ہے۔ یہ اعلانِ جنگ کے مترادف ہے لیکن راقم کی رائے میں بھارت آزاد کشمیر میں کسی نوعیت کی جارہانہ کارروائی بھی کرےگا۔ 1971ء میں بھی پاکستان کا اصل مسئلہ یہ تھا کہ اُس وقت کی فوجی قیادت نے 1970ء کے انتخابات کے نتائج پر عمل درآمد نہ کرکے وہاں کی بڑی عوامی جماعت کو اقتدار دینے سے انکار کر دیا تھا اور اب بھی 8 فروری 2024ء کو جعلی انتخابات کروا کر عوام کے حقیقی نمائندوں کو اقتدار سے محروم کر دیا گیا۔اللہ تعالیٰ ہمیں مزید کسی رسوائی سے بچائے،ہم سب کو ہدایت دے اور اسلام کے بنیادی اصول یعنی عدل و انصاف کے تقاضے پورے کرنے کی توفیق دے۔ اللہ تعالیٰ پاکستان پر رحم فرمائے۔آمین یا رب العالمین!