دامنِ قرطاس تنگ
عامرہ احسان
امریکہ تو اس وقت ٹرمپ کے ہمہ نوع دھچکوں اور ہچکولوں کی زد میں آیا، ملک بھر میں احتجاجی مظاہروں کی دوسری لہر کی لپیٹ میں ہے۔ غزہ میں امریکی امدادسے اسرائیل کی برپا کردہ ہولناک جنگ نے پوری انسانیت کو ہلا کر رکھ دیا۔ اسی کے نتیجے میں مغربی جمہوریت کے دو بڑے مورچے، اعلیٰ تعلیمی ادارے اور میڈیا کنٹرول کرتے کرتے امریکی حکومت دیوانی ہو گئی۔ ٹک ٹاک اور دیگر سوشل میڈیائی ذرائع ابلاغ نے سب راز فاش کر دیئے۔فلسطین پر مظالم کے خلاف اپنے شدتِ احتجاج سے امریکی طلبہ نے پوری دنیا کی قیادت کی۔ اس کی تفصیل میں جانے سے پہلے ایک نظر ملکِ عزیز کے نوجوانوں پر بھی ڈال لیجیے۔ ان کے مشاغل کیا رہے۔ خونِ مسلم کی بہتی ندیوں نے مغرب کو تو دیوانہ کر دیا۔ اور جس قوم کی تاریخ محمد بن قاسمؒ سے شروع ہوتی ہے، وہاں آج ابنِ قاسم کہاں ہے؟ سرسری نگاہ خبروں پر کافی ہے۔
قصور میں ایک فارم ہائوس پر رقص و سرود، منشیات کی رنگین رات پر پولیس نے چھاپا مار کر 25لڑکیوں اور 30لڑکوں کو فحش کاری کے الزام پر پکڑ لیا۔ مگر پولیس شرمسار ہو کر رہ گئی۔ الزام ان کو دیتے تھے قصور اپنا نکل آیا! مقامی کورٹ نے تمام 55گرفتار شدگان کوفوری رہائی دے کر کیس خارج کر دیا۔ (شراب، منشیات بھی پکڑی گئی تھیں)۔ لاہور ہائی کورٹ دسمبر 2023ء میںگرفتار شدگان کی وڈیوز بنانے اور تشہیر کی ممانعت کا حکم جاری کر چکی تھی۔ چنانچہ ہائی کورٹ نے توہینِ عدالت کے تحت پولیس کو نوٹس جاری کر دیئے ۔ جرم کی نوعیت بدل گئی۔ اب پولیس کا جرم تھا توہین عدالت کا۔ یہ نوجوانانِ پاکستان قوم کا سرمایہ ہیں اور ان کی تشہیر نے ان کے مستقبل کو دائو پر لگا دیا۔ چنانچہ مجموعی طور پر 5پولیس والے معطل ہوئے۔ ڈی پی او کو تنبیہ کی کہ ایسا واقعہ دہرایا نہ جائے۔ یعنی رقص و سرود پر چھاپا، گرفتاری اور پھر اس کی تفصیلات کی ویڈیو نشر ہو جائیں۔(ڈان رپورٹیں: 15،16اپریل)
یاد رہے کہ ڈانس پارٹی اعلانیہ ہو رہی تھی۔
غیرت’ تھی‘ بڑی چیز جہانِ تگ و دَو میں!
اب ہم اُس تگ و دو سے نکل آئے ہیں اور غیرت، قصۂ ماضی سمجھو! بچے اور بچیاں کہہ کر ان’ معصوموں‘ کو باعزت بری کر دیا ۔
جذباتی قوم کی پولیس نے شدید ردعمل دے کر اپنے اورسبھی کے لیے غیر ضروری مشکل کھڑی کر دی۔ آئی ایم ایف کا وفد بھی آیا ہوا تھا۔ وہ ہمارے بارے میں کیاسوچیں گے!عدالتوں پر{اِعْدِلُوْاقف ہُوَ اَقْرَبُ لِلتَّـقْوٰی ز} کی الٰہی ہدایت لکھی ہوئی ہے۔ ناچ گانا … (زنا کے محرکات) کے لیے حکم … ولا تقربوا الزنا… قریب بھی نہ پھٹکو۔ آئینی تقاضے ؟ ہمارے قوانین؟ ہم پر ژالہ باری کی صور ت جو پتھرائو ہوا بلا سبب نہیں!یہ الگ کہانی ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر پٹیشن نے ، وفاقی دارالحکومت میں نوجوانوں میں منشیات کے استعمال میں بے پناہ اضافے کے خوفناک اعدادوشمار دیتے ہوئے پولیس کو متوجہ کرنے کے لیے ، عدالتی مداخلت چاہی ہے۔ ممتاز سکولوں اور یونیورسٹیوں میں ہیروئن، حشیش، آئس کا استعمال روزافزوں ہے۔ کالجوں، یونیورسٹیوں کے ہر 10طلبہ میں سے ایک منشیات پر ہے! سو دیکھ لیجیے غزہ کی فرصت کسے ملے گی۔ ابن قاسمؒ کیونکر بنے گا۔ بلکہ اس سے بڑھ کر اذیت دہ (دی نیوز: 11اپریل) یہ خبر بھی ہے کہ اسلام آباد میں اجتماعی زیادتی کے کیس ملک بھر سے زیادہ ہیں!
اس اخلاقی بحران کا ایک ازخود نوٹس رب تعالیٰ کا بھی ہوا کرتا ہے۔ اللہ ہمیں معاف فرمائے۔ (آمین) ’’کیا تم اس سے بے خوف ہو کہ وہ جو آسمان میں ہے تم پر پتھرائو کرنے والی ہوا بھیج دے۔‘‘ (الملک:17)
سورۃ القمر میں مسلسل قوموں پر اللہ کی تنبیہات اور رسولوں کی تکذیب کا تذکرہ کرکے اللہ پوچھتا ہے کہ قرآن کو ہم نے نصیحت کے لیے آسان بنا یا ہے۔ بات قرآن سے سمجھو گے یا منتظر عذاب ہو؟ غزہ پر خاموشی کے، بے عملی کے تو سبھی مسلم ممالک مجرم ہیں۔ ایٹمی پاکستان بدرجۂ اولیٰ غزہ پر متحرک کردار کا ذمہ دار تھا۔ اس پر مستزاد دیمک کی طرح چاٹ جانے والی کرپشن، لوٹ مار، رشوت، بد دیانتی اور بے لگام فحاشی۔ یہ 16اپریل کو ہونے والی اسلام آباد کے کچھ حصوں میں خوفناک ژالہ باری نہ تھی سنگ باری اور سنگساری تھی۔ اس درجے غیر معمولی ژالہ جو پتھریلا تھا۔ اس زاویے سے گھروں، گاڑیوں پر آ کر پڑا کہ مضبوط شیشے کرچی کرچی ہو گرے، کھڑکیوں، ونڈ سکرینوں کو پاش پاش ہوئے دیکھا۔ سولر پینل تباہ و برباد ہو گئے۔ گویا یہ پتھرائو والی ہوا سے نازل ہوئے۔ درختوں کا ایک ایک پتہ نوچ ڈالا۔ ایک علاقہ جہاں جا بجا پوش بدکاری کے ٹھکانے تھے، خصوصی ہدف رہا۔ حکومتی نگاہوں سے یہ اوجھل نہ تھا۔ بدترین منکرات کے ارتکاب کو محلہ دار خاموشی سے نظر بچا کر گزر جانے کا رویہ اختیار کرتے/کرنے پر مجبور ہیں۔ (ورنہ اپنی عزت دائو پر لگنے کا اندیشہ ہوتا ہے!) قصور کا واقعہ سامنے ہے۔ قصور تو پولیس سے ہوا، معطل ہوئے۔ مرتکبین معصوم ٹھہرے! تاہم پاکستان، امریکہ دوستی کے نتیجے میں 2001ء جنگ میں شرکت کے بعد اس حال کو پہنچا ہے۔ مستقل زلزلوں سے بھی ہلائے جا رہے ہیں۔
{ فَہَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍn} (القمر )۔’’ اب ہے کوئی نصیحت قبول کرنے والا؟ ‘‘ہم اللہ سے پناہ کے طالب ہیں کہ ہمیں اپنے غضب میں نہ پکڑے، عذاب میںہلاک نہ کرے اور عافیت سے نوازے بذریعہ ایمان و قرآن! (آمین) غزہ پر خاموشی ، عدم دلچسپی، انفرادی، اجتماعی سطح پر ناقابل معافی، ناقابل تلافی گناہ ہے۔
امریکہ، ٹرمپ کے خلاف مظاہروں کی دوسری لہر کی لپیٹ میں ہے۔ فلسطین پر اسرائیل کی پشت پناہی کی شدت اس کی اہم جہت تو ہے ہی۔ اب اور عوامل بھی اس میں شامل ہو چکے ہیں۔ یہ کہ ٹرمپ امریکی آئینی روایات کے لیے خطرہ بنا ہوا، ہر سطح پر دھونس دھمکی جبر کی حکمرانی سے فاشسٹ رویہ اختیار کر رہا ہے، اس پر امریکی بر افروختہ ہیں۔ ٹرمپ کی تصویر جس پر ہٹلر کا عکس ہے، امریکی جمہوریت کا منہ چڑا رہی ہے ۔73سالہ خاتون نے کہا: ’ہم شدید خطرے میں ہیں۔ جس طرح ہٹلر طاقت پکڑ کر حکومت میں آگیا تھا یہاں بھی وہی سب ہو رہا ہے۔ فرق یہ ہے کہ ٹرمپ، ہٹلر اور دیگر فاشسٹوں کی نسبت بہت زیادہ احمق ہے۔ اس کی اپنی ٹیم باہم منقسم ہے۔ وہ تجارتی، تارکین ِوطن کے خلاف اور دنیا میں تہذیبی ثقافتی جنگیں چھیڑ رہا ہے۔ ہمارا پورا گلوب خطرے میں ہے!‘
نئی تحریک، 50501گروپ نے اٹھائی ہے۔ یعنی 50ریاستوں میں 50مظاہرے ، ایک تحریک ہے۔ ٹرمپ کے خلافِ جمہوریت، خلافِ قانون کارکردگی اور دولت مند اتحادیوں کے اقدامات کے خلاف یہ تحریک ہے۔ چار سو مظاہرے ہوں گے۔ ٹرمپ کی سب سے بڑی حماقت ذہین و فطین طبقے کو دشمن قرار دے کر امریکی بالادستی کے اہم ترین ستون اپنے ہاتھوں منہدم کرنا۔دنیا بھر میں علمی فضیلت، تفوق و برتری کے مراکز، آئی وی لیگ، یونیورسٹیاں، جو سائنسی ، علمی، انتظامی امورمیں صلاحیتیں پروان چڑھانے کے اعلیٰ ترین تحقیقی مراکز پر یہ چڑھ دوڑا! خصوصاً ہارورڈ ، پرنسٹین اور کولمبیا! دنیا بھر سے بہترین دماغ امریکہ آتے رہے! سوشل سائنسز میں دنیا بھر کو جاننے پرکھنے کا بھی یہ کم خرچ بالا نشین ذریعہ تھا۔ ہارورڈ تو ٹرمپ کی دھمکیوں پر (غزہ کے حوالے سے صہیونی دبائو) ڈٹ گیا۔ کولمبیا نے وفاقی فنڈنگ کی خاطر ہتھیار ڈال کر ٹرمپ کی شرمناک غیر علمی، غیر اخلاقی ، متعصبانہ شرائط تعلیمی ماحول کو حکومت کے لیے سازگار رکھنے کو قبول کر لیں۔ کولمبیا کے عالی دماغ فلسطینی طلبہ ، غیر آئینی، ماورائے قانون و عدالت (تیسری دنیا کے آمروں کی طرح) لا پتہ کیے، اٹھائے گئے۔ ملک بدر کرنا چاہا۔
اس پر کولمبیا کے 82سالہ نوبل انعام یافتہ ماہر معاشیات، ذی مرتبہ کولمبیا کے پروفیسر جوزف سٹگلٹز چلا اٹھے ۔ تعلیمی آزادی ہر شے سے بڑھ کر ہے جسے دائو پر لگانا ممکن نہیں۔ (کولمبیا کے حکومت کے آگے ہتھیار ڈالنے پر شدید ناراض) ۔ جمہوریت کا خاصہ آزاد میڈیا اور مضبوط یونیورسٹیاں ہیں۔ ان کا کام ہی یہ ہے کہ جب عوام کے مفادات کے خلاف چلا جائے تو وہ تنقید کریں۔ اسی لیے غیر جمہوری قوتیں ہمیشہ میڈیا اور یونیورسٹیوں سے حملے کا آغاز کرتی ہیں۔ ملک بھر میں یونیورسٹیوں کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ بین الاقوامی برادری میں امریکی ساکھ، معیشت، علمی ترقی، علمی آزادی سبھی کچھ دائو پر لگانے پر پروفیسر نے طویل انٹرویو دیا غم و غصے سے بھرا۔
ادھر لگے ہاتھوں فرانس نے امریکی پروفیسروں پر فرانس اور یورپ کی یونیورسٹیوں کے دروازے کھول دیئے۔ امریکی محققین کو پلکوں پر بٹھانے کا یہ انتظام اپنی تفصیلات میں امریکہ کے لیے بھاری محرومی لائے گا! اس پر ڈھیروں درخواستیں بھی آنے لگ گئیں۔ اب امریکی یونیورسٹیاں علم سے تہی دامن ہو کر پاکستانی یونیورسٹیوں کا سماں پیش کرنے لگیں گی! یہ طویل داستان ہے اور دامانِ قرطاس تنگ!